بے درد خزاں سے کون کہے ۔۔۔ امجد حیدر آبادی

برباد نہ کر بیکس کا چمن ، بے درد خزاں سے کون کہے
تاراج نہ کر میرا خرمن ، اس برق تپاں سے کون کہے

مجھ خستہ جگر کی جان نہ لے ، یہ کون اجل کو سمجھائے
کچھ در ٹھر جا اے دریا ، دریائے روا سے کون کہے

سینے میں بہت غم ہیں پنہاں ، دل میں ہزاروں ہیں ارماں
اس قہر مجسم کے آگے ، حال اپنا زباں سے کون کہے

ہر چند ہماری حالت پر رحم آتا ہے ہر ایک کو لیکن
کون آپ کو آفت میں ڈالے اس آفت جہاں سے کون کہے

قاصد کے بیاں کا اے امجد کیوں کر ہو اثر ان کے دل پر
جس درد سے تم خود کہتے ہو اس طرز بیاں سے کون کہے

امجد حیدر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

برباد نہ کر بیکس کا چمن ، بے درد خِزاں سے کون کہے
تاراج نہ کر میرا خرمن ، اُس برقِ تپاں سے کون کہے

مجھ خستہ جگر کی جان نہ لے ، یہ کون اَجَل کو سمجھائے
کچھ دیر ٹھہر جا، اے دریا ! دریائے رَوا ں سے کون کہے

سینے میں بہت غم ہیں پنہاں ، دل میں بھی ہزاروں ہیں ارماں !
اُس قہر ِ مجسّم کے آگے حال اپنا زباں سے کون کہے

ہر چند ہماری حالت پر رحم آتا ہے ہر ایک کو لیکن
کون آپ کو آفت میں ڈالے، اُس آفتِ جاں سے کون کہے

قاصد کے بیاں کا اے امؔجد! کیوں کر ہو اثر اُن کے دل پر !
جس درد سے تم خود کہتے ہو ، اُس طرزِ بیاں سے کون کہے

امؔجد حیدر آبادی
 
آخری تدوین:
Top