عبدالمغیث
محفلین
بے ربط باتیں
ڈاکٹر عبدالمغیث
دو دل جب ملتے ہیں تو دلدل بن جاتے ہیں۔ مگر یہ اُس وقت ہوتا ہے جب دلوں میں گندگی بھری ہو۔ حسد کی گندگی، کینہ کی گندگی ، بغض کی گندگی، غرور کی گندگی وغیرہ۔ صاف دلوں کے ملاپ سے تو ایسے شفاف دریا وجود میں آتے ہیں جن کی گہرائی سمندروں سےبھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان سمندروں کی گہرائیوں میں ایسے موتی وجود میں آتے ہیں جو لاکھوں زندگیوں کو سجا دیتے ہیں۔
خالص دلوں کی گہرائیوں سے نکلنے والے موتیوں جیسے الفاظ چاہے رومی، رازی اور غزالی کے ہوں یا ہارون، ایوبی اور غزنوی کے ہوں، لاکھوں دلوں کی رعنائیوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہ موتیوں بھرے صاف شفاف سمندر اُس اُس وقت وجود میں آئے جب ایک دل گندگی سے پاک ہو کر کسی دوسرے صاف شفاف دل میں غوطہ زن ہوا یا جب ایک دل نے دوسرے دل سے توحید کا بیج لے کر اپنی زمین میں بویا اور پھر نفی اثبات کا پانی لگایا یا جب ایک دل نے دوسرے دل سے سحر گاہی کا درس لے کر خودی کو بلند کیا۔
اقبال کی خودی ہو یا رومی کی مثنوی، حافظ کا دیوان ہویا سعدی کی گلستان، بن قاسم کی بہادری ہو یا ایوبی کی سلطانی، جیلانی کی پیری ہو یا گنج شکر کا فقر، زنگی کی عبادت ہو یا بن عبدالعزیز کی دیانت، خالدؓ کی تلوار ہو یا بلالؓ کی اذان، مرتضیٰؓ کی شجاعت ہو یا عثمانؓ کی سخاوت، عمر ؓکا انصاف ہو یا صدیقؓ کی صداقت، سب معاملے دلوں کے معاملے ہیں اور عشق ان کا محرکِ اصلی ہے۔
آئس ایج، سٹون ایج، آئرن ایج اور پھر برونز ایج کے بعد آج کے دور کو انفارمیشن ایج کا نام دیا گیا ہے۔ ہنر مندی کا دورختم ہوا اور خبر کا دور شروع ہوا۔ عملی دور لفظی دور میں بدل گیا۔ اس انفارمیشن ایج نے تعلیم کو جو ایک مکمل تربیت تھی بدل کر خالی الفاظ کی دہرائی بنا دیا، اور علم جو ایک ہنر تھااُسے بدل کر خبر بنا دیا ، اور عشق جو ایک جذبہ تھا اُسے بدل کر محض شغل بنا دیا۔ وہ عشق ایک جذبہ تھا جو آتشِ نمرود میں کود پڑا تھا۔ وہ علم ایک ہنر تھا جو تلقینِ غزالی میں ظاہر ہوا۔ اور وہ تعلیم ایک تربیت تھی جس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی سکھائے تھے۔
جذبہ، ہنر مندی، اور تربیت سب دل کے معاملے ہیں۔ آج ہم ان سے دور ہو کر محض عقل سے خبر کے تیر چلانے میں مصروف ہیں۔ آج ایسے سکول تو بہت ہیں جہاں خبر پڑھائی جاتی ہے مگر ایسی تربیت گاہیں ناپید ہیں جہاں دل سدھارے جاتے ہیں۔ خبرکی شاہراہ پر تو بہت بھیڑ ہے مگر دل کی گلیاں سنسان ہیں۔صحیح اور غلط کی ہدایات تو بہت ہیں مگر ہدایتِ دل کا سامان غیر میسر۔ سلامتیِ جسم کے انتظام موجود ہیں مگر قلبِ سلیم کے مفقود۔ حالانکہ جسم چاہے جیسا بھی ہو، علم جتنا بھی ہو، دولت مال مویشی اولاد کتنی بھی ہو اُخروی نفع کی ضمانت اللہ بزرگ و برتر نے صرف قلبِ سلیم کے حصول میں رکھی ہے۔
جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والا وہی ہو گا جو اللہ کے سامنے قلبِ سلیم لے کر جائے۔ (سورۃ الشعرا آیت 98-8
اللہ عزوجل کی شانِ کریمی دیکھیں کی ابدی نفع کی ضمانت ایسی چیز میں رکھی جسے کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہویا غریب، عالم ہو یا ان پڑھ، آزاد ہو یا غلام، تندرست ہو یا بیمار، مقیم ہو یا مسافر، غرض ہر کوئی ہر حالت میں اس متاعِ عظیم کو حاصل کر سکتاہے۔
یہ دنیا دارلاسباب ہے۔ یہاں متاعِ قلیل کے حصول کے لیے بھی محنتِ کثیر درکار ہے۔ اس متاعِ عظیم کے لیے بھی ایک عظیم محنت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دل کے مکان کو محبتِ دنیا کے ناجائز قبضہ سے چُھڑاناہو گا۔ پھر عشق و عاجزی کے جھاڑو سے حسد و غرور کی گندگی سے اس کی زمین کو صاف کرنا ہو گا۔ ذکر کے پانی سے دھوکراس کے دروبام کو پاک کرنا ہو گا۔ آنسؤں کے موتیوں سے اس کے کونوں کو سجانا ہو گا۔ اور یادِ الٰہی کی خوشبو سے اس کی فضاؤں کو مہکانا ہو گا۔ پھر اِس مکان میں اس کے اصل مکین اللہ کو بسانا ہو گا۔
جب اللہ دل میں بس جاتا ہے تو پھر اللہ ہی انسان کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان بن جاتا ہے۔ یعنی ہاتھ کے ہر کام میں، پاؤں کے ہر مقام میں، آنکھ کر ہر اُٹھان میں، کان کی ہر شنوائی میں، اور زبان کی ہر گویائی میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ اور یوں یہ زندگی سکون و اطمینان، موت وصلِ منان، اور آخرت رضائے رحمٰن کی لذتوں سے بھر جاتی ہے۔
أَلا وإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ وإذَا فَسَدَت فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ أَلا وَهيَ القَلْبُ (صحيح البخاری: 52 صحيح مسلم: 1599)
“واضح ہو کہ جسم میں ایک ایسا گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک رہتا ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خرابی کا شکار ہو جاتا ہے اور واضح ہو کہ وہ دل ہے”۔
ڈاکٹر عبدالمغیث
دو دل جب ملتے ہیں تو دلدل بن جاتے ہیں۔ مگر یہ اُس وقت ہوتا ہے جب دلوں میں گندگی بھری ہو۔ حسد کی گندگی، کینہ کی گندگی ، بغض کی گندگی، غرور کی گندگی وغیرہ۔ صاف دلوں کے ملاپ سے تو ایسے شفاف دریا وجود میں آتے ہیں جن کی گہرائی سمندروں سےبھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان سمندروں کی گہرائیوں میں ایسے موتی وجود میں آتے ہیں جو لاکھوں زندگیوں کو سجا دیتے ہیں۔
خالص دلوں کی گہرائیوں سے نکلنے والے موتیوں جیسے الفاظ چاہے رومی، رازی اور غزالی کے ہوں یا ہارون، ایوبی اور غزنوی کے ہوں، لاکھوں دلوں کی رعنائیوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ یہ موتیوں بھرے صاف شفاف سمندر اُس اُس وقت وجود میں آئے جب ایک دل گندگی سے پاک ہو کر کسی دوسرے صاف شفاف دل میں غوطہ زن ہوا یا جب ایک دل نے دوسرے دل سے توحید کا بیج لے کر اپنی زمین میں بویا اور پھر نفی اثبات کا پانی لگایا یا جب ایک دل نے دوسرے دل سے سحر گاہی کا درس لے کر خودی کو بلند کیا۔
اقبال کی خودی ہو یا رومی کی مثنوی، حافظ کا دیوان ہویا سعدی کی گلستان، بن قاسم کی بہادری ہو یا ایوبی کی سلطانی، جیلانی کی پیری ہو یا گنج شکر کا فقر، زنگی کی عبادت ہو یا بن عبدالعزیز کی دیانت، خالدؓ کی تلوار ہو یا بلالؓ کی اذان، مرتضیٰؓ کی شجاعت ہو یا عثمانؓ کی سخاوت، عمر ؓکا انصاف ہو یا صدیقؓ کی صداقت، سب معاملے دلوں کے معاملے ہیں اور عشق ان کا محرکِ اصلی ہے۔
آئس ایج، سٹون ایج، آئرن ایج اور پھر برونز ایج کے بعد آج کے دور کو انفارمیشن ایج کا نام دیا گیا ہے۔ ہنر مندی کا دورختم ہوا اور خبر کا دور شروع ہوا۔ عملی دور لفظی دور میں بدل گیا۔ اس انفارمیشن ایج نے تعلیم کو جو ایک مکمل تربیت تھی بدل کر خالی الفاظ کی دہرائی بنا دیا، اور علم جو ایک ہنر تھااُسے بدل کر خبر بنا دیا ، اور عشق جو ایک جذبہ تھا اُسے بدل کر محض شغل بنا دیا۔ وہ عشق ایک جذبہ تھا جو آتشِ نمرود میں کود پڑا تھا۔ وہ علم ایک ہنر تھا جو تلقینِ غزالی میں ظاہر ہوا۔ اور وہ تعلیم ایک تربیت تھی جس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی سکھائے تھے۔
جذبہ، ہنر مندی، اور تربیت سب دل کے معاملے ہیں۔ آج ہم ان سے دور ہو کر محض عقل سے خبر کے تیر چلانے میں مصروف ہیں۔ آج ایسے سکول تو بہت ہیں جہاں خبر پڑھائی جاتی ہے مگر ایسی تربیت گاہیں ناپید ہیں جہاں دل سدھارے جاتے ہیں۔ خبرکی شاہراہ پر تو بہت بھیڑ ہے مگر دل کی گلیاں سنسان ہیں۔صحیح اور غلط کی ہدایات تو بہت ہیں مگر ہدایتِ دل کا سامان غیر میسر۔ سلامتیِ جسم کے انتظام موجود ہیں مگر قلبِ سلیم کے مفقود۔ حالانکہ جسم چاہے جیسا بھی ہو، علم جتنا بھی ہو، دولت مال مویشی اولاد کتنی بھی ہو اُخروی نفع کی ضمانت اللہ بزرگ و برتر نے صرف قلبِ سلیم کے حصول میں رکھی ہے۔
جس دن کہ مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والا وہی ہو گا جو اللہ کے سامنے قلبِ سلیم لے کر جائے۔ (سورۃ الشعرا آیت 98-8
اللہ عزوجل کی شانِ کریمی دیکھیں کی ابدی نفع کی ضمانت ایسی چیز میں رکھی جسے کوئی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہویا غریب، عالم ہو یا ان پڑھ، آزاد ہو یا غلام، تندرست ہو یا بیمار، مقیم ہو یا مسافر، غرض ہر کوئی ہر حالت میں اس متاعِ عظیم کو حاصل کر سکتاہے۔
یہ دنیا دارلاسباب ہے۔ یہاں متاعِ قلیل کے حصول کے لیے بھی محنتِ کثیر درکار ہے۔ اس متاعِ عظیم کے لیے بھی ایک عظیم محنت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے دل کے مکان کو محبتِ دنیا کے ناجائز قبضہ سے چُھڑاناہو گا۔ پھر عشق و عاجزی کے جھاڑو سے حسد و غرور کی گندگی سے اس کی زمین کو صاف کرنا ہو گا۔ ذکر کے پانی سے دھوکراس کے دروبام کو پاک کرنا ہو گا۔ آنسؤں کے موتیوں سے اس کے کونوں کو سجانا ہو گا۔ اور یادِ الٰہی کی خوشبو سے اس کی فضاؤں کو مہکانا ہو گا۔ پھر اِس مکان میں اس کے اصل مکین اللہ کو بسانا ہو گا۔
جب اللہ دل میں بس جاتا ہے تو پھر اللہ ہی انسان کے ہاتھ، پاؤں، آنکھ، کان، زبان بن جاتا ہے۔ یعنی ہاتھ کے ہر کام میں، پاؤں کے ہر مقام میں، آنکھ کر ہر اُٹھان میں، کان کی ہر شنوائی میں، اور زبان کی ہر گویائی میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ اور یوں یہ زندگی سکون و اطمینان، موت وصلِ منان، اور آخرت رضائے رحمٰن کی لذتوں سے بھر جاتی ہے۔
أَلا وإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ وإذَا فَسَدَت فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ أَلا وَهيَ القَلْبُ (صحيح البخاری: 52 صحيح مسلم: 1599)
“واضح ہو کہ جسم میں ایک ایسا گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ ٹھیک رہتا ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خرابی کا شکار ہو جاتا ہے اور واضح ہو کہ وہ دل ہے”۔