طارق شاہ
محفلین
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک مِلادے نہ مجھ کو بے آبی
اُبھر نکلنے کی کوشش تو کی کبھی نہ، مگر
رہی نہ راس اُن آنکھوں کی ہم کو غرقابی
گڑھے بنا گیا رُخساروں پر ڈھلک سے عجب
مواد آنکھوں سے بہتا ہُوا وہ تیزابی
ہیں پیش زِیست کو وِیرانیاں، تو سوچیں خلؔش
گئی نصِیب سے کیونکر جہاں کی سیرابی
شفیق خلؔش