گل بانو
محفلین
بے حسی کا اوزون
۲۳ مارچ۱۹۴۰ کی قراردادکو ہم آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ہم وہی قوم ہیں جو اپنے نظریات و افکار کی سر بلندی کی خاطر اپنے گھر بار ،حتٰی کہ اپنی جان تک کی پرواہ کئے بغیر اپنے تشخص کے لئے ڈٹ گئے تھے وہ تشخص جو کسی دوسری قوم میں مدغم نہیں ہو سکتا ۔نہ صرف اپنے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے قربانی کی ایک لازوال تاریخ رقم کی۔ آج ہر سمت بے حسی کا اوزون طاری ہے جس کی دھند میں لپٹے ہم اپنے اسلاف کی جدوجہد اور قربانیوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنی آئندہ نسل کی نمو کی راہ میں مشکلات کو دُو ر کرنے سے معذور نظر آتے ہیں یہ بے بسی نہیں انتہا درجے کی بے حسی ہے ۔ ہم ایک بے حس قوم کی صورت ابھر رہے ہیں ۔ ہر قوم اپنی تہذیب و طرز معاشرت کو قائم کرنے کے لئے جن تصورات ، اندازِ فکر اور زندگی گزارنے کے اصول اپناتی ہے وہ اُس کا قومی نظریہ ہوتا ہے ۔بر صغیر ، جنوبی ایشیاء میں حالات و واقعات کی بنا پر دو بڑی قومیں نظر آئیں اِن میں طرز معاشرت ، مذہب ، تہذیب ، رواج ، سیاسی نظریات ، سماجی طرز عمل ، ثقافت اور روایات واقدار میں مکمل طور پر اختلاف پایا گیا جس کی بنا پر ایک اسلامی مملکت کا قیام ضروری قرار پایا ۔ اگر ہم ایک ایسی دوربین سے دیکھیں جو گزرے وقت کو دکھا رہی ہے تو خود موازنہ کریں کیا ہم آج ۷۳ سال بعد معیشت و سیاست میں اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا کیا ہم خود کو ترقی یافتہ قوم کہ سکتے ہیں ۔۔۔۔؟؟؟
ہمارا تعلیمی ڈھانچہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے ۔ تعلیم کی بدولت ہی کسی معاشرے میں قومی نظرئے کا شعور پیدا ہوتا ہے ، معاشرتی ترقی اور جمہوریت کی کامیابی کے لئے تعلیم اولین شرط ہے ۔پاکستان میں حاصل کی گئی ڈگری ترقی یافتہ ممالک میں ناقابل قبول ہے یہ ہے وہ آئینہ جس میں ہم اپنی بدصورتی کو دیکھ سکتے ہیں ۔
بہ حیثیتِ مجموعی ہم نے ایک بے حسی کو پروان چڑھایا ہے اس میں کچھ دخل ہمارے ٹی وی چینلز کا بھی ہے ویلنٹائین اور ایسی ہی دوسری خرافات کو تو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ۔ روڈ شوز کئے جاتے ہیں کہ ہر طرف جشن کا سا سماں ہوتا ہے کارڈز ،پھولوں اور تحائف کا دور دورہ ہوتا ہے شاپنگ مالز میں اس طرح کے سوالات کئے جاتے ہیں آپ ویلنٹائن پر کیا کرتے ہیں کیسے مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن ہمارے قومی ہیرو کا انتقال ہوجائے تو ایک ۲ منٹ کی خبرنشر کر دی جاتی ہے ۔ابھی چند دن پہلے ہم ایک بہت بڑے سانحے سے گزرے ہیں محمدمحمود عالم کی وفات کی خبر دینے کے لئے دو منٹ کی چھوٹی سی خبر کو کافی سمجھا گیا کیا ، کیایہی زندہ قوموں کا وطیرہ ہے ؟؟؟
ہمارے سیاسی نظام کا تو عالم ہی نِرالا ہے ، بغیر ڈگری والے ڈگری والوں پر حکومت کرتے نظر آتے ہیں کیا یہ کسی مزاق سے کم ہے ؟ سیاسی الیکشن سے عدم دلچسپی ۔۔۔ کیا یہ بے حسی نہیں ، مہنگائی حد سے سوا ہورہی ہے اور ہم خاموش کیا بے حسی نہیں ؟ نقل کے رجحان کو ختم کرنا اور اس کی روک تھام کیا ہماری ذمہ داری نہیں ؟؟؟کوئی حادثے کے باعث سڑک پر مر رہا ہوتا ہے اور ہم پولس کی تفتیش سے بچنے کی خاطر اُسے مرتا چھوڑ جاتے ہیں کیا یہ بے حسی کی شاندار مثال نہیں ۔۔؟کیا ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تھا موازنہ کیجئے ۔۔۔ مواخذہ کیجئے !
کیا ہم یونہی بے حسی کی چادر اوڑھے سکون سے سو تے رہیں گے ۔۔۔؟؟؟
گل بانو ،
۲۳مارچ۲۰۱۳
۲۳ مارچ۱۹۴۰ کی قراردادکو ہم آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ہم وہی قوم ہیں جو اپنے نظریات و افکار کی سر بلندی کی خاطر اپنے گھر بار ،حتٰی کہ اپنی جان تک کی پرواہ کئے بغیر اپنے تشخص کے لئے ڈٹ گئے تھے وہ تشخص جو کسی دوسری قوم میں مدغم نہیں ہو سکتا ۔نہ صرف اپنے لئے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے قربانی کی ایک لازوال تاریخ رقم کی۔ آج ہر سمت بے حسی کا اوزون طاری ہے جس کی دھند میں لپٹے ہم اپنے اسلاف کی جدوجہد اور قربانیوں کو بھلا بیٹھے ہیں اور اپنی آئندہ نسل کی نمو کی راہ میں مشکلات کو دُو ر کرنے سے معذور نظر آتے ہیں یہ بے بسی نہیں انتہا درجے کی بے حسی ہے ۔ ہم ایک بے حس قوم کی صورت ابھر رہے ہیں ۔ ہر قوم اپنی تہذیب و طرز معاشرت کو قائم کرنے کے لئے جن تصورات ، اندازِ فکر اور زندگی گزارنے کے اصول اپناتی ہے وہ اُس کا قومی نظریہ ہوتا ہے ۔بر صغیر ، جنوبی ایشیاء میں حالات و واقعات کی بنا پر دو بڑی قومیں نظر آئیں اِن میں طرز معاشرت ، مذہب ، تہذیب ، رواج ، سیاسی نظریات ، سماجی طرز عمل ، ثقافت اور روایات واقدار میں مکمل طور پر اختلاف پایا گیا جس کی بنا پر ایک اسلامی مملکت کا قیام ضروری قرار پایا ۔ اگر ہم ایک ایسی دوربین سے دیکھیں جو گزرے وقت کو دکھا رہی ہے تو خود موازنہ کریں کیا ہم آج ۷۳ سال بعد معیشت و سیاست میں اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہئے تھا کیا ہم خود کو ترقی یافتہ قوم کہ سکتے ہیں ۔۔۔۔؟؟؟
ہمارا تعلیمی ڈھانچہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے ۔ تعلیم کی بدولت ہی کسی معاشرے میں قومی نظرئے کا شعور پیدا ہوتا ہے ، معاشرتی ترقی اور جمہوریت کی کامیابی کے لئے تعلیم اولین شرط ہے ۔پاکستان میں حاصل کی گئی ڈگری ترقی یافتہ ممالک میں ناقابل قبول ہے یہ ہے وہ آئینہ جس میں ہم اپنی بدصورتی کو دیکھ سکتے ہیں ۔
بہ حیثیتِ مجموعی ہم نے ایک بے حسی کو پروان چڑھایا ہے اس میں کچھ دخل ہمارے ٹی وی چینلز کا بھی ہے ویلنٹائین اور ایسی ہی دوسری خرافات کو تو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ۔ روڈ شوز کئے جاتے ہیں کہ ہر طرف جشن کا سا سماں ہوتا ہے کارڈز ،پھولوں اور تحائف کا دور دورہ ہوتا ہے شاپنگ مالز میں اس طرح کے سوالات کئے جاتے ہیں آپ ویلنٹائن پر کیا کرتے ہیں کیسے مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن ہمارے قومی ہیرو کا انتقال ہوجائے تو ایک ۲ منٹ کی خبرنشر کر دی جاتی ہے ۔ابھی چند دن پہلے ہم ایک بہت بڑے سانحے سے گزرے ہیں محمدمحمود عالم کی وفات کی خبر دینے کے لئے دو منٹ کی چھوٹی سی خبر کو کافی سمجھا گیا کیا ، کیایہی زندہ قوموں کا وطیرہ ہے ؟؟؟
ہمارے سیاسی نظام کا تو عالم ہی نِرالا ہے ، بغیر ڈگری والے ڈگری والوں پر حکومت کرتے نظر آتے ہیں کیا یہ کسی مزاق سے کم ہے ؟ سیاسی الیکشن سے عدم دلچسپی ۔۔۔ کیا یہ بے حسی نہیں ، مہنگائی حد سے سوا ہورہی ہے اور ہم خاموش کیا بے حسی نہیں ؟ نقل کے رجحان کو ختم کرنا اور اس کی روک تھام کیا ہماری ذمہ داری نہیں ؟؟؟کوئی حادثے کے باعث سڑک پر مر رہا ہوتا ہے اور ہم پولس کی تفتیش سے بچنے کی خاطر اُسے مرتا چھوڑ جاتے ہیں کیا یہ بے حسی کی شاندار مثال نہیں ۔۔؟کیا ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تھا موازنہ کیجئے ۔۔۔ مواخذہ کیجئے !
کیا ہم یونہی بے حسی کی چادر اوڑھے سکون سے سو تے رہیں گے ۔۔۔؟؟؟
گل بانو ،
۲۳مارچ۲۰۱۳