ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
بے سمت کاوشوں کا ثمر دائرے میں ہے
محور نہیں ہے پھر بھی سفر دائرے میں ہے
دُہرارہے ہیں خود کو عروج وزوالِ دہر
عالم تمام زیر و زبر دائرے میں ہے
کہنے کو انجمن ہے شریکِ سخن ہیں لوگ
ہر شخص اپنے اپنے مگر دائرے میں ہے
سونپی تھی رازدان کو ، آ پہنچی مجھ تلک
معلوم یہ ہوا کہ خبر دائرے میں ہے
رستے ہیں شہرِ حرص میں آنے کے بے شمار
بس واپسی کی راہ گزر دائرے میں ہے
قائم رہے خدا وہ مرا مرکزِ یقین !
جب تک خرامِ شمس و قمر دائرے میں ہے
جب سے بنا ہوا ہے کوئی قبلہء خیال
پیہم طوافِ فکر و نظر دائرے میں ہے
خط مرکزِ عدم سے محیطِ وجود تک
جتنا بھی ہو طویل مگر دائرے میں ہے
خامہ ترا رواں ہے یہ کس راہ پر ظہیر
لگتا ہے نقشِ پائے ہنر دائرے میں ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۹
محور نہیں ہے پھر بھی سفر دائرے میں ہے
دُہرارہے ہیں خود کو عروج وزوالِ دہر
عالم تمام زیر و زبر دائرے میں ہے
کہنے کو انجمن ہے شریکِ سخن ہیں لوگ
ہر شخص اپنے اپنے مگر دائرے میں ہے
سونپی تھی رازدان کو ، آ پہنچی مجھ تلک
معلوم یہ ہوا کہ خبر دائرے میں ہے
رستے ہیں شہرِ حرص میں آنے کے بے شمار
بس واپسی کی راہ گزر دائرے میں ہے
قائم رہے خدا وہ مرا مرکزِ یقین !
جب تک خرامِ شمس و قمر دائرے میں ہے
جب سے بنا ہوا ہے کوئی قبلہء خیال
پیہم طوافِ فکر و نظر دائرے میں ہے
خط مرکزِ عدم سے محیطِ وجود تک
جتنا بھی ہو طویل مگر دائرے میں ہے
خامہ ترا رواں ہے یہ کس راہ پر ظہیر
لگتا ہے نقشِ پائے ہنر دائرے میں ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۹