خرم شہزاد خرم
لائبریرین
جب میں نے پہلی دفعہ چکلے کا نام سنا تو مجھے اس کا مطلب نہیں پتہ تھا۔ میں نے ایک دو بڑوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ کر کہا کہ یہ لفظ تم نے کہاں سے سن لیا۔ جب اس لفظ کا مطلب پتہ چلا تو بہت حیران ہوا کہ ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی عزت اور عضمت بھیچ کر اپنے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو بے حیائی اور فحاشی کا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت تو چکلے بھی ایسی جگہ پر تھے کہ کوئی عام اور عزت انسان وہاں سے گزرتا ہی نہیں تھا۔
موجودہ دور میں فحاشی اور بے حیائی اتنی عام ہو گی ہے کہ لوگ اس کو فحشن سمجھنے لگے ہیں۔ ایسے کپڑے پہننا جس سے آپ کے جسم کے پوشیدہ حصے جن کو چھپانے کا خاص طور پر فرمایا گیا ہے وہ صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اس کو فیشن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حرکتیں پہلے صرف لڑکیوں میں پائی جاتی تھی لیکن آج کل کچھ ضرورت مند لڑکے بھی اس طرح کے فحشن کرنے پر اتر آئے ہیں۔ اور اس سب کا سبب کوئی دوسرا نہیں بلکہ ہمارا اپنا میڈیا ہے۔ جو اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو دفن کر کے دوسرے اور کسی حد تک بے حیا کلچر کو ہم میں عام کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے میں نے اردو 1 پر ایک ترکی ڈرامہ دیکھا جو اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا تھا۔ میں نے جو سین دیکھے وہ قابل اعتراز نہیں تھے۔ مجھے لگا کہ انڈیا کے ڈراموں سے تو بہتر ہیں۔ لیکن جب میں نے اس ڈرامے کا ذکر دوستوں سے کیا تو دوستوں کی زبانی پتہ چلا کہ یہ ڈرامہ کتنا بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ہے۔ یعنی لباس کے علاوہ بہت سی ایسی گفتگو بھی کی گئی جو ہم عام زندگی میں والدین یا بہن بھائیوں کے سامنے نہیں کر سکتے۔ بوسہ لینے کا سین عام دیکھایا جا رہا تھا اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے اعترازات اس پر لگ چکے تھے۔ اخبارات پر اس ڈرامے کے خلاف خبریں شائع ہو رہی تھی۔ اور ایک طرح کا ہنگامہ بنا ہوا تھا۔ اتنی بے حیائی اور فحاشی کے بعد ہماری حکومت یا پھر ہمارے میڈیا کو چاہے تھا کہ ترقی کے اس ڈرامہ کو نا دیکھایا جائے اور اس کی جگہ میں پاکستانی کلچر یا اس پر بنی گئی کہانیوں ، ناولوں میں سے ڈرامے بنا کر پیش کیے جائیں جو ہماری اپنی کھیتی کے پھل ہوتے اور جن کا فائدہ ہمیں اور ہمارے لوگوں کو ہوتا۔ لیکن اس کے بر عکس جیو ٹی وی اور ایکس پریس ٹی وی نے بھی اپنے اپنے چینل پر چکلے کھولنے کا فیصلہ کر لیا اور دونوں نے ایک ایک ترقی ڈرامہ اپنے چینل سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ جیو نے انڈیا کے بھی دو ڈرامے لگانے شروع کر دیے۔
کاروبار کا ایک اصول ہے کہ دوکاندار اپنی چیز کو سونا کر کے بھیجتا ہے۔ لیکن ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے اپنی چیز کی قدر ہی نہیں اور دوسرے لوگوں کی گھٹیاں اور گندی چیزوں کو اچھا کر کے بھیچ رہا ہے اور اس کا فائدہ فردِ واحد کی طرح خود اور دوسروں کو پہنچا رہا ہے جب کہ اپنے لوگوں کو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ذہنی بے حیائی اور فحاشی پر مبنی مستقل دے رہا ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو برباد کر رہا ہے اور کسی حد تک برباد کر بھی چکے ہیں۔ کہ اب کوئی ان کو نیکی اور اچھائی کی تلقین کرے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس پر ہنستے ہیں۔
میں حکومتِ پاکستان اور کیبل آپریٹر پیمرا سے درخواست کرتا ہوں کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر صرف اور صرف پاکستانی کلچر اور پاکستانی کہانیوں پر مبنی ڈرامہ سیریل چلائے جائیں۔ انڈین اور ترکی کے بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ڈراموں کا کاروبار بند کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
موجودہ دور میں فحاشی اور بے حیائی اتنی عام ہو گی ہے کہ لوگ اس کو فحشن سمجھنے لگے ہیں۔ ایسے کپڑے پہننا جس سے آپ کے جسم کے پوشیدہ حصے جن کو چھپانے کا خاص طور پر فرمایا گیا ہے وہ صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اس کو فیشن کا نام دیا گیا ہے۔ یہ حرکتیں پہلے صرف لڑکیوں میں پائی جاتی تھی لیکن آج کل کچھ ضرورت مند لڑکے بھی اس طرح کے فحشن کرنے پر اتر آئے ہیں۔ اور اس سب کا سبب کوئی دوسرا نہیں بلکہ ہمارا اپنا میڈیا ہے۔ جو اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت کو دفن کر کے دوسرے اور کسی حد تک بے حیا کلچر کو ہم میں عام کر رہے ہیں۔
کچھ دن پہلے میں نے اردو 1 پر ایک ترکی ڈرامہ دیکھا جو اردو ڈبنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا تھا۔ میں نے جو سین دیکھے وہ قابل اعتراز نہیں تھے۔ مجھے لگا کہ انڈیا کے ڈراموں سے تو بہتر ہیں۔ لیکن جب میں نے اس ڈرامے کا ذکر دوستوں سے کیا تو دوستوں کی زبانی پتہ چلا کہ یہ ڈرامہ کتنا بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ہے۔ یعنی لباس کے علاوہ بہت سی ایسی گفتگو بھی کی گئی جو ہم عام زندگی میں والدین یا بہن بھائیوں کے سامنے نہیں کر سکتے۔ بوسہ لینے کا سین عام دیکھایا جا رہا تھا اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے اعترازات اس پر لگ چکے تھے۔ اخبارات پر اس ڈرامے کے خلاف خبریں شائع ہو رہی تھی۔ اور ایک طرح کا ہنگامہ بنا ہوا تھا۔ اتنی بے حیائی اور فحاشی کے بعد ہماری حکومت یا پھر ہمارے میڈیا کو چاہے تھا کہ ترقی کے اس ڈرامہ کو نا دیکھایا جائے اور اس کی جگہ میں پاکستانی کلچر یا اس پر بنی گئی کہانیوں ، ناولوں میں سے ڈرامے بنا کر پیش کیے جائیں جو ہماری اپنی کھیتی کے پھل ہوتے اور جن کا فائدہ ہمیں اور ہمارے لوگوں کو ہوتا۔ لیکن اس کے بر عکس جیو ٹی وی اور ایکس پریس ٹی وی نے بھی اپنے اپنے چینل پر چکلے کھولنے کا فیصلہ کر لیا اور دونوں نے ایک ایک ترقی ڈرامہ اپنے چینل سے پیش کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ جیو نے انڈیا کے بھی دو ڈرامے لگانے شروع کر دیے۔
کاروبار کا ایک اصول ہے کہ دوکاندار اپنی چیز کو سونا کر کے بھیجتا ہے۔ لیکن ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے اپنی چیز کی قدر ہی نہیں اور دوسرے لوگوں کی گھٹیاں اور گندی چیزوں کو اچھا کر کے بھیچ رہا ہے اور اس کا فائدہ فردِ واحد کی طرح خود اور دوسروں کو پہنچا رہا ہے جب کہ اپنے لوگوں کو مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ذہنی بے حیائی اور فحاشی پر مبنی مستقل دے رہا ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو برباد کر رہا ہے اور کسی حد تک برباد کر بھی چکے ہیں۔ کہ اب کوئی ان کو نیکی اور اچھائی کی تلقین کرے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس پر ہنستے ہیں۔
میں حکومتِ پاکستان اور کیبل آپریٹر پیمرا سے درخواست کرتا ہوں کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر صرف اور صرف پاکستانی کلچر اور پاکستانی کہانیوں پر مبنی ڈرامہ سیریل چلائے جائیں۔ انڈین اور ترکی کے بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ڈراموں کا کاروبار بند کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین