نمرہ
محفلین
بے سمتی کے وبال سے آگے نہیں گئے
چلتے تھے اس کمال سے، آگے نہیں گئے
رکھتے ہیں ہم وجود جہاں میں کہیں ، یا پھر
اک وہم ، اک خیال سے آگے نہیں گئے؟
ہم راہ ِ جستجو پہ سفر یوں نہ کر سکے
گم گشتہ کے ملال سے آگے نہیں گئے
ٹھہرے ہیں دہر کے بھی کتب خانے میں ، مگر
ہم گردِ ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
نقشِ دوام ثبت ہوا دل پہ جو کبھی
اس حسنِ لازوال سے آگے نہیں گئے
ہمراہیوں سے بڑھ کے سبک رو تھے یوں تو ہم
اوروں کے ہی خیال سے آگے نہیں گئے
رکھنے سے پاسِ وضع، رہے دلبری میں ہیچ
اک سرسری سوال سے آگے نہیں گئے
چلتے تھے اس کمال سے، آگے نہیں گئے
رکھتے ہیں ہم وجود جہاں میں کہیں ، یا پھر
اک وہم ، اک خیال سے آگے نہیں گئے؟
ہم راہ ِ جستجو پہ سفر یوں نہ کر سکے
گم گشتہ کے ملال سے آگے نہیں گئے
ٹھہرے ہیں دہر کے بھی کتب خانے میں ، مگر
ہم گردِ ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
نقشِ دوام ثبت ہوا دل پہ جو کبھی
اس حسنِ لازوال سے آگے نہیں گئے
ہمراہیوں سے بڑھ کے سبک رو تھے یوں تو ہم
اوروں کے ہی خیال سے آگے نہیں گئے
رکھنے سے پاسِ وضع، رہے دلبری میں ہیچ
اک سرسری سوال سے آگے نہیں گئے