بے سبب نہیں کُچھ بھی

محمل ابراہیم

لائبریرین
اداسیاں ہیں چار سو چراغ کیوں جلے نہیں
ہے شاخ برگ مضمحل پھول کیوں کھلے نہیں
چہار سو شمع کے کیوں ہے رقص اضطراب سا
ہجوم ہوشمند ہے سو دل سے دل ملے نہیں
پروں کو اپنے تول لو اڑان بھرنا ہے ابھی
سفر دراز ہے بہت پہ فیصلہ ٹلے نہیں
حسین منزلوں کے کھلتے پٹ پکارتے رہیں
صداءیں شہر آرزو نے دی پہ ہم گیے نہیں
قریب تھا کہ معرکہ زندگی بھی جیتتے
مگر میرے حریف تیری جان ہم نے لی نہیں
مجھے تمہارے لوٹنے سے رنج بے شمار تھا
گلے بھی تھے ہزار پر وہ لب تھے جو کھلے نہیں
جو زخم تیغ یار نے ہمارے نام کر دیے
گزر گیء تمام عمر وہ زخم پر سلے نہیں
ہے شب تو صرف شب تلک گزر ہے اسکا کب تلک
سحر تو اب طلوع ہو ہو نور جو ڈھلے نہیں
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
اب تک قابل احترام استاذہ نے میری درج بالا غزل کی اصلاح نہیں کی۔۔۔میں روز اطلاعات کا کالم دیکھتی ہوں مگر مجھے مایوسی ملتی ہے۔۔۔۔اگر اصلاح نہ کرنے کا سبب میرا موضوع مباحثہ شعر ہے تو میں اس کے لئے بہت شرمندہ ہوں اور معزرت خواہ بھی _____میں تو فقط شعر کہہ دیتی ہوں فکر کی گہرائی اور گیرائی آپ اساتذہ سے سیکھنی ہے۔
لہذا مجھ ناچیز کی مؤدبانہ گزارش ہے کہ میری غزل کی اصلاح کر کے شکر گزاری کا موقع عنایت کریں۔۔۔۔۔
 
اداسیاں ہیں چار سو چراغ کیوں جلے نہیں
ہے شاخ برگ مضمحل پھول کیوں کھلے نہیں
وزن کے اعتبار سے درست ہے،
مفہوم کے لحاظ سے مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب ہوا کیوں، نہ اس کی وجہ کا تذکرہ ہے نہ ہی اس جانب کوئی اشارہ. اس لئے شعر بے معنی لگ رہا ہے.
ثالثا، قوافی بھی درست نہیں. جَلے کے ساتھ کِھلے قافیہ صحیح نہیں. روی سے پہلے کے حرف کی حرکت یکساں ہونی چاہیئے. اس لیے جلے کے ساتھ بھلے، پلے، کَھلے، مَلے، ڈھلے، چلے وغیرہ تو قافیہ آسکتے ہیں، مِلے، کِھلے، سلے، گِلے وغیرہ نہیں.
اسی اصول پر آپ دیگے اشعار میں میں بھی قافیوں کی شناخت کر لیں، جہاں جہاں غلطی ہو.

چہار سو شمع کے کیوں ہے رقص اضطراب سا
ہجوم ہوشمند ہے سو دل سے دل ملے نہیں
یہاں بھی مفہوم مجھ پر واضح نہیں ہوسکا. دونوں مصرعوں میں ربط سمجھ نہیں آرہا. شمع کو کس سے تشبیہ دی گئی ہے؟ رقصِ اضطراب اچھی ترکیبب بن سکتی ہے اگر درست طریقے سے نبھایا جائے. پھر ہجوم کے ہوش مند ہونے سے دلوں کے ملنے کا کیا تعلق ہے؟
علاوہ ازیں پہلا مصرعہ بحر سے خارج ہے. آپ نے شمع کا تلفظ ٹھیک نہیں کیا. اس کو شم+عْ تقطیع کریں گے، ش+مَع نہیں.

پروں کو اپنے تول لو اڑان بھرنا ہے ابھی
سفر دراز ہے بہت پہ فیصلہ ٹلے نہیں
پہلے مصرعے میں روانی کی کمی ہے. میرے خیال میں اڑاب بھرنا کے بجائے اڑان بھرنی کہنا زیادہ مناسب ہوگا.
اڑان بھرنے کے لئے، پروں کو اپنے تول لو
سفر ہو کتنا بھی طویل، فیصلہ ٹلے نہیں

حسین منزلوں کے کھلتے پٹ پکارتے رہیں
صداءیں شہر آرزو نے دی پہ ہم گیے نہیں
پکارتے رہیں نہیں پکارتے رہے.
مصرعہ ثانی میں صدائیں دیں کہا جائے گا، صدائیں دی نہیں.
دوسرے یہ پٹ دروازے کا جزو ہوتا ہے، محاورہ دروازہ کھلنا یا در کھلنا ہے سو کھلتے پٹ کہنا درست نہیں.
کھلے ہوئے تھے در سبھی، قریب تر تھیں منزلیں
صدا بھی شہرِ آرزو نے دی، پہ ہم گئے نہیں

قریب تھا کہ معرکہ زندگی بھی جیتتے
مگر میرے حریف تیری جان ہم نے لی نہیں
ہائیں! یہاں تو قافیہ بالکل ہی تلپٹ ہو کر رہ گیا! "لے" کے درمیان "لی" کیسے در آیا؟؟؟
علاوہ ازیں دوسرے مصرعے میں "میرے" وزن میں نہیں آئے گا، مرے کہیں.

مجھے تمہارے لوٹنے سے رنج بے شمار تھا
گلے بھی تھے ہزار پر وہ لب تھے جو کھلے نہیں
لوٹنے پر رنج؟؟؟ یہ کیا بات ہوئی؟ یہ تو خلاف محاوہ و واقعہ بات ہوئی. رنج تو کسی کے جانے پر ہوتا ہے، لوٹنا تو باعث مسرت ہوتا ہے. دوسرے مصرعے کا قافیہ درست نہیں.

جو زخم تیغ یار نے ہمارے نام کر دیے
گزر گیء تمام عمر وہ زخم پر سلے نہیں
"گئی" کا املا ٹھیک کرلیں. شعر اچھا ہوسکتا تھا، مگر قافیہ ٹھیک نہیں.

ہے شب تو صرف شب تلک گزر ہے اسکا کب تلک
سحر تو اب طلوع ہو ہو نور جو ڈھلے نہیں
دونوں مصرعوں میں بہت زیادہ غیر ضروری تعقید ہے.
تمام ہو گی کب یہ شب، گزر ہے اس کا کب تلک؟
وہ صبح لا مرے خدا، جو پھر کبھی ڈھلے نہیں

دعاگو،
راحل.
 
Top