بے بس معاشقہ

عبد الرحمن

لائبریرین
ایک کم سن عاشق اور اس کی عمر چور معشوقہ کی دلفریب و دلگداز پریم کہانی۔ اسے محبوبہ کی آنکھیں ہمیشہ کچھ کہتی دکھائی دیتی تھیں۔

جب پہلی بار میں نے اسے دیکھا تو زمین و آسمان کی گردش رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ میرا حصار پارسائی روئی کے دھاگے کی طرح کچا ثابت ہوا جسے اس شعلہ ور ماہ جبین نے پہلے دیدار میں ہی پل بھر میں تار تار کردیا۔ اس لیلی کو نادانستہ دیکھ کر بھی چند لمحوں کے لیے ایسا لگا جیسے میں پتھر کا ہوگیا ہوں۔ پھر میں کوشش کے باوجود اسے دیکھنے سے باز نہ رہ سکا۔

کسی کنیا کو چولستانی ہرنی سے تشبیہ دیتے ہوئے تو بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو سنا تھا مگر اپنی آنکھوں سے ایسی شبیہ پر ہو بہو اترتی ہوئی کسی دو شیزہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوگا اس کا یقین نہ تھا۔ اتنی مکمل کہ میں تھوڑی دیر کے لیے مبہوت ہوکر گرد و پیش سے بالکل بے گانہ ہو چکا۔

شوخ رنگ مجھے بچپن ہی سے بھاتے نہ تھے۔ اور جہاں مختلف رنگوں کا مجموعہ آجاتا تو بھلے سے وہ مہکتا ہوا چمنستان ہی کیوں نہ ہو میرا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہتا۔ لیکن اس رنگا رنگ اپسرا کو دیکھ کر میں پلکیں جھپکانا ہی بھول گیا۔ اس نے جس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے مجھے لگا موسم بھی آج اسی رنگ کے مطابق ہے۔

وہ لڑکی حسن و نزاکت کا ایک مکمل امتزاج تھی۔ مشرقی اور مغربی لباس کی حسین ہم آہنگی۔ گولڈن سینڈل کے اوپر میرون طویل کرتا اور اس کے نیچے نیوی بلو فلیپر۔ بالوں میں لمبا براؤن اسکارف، جس نے سینے کو بھی کور کر رکھا تھا۔ آبشار کی جلترنگ کی مانند نکھرا نکھرا سا چہرہ اور بڑی بڑی کالی آنکھوں میں نیند کا خمار۔۔۔۔۔ اس جل پری سے تقریبا پانچ قدم پیچھے ایک لمبے قد کا قدرے بڑی مونچھوں والا دیہاتی چل رہا تھا۔ جو غالبا اس کا "باڈی گارڈ" معلوم ہو رہا تھا ۔ مگر مجھے اس پل ایسا لگا کہ اس گل رخ کی حفاظت کے لیے اگر سارے شہر کو بھی معمور کردیا جاتا تو یہ کم تھا۔

یہ کالج سے واپسی کی بات ہے جب میں مسلسل ایک گھنٹہ بارش کے بعد کیچڑ جمع ہونے کے سبب مین روڈ سے گھر جانے کے بجائے گلیوں گلیوں سے ہوتا ہوا آرہا تھا کہ سامنے سے مجھے وہ چاند کا ٹکڑا آتا دکھائی دیا۔ اس نازنین نے تو ادائے بے نیازی سے سر جھکائے بیچ کا فاصلہ عبور کرلیا مگر میں اس کی طرف ٹکٹکی باندھے تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ میرے مخالف سمت سے گزر نہیں گئی۔ لیکن گھر آنے کے بعد مجھے لگا میں نظروں کے اس تبادلے کو روز مرہ کا معمول سمجھنے کے بجائے دل سے لگا بیٹھا ہوں اور کسی خوش گوار مرض میں مبتلا ہوگیا ہوں۔

اگلے دن میں نے جان بوجھ کر وہی راستہ اختیار کیا جہاں کل میں ایکسڈنٹ میں بری طرح گھائل ہوا تھا۔ یوں تو میں کافی حد تک وقت کا پابند واقع ہوا ہوں۔ مگر کبھی اپنی اس عادت پر مجھے فخر نہیں ہوا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ کلاس میں سب سے پہلے نازل ہوجانے کے باعث سارا پیریڈ پروفیسر صاحبان کی توجہ کا مرکز میں ہی بنا رہتا۔ جب کہ اپنی کوشش ہوتی تھی کہ بکریوں کے ریوڑ سے الگ تھلگ رہ کر خود کو" یونیک" ظاہر کرکے چرواہے کا چہیتا بننے کے بجائے پانی کا بہاؤ جس جانب ہو اپنا جھکاؤ بھی اسی طرف ڈال دینا چاہیے۔ اس طرح نظروں میں نہ آنے سے انسان اپنے آپ کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے۔ لیکن آج بھی وہی ہوا۔ اس ماہ وش نے کھڑے ہوکر حال احوال دریافت کرنا تو دور کی بات ایک اچٹتی نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کیا۔

میرے اندر سے زور سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ مزید تین دن میں نے اسی طرح اس پر خار وادی کو سر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن تیسرے دن بھی ناکامی نے میرا منہ چڑایا تو اب کی بار گھر جاتے جاتے میں اپنے ذہن میں پورا لائحہ عمل طے کر چکا تھا۔ اس مرتبہ شطرنج کے مہرے دوسرے انداز سے آگے بڑھانے تھے مگر مصیبت یہ تھی کہ اب اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مجھے دو دن کانٹوں پر لوٹنا تھا۔ ویک اینڈ شروع ہوچکا تھا۔ اب جو بھی کرنا تھا پیر سے پہلے ناممکن تھا۔ چناں چہ یہ دو دن میں نے انگاروں پر گزارے۔

بالآخر وہ "مبارک گھڑی" آ ہی گئی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ ایک طویل جد و جہد کے بعد ہماری نگاہوں کا ٹکراؤ ہو ہی گیا۔ سات دن کی کٹھن ریاضت کے بعد اس قتالہ نے مجھے اتنی محویت سے دیکھتے پاکر نظر کرم فرما ہی دی۔ جس وقت ہماری آنکھیں چار ہوئیں مجھے لگا میں رنگین بادلوں کے اوپر اڑ رہا ہوں۔ اس نے ایک ابرو اٹھا کر مجھے دیکھا تھا۔ اس کے اس قاتل انداز پر میں نے سوگوار مسکراہٹ کے ساتھ خود سے استاد جگر کی زبان میں کہا؎
وہ نوائے عاشقی ہو یا ادائے دلربانہ
جو دلوں کو فتح کردے وہی فاتح زمانہ

کچھ دنوں بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ اس کا خاص انداز تھا۔ جب وہ کسی کو غور سے دیکھتی تھی تو اس کی ایک آنکھ کا ابرو تھوڑا سا اوپر اٹھا جاتا تھا جو اس کی دل ربائی اور رعنائی میں اضافہ کردیتا تھا۔

اس وقت میں بچپن اور لڑکپن کے سنگم پر تھا مگر میری فکری پرواز بہت بلند تھی۔ گو یہ انداز میری عمر کے مطابق تو نہیں تھے، مگر تھے بڑے خوب صورت۔ میرے لیے عشق لڑانے کا یہ پہلا تجربہ تھا اور اس پہلے تجربے میں ہی مجھے بے تحاشہ مسرت کا احساس ہورہا تھا۔ میں خود کو بڑا بڑا سا ذمہ دار شخص محسوس کرتا۔ یہ اور بات تھی کہ میرے پرکھوں کو اگر میری ان کرتوتوں کا علم ہوجاتا تو میری ٹھیک ٹھاک ٹھکائی ہوجاتی۔ لیکن یہ دل بھی بڑا ظالم ہے۔ جب نہ ماننے پر آئے تو ہزاروں ثبوت اور لاکھوں دلائل بھی بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مگر بہرحال اس بات کا مجھے پورا یقین تھا کہ نوبت یہاں تک کبھی نہ پہنچے گی کہ لڑکیوں کی طرح میری پڑھائی پر بھی قدغن لگ جاتی۔

ان سات دنوں میں میرے اندر خاطر خواہ تبدیلی رونما ہوئی تھی۔ میرے لباس، چال ڈھال، نشست و برخاست، گفتار و کردار غرض روئے روئے میں واضح مگر دل کش اور خوش آیند تغیرات ملاحظہ کیے جاسکتے تھے۔ اس مینا کماری کو بھی رجھانے کے لیے میں نے انہی تدابیر سے کام لیا تھا۔ پیور وائٹ کاٹن کے کرتے پاجامے پر سیاہ کوٹ اور اس کے نیچے کوٹ کے ہی رنگ کے بوٹ مجھے جنس مخالف کے لیے کافی حد تک پر کشش ظاہر کر رہے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ عشق زمانے سے کاٹ دیتا ہے۔ خود سے بھی بے خبر کردیتا ہے۔ لیکن میرا حال کافی مختلف تھا۔ میں جو تین تین دن تک کپڑے بدلنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا اب ہر روز ایک لباس فاخرہ زیب تن کرنے لگا۔ دھیمی دھیمی مگر دور سے ہی محسوس کیے جانے والی خوشبوؤں کی تاک میں رہنے لگا۔ پڑھائی میں لاجواب تھا مگر شروع سے ہی کم گو واقع ہوا تھا۔ اس وجہ سے مجھے بھاری بھرکم دماغ کے طلبہ کافی ہلکا لیا کرتے تھے۔ مگر کچھ دنوں سے میں اپنی اس مباحثوں سے بے زاری والی ازلی عادت کو ترک کرکے ہر موضوع پر کھل کر لب کشائی کرنے لگا تھا۔ جس سے میری پوزیشن پھر سے بحال اور مستحکم ہوگئی۔ گوکہ میں خود پر غیر معمولی بوجھ محسوس کرنے لگا تھا مگر؎
یہ عشق نہیں آساں، اتنا تو سمجھ لیجے!!!
ایک آگ کا دریا ہے، اور ڈوب کے جانا ہے

میں اب بہت زیادہ خوش رہنے لگا تھا۔ اپنے اندر ایک انوکھی توانائی اور پختگی کی نشو نما محسوس کرنے لگا۔ میں نے من ہی من بہت سارے خیالی پلاؤ پکا لیے تھے۔ پڑھائی مکمل کرکے بزنس کی ابتدا، پھر اپنا علیحدہ مکان، اس کے بعد اپنی منظور نظر سے چٹ منگنی پٹ بیاہ۔ اسے ذمہ داری کا احساس نہیں کہا جائے تو اور کیا نام دیا جائے؟

ہمیں اس طرح خاموش ملاقاتیں کرتے ہوئے اب دو ہفتے گزر گئے تھے۔ خاموش ملاقات اس لیے کہ "باڈی گارڈ" کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہم کبھی ایک دوسرے سے بات نہ کر پائے۔ بس دور سے ہی ایک دوسرے کو آتا دیکھ کر نظریں جما دیتے اور تب تک دیکھتے رہتے جب تک ہم ایک دوسرے کے پاس سے گزر نہیں جاتے۔ اس کی آنکھوں میں مجھے ہمیشہ اپنے لیے ایک پیغام نظر آیا۔ پتا نہیں کیوں اس کے نینوں میں مجھے خوف اور الجھن کے ملے جلے تاثرات نمایاں نظر آتے۔ لیکن میں اس کیفیت کو روایتی جھجھک سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا۔ وہ مجھے بے انتہا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی تھی لیکن ساتھ ساتھ آنکھوں آنکھوں میں کچھ بتانا بھی چاہتی تھی۔ جسے میں اظہار محبت کی باقاعدہ دعوت پر محمول کرتا رہا۔

بالآخر اس کی اس مشکل کا حل بھی میں نے ڈھونڈ نکالا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ کل میں خود اس کی طرف پیش قدمی کروں گا۔ باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اگلے دن یعنی پندرھویں روز میں بڑے اہتمام سے تیار ہوکر حسب معمول اس گلی میں آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ اس مرتبہ میں نے کندھے پر بیگ رکھنے بجائے ہاتھوں میں ہی کتابیں اٹھا رکھی تھی۔ وہ بھی خراماں خراماں چلتی ہوئی سامنے سے آتی دکھائی دی۔ میرا دل زور سے دھڑکا کہ آج کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہم دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر منجمد ہوگئیں۔ اس مرتبہ اس کے ساتھ چار پانچ سال کے دو ہم شکل بچے بھی تھے۔ میں نے اس بات کا بالکل نوٹس نہیں لیا۔ مجھے لگا وہ اس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اور پیچھے پانچ قدم دور وہی مچھڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دل کی دھڑکنوں کی بے ترتیبی کے ساتھ اس کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم بڑھانا شروع کیے، مجھے میرا پورا وجود پسینے میں شرابور محسوس ہوا۔ میری یہ حالت اس سے بھی مخفی نہ رہ سکی۔ اس کے چہرے پر ایک ٹھہری ہوئی مگر افسردہ سی مسکراہٹ تھی۔ جس کا مفہوم اپنے اندر بہت کچھ لیے ہوئے تھا۔ اب اس کے اور میرے بیچ چند اسٹیپس رہ گئے تھے۔ میں خود کو بات کرنے کے لیے از سر نو تیار کر رہا تھا۔ ایک بات پھر سے خود پر نظر ثانی کر رہا تھا۔ ابھی ان جان لیوا لمحات سے گزر ہی رہا تھا کہ مجھے لگا میرے کانوں میں جیسے کسی نے گرم سیسہ ڈال دیا ہو۔ "ممی! پاپا پیرس سے میرا ایئر کرافٹ لارہے ہیں۔ وہ ریموٹ کنٹرول سے ہوا میں بھی اڑے گا۔ بچہ اپنے جہاز کے آنے کی خوشی میں جتنا ہواؤں کی سیر کر رہا تھا اتنا ہی میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آخری بار ہم نے ایک دوسرے کو نظر بھر کر دیکھا۔ اب اس کی آنکھوں کا وہ مبہم پیغام جو ہمیشہ مجھے تشویش میں مبتلا کردیتا تھا اچھی طرح سمجھ آچکا تھا۔ جاتے جاتے اس نے ایک معذرت بھری نگاہ مجھ پر ڈالی۔ ایک خاموش نگاہ۔۔۔۔۔۔۔ اور آگے بڑھ گئی۔ جاتے جاتے ہم نے پہلی اور آخری مرتبہ ایک دوسرے کو مڑ کر دیکھا، میں آنسو پیتا ہوا سسکیاں اور آہیں بھرتا ہوا صرف اپنے آپ سے بزبان غالب اتنا ہی کہہ سکا کہ؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا​
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔ کافی تبدیلی آگئی ہے آپ میں بھی۔ مباحث میں بھی حصہ لینے لگے ہیں آپ۔۔۔ :p

خیر یہ تو سچ بول دیا مذاق میں۔ اب سنجیدگی سے افسانے پر بات۔۔۔۔

بہت عمدہ لکھا آپ نے۔ واقعی اناڑی عاشق والا حال ہے۔۔۔۔ وگرنہ کوئی مرزا ہوتا تو دور سے ابرو کی حرکت دیکھ کر ہی وہ سب کچھ بتا دیتا جو شاید مدتوں کے رازداں بھی نہ بتا پاتے۔

بہت اچھا لکھا ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ خوبصورت افسانہ۔۔۔

ویسے میں عنوان دیکھ کر بھاگا بھاگا آیا تھا۔ پتا نہیں کون سی مرزا روح گھس گئی تھی مجھ میں۔۔۔ :D
 
اگر یہ آپ کی تحریر ہے تو "آپ کی تحریریں" زمرے میں ہونا چاہیے تھا اور کسی اور کی ہے تو ان کا حوالہ بہتر ہوتا۔ :) :) :)

تحریر میں روانی ہے۔ گو کہ انجام کچھ غیر متوقع نہیں پر ہلکی پھلکی خوشگوار تحریر ہے اور جملوں کی ترتیب خوب ہے۔ :) :) :)
 
اس دلگداز تحریر پر آپ کے لئے 10 مرتبہ زبردست کی ریٹنگ :)
لیکن اگر یہ آپ کی اپنی تحریر نہیں تو صرف 2 مرتبہ کی
میں اتنی لمبی تحریر دیکھ کر گھبرا گیا مگر چونکہ عبد الرحمن صاحب نے ٹیگ کیا تھا تو میرے لئے حکم کے درجے میں تھا کہ اسے ضرور مکمل پڑھوں۔ لیکن پڑھتے پڑھتے الفاظ کے چناؤ اور کہانی کی دلچسپی نے مجھے احساس دلایا کہ ایسی کہانی کو نا پڑھنا یقیناً محرومی ہوتی۔
دل جیت لیا اس کہانی نے :zabardast1::good::great::best:
 

عبد الرحمن

لائبریرین
بہت خوب۔۔۔ کافی تبدیلی آگئی ہے آپ میں بھی۔ مباحث میں بھی حصہ لینے لگے ہیں آپ۔۔۔ :p

خیر یہ تو سچ بول دیا مذاق میں۔ اب سنجیدگی سے افسانے پر بات۔۔۔۔

بہت عمدہ لکھا آپ نے۔ واقعی اناڑی عاشق والا حال ہے۔۔۔۔ وگرنہ کوئی مرزا ہوتا تو دور سے ابرو کی حرکت دیکھ کر ہی وہ سب کچھ بتا دیتا جو شاید مدتوں کے رازداں بھی نہ بتا پاتے۔

بہت اچھا لکھا ماشاءاللہ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ خوبصورت افسانہ۔۔۔

ویسے میں عنوان دیکھ کر بھاگا بھاگا آیا تھا۔ پتا نہیں کون سی مرزا روح گھس گئی تھی مجھ میں۔۔۔ :D
جی تبدیلی تو کافی آگئی تھی مگر صدمے سے دو چار ہونے کے بعد معصوم عاشق پھر سے اپنی پرانی روش پر لوٹ آیا ہے۔:p

جن محترم دوست کا آپ تذکرہ فرمارہے ہیں ان کے ماضی سے میں ناواقف ہوں۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ باحوالہ گفتگو کریں۔ :p

بھاگنے کی کیا ضرورت ہے چہل قدمی کرتے ہوئے آجا یا کریں۔اس طرح کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ :D:p
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اگر یہ آپ کی تحریر ہے تو "آپ کی تحریریں" زمرے میں ہونا چاہیے تھا اور کسی اور کی ہے تو ان کا حوالہ بہتر ہوتا۔ :) :) :)

تحریر میں روانی ہے۔ گو کہ انجام کچھ غیر متوقع نہیں پر ہلکی پھلکی خوشگوار تحریر ہے اور جملوں کی ترتیب خوب ہے۔ :) :) :)
اب میں اپنا حوالہ کہاں سے لاؤں؟ :):):)

جہاں مناسب سمجھیں منتقل کردیجے سعود بھائی! :):):)

آپ کا تعریفی تبصرہ میں افسانہ نگار تک پہنچادوں گا۔:p
 

عبد الرحمن

لائبریرین
اس دلگداز تحریر پر آپ کے لئے 10 مرتبہ زبردست کی ریٹنگ :)
لیکن اگر یہ آپ کی اپنی تحریر نہیں تو صرف 2 مرتبہ کی
میں اتنی لمبی تحریر دیکھ کر گھبرا گیا مگر چونکہ عبد الرحمن صاحب نے ٹیگ کیا تھا تو میرے لئے حکم کے درجے میں تھا کہ اسے ضرور مکمل پڑھوں۔ لیکن پڑھتے پڑھتے الفاظ کے چناؤ اور کہانی کی دلچسپی نے مجھے احساس دلایا کہ ایسی کہانی کو نا پڑھنا یقیناً محرومی ہوتی۔
دل جیت لیا اس کہانی نے :zabardast1::good::great::best:
بہت محبت ہے آپ کی لئیق بھائی! جزاک اللہ ! خوش رہیے!

بہت اچھا لگا آپ کا دوستانہ اور برادرانہ تبصرہ ۔ اس پر بیس مرتبہ دوستانہ کی ریٹنگ! :)

تو ثابت ہوا کہ آپ کا دل جیتنے کے لیے رومانوی کہانیوں سے بڑھ کر تیر بہدف نسخہ اور کوئی نہیں۔:p
 
ثابت ہوا کہ آپ کا دل جیتنے کے لیے رومانوی کہانیوں سے بڑھ کر تیر بہدف نسخہ اور کوئی نہیں۔
شاید ایسا ہی ہو کہ اپنے آپ کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ جو اپنے آپ کو پہچان لیتے ہیں وہ اللہ کے ولی ہوتے ہیں :)
اور میں تو بہت گنہگار انسان ہوں۔ :(
ویسے میرا تجربہ ہے کہ مجھے آپ جیسے نیک دل، محبت کرنے والے اور با اخلاق لوگ اچھے لگتے ہیں
کیسے معلوم آپ کو ؟ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔
بعض اوقات؛
دیکھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ ؛)
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ۔

آپ کی تحریر میں حیرت انگیز طور پر نکھار آیا ہے۔ بہت عمدہ آغاز اور بہت اچھی اُٹھان ہے اس افسانے کی۔

خاص طور پر 'مرکزِ نگاہ' کردار کی کردار سازی میں بڑی محبت اور لگاوٹ سے کام لیا ہے آپ نے۔ اب اس سے ہم مزید کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہتے ورنہ ایک افسانے سے کئی اور افسانے جنم لے سکتے ہیں۔ :)

حرفِ آخر یہ کہ بہت اچھی تحریر ہے اور بہت سی داد اور تحسین کی حقدار ہے۔

دعا ہے اللہ رب العزت آپ کے ذوق شوق کو فزوں تر کرے۔ آمین۔
 
Top