السلام و علیکم
میں یہاں بلکل نیا ھوں، میرا پروفیشن ادب سے کافی جدا ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مجھے بےادبی کی زمرہ نا مبارکہ میں تصور کیا جاُیے، اس بزم میں اُنا کچھ کچھ حادثاتی سا ہے، ہوایوں کھ ہمارے ہاتھ گلوبل سا ُنس لگ گیا، بس وہیں سے بلوگنگ اور پھر اردو بلوگنگ کا شوق جاگا، حد سے بڑھا، جنون بنا اور اب اُپ کے سامنے ہوں! ہوا مین محترم باسم صاحب کے اخلاق سے کہ جن کی محبت اور شوق استادی نے اردو لکھنا سکھوادی۔ لفظ سکھوادی پر ژرا زور ہے، میرا دوست چاٹنگ پر اُیا لمحہ بھ لمحہ اُن لا ُین سمجھاتا رہا، سکھاتا رہا، پڑھاتا رہا، پھر اُپ کے گھر کا پتہ سمجھا گیا کہ اب ان کا دماغ کھاوُ، مطلب محفل جوایُن کرو سو کر لی، وہ بھی سہی استاد نکلا، سمجھ گیا کہ بندہ ڈاکٹر ہے، دماغ کا موسم بنجر کرے گا، یا شاید وہ ڈاک اور ٹر کی گردان جانتا تھا بہرحال جو بھی ہے اب اُپ لوگوں کو بگھتانا یا بگھتنا ھو گا، ویسے ہٹ کر ذرا مزاق سے یہ کہنے میں بندہ کو کویُ عار نہیں ہے کہ دل کو خوشی ہویُ یہ دیکھ کر کہ ابھی ھم میں زندگی کی کافی رمک باقی ہے،
مدرسہ قیمتی اُثار (وایُٹل سایُن گروپ)کے سابقہ گلوکار جنید جمشید اور اُج کے مصروف نعت خواں حضرت مولانا جنید جمشید صاحب کا ایک گیت "گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا" کچھ کچھ ہماری نفسیات کی عکاسی کرتا ہےکہ ہم اُج بھی گوروں کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں، چاہے زبان سے کتنا ہی انکار کرلیں، مثلا: اگر انگریزی لکھنی ھوتی تو اب تک میں شالیمار کی رفتار سے ملتان پہنچ گیا ہوتا، مگر اردو لکھ رہا ہوں تو ایسا لگ رھا ہے جیسے پہلی بار اماں نے بغدادی قاٰپدہ ہاتھ میں دے کر کہا تھا "بیٹا چچی کو فر فر پڑھ کرسنانا اور تنگ نہ کرنا" اور ہم تھے کہ نالایٰقی کے سارے ریکارڈ توڑ کر چچی کی فر فر سنتے رہے، ویسے وہ فر فر ہمیں اُج بھی ازبر ہے مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ ناقابل بیان اور نا قابل اشاعت کے زمرے میں اُتی ہے، اگر ایسا نہ ھوتا تو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوتا، بہرحال اردو کی یہی چاشنی اب انٹرنیٹ کی زینت بن رہی ہے تو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، خصوصاۡ محفل میں اُکر محسوس ہو رہا ہے کہ اگر رفتار اور معیار یہی رہا تو وہ وقت دور نہیں جب جارج بش خود کو مرزا بش دہلوی کہلوانے میں فخر محسوس کریں گے (جمع کا صیغہ سارے بش حضرات کی وجہ سے استعمال کیا ہے، معجزے ہوتے دیر نہیں لگتی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال میں شکر گزار ہوں محترم باسم صاحب، محترم شمشاد صاحب اور محترمہ سیدہ شگفتہ صاحبہ کا کہ جنہوں نے بندہ کو اس گرانی کے دور میں عزت سے نوازا اور رہنما ٰٰی فرماٰی جو فی زمانہ ہر انسان کہ میسر نہیں اُتی، کیونکہ جہاں اُٹا، ٹیلکم پاوُڈر (خوشبودار) سے مہنگا ہو وہاں عزت کی یہ فراوانی اوروہ بھی فی کس کافی معجزاتی ہے خصوصا جب عزت کی یہ فراہمی فوری بھی ہو تو کون کافر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس نہیں کرے گا۔۔۔ کاش یہ عزت تین گھنٹے سے زیادہ کی ہو، کیونکہ انڈین فلم کا دورانیہ کچھ اتنا ہی ہے ۔۔۔ ہاُے کاش یہ انڈین ڈراموں کی طرح طویل دورانیہ کی ہو، اور بہو ہماری زیندگی میں ہی ساس بن جاٰے۔۔۔
میں یہاں بلکل نیا ھوں، میرا پروفیشن ادب سے کافی جدا ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مجھے بےادبی کی زمرہ نا مبارکہ میں تصور کیا جاُیے، اس بزم میں اُنا کچھ کچھ حادثاتی سا ہے، ہوایوں کھ ہمارے ہاتھ گلوبل سا ُنس لگ گیا، بس وہیں سے بلوگنگ اور پھر اردو بلوگنگ کا شوق جاگا، حد سے بڑھا، جنون بنا اور اب اُپ کے سامنے ہوں! ہوا مین محترم باسم صاحب کے اخلاق سے کہ جن کی محبت اور شوق استادی نے اردو لکھنا سکھوادی۔ لفظ سکھوادی پر ژرا زور ہے، میرا دوست چاٹنگ پر اُیا لمحہ بھ لمحہ اُن لا ُین سمجھاتا رہا، سکھاتا رہا، پڑھاتا رہا، پھر اُپ کے گھر کا پتہ سمجھا گیا کہ اب ان کا دماغ کھاوُ، مطلب محفل جوایُن کرو سو کر لی، وہ بھی سہی استاد نکلا، سمجھ گیا کہ بندہ ڈاکٹر ہے، دماغ کا موسم بنجر کرے گا، یا شاید وہ ڈاک اور ٹر کی گردان جانتا تھا بہرحال جو بھی ہے اب اُپ لوگوں کو بگھتانا یا بگھتنا ھو گا، ویسے ہٹ کر ذرا مزاق سے یہ کہنے میں بندہ کو کویُ عار نہیں ہے کہ دل کو خوشی ہویُ یہ دیکھ کر کہ ابھی ھم میں زندگی کی کافی رمک باقی ہے،
مدرسہ قیمتی اُثار (وایُٹل سایُن گروپ)کے سابقہ گلوکار جنید جمشید اور اُج کے مصروف نعت خواں حضرت مولانا جنید جمشید صاحب کا ایک گیت "گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا" کچھ کچھ ہماری نفسیات کی عکاسی کرتا ہےکہ ہم اُج بھی گوروں کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں، چاہے زبان سے کتنا ہی انکار کرلیں، مثلا: اگر انگریزی لکھنی ھوتی تو اب تک میں شالیمار کی رفتار سے ملتان پہنچ گیا ہوتا، مگر اردو لکھ رہا ہوں تو ایسا لگ رھا ہے جیسے پہلی بار اماں نے بغدادی قاٰپدہ ہاتھ میں دے کر کہا تھا "بیٹا چچی کو فر فر پڑھ کرسنانا اور تنگ نہ کرنا" اور ہم تھے کہ نالایٰقی کے سارے ریکارڈ توڑ کر چچی کی فر فر سنتے رہے، ویسے وہ فر فر ہمیں اُج بھی ازبر ہے مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ ناقابل بیان اور نا قابل اشاعت کے زمرے میں اُتی ہے، اگر ایسا نہ ھوتا تو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہوتا، بہرحال اردو کی یہی چاشنی اب انٹرنیٹ کی زینت بن رہی ہے تو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے، خصوصاۡ محفل میں اُکر محسوس ہو رہا ہے کہ اگر رفتار اور معیار یہی رہا تو وہ وقت دور نہیں جب جارج بش خود کو مرزا بش دہلوی کہلوانے میں فخر محسوس کریں گے (جمع کا صیغہ سارے بش حضرات کی وجہ سے استعمال کیا ہے، معجزے ہوتے دیر نہیں لگتی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال میں شکر گزار ہوں محترم باسم صاحب، محترم شمشاد صاحب اور محترمہ سیدہ شگفتہ صاحبہ کا کہ جنہوں نے بندہ کو اس گرانی کے دور میں عزت سے نوازا اور رہنما ٰٰی فرماٰی جو فی زمانہ ہر انسان کہ میسر نہیں اُتی، کیونکہ جہاں اُٹا، ٹیلکم پاوُڈر (خوشبودار) سے مہنگا ہو وہاں عزت کی یہ فراوانی اوروہ بھی فی کس کافی معجزاتی ہے خصوصا جب عزت کی یہ فراہمی فوری بھی ہو تو کون کافر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس نہیں کرے گا۔۔۔ کاش یہ عزت تین گھنٹے سے زیادہ کی ہو، کیونکہ انڈین فلم کا دورانیہ کچھ اتنا ہی ہے ۔۔۔ ہاُے کاش یہ انڈین ڈراموں کی طرح طویل دورانیہ کی ہو، اور بہو ہماری زیندگی میں ہی ساس بن جاٰے۔۔۔