نوید ناظم
محفلین
انسان زندگی سے بے بسی نکالنا چاہتا ہے مگرکیا بے بسی ہے کہ یہ اسے اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتا۔ یہ بڑا سوچ سمجھ کر دوست بناتا ہے مگر دوست ہی دھوکا دے جاتا ہے اور اپنی عقل کے ترانے گانے والا انسان بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی آدمی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے دشمن ہوں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں اس کا کوئی نہ کوئی دشمن پیدا ہو جاتا ہے، فرد تو درکنار ملک کے ملک اک دوسرے کے دشمن ہو جاتے ہیں، انسان کی فطرت میں محبت ہے مگر اس کے باوجود انسان دشمنی پالنا شروع کر دیتا ہے، عجب بے بسی ہے۔ زندہ رہنا ہے تو موت کس لیے ہے اور اگر مرنا ہے تو پھر سے زندگی کیوں۔۔۔۔۔۔؟ انسان زندہ رہ کر بھی زندہ نہیں رہتا اور انسان مر کر بھی نہیں مرتا۔۔۔۔ بے بسی ہی بے بسی ہے۔ ہم اپنی ذات میں مقید ہیں، اپنے قد کی قید میں ہیں۔ بے بسی یہ ہے کہ ہم جتنا بھی بھاگ لیں اپنے آپ سے نہیں بھاگ سکتے۔ بے بسی آنکھ میں آنسو بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے، اسے غم کہہ لیا جائے یا خوشی کیا فرق پڑتا ہے۔ بے بسی اصل میں نظام حیات کا توازن بھی ہے۔۔۔۔بے بسی کو ختم کر دیا جائے تو دنیا ختم ہو جائے گی۔۔۔۔ کوئی مزدور کسی کے ہاں مزدوری نہیں کرے گا۔۔۔۔ کوئی سبزی بیچنے والا ہمارے در پر آ کر یہ نہیں کہے گا کہ یہ لو اپنی بھوک کا سامان کر لو۔ در حقیقت زندگی برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ختم ہو گئی۔۔۔۔ بے بسی پُر رونق نہیں ہوتی مگر ساری رونقیں بے بسی ہی سے قائم ہیں۔۔۔ کہیں قاتل ہے تو کہیں مقتول، کہیں ظالم ہے تو کہیں مظلوم۔۔۔۔ انسان بندھا ہوا ہے' اس لیے انسان چل رہا ہے ورنہ یہ چند لمحوں میں اپنا بھی وجود مٹا ڈالے۔ محب، محبوب کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے، سانس چلتی ہے مگر سانس نہیں چلتی، نبض تھمتی ہے مگر نبض نہیں تھمتی۔۔۔۔اور یوں زندگی گزرتی رہتی ہے۔۔۔۔ محبت اور بے بسی کے ساتھ ۔ سب سے برا آدمی وہ ہے جو اپنی بے بسی کو اپنی بد نصیبی بنا لے، جو اپنے حصے کا کام بھی نہ کرے۔ جو زندگی کو ویلکم کرے نہ موت کو گلے کا ہار سمجھے۔ جو خالق کی رضا کو سمجھنے کی کوشش کرے نہ خود اپنے ہونے کا مقصد ہی دریافت کر سکے اور محض بے بسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جائے۔