بے آبُرو چاہت کو سرِ شام تو ہونا تھا غزل نمبر 130 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
الف عین سر
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
ارشد چوہدری صاحب نے ایک غزل پوسٹ کی تھی زمین اچھی لگی تو یہ غزل لکھنے کی جسارت کی ہے۔۔

بے آبُرو چاہت کو سرِ شام تو ہونا تھا
عُشاق کو بھی آخر بدنام تو ہونا تھا

آزارِ محبت میں یہ کام تو ہونا تھا
بدنام ہو کے عاشق کا نام تو ہونا تھا

یہ عِشق کی آتش تو طرفین میں جلتی ہے
یک طرفہ محبت میں ناکام تو ہونا تھا

تاثیرِ محبت کی بھی بات نرالی ہے
محبوب نے جب دیکھا آرام تو ہونا تھا

تقدیر کا لِکھا تھا کیسے وہ بھلا ٹلتا
بازار میں یُوسف کو نیلام تو ہونا تھا

ملتا ہے غمِ فرقت یا عشق میں ہے راحت
آغازِ محبت کا انجام تو ہونا تھا

کیوں شرک کیا کافر کیوں رب کو نہیں مانا؟
دوزخ ترا گھر باعثِ اصنام تو ہونا تھا


شارؔق یہ محبت بھی خُوشبو ہے نہیں چُھپتی
پیغامِ محبت تھا یہ عام تو ہونا تھا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع دوم
آزارِ محبت میں یہ کام تو ہونا تھا
بدنام ہو کے عاشق کا نام تو ہونا تھا
ہُکے تقطیع ہوتا ہے "ہو کے"، و کا اسقاط گوارا نہیں کیا جا سکتا

تاثیر محبت کی بھی بات نرالی ہے
محبوب نے جب دیکھا آرام تو ہونا تھا
پہلا مصرع مبہم بلکہ بے معنی لگتا ہے
ملتا ہے غمِ فرقت یا عشق میں ہےراحت
دونوں ٹکڑوں میں ربط نہیں

دوزخ ترا گھر باعثِ اصنام تو ہونا تھا
یہ بحر دو ٹکڑوں میں منقسم ہے، اس لئے ہر ٹکڑے میں بات مکمل ہونا چاہیے، ویسے کسر اضافت کے بغیر تقطیع درست ہوتی ہے، جو صحیح نہیں
باقی درست ہیں اشعار
 
Top