رحمت اللہ شیخ
محفلین
بے نام مجاہد (کہانی)
رحمت اللہ شیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک کرسی پر رسیوں میں جکڑا ہوا بندھا پڑا تھا۔ تین دن سخت تشدد کرنےکے باوجود بھی اس کی زبان نہیں کھلی تھی۔ جنرل رابرٹ جیسا طاقتور اور مضبوط جسم والا شخص بھی اس کی زبان کھلوانے سے قاصر تھا۔
“تم پرلے درجے کے بیوقوف ہو عبداللہ…! میں نے آج تک تم جیسا کم عقل نہیں دیکھا۔ پھر بھی میں تمہیں آخری موقعہ دینا چاہتا ہوں۔”
“تم میرا جواب بخوبی جانتے ہو رابرٹ… مجھے زندہ رکھنے سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔” اس نے پرسکون لہجے میں اسے جواب دیا۔
” بہت جلد تم پچھتاؤ گے عبداللہ…!” رابرٹ نے قہرآلود نگاہوں سے اس پر نظر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک جنٹلمین کمرے میں داخل ہوا۔ کونے میں پڑی کرسی کو گھسیٹتا ہوا میز کے قریب لایا اور عبداللہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ عبداللہ اور اس کے درمیان ایک میز کا فیصلہ تھا۔
“میرا نام مائیکل ہے اور میں آپ……”
“اور آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔” عبداللہ نے اس کی بات کاٹی ۔”یہی کہنا چاہتے تھے نا آپ…!؟”
“نہیں… میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں آپ کو ایک قیمتی مشورہ دینا چاہتا ہوں۔”
“ہونہہ…… یہی نا کہ میں آپ لوگوں سے سمجھوتا کرلو ں۔” عبداللہ نے لاپرواہی سے کہا۔
“نہیں مسٹر عبداللہ! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں… آپ تو اہل و عیال والے ہیں… میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی اور تین بچے ایک کچے مکان میں اکیلے رہتے ہیں۔ جن میں ایک ننھی سی پیاری سی گڑیا عائشہ بھی شامل ہے۔” مائیکل کی بات سن کر عبداللہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ تین دنوں میں پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار نظر آرہے تھے۔اہل و عیال کا نام سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ شاید وہ بچوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ دفعتًا مائیکل کی آواز سے اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ پڑا۔
“میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ بتانے آیا ہوں۔ ” مائیکل منہ پر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
“کیا چاہتے ہو تم لوگ……؟” عبداللہ کی گھٹی گھٹی آواز اس کے اندر موجود خوف کی ترجمانی کررہی تھی۔
“وہ تو تم جانتے ہو عبداللہ… خوامخواہ بات کو ادہر ادہر مت گھماؤ۔”
“میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کمانڈر کہاں ہے۔” عبداللہ نے بے بسی میں چیختے ہوئے کہا۔
“تمہیں شاید رابرٹ نے نہیں بتایا کہ تمہاری چیخیں اس کمرے سے باہر نہیں جاسکتیں۔”
“بکواس بند کرو……خدا کے لیے میرے بچوں کو کچھ مت کرنا۔” اس کی آنکھوں میں آنسو تیر آئے تھے۔ مائیکل کے آگے وہ گڑگڑا رہا تھا۔
“ہاہاہاہا……” زوردار قہقہے کی آواز سے پورا کمرا گونجنے لگا۔ “تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو کمانڈر کا پتہ بتاؤ یا پھر اپنے بچوں کو بھول جاؤ۔ ہمارا جدید ڈرون دو منٹ کے اندر اندرتمہارے کچے گھر کو ملبے کا ڈھیر بناسکتا ہے۔” مائیکل کی آنکھوں سے درندگی جھانک رہی تھی۔ بچوں کا نام سن کر عبداللہ کی حالت بدلنے لگی تھی۔ تین دن کے مسلسل تشدد کے باوجود اس نے زبان نہیں کھولی تھی۔ لیکن اہل و عیال کی فکر نے بالآخر اسے پھگلا ہی دیا۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا”کیا گارنٹی ہے کہ میرے بچوں کو کچھ نہیں ہوگا؟”
“تمہیں ہم پر یقین کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔”
عبداللہ نے ناچاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ مائیکل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوردار دھکے کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔ داخل ہونے والا مائیکل تھا۔ اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔ وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا عبداللہ کی طرف آرہا تھا۔
“دھوکے باز……” اس نے ٹیبل پر زور سے اپنے پنجے مارے۔ “تم نے اتنا بڑا دھوکہ دیا ہمیں…… تمہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔”
مائیکل کی آنکھیں آگ ابل رہی تھیں۔ وہ مارے غصے کے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ “ہمارے کئی سارے فوجی مارے گئے۔ اور تمہاری وجہ سے رابرٹ بھی قتل ہوگیا نالائق انسان……!” اس کی چیخیں کمرے کے اطراف میں گونج رہی تھیں۔
“چیخنا بند کرو مائیکل……! شاید تم بھول رہے ہو کہ اس کمرے کی دیواریں ساؤنڈ پروف ہیں۔” عبداللہ کے لہجے میں غضب کی سنجیدگی تھی۔
“اب تم بھی نہیں بچو گے……” مائیکل خونخوار بھیڑیے کی طرح اسے گھور رہا تھا۔ اس نے جیب سے پسٹل نکالااور اس کی پیشانی پر رکھتے ہوئے بولا “کیا کہنا چاہو گے؟”
“مائیکل! یہ بات ہمیشہ یادرکھنا کہ مجاہد کو کبھی بھی خریدا نہیں جاسکتا۔ اور اپنے باپ کو جاکر کہنا کہ مسلمانوں کے ایک بچے کو بھی اگر تکلیف پہنچی تو ہم تمہارا جینا حرام کردیں گے۔اور ہاں! میرا نام عبداللہ نہیں ہے……!” مجاہد کے الفاظ نے مائیکل کے بدن میں آگ لگادی۔ خصوصًا آخری جملے نے تو اس کو حیرت اور غصے میں مبتلا کردیا تھا۔ مارے غصے کے وہ چیخ رہا تھا۔مجاہد منہ پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اس کی بے بسی کا نظارہ کر رہا تھا۔دفعتًا گولی کی آواز سے پورا کمرہ گونج اٹھا۔ گولی مجاہد کی پیشانی کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ شہید کے خون کی خوشبو سے پورا کمرہ مہک اٹھا۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اس کے چہرے پر موجود فاتحانہ مسکراہٹ اس کی کامیابی کا پتہ دے رہی تھی۔
رحمت اللہ شیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک کرسی پر رسیوں میں جکڑا ہوا بندھا پڑا تھا۔ تین دن سخت تشدد کرنےکے باوجود بھی اس کی زبان نہیں کھلی تھی۔ جنرل رابرٹ جیسا طاقتور اور مضبوط جسم والا شخص بھی اس کی زبان کھلوانے سے قاصر تھا۔
“تم پرلے درجے کے بیوقوف ہو عبداللہ…! میں نے آج تک تم جیسا کم عقل نہیں دیکھا۔ پھر بھی میں تمہیں آخری موقعہ دینا چاہتا ہوں۔”
“تم میرا جواب بخوبی جانتے ہو رابرٹ… مجھے زندہ رکھنے سے تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔” اس نے پرسکون لہجے میں اسے جواب دیا۔
” بہت جلد تم پچھتاؤ گے عبداللہ…!” رابرٹ نے قہرآلود نگاہوں سے اس پر نظر ڈالی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک جنٹلمین کمرے میں داخل ہوا۔ کونے میں پڑی کرسی کو گھسیٹتا ہوا میز کے قریب لایا اور عبداللہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ عبداللہ اور اس کے درمیان ایک میز کا فیصلہ تھا۔
“میرا نام مائیکل ہے اور میں آپ……”
“اور آپ مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔” عبداللہ نے اس کی بات کاٹی ۔”یہی کہنا چاہتے تھے نا آپ…!؟”
“نہیں… میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ میں آپ کو ایک قیمتی مشورہ دینا چاہتا ہوں۔”
“ہونہہ…… یہی نا کہ میں آپ لوگوں سے سمجھوتا کرلو ں۔” عبداللہ نے لاپرواہی سے کہا۔
“نہیں مسٹر عبداللہ! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں… آپ تو اہل و عیال والے ہیں… میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی اور تین بچے ایک کچے مکان میں اکیلے رہتے ہیں۔ جن میں ایک ننھی سی پیاری سی گڑیا عائشہ بھی شامل ہے۔” مائیکل کی بات سن کر عبداللہ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ تین دنوں میں پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار نظر آرہے تھے۔اہل و عیال کا نام سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ شاید وہ بچوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ دفعتًا مائیکل کی آواز سے اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ پڑا۔
“میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ بتانے آیا ہوں۔ ” مائیکل منہ پر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
“کیا چاہتے ہو تم لوگ……؟” عبداللہ کی گھٹی گھٹی آواز اس کے اندر موجود خوف کی ترجمانی کررہی تھی۔
“وہ تو تم جانتے ہو عبداللہ… خوامخواہ بات کو ادہر ادہر مت گھماؤ۔”
“میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کمانڈر کہاں ہے۔” عبداللہ نے بے بسی میں چیختے ہوئے کہا۔
“تمہیں شاید رابرٹ نے نہیں بتایا کہ تمہاری چیخیں اس کمرے سے باہر نہیں جاسکتیں۔”
“بکواس بند کرو……خدا کے لیے میرے بچوں کو کچھ مت کرنا۔” اس کی آنکھوں میں آنسو تیر آئے تھے۔ مائیکل کے آگے وہ گڑگڑا رہا تھا۔
“ہاہاہاہا……” زوردار قہقہے کی آواز سے پورا کمرا گونجنے لگا۔ “تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو کمانڈر کا پتہ بتاؤ یا پھر اپنے بچوں کو بھول جاؤ۔ ہمارا جدید ڈرون دو منٹ کے اندر اندرتمہارے کچے گھر کو ملبے کا ڈھیر بناسکتا ہے۔” مائیکل کی آنکھوں سے درندگی جھانک رہی تھی۔ بچوں کا نام سن کر عبداللہ کی حالت بدلنے لگی تھی۔ تین دن کے مسلسل تشدد کے باوجود اس نے زبان نہیں کھولی تھی۔ لیکن اہل و عیال کی فکر نے بالآخر اسے پھگلا ہی دیا۔ وہ بار بار اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا”کیا گارنٹی ہے کہ میرے بچوں کو کچھ نہیں ہوگا؟”
“تمہیں ہم پر یقین کرنا ہی ہوگا۔ کیونکہ تمہارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔”
عبداللہ نے ناچاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ مائیکل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوردار دھکے کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔ داخل ہونے والا مائیکل تھا۔ اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔ وہ بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا عبداللہ کی طرف آرہا تھا۔
“دھوکے باز……” اس نے ٹیبل پر زور سے اپنے پنجے مارے۔ “تم نے اتنا بڑا دھوکہ دیا ہمیں…… تمہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔”
مائیکل کی آنکھیں آگ ابل رہی تھیں۔ وہ مارے غصے کے سانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ “ہمارے کئی سارے فوجی مارے گئے۔ اور تمہاری وجہ سے رابرٹ بھی قتل ہوگیا نالائق انسان……!” اس کی چیخیں کمرے کے اطراف میں گونج رہی تھیں۔
“چیخنا بند کرو مائیکل……! شاید تم بھول رہے ہو کہ اس کمرے کی دیواریں ساؤنڈ پروف ہیں۔” عبداللہ کے لہجے میں غضب کی سنجیدگی تھی۔
“اب تم بھی نہیں بچو گے……” مائیکل خونخوار بھیڑیے کی طرح اسے گھور رہا تھا۔ اس نے جیب سے پسٹل نکالااور اس کی پیشانی پر رکھتے ہوئے بولا “کیا کہنا چاہو گے؟”
“مائیکل! یہ بات ہمیشہ یادرکھنا کہ مجاہد کو کبھی بھی خریدا نہیں جاسکتا۔ اور اپنے باپ کو جاکر کہنا کہ مسلمانوں کے ایک بچے کو بھی اگر تکلیف پہنچی تو ہم تمہارا جینا حرام کردیں گے۔اور ہاں! میرا نام عبداللہ نہیں ہے……!” مجاہد کے الفاظ نے مائیکل کے بدن میں آگ لگادی۔ خصوصًا آخری جملے نے تو اس کو حیرت اور غصے میں مبتلا کردیا تھا۔ مارے غصے کے وہ چیخ رہا تھا۔مجاہد منہ پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اس کی بے بسی کا نظارہ کر رہا تھا۔دفعتًا گولی کی آواز سے پورا کمرہ گونج اٹھا۔ گولی مجاہد کی پیشانی کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ شہید کے خون کی خوشبو سے پورا کمرہ مہک اٹھا۔ اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اس کے چہرے پر موجود فاتحانہ مسکراہٹ اس کی کامیابی کا پتہ دے رہی تھی۔