محمل ابراہیم
لائبریرین
اداسیاں ہیں چار سو چراغ کیوں جلے نہیں
ہے شاخ برگ مضمحل پھول کیوں کھلے نہیں
چہار سو شمع کے کیوں ہے رقص اضطراب سا
ہجوم ہوشمند ہے سو دل سے دل ملے نہیں
پروں کو اپنے تول لو اڑان بھرنا ہے ابھی
سفر دراز ہے بہت پہ فیصلہ ٹلے نہیں
حسین منزلوں کے کھلتے پٹ پکارتے رہیں
صداءیں شہر آرزو نے دی پہ ہم گیے نہیں
قریب تھا کہ معرکہ زندگی بھی جیتتے
مگر میرے حریف تیری جان ہم نے لی نہیں
مجھے تمہارے لوٹنے سے رنج بے شمار تھا
گلے بھی تھے ہزار پر وہ لب تھے جو کھلے نہیں
جو زخم تیغ یار نے ہمارے نام کر دیے
گزر گیء تمام عمر وہ زخم پر سلے نہیں
ہے شب تو صرف شب تلک گزر ہے اسکا کب تلک
سحر تو اب طلوع ہو ہو نور جو ڈھلے نہیں
ہے شاخ برگ مضمحل پھول کیوں کھلے نہیں
چہار سو شمع کے کیوں ہے رقص اضطراب سا
ہجوم ہوشمند ہے سو دل سے دل ملے نہیں
پروں کو اپنے تول لو اڑان بھرنا ہے ابھی
سفر دراز ہے بہت پہ فیصلہ ٹلے نہیں
حسین منزلوں کے کھلتے پٹ پکارتے رہیں
صداءیں شہر آرزو نے دی پہ ہم گیے نہیں
قریب تھا کہ معرکہ زندگی بھی جیتتے
مگر میرے حریف تیری جان ہم نے لی نہیں
مجھے تمہارے لوٹنے سے رنج بے شمار تھا
گلے بھی تھے ہزار پر وہ لب تھے جو کھلے نہیں
جو زخم تیغ یار نے ہمارے نام کر دیے
گزر گیء تمام عمر وہ زخم پر سلے نہیں
ہے شب تو صرف شب تلک گزر ہے اسکا کب تلک
سحر تو اب طلوع ہو ہو نور جو ڈھلے نہیں