بے درد جس کا نام وہ انساں تمہیں تو ہو - شور

کاشفی

محفلین
غزل
(شور)

داغ رحمتہ اللہ علیہ کی زمین “ کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو“ میں شور کی غزل ۔۔۔


بے درد جس کا نام وہ انساں تمہیں تو ہو
دل میں نہیں ہے مہر ، وہ مہرباں تمہیں تو ہو

تم ہی نکالو آج، تم ہی کل نکالو گے
میں سچ یہ کہتا ہوں میری ارماں تمہیں تو ہو

دل کو چُرا کے لے گئے سوتے میں رات کو
میں جانتا ہوں خوب مری جاں تمہیں تو ہو

دلبر ہو، دل ربائی میں ہو طاق و لاجواب
سب جان تم پہ دیتے ہیں جاناں تمہیں تو ہو

جُنبش سے لب کے مُردے جلا دینا بات ہے
کیا شک ہے اس میں عیسیٰ دوراں تمہیں تو ہو

ہر بات میں بگڑ کے کہے جو بُرا بھلا
بد خو و بدزباں وہ انساں تمہیں تو ہو

لاکھوں طرح سے کوئی بچائے نہ بچ سکے
عاشق کی یار ، جان کی خواہاں تمہیں تو ہو

تم کعبہء مراد ہو اور قبلہء امید
رہتے ہو سب کے دل میں وہ ایماں تمہیں تو ہو

قسمیں خدا کی کھاتے ہو ، چھُپ چھُپ کے پیتے ہو
زاہد جہاں میں پکے مسلماں تمہیں تو ہو

گل سا ہے چہرہ، سر و سا قد، نرگسی ہے چشم
روئے زمیں پہ رشک گلستاں تمہیں تو ہو

گیسو میں پھنس کے حضرت دل پایا تم نے کیا
سودائی تم ہوئے ہو پریشاں تمہیں تو ہو

شہرت ہے شور آپکی باغ جہان میں
طوطی ہند و بلبل ہندوستاں تمہیں تو ہو
 

فرخ منظور

لائبریرین
عمدہ غزل شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ کاشفی صاحب! ہو سکے تو ان اشعار کو دیکھ لیجیے۔
جاں کی بجائے شاید جان ہوگا۔
لاکھوں طرح سے کوئی بچائے نہ بچ سکے
عاشق کی یار ،
جاں کی خواہاں تمہیں تو ہو

جہاں کی بجائے جہان ہے شاید۔ "بلبل ستاں" کی بجائے شاید بلبلِ ہندوستاں ہو گا۔
شہرت ہے شور آپکی باغ
جہاں میں
طوطیِ ہند و بلبل
ستاں تمہیں تو ہو

تم
کعبۂ مراد ہو اور قبلہء امید
رہتے ہو سب کے دل میں وہ ایماں تمہیں تو ہو


 
Top