عبدالمغیث
محفلین
بے ربط باتیں
ڈاکٹر عبدالمغیث
اللہ پاک نے اس کائنات کو عدم وجود سے وجود میں لانے کے بعد اسے قائم رکھنے کے لیے جس قوت کو پیدا فرمایا وہ قوتِ کشش ہے۔ آسمانوں میں ہما جہت اور ہما وقت جاری و ساری اس قوتِ کشش کا نام ارضی خلیفہ نے وَعَلَّمَ الْاٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا کا علم استعمال کرتے ہوئے کششِ ثقل (Gravity) رکھا ہے۔ جبکہ زمین پر ذی روحوں کے درمیان پائی جانے ولی اس قوتِ کشش کو محبت کہتے ہیں۔
اگر کششِ ثقل نہ ہو تو تمام اجسامِ فلکی بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ اور اگر محبت نہ ہو تو تمام نفوسِ ارضی بکھر کر تنہائیوں کے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔ ہاں یہ محبت کی قوتِ کشش ہی ہے جس نے والدین اور اولاد کو ، میاں اور بیوی کو ، بہن اور بھائی کو ، دوست اور دوست کو ، غرض ہر انسان کو دوسرے انسان سے جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ یہ قوتِ کشش اللہ پاک کی بے بہا نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو محبت کی قوت سے محروم ہے۔
روزِ قیامت اللہ پاک جب اس قوتِ کشش کو سلب کر لیں گے تو پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑتے پھریں گے اور تمام اجسامِ فلکی اپنے مداروں کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر گرتے پھریں گے۔ اور اسی قوتِ کشش کے سلب ہونے سے مائیں اپنے دودو پیتے بچوں کو چھوڑ دیں گی ، اولاد والدین کو نہیں پہچانے گی اور دوست دوستوں سے دور بھاگیں گے۔ آہ ! یہ کتنی اہم اور خوبصورت قوت تھی اس کا صحیح احساس شاید اُسی روز ہو گا۔
محبت وہ عظیم شے ہے جسے ربِ ذوالجلال نے اپنی صفت بنایا۔ اللہ کے خوبصورت ناموں میں ایک نام ہے؛
محبت انسان اور رحمٰن کے بیچ ہو انسان اور انسان کے بیچ، اگر بیچ میں شیطان نہ ہو تو ایسی محبت محظ رحمتِ رحمٰن اور معراجِ انسان ہے۔ ربِ عظیم نے جو شے بھی تخلیق فرمائی ساتھ ہی اُس شے کا مقامِ وجود بھی پیدا و مقرر فرمایا۔ محبت کا جائے مقام قلبِ انسانی ہے۔ جسدِ انسانی کے سب سے اہم عضو کو محبت کا مرکز و مسکن بنایا جانا انسانی زندگی میں محبت کی مرکزی حیثیت کی دلیل ہے۔ قلبِ انسانی محبت کا گھر ہے۔ جس دل میں محبت نہ بستی ہو وہ دل ایسی بستی کی ماند ہے جو اجڑ کر ویران ہو چکی ہو اور ایسے دل کا حامل رحمتِ رحمانی اور معراجِ انسانی سے محروم ہوتا ہے۔
آج انسان اپنے مسائل کا حل تین بنیادی چیزوں میں تلاش کرتا ہے؛ علم، مواقع، اور محنت۔ ان تینوں کی اہمیت اگرچہ مسلَّم ہے مگر ابلیس ان تینوں چیزوں کے حاصل ہونے کا باوجود ناکام ہوا اور دھتکارا گیا۔ وہ عالم تھا (اُسے علم حاصل تھا)، وہ عارف تھا (اُسے اللہ کے قرب اور معرفت کا موقع حاصل تھا)، وہ عابد تھا (اُس نے عبادت میں محنت کی تھی)۔ ان تینوں ع (عالم، عارف، عابد) کے حاصل ہونے کے باوجود وہ ناکام ہوا کیونکہ اُس کے پاس چوتھا اور سب سے اہم ع نہیں تھا۔ وہ عاشق نہیں تھا۔ عشق اور محبت کرنے والے حکم کی دلیل نہیں طلب کیا کرتے۔
یہی چوتھا ع تھا جس نے آدم کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اسی چوتھے ع نے آدمؑ کو جنت سے نکالے جانے پر رُلایا۔ اور اسی چوتھے ع کی بدولت الودود نے خود ہی آدمؑ کو کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ عطا کیے اور اُس التواب الرحیم نے خود ہی آدمؑ کی توبہ کو قبولیت بخشی۔
انسان اس بات کو تو یاد رکھتا ہے کہ اُس کے نام (انسان) کی ایک لفظی بنیاد نسیان یعنی کہ بھول جانا ہے مگر شاید اسی ایک بنیاد کی بنا پر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نام کی دوسری بنیاد انسیا ہے جس کا معانی محبت ہے۔ شاید اس نام کی یہ دو بنیادیں اپنے اندر یہ دعویٰ رکھتی ہیں کہ انسان بھول کر خطا کرتا رہتا ہے اور رحمٰن محبت میں اسے معاف کرتا رہتا ہے۔
آج اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو خوشیوں سے بھرنا ہے، نفرتوں کی ظلمتوں کو دور کرنا ہے، امن قائم کرنا ہے، سکون سکھ اور چین کو عام کرنا ہے تو ہمیں چوتھے ع کو اپنا نصب العین بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے دلوں میں محبت کی شمع کو روشن کرنا ہو گا اور اِس شمع کی روشنی سے ہر ذرے کو آفتاب بنا کر ہر جہت اجالا بکھیرنا ہو گا۔
ڈاکٹر عبدالمغیث
چوتھا ع
اللہ پاک نے اس کائنات کو عدم وجود سے وجود میں لانے کے بعد اسے قائم رکھنے کے لیے جس قوت کو پیدا فرمایا وہ قوتِ کشش ہے۔ آسمانوں میں ہما جہت اور ہما وقت جاری و ساری اس قوتِ کشش کا نام ارضی خلیفہ نے وَعَلَّمَ الْاٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا کا علم استعمال کرتے ہوئے کششِ ثقل (Gravity) رکھا ہے۔ جبکہ زمین پر ذی روحوں کے درمیان پائی جانے ولی اس قوتِ کشش کو محبت کہتے ہیں۔
اگر کششِ ثقل نہ ہو تو تمام اجسامِ فلکی بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ اور اگر محبت نہ ہو تو تمام نفوسِ ارضی بکھر کر تنہائیوں کے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔ ہاں یہ محبت کی قوتِ کشش ہی ہے جس نے والدین اور اولاد کو ، میاں اور بیوی کو ، بہن اور بھائی کو ، دوست اور دوست کو ، غرض ہر انسان کو دوسرے انسان سے جوڑ کر رکھا ہوا ہے۔ یہ قوتِ کشش اللہ پاک کی بے بہا نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو محبت کی قوت سے محروم ہے۔
روزِ قیامت اللہ پاک جب اس قوتِ کشش کو سلب کر لیں گے تو پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑتے پھریں گے اور تمام اجسامِ فلکی اپنے مداروں کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر گرتے پھریں گے۔ اور اسی قوتِ کشش کے سلب ہونے سے مائیں اپنے دودو پیتے بچوں کو چھوڑ دیں گی ، اولاد والدین کو نہیں پہچانے گی اور دوست دوستوں سے دور بھاگیں گے۔ آہ ! یہ کتنی اہم اور خوبصورت قوت تھی اس کا صحیح احساس شاید اُسی روز ہو گا۔
محبت وہ عظیم شے ہے جسے ربِ ذوالجلال نے اپنی صفت بنایا۔ اللہ کے خوبصورت ناموں میں ایک نام ہے؛
الودود یعنی محبت کرنے والا
بے شک میرا پروردگار رحم والا (اور) محبت والا ہے (سورۃ ۱۱ آیت ۹۰)
اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے (سورۃ ۸۵ آیت ۱۴)
انسانوں میں جذبہٗ محبت پیدا کرنے والا بھی اللہ ہی ہے۔ اس محبت کو اللہ پاک نے اپنی قدرت کا مظہر اور انسانوں پر اپنی مہربانی کہا ہے۔بے شک میرا پروردگار رحم والا (اور) محبت والا ہے (سورۃ ۱۱ آیت ۹۰)
اور وہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے (سورۃ ۸۵ آیت ۱۴)
اور (اللہ نے) تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کی (سورۃ ۳۰ آیت ۲۱)
عجب نہیں کہ خدا تم میں اور اُن لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو محبت پیدا کر دے۔ اور اللہ قادر ہے اور بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ ۶۰ آیت ۷)
اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی (سورۃ ۳ آیت ۱۰۳)
عجب نہیں کہ خدا تم میں اور اُن لوگوں میں جن سے تم دشمنی رکھتے ہو محبت پیدا کر دے۔ اور اللہ قادر ہے اور بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ ۶۰ آیت ۷)
اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی (سورۃ ۳ آیت ۱۰۳)
محبت انسان اور رحمٰن کے بیچ ہو انسان اور انسان کے بیچ، اگر بیچ میں شیطان نہ ہو تو ایسی محبت محظ رحمتِ رحمٰن اور معراجِ انسان ہے۔ ربِ عظیم نے جو شے بھی تخلیق فرمائی ساتھ ہی اُس شے کا مقامِ وجود بھی پیدا و مقرر فرمایا۔ محبت کا جائے مقام قلبِ انسانی ہے۔ جسدِ انسانی کے سب سے اہم عضو کو محبت کا مرکز و مسکن بنایا جانا انسانی زندگی میں محبت کی مرکزی حیثیت کی دلیل ہے۔ قلبِ انسانی محبت کا گھر ہے۔ جس دل میں محبت نہ بستی ہو وہ دل ایسی بستی کی ماند ہے جو اجڑ کر ویران ہو چکی ہو اور ایسے دل کا حامل رحمتِ رحمانی اور معراجِ انسانی سے محروم ہوتا ہے۔
آج انسان اپنے مسائل کا حل تین بنیادی چیزوں میں تلاش کرتا ہے؛ علم، مواقع، اور محنت۔ ان تینوں کی اہمیت اگرچہ مسلَّم ہے مگر ابلیس ان تینوں چیزوں کے حاصل ہونے کا باوجود ناکام ہوا اور دھتکارا گیا۔ وہ عالم تھا (اُسے علم حاصل تھا)، وہ عارف تھا (اُسے اللہ کے قرب اور معرفت کا موقع حاصل تھا)، وہ عابد تھا (اُس نے عبادت میں محنت کی تھی)۔ ان تینوں ع (عالم، عارف، عابد) کے حاصل ہونے کے باوجود وہ ناکام ہوا کیونکہ اُس کے پاس چوتھا اور سب سے اہم ع نہیں تھا۔ وہ عاشق نہیں تھا۔ عشق اور محبت کرنے والے حکم کی دلیل نہیں طلب کیا کرتے۔
یہی چوتھا ع تھا جس نے آدم کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اسی چوتھے ع نے آدمؑ کو جنت سے نکالے جانے پر رُلایا۔ اور اسی چوتھے ع کی بدولت الودود نے خود ہی آدمؑ کو کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ عطا کیے اور اُس التواب الرحیم نے خود ہی آدمؑ کی توبہ کو قبولیت بخشی۔
انسان اس بات کو تو یاد رکھتا ہے کہ اُس کے نام (انسان) کی ایک لفظی بنیاد نسیان یعنی کہ بھول جانا ہے مگر شاید اسی ایک بنیاد کی بنا پر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نام کی دوسری بنیاد انسیا ہے جس کا معانی محبت ہے۔ شاید اس نام کی یہ دو بنیادیں اپنے اندر یہ دعویٰ رکھتی ہیں کہ انسان بھول کر خطا کرتا رہتا ہے اور رحمٰن محبت میں اسے معاف کرتا رہتا ہے۔
آج اگر ہم نے اپنی زندگیوں کو خوشیوں سے بھرنا ہے، نفرتوں کی ظلمتوں کو دور کرنا ہے، امن قائم کرنا ہے، سکون سکھ اور چین کو عام کرنا ہے تو ہمیں چوتھے ع کو اپنا نصب العین بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے دلوں میں محبت کی شمع کو روشن کرنا ہو گا اور اِس شمع کی روشنی سے ہر ذرے کو آفتاب بنا کر ہر جہت اجالا بکھیرنا ہو گا۔
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سا اجالا ہو جائے
دور دنیا کا مرے دم سے اندھرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سا اجالا ہو جائے
آخری تدوین: