اظہرالحق
محفلین
عمران کا کردار اتنا ہمہ جہت ہے کہ اس پر لکھنا بہت مشکل ہے ، اور پھر ابن صفی کی تخلیق جو ایک بڑے نثر نگار تھے ، بے شک مظہر کلیم نے بھی کافی انصاف کیا ہے اس کردار سے
میں نے کوشش کی ہے کہ اس کردار پر کچھ لکھوں ، جو بہت ہی مشکل کام ہے ، اور سچی میں دانتوں کو بلکہ انگلیوں کو پسینہ آ گیا ۔ ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک کوشش میں نے کی ہے ، شاید میرا تخیل کسی ایکسٹو کو اپنے ملک میں ڈھونڈھنا چاہتا ہے !!
آپکی آراء کا منتظر رہوں گا
----------------------------------------------------------
عمران کو اس دفعہ نئی ہی سوجھی تھی ، وہ پنجابی فلموں میں کام کے لئے اسٹوڈیو کے چکر لگا رہا تھا ، ان دنوں وہاں فلم “ووٹ گجر دا “ کی شوٹنگ چل رہی تھی جس میں مشہور اداکار “ذیشان“ گنڈاسہ لے کر گھر گھر سے ووٹ مانگنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ، اس کے ساتھ مشہور ہیروین تھی “پروین“ جسے انڈسٹری میں نیک پروین کے نام سے پکارا جاتا تھا ، پتہ نہیں کیوں ، حتہ کہ اس کی ساری فلمیں انتہائی “غیر فیملی“ تھی ۔ ۔ ۔ عمران اس وقت سیٹ پر موجود تھا ، اور ڈئریکٹر کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا ، جو اسے پچھلے دو دن سے سگرٹوں کی ڈبیاں نہیں ڈبے منگوا رہا تھا ، اس وقت بھی وہ ہیرو کو سین سمجھا رہا تھا
دیکھ پتر ، تو پینو کے گھر ووٹ مانگنے کے لئے جاتا ہے ، پینو کا پیو اور بھرا (بھائی) باہر آتے ہیں ، تو انہیں ووٹ کے لئے کہتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ووٹ ماجھے بدمعاش کو دیں گے ، تو انہیں پیسے کا لالچ دیتا ہے ، وہ دونوں آپس میں مشورہ کر کہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے وہ ووٹ تمہیں ہی دیں گے مگر حقیقت میں وہ ماجھے سے اور تم سے صرف دولت سمیٹنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ سمجھا کاکے ۔۔ ۔ یہ ڈائریکٹر کا تکیہ کلام تھا
سانڈ (وہ ساؤنڈ کو سانڈ ہی کہتے تھے ) ، کیمرا ۔ ۔ ۔ ایکشن
اوئے چاچے ، تو ووٹ مینو ای دینا اے
پر اسی ووٹ ماجھے بدمعاش نوں دواں گے ، چاچے کے پتر نے سینہ تان کہ کیمرے کو آنکھیں دیکھائیں
اوئے میرے علاقے اچ رہ کہ ووٹ بدمعاشاں نوں
تو کہیڑا شریف ایں ، سانوں اک ووٹ دے پنج ہزار مل رے نیں ، تے زنانیاں دے اٹھ ہزار ۔ ۔ ۔
اوئے میں تینوں دس دس ہزار دیاں گا ، پر یاد رکھ ، کہ نوٹ گجر دا تے فئیر ووٹ وی گجر دا ۔ ۔ ۔ ہا ۔ ۔
ذیشان نے “ہا“ اتنے زور سے کیا کہ اسے کھانسی آ گئی ۔ ۔ ۔ کٹ کی آواز سے سب ہیرو کی خبر گیری کو دوڑے ۔ ۔ ۔ اور اسے آرام چئیر پر بیٹھایا ، دوسرا سین ریڈی تھا ، پروین کا ، جو دروازے میں کھڑی اپنے گجر کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔
سب خاموش ۔ ۔ تھے پن ڈراپ سائیلنس ۔ ۔ ۔ ۔
کیمرا رول شروع ہوا ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ جو ہیروین کی طرف بڑھ رہا تھا اور پروین ماتھے پر ہاتھ رکھ کہ ڈائلاگ بول رہی تھی
وے گجرا ، میرا ووٹ تیرا ای اے ، میرے دل دی آواز سن تینوں آواز آئے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ
اور ہیروین صاحبہ اچھل پڑیں بلکہ سارا یونٹ ہی اچھل پڑا ۔ ۔ ۔ یہ آواز تھی عمران کے موبائیل کی ۔ ۔ ۔ اسنے آجکل یہ ہی رنگ ٹون سیلکٹ کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے فون ہاتھ میں لے کر کہا ۔ ۔ ۔ ہا ہا ہلیو ۔ ۔ ۔ مگر اسکے ساتھ ہی اسے ۔ ۔ اوے اینوں باہر سٹو ۔ ۔ ۔ ساتھ ہی دو پہلوان عمران کو دھکے دینے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری طرف بلیک زیرو تھا ۔ ۔ ۔ ۔
تم نے میری ساری شوٹنگ خراب کروا دی ۔ ۔ ۔ اوے آرام سے میں ٹوٹ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ مگر شاید پہلوان اسے سی آف کرنے کے موڈ میں تھے ۔ ۔ ۔ اسٹوڈیو کے گیٹ کے باہر انہوں نے اسے ایسے پھینکا کہ جیسے کوئی شریر بچہ پانی میں پتھر پھینکتا ہے ۔ ۔ ۔
میں کال فئیر آؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ عمران انہیں مکہ دیکھاتے ہوئے بولا ۔ ۔ ۔
عمران صاحب ، جتنی جلدی ممکن ہو رانا پیلس پہنچیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران نے اوکے کہ کہ فون بند کیا اور گاڑی کی طرف چل پڑا جو اسنے کافی دور کھڑی کی تھی کیونکہ وہ یہاں اپنے آپ کو ایک عام شوقین ظاہر کرتا تھا جو فلموں میں کام کے لئے اسٹوڈیو کے چکر لگاتا ہو ۔ ۔ ۔
اسٹوڈیو سے رانا پیلس تک پہنچتے اسے چار گھنٹے لگ گئے تھے کیونکہ اسٹوڈیو دوسرے شہر میں تھا دارلحکومت میں فلم انڈسٹری نہیں تھی ۔ ۔ ۔
رانا پیلیس پہنچ کر وہ سیدھا کنٹرول روم پہنچا جہاں بلیک زیرو نے اسکے اٹھ کر استقبال کیا ۔ ۔ ۔ ۔
کیا ہوا، تم اتنے زیادہ ٹنس کیوں ہو ۔ ۔ ۔
بات ہی ایسی ہے عمران صاحب
کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ بلیک زیرو نے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی کو ریموٹ سے آن کیا اور اس پر ایک نیوز چینل کا پروگرام چلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس میں ایک خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کا انٹرویو چل رہا تھا ، وہ کہ رہا تھا کہ ہماری سیکرٹ سروس صرف اپنے ملک کے خلاف ہی کام کرتی ہے ، اسکا ایک ایک شخص بکا ہوا ہے ، ہر ایک ممبر کسی نہ کسی پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے اور کیونکہ وہ لوگ سامنے نہیں آتے اسلئے وہ سیاست دانوں کے ساتھ ملکر غیر ملکی سازشوں کا حصہ بنتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایکسٹو اسلئے سامنے نہیں آتا کہ وہ ایک پرانا مجرم ہے اگر وہ سامنے آ جائے تو اسے قانون سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ۔ ۔
عمران کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا ، وہ اس افسر کو اچھی طرح جانتا تھا ، وہ ایک رشوت خور اور بد کردار آدمی تھا ، مگر خوشامدی ہونے کی وجہ سے اور سیاست دانوں سے میل جول کی وجہ سے وہ بہت زیادہ مشہور تھا ۔ ۔ ۔ مگر آج اسکی باتیں سن کر عمران کی کھوپڑی گھوم چکی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسنے فون اٹھایا ، اور سر سلطان کے نمبر ملائے
پی اے ٹو فارن سیکٹری ۔ ۔ ۔ آواز آئی
ایکسٹو ۔ ۔ ۔ ۔ سر سلطان پلیز
جج جج ۔ ۔ ۔ پی اے کی جیسے جان نکل گئی
سلطان ہیر ۔ ۔ ۔
سر سلطان ، ابھی اسی وقت میں صدر اور وزیر اعظم اور فوج اور ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔
مگر کیوں ۔ ۔ ۔
سر سلطان ۔۔ ۔ کوئی سوال نہیں ، آپ سب کو آگاہ کریں ۔ ۔
مگر صدر صاحب باہر ہیں ۔ ۔ ۔ اور وزیر اعظم شہر میں نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
انہیں ہم ہاٹ لائین سے ۔ ۔ ۔ لنک کر لیں گے ۔ ۔ ۔
آج تو نہیں کل ہو سکے گی یہ میٹنگ ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے ، کل صبح دس بجے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران نے ریسور رکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکا چہرہ غصے سے اکڑ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ بلیک زیرو ایک ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس لے کر آیا ۔ ۔ ۔ عمران نے بوتل ہی لیکر منہ سے لگا لی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
------------------------------------------------------------------
ایوان صدر میں ہلچل مچی ہوئی تھی ، ملک کی سیاسی اور فوج قیادت سب کی سب میٹنگ میں آ رہی تھی ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد پروٹوکول کے ساتھ کوئی نہ کوئی حکمران یا افسر آتا اور اتنی تیزی سے اتر کہ اندر جاتا جیسے کوئی انکے پیچھے لگا ہوا ہو ۔ ۔ ۔ یہ سب لوگ ایک بڑے ہال میں جمع ہو رہے تھے ہر ایک کرسی پر اس شخصیت کا اسٹیکر چسپاں تھا جسے ایک رہبر اس تک رہمنائی اور اسٹیکر کو اپنی جیب میں رکھ کر پر تکلف طریقے سے افسروں اور حکمران شخصیات کو بٹھا رہا تھا ۔ ۔ ۔
سب لوگوں آمد مکمل ہو چکی تھی مگر سب لوگ خاموش تھے حتہ کہ آپس میں بات بھی نہیں کر رہے تھے ، سر سلطان سب سے آخر میں آئے اور وزیر خارجہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے ۔ ۔
ابھی تک ایک کرسی خالی تھی جس پر ایکسٹو نے آنا تھا ، صدر اور وزیر اعظم کی کرسیاں بڑی تھی اور مرصع بھی تھیں ، ہال کے سارے دروازے بند ہو چکے تھے ، سب کی نظریں صدر اور وزیر اعظم کی کرسیوں کے پیچھے والے دروازے پر تھیں ، صدر اور وزیر اعظم آج ہی اپنے دورے مختصر کر کہ دارلحکومت پینچے تھے ، دروازہ کھلنے کی آواز آئی ، سب کھڑے ہونے کے لئے ریڈی ہوئے ، مگر وہاں سے دو خادم صدر اور وزیر اعظم جیسی مرصع کرسی لے کر برآمد ہوئے ، اور اسے ان دو کرسیوں کے ساتھ رکھ دیا گیا ، سب کی نظروں میں الجھن نظر آنے لگی یہ تیسری کرسی کس کی ہے ؟ دونوں خادم واپس جا چکے تھے ، دروازہ ایک بار پھر کھلا اور ایکسٹؤ اپنی روایتی شان سے چلتا ہوا اپنی کرسی کی طرف بڑھا ، سب نے کھڑے ہو کر اسے تعظیم دی ، اور ایکسٹو اپنی کرسی پر براجمان ہو گیا ، ابھی لوگ صحیح سے بیٹھے نہیں تھے کہ دربان نے دروازہ پھر کھولا اور وزیر اعظم پروقار طریقے سے اپنی کرسی کی طرف بڑھے ، خادم نے کرسی کھسکا کر وزیر اعظم کو بیٹھایا ، سب لوگ کھڑے ہوئے تھے مگر ایکسٹو بیٹھا رہا ، مگر اسنے وزیر اعظم کو سر کے اشارے سے سلام کیا تھا ، وزیر اعظم کے چہرے پر سنجیدگی تھی ، سب لوگ بیٹھ چکے تھے ، اب صدر صاحب کا انتظار تھا ، سب کو حیرانی تھی کہ وزیر اعظم صدر کے ساتھ کیوں نہیں آئے ایسی میٹنگ میں دونوں اکھٹھے ہی آتے تھے ، وزیر اعظم بار بار چور نظروں سے ایکسٹو کو دیکھ رہے تھے ، کہ دروزہ پھر کھلا اور صدر صاحب ایک سفید فام غیر ملکی کے ساتھ نظر آئے سب کھڑے ہو چکے تھے ،ایکسٹو بیٹھا رہا مگر اسکی آنکھوں میں پہلے حیرانی آئی اور پھر آنکھیں شعلے اگلنے لگیں ۔ ۔ ۔ صدر صاحب اپنی کرسی کے آگے کھڑے ہو چکے تھے ، انکے ساتھ آنے والا امریکی سفیر تھا جو صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو بیٹھنے کو کہا ، ابھی سب بیٹھ ہی رہے تھے ، کہ ایکسٹو کی گوجیلی آواز سنی تھی ، ٹھہریے مسٹر پریزڈنٹ ، یہ میٹنگ میں نے بلائی ہے اور اس میں امریکی سفیر کی موجودگی نہیں چاہیے ، صدر صاحب نے گھور کر ایکسٹو کو دیکھا اور پرغرور لہچے میں کہا ، مسٹر ایکسٹو ، بےشک میٹنگ آپ نے کال کی ہے ، مگر سفیر صاحب نے خصوصی ریکوسٹ کی تھی ، اس میٹنگ میں شرکت کے لئے ۔ ۔ ۔
کیوں ؟ یہ ہماری خودمختاری میں مداخلت ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بات کاٹتے ہوئے کہا
ٹمہارا خوڈ مخٹاری اب ہمارے ہینڈ میں ہے ، مسٹر ایکسٹو ۔ ۔۔ صدر صاحب کے جواب دینے سے پہلے ہی سفیر نے اردو میں بولا
مسٹر ایکسٹو آپ جانتے ہیں کہ ہماری تمام حکمت عملیاں اب امریکہ کی مرہون منت ہیں ۔ ۔ ۔ یہ ہمارے دوست ہیں ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہنا چاہا ۔ ۔ ۔ مگر ایکسٹو نے پھر بات کاٹ دی
جناب وزیر اعظم صاحب میرا ملک آزاد ہے ، ہم انکے نہیں یہ ہمارے مرہون منت ہیں ، اور آجکی میٹنگ میں نے اندرونی خلفشار کے لئے بلائی ہے ، جسکی بڑی وجہ امریکہ ہے ۔ ۔
وہ ہی تو ہم جاننا چاہتے ہیں مسٹر ایکسٹو ، ہم اس انارکی کے کیسے ذمے دار ہیں ۔ ۔ ۔ سفیر نے اس دفعہ انگریزی میں کہا شاید اسے اردو میں مناسب الفاظ نہیں مل پائے ۔ ۔ ۔
آپ جانتے ہیں مسٹر ۔ ۔ ۔ اب میں آپکو برداشت نہیں کروں گا مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں ۔۔
یہ میری بے عزتی ہے ۔ ۔ ۔ مسٹر پریزیڈنٹ ۔ ۔ ۔
مسٹر ایکسٹو ، سفیر صاحب میٹنگ میں شریک ہونگے ، یہ میرا حکم ہے ۔ ۔ ۔
مسٹر پریزیڈنٹ ، ریڈ فائیل ۔ ۔ ۔ ۔
ریڈ فائیل کی ایسی کی تیسی ۔ ۔۔ صدر صاحب اس دفعہ غصے میں آ گئے تھے ۔ ۔ ۔
سر سر ۔ ۔ وزیر اعظم نے جلدی سے صدر صاحب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ، مسٹر ایکسٹو آپ پہلے سفیر صاحب کے ساتھ میٹنگ کر لیں اور پھر ہم کر لیں گے ۔ ۔ ۔ ۔
میں اس میٹنگ کا حصہ نہیں ہونگا ۔ ۔ صدر صاحب نے فوراَ لقمہ دیا ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو جو عمران تھا ۔ ۔ ۔ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر میٹنگ شروع کی جائے ۔ ۔ وزیر اعظم نے التجایہ نظروں سے ایکسٹو کی طرف دیکھا ، عمران سمجھ چکا تھا کہ سفیر نے صدر صاحب کو رام کر لیا ہے جبکہ وزیر اعظم کو مجبور کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
ضرور ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے ہاتھ اٹھا کہ کہا ۔ ۔ ۔
جی مسٹر ایکسٹو ، آپ نے یہ ہائی پروفائیل میٹنگ کیوں کال کی ، صدر صاحب نے ایکسٹو سے پوچھا ۔ ۔
پہلے میٹنگ تو شروع کریں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
میٹنگ شروع ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے کہا ۔ ۔
نہیں ۔ ۔ ابھی شروع نہیں ہوئی با قاعدہ شروع کی جائے ۔ ۔ ۔
مم مم میں سمجھ گیا ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہا اور کہا زعفرانی صاحب آپ تلاوت کریں ۔ ۔ ۔ انکا اشارہ وزیر خارجہ کی طرف تھا جو اکثر میٹنگ میں تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔
صدر اور سفیر کے منہ سے صرف اوہ نکل سکا ۔ ۔ ۔
دوسری طرف سر سلطان کے ہونٹوں پر عجیب سہ مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
تلاوت کے بعد ایکسٹو نے کہنا شروع کیا ۔ ۔ ۔
پچھلے ایک سال سے جب سے نئی حکومت بنی ہے ، اور فوج کا عمل دخل کم ہوا ہے حکومت میں ، کچھ عناصر میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ہماری فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف عوام میں پروپگنڈا کر رہے ہیں ، اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کالی بھیڑوں نے جنہیں ملک دشمن قوتوں نے خریدا ہوا ہے ، یہ کہتے ہوئے ایکسٹو نے نقاب سے سفیر کو آگ برساتی نظروں سے دیکھا ، سفیر صرف کرسی پر کسمسا کر رہ گیا ، ایکسٹو نے بات جاری رکھی ، ہماری خفیہ ایجنسیاں ملک کی حفاظت اور وقار کے لئے اپنی جان پر کھیل رہی ہیں اور ہم ان پر الزام لگا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
صدر صاحب نے ٹوکا ، مسٹر ایکسٹو ، الزام لگانے والے بھی ایجنسیوں کے ہی لوگ ہیں
وہ خریدے ہوئے ہیں ، ایکسٹو نے جواب دیا
جو بک سکتے ہیں وہ ہی خریدے جاتے ہیں مسٹر ایکسٹو اس بار وزیر داخلہ نے جواب دیا
میں انہیں لوگوں کو سزا دینا چاہتا ہوں جو بکتے ہیں اور خریدتے ہیں ۔ ۔ ۔
اسکلئے ہمارے ملک میں قانون موجود ہے ، وزیر داخلہ نے بحث شروع کر دی
منسٹر صاحب ، آپ ایکسٹو کو انکا موقف پیش کرنے دیں ، وزیر اعظم نے ماحول کو دیکھتے ہوئے بات کاٹی
میں جانتا ہوں کہ قانون ان لوگوں کی گرفت کر سکتا ہے ، مگر نہیں کر رہا ، یہ لوگ ہماری ایجنسیوں کو بدنام کر رہے ہیں
وہ صرف ایجنسیوں کو نہیں بلکہ ہم سیاست دانوں کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں اگر گرفت کروں گا تو چاہے کوئی بھی ہو اسکی پکڑ ہو گی
ٹھییک ہے آپ کے پاس کیا لاحہ عمل ہے مسٹر ایکسٹو
مجھے ان لوگوں سے پوچھ گوچھ کی اجازت دی جائے ، ایکسٹو نے ایک لسٹ وزیر اعظم کو دی
یہ ۔ ۔ ۔ یہ یہ تو بہت اہم لوگ ہیں ، آپ جانتے ہیں مسٹر ایکسٹو کہ ہم کسی بھی فارن مشن کو ایسے انٹروگیٹ نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔
مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ لوگ ملوث ہیں
مگر ثبوت ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے پوچھا
ثبوت موجود ہیں ، مگر عدالت یا حکومت اسے قبول نہیں کرے گی ، آپ کو معلوم ہے تصاویر اور وڈیو کے قانون میں ترمیم کی وجہ سے یہ ثبوت قابل قبول نہیں رہے
اوہ ۔ ۔ تو یہ بات ہے ، یہ ۔ ۔ ۔یہ کیا ۔ ۔ اس میں آپ نے مولانا صاحب کا نام بھی لکھ دیا ہے ، آپکو پتہ ہے کہ اس سے کتنا بڑا پرابلم ہو سکتا ہے ۔۔
پرابلم ہی تو ختم کرنا چاہتے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ دیکھیے مسٹر ایکسٹو ، ہم مفاہمتی حکومت چلا رہے ہیں ہم کسی کے ساتھ اپنے ریلیشن خراب نہیں کریں گے ۔ ۔ دیٹس آل ۔ ۔ صدر صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا
ٹھیک ہے ، آپ کے لئے اگر مشکل ہے تو میرے لئے مشکل نہیں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
مگر آپ کسی فارن مشن کو تنگ نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے تنبیہ کی
فارن مشن کا ایک ہی مشن ہے وہ ہے ہمارے وطن کی تباہی ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے وطن کا محافظ ہوں
ہم سب محافظ ہیں ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہا
محافظ غیروں کو اپنا ملک نہیں دیتے ایکسٹو نے امریکی سفیر کی دیکھ کر کہا
ہمیں عالمی برادری میں عزت سے رہنا ہے اور ہمارے دوست ملک ہماری مدد کر رہے ہیں ، صدر صاحب نے کہا
یہ مدد ہے ، ہمارے محافظوں کو خریدا جا رہا ہے ، ملک میں انارکی پھیلائی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
اس کے لئے ہم خود بھی ذمے دارہیں وزیر خارجہ نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔
جی نہیں صرف لیڈران ذمہ دار ہیں ، عوام نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بھی تیز لہجے میں کہا
عوام کو صرف ریلیف چاہیے ، صرف ریلیف کہاں سے ملتا ہے اسے ان سے کوئی مطلب نہیں ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے کہا ۔ ۔
نہیں عوام عزت سے جینا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مسٹر ایکسٹو ۔ ۔ ۔ یہ بحث کا وقت نہیں ، آپ کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، دس میٹنگ از اڈجرن ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا
سب اٹھ کھڑے ہوئے ، مگر ایکسٹو بیٹھا رہا ، مسٹر پریزیڈنٹ میں ریڈ فائل کے سیکنڈ رول کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کروں گا
ریڈ فائل ریڈ فائل ریڈ فائل ۔ ۔ ۔ ۔ مسٹر ایکسٹو یہ عوامی حکومت ہے ، سب محب وطن ہیں ، آپ کو من مانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ، اور آپ جس کے بل بوتے پر اچھل رہے ہیں ، کل ہی وہ ریڈ فائل کو ڈسمس کر دیا جائے گا پارلیمنٹ کے تھرو ۔ ۔ ۔
سر ۔ ۔ ۔ سر سلطان نے پہلی بار زبان کھولی ، ریڈ فائل کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا ، آپ کو معلوم ہے ۔ ۔ ۔
مسٹر سلطان ، آئی ڈونٹ کئیر ، میں ملک کا صدر ہوں ۔ ۔ ۔ اور ہماری پارٹی کی حکومت ہے ، ہم جو چاہیں گے کریں گے ۔ ۔ ۔ انڈر سٹینڈ یو ۔ ۔
وزیر خارجہ نے جو صدر صاحب کے قریب آ چکے تھے ، انکے کان میں کچھ کہا ۔ ۔ ۔
اوہ ۔ ۔ مسٹر سلطان ، آپ سے سیکرٹ سروس کا چارج واپس لیا جا رہا ہے ، آپ کو آرڈر مل جائے گا
سر سیکرٹ سروس کو ملٹری انٹیلی جنس میں مدغم کر دیں ، وزیر خارجہ نے چاپلوسی سے کہا ۔ ۔
ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔
ٹھیک نہیں ہے مسٹر پریزیڈنٹ ، چیف آف آرمی اسٹاف نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری سیکرٹ سروس کے کارنامے ساری دنیا میں مشہور ہیں ، یہ ٹیم بہت مختلف ہے ۔ ۔ ۔ میں ایکسٹو کی بات کی حمایت کروں گا ۔ ۔ ۔ سب لوگ ایک بار پھر کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب کے بیٹھتے ہی
مسٹر چیف ، آپکا سیکرٹ سروس ہمیں بھی بہت دسٹرائے کر چکا ہے ، سفیر نے بولا
آپکی کرتوتوں کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسٹر پریزیڈنٹ ، اگر آپکی سیکرٹ سروس نے ہمارے کسی بھی پلان کو نقصان پہنچایا تو ، ہم آپ پر پابندیاں لگا دیں گے ۔ ۔ ۔ اس بار وہ انگریزی میں بولا تھا
مسٹر سفیر آپ کو ایسی بات کہنا اچھا نہیں لگتا ، سر سلطان نے اس بار سخت لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔
مسٹر سلطان ، یہ ایک سپر پاور کے سفیر ہیں ، آپ کو انکے رتبے کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ۔
اس سپر پاور کو ہماری ضرورت ہے سر ، سر سلطان نے سمجھانے والے انداز میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ میٹنگ ختم ہو چکی ہے ، جو میں نے کہ دیا وہ ہی ٹھیک ہے ، اور مسٹر سلطان ، آپکو کل سے رئٹائرمنٹ لیو دی جا رہی ہے
ٹھیک ہے ، میں بھی اپنا استعفٰی پیش کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے ایک پیپر صدر صاحب کی طرف بڑھایا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اٹھ کر تیز قدموں سے باہر نکل گیا ، سر سلطان اور آرمی چیف اسکے پیچھے بھاگے مگر وہ نکل چکا تھا ، سر سلطان دل کے مریض تھے اس لئے ہانپنے لگے ، آرمی چیف نے انہیں سہارا دیا ۔ ۔ ۔
صدر اور سفیر بھی باہر چلے گئے ، وزیر اعظم کو سب نے گھیر لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم کے چہرے پر بے بسی جیسے چپک گئی تھی ۔ ۔ ۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
رانا ہاؤس میں سیکرٹ سروس کے سب ممبر موجود تھے ، سب کی نظریں سامنے کے اسپیکر پر لگی ہوئیں تھیں ، عمران موجود نہیں تھا ۔ ۔
اتنی ایمرجنسی میٹنگ رات کے دو بج رہے ہیں ، تنویر کو غصہ آ رہا تھا کہ انہیں سوتے میں کیوں اٹھایا گیا
کچھ تو ایسا ہے ورنہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ، جولیا نے پریشان کن لہجے میں کہا
مجھے تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے ، کیپٹن شکیل نے صفدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
جواب میں صفدر نے سر ہلا دیا ۔ ۔ ۔
اتنے میں اسپیکر سے سیٹی کی آواز نکلی اور ساتھ ہی سامنے کی دیوار میں ایک دروازہ پیدا ہوا اور ایکسٹو برآمد ہوا ۔ ۔ ۔ اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا
سب ممبر کی آنکھیں حیرت سے پر تھیں ایکسٹو کبھی بھی ایسے میٹنگ نہیں کرتا تھا ، اسکا مطلب تھا کہ کوئی خاص ہی بات ہے صفدر نے سوچا
ایکسٹو نے سب کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ۔ ۔
میں نے سیکرٹ سروس سے استعفٰی دے دیا ہے
استعفٰی ۔!!!!!!
سر سلطان کو جبری رئٹائیر کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
جج ۔ ۔ جج جی ۔ ۔ ۔ سب کی زبانیں جیسے کنگ ہو گئیں تھیں
سیکرٹ سروس کو محکمہ خارجہ سے ملٹری انٹیلی جنس کے انڈر کیا جا رہا ہے
اوہ ۔ ۔ ۔
آپ ممبران کی سروسز ملٹری سیکرٹ سروس کو دی جا رہی ہیں
کیا ۔ ۔ ۔ سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا ۔ ۔۔ ۔ ۔
آپکے پاس اختیار ہے کہ آپ مستفعی ہو جائیں یا ملٹری سیکرٹ سروس جوائن کر لیں
میں ریزائن کر دونگی ۔ ۔ ۔ جولیا نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا
ہم بھی ۔ ۔ ۔ ۔ سب نے ایک ساتھ کہا
نہیں سوچ سمجھ کہ فیصلہ کرو ۔۔ اوکے ۔ ۔ ۔ گڈ بائے ۔ ۔ ۔ اور گڈ لک ۔ ۔ ۔ میں دو دن تک اپنے نمبر پر موجود ہوں ۔۔ ایکسٹو اٹھا اور اسی خفیہ دروزاے سے واپس چلا گیا
----------------------------------------------------------
سب کے چہرے سُتے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔۔یہ یہ یہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
ملک کے حالات خراب ہیں اور ہم لوگ اپنے کام کو چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ نا ممکن ۔ ۔ ۔ میں تو ملٹری سروس کو جوائن نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ صدیقی نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔
مگر ایسا ہوا کیوں ۔ ۔ ۔ صفدر نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔ ۔
اس کیوں کا جواب صرف عمران دے سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اوہ عمران میٹنگ میں بھی نہیں آیا ، تنویر نے چونکتے ہوئے کہا ۔ ۔
یہ سرکاری میٹنگ تھی عمران سیکرٹ سروس کا ممبر نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چلو اسی کے پاس چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پہلے اپنے استعفے تو لکھ دو ۔ ۔
ابھی دو دن ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ چلو ۔ ۔ ۔ صفدر نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔
اور سب جولیا کی فور وہیلر میں لد کر عمران کے فلیٹ پر پہنچے ۔ ۔ ۔ عمران جو رانا ہاؤس کے کنٹرول روم میں یہ سب دیکھ رہا تھا انے روانہ ہونے کے بعد اپنی سپورٹ کار کو جولیا کی گاڑی کے پیچھے لگا دیا ۔ ۔ ۔ ایسے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوا اور عمران ان سے پہلے فلیٹ کے نیچے کھڑا ہو چکا تھا ۔ ۔
جب سب اسکے فلیٹ کے دروازے پر پہنچے عمران نے پیچھے سے آواز لگائی ۔ ۔ ۔ ارے ارے ۔ ۔ یہ میرے گھر پر حملہ کیوں کر رہے ہو ۔ ۔ ۔۔
عمران ۔ ۔ ۔ تم کدھر تھے ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ میں تو ادھر ہی تھا ۔ ۔ ۔
اچھا تھوڑی دیر میں سب اسکی ڈراینگ روم میں نظر آئے ، سلمان نے چائے کی ٹرالی لا کر سایڈ پر کھڑی کی تھی اور سب کو چائے بنا کہ دے رہا تھا ۔ ۔ ۔
ہوں ۔ ۔ ۔ تو تم نے بھی سیکرٹ سروس چھوڑ دی ۔ ۔ ۔ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا ۔ ۔ اب تم بھی میری طرح سلمان کی مونگ کی دال کھاؤ گے ۔ ۔ ۔
عمران ہم تمہارے پاس وجہ جاننے آئے ہیں ، تمہاری بکواس سننے نہیں ۔ ۔ ۔ تنویر نے بھنائے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
اوہ اچھا ۔ ۔ میں تو سمجھا تھا کہ تم لوگ باراتی ہو ، میں تو ابھی چھوارے منگوانے والا تھا ، صفدر کو خطبہ یاد ہو گیا ہے ، کل ہی میں نے سنا تھا ۔ ۔
عمران وجہ بتاؤ ۔ ۔ اس بار جولیا نے پوچھا
لو جی ، وجہ خود کہ رہی ہے وجہ بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔
بھاڑ میں جاؤ ۔ ۔ ۔ میں خود کُش لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔
کیسے کرو گی ۔۔ ۔ عمران نے منہ میں چیونگم ڈالا اور چائے کی پیالی کو منہ سے لگا لیا ۔ ۔ ۔ اور پھر چیونگم کا منہ سے غبارہ بنایا ۔ ۔ جس میں چائے بھی نظر آ رہی تھی ۔ ۔ ۔
یہ کیا بے ہودگی ہے ، جولیا نے منہ پھیر کر کہا ۔ ۔ ۔ تو عمران نے اتنی تیزی سے غبارہ منہ کے اندر لیا اور ایسے لگا کہ جیسے اسنے اسے نگل لیا ہو ۔ ۔
عمران صاحب یہ سنجیدگی کا وقت ہے ، کیپٹن شکیل نے اس دفعہ بے بسی سے کہا
اچھا عمران نے بیٹھ کر کہا ۔ ۔ ۔ اور ایسے منہ بنا لیا کہ سب کو بے اختیار ہنسی آ گئی ۔ ۔ ۔
ہاں اب بتاؤ کیا مسلہ ہے ۔ ۔ ارے اس چوہے نے تم لوگوں کی جان چھوڑ دی اس سے اچھی بات کیا ہے ۔ ۔ ۔
عمران ہم وجہ جاننا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
کیا تم نے آج کے اخبار نہیں پڑھے ۔ ۔ ۔ عمران نے ایک اخبار سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر سامنے رکھ دیا
اخبار میں سر سلطان کی رئٹائرمنٹ کی خبر تھی اور لکھا تھا کہ کل کی میٹنگ میں کچھ خفیہ ایجنسیوں کی کاروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے صدر کی طرف سے ۔ ۔
اس میٹنگ میں سپر پاور کا سفیر بھی موجود تھا ۔ ۔ ۔ جسکا ذکر نہیں ہے ۔ ۔
اوہ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا یہ ملک کے شمال میں جو کچھ ہوا ہے اور آج کل جو فوج کے خلاف ہو رہا ہے وہ وجہ ہے
ہاں ۔ ۔ عمران نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ابھی وہ کچھ کہنے والا ہی تھا کہ سلمان نے دروازے پر آ کر آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ ۔۔ ۔
عمران فوراَ اٹھا ۔ ۔ ۔ سلمان نے آنکھوں سے اسکے پرائیویٹ روم کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ جسکا چھوٹا سا ریڈ بلب جل رہا تھا
اوہ ۔ ۔ ۔ عمران تیزی سے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے سامنے پڑے ہوئے سرخ فون کو اٹھا لیا ، ہاں طاہر کیا بات ہے ۔ ۔
عمران صاحب ، چیف آف آرمی اسٹاف آپ سے فوراَ ملنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
مجھ سے یا ایکسٹو سے ۔ ۔ ۔
عمران صاحب آپ سے ۔ ۔ ایکسٹو تو اب نہیں رہا ۔ ۔ ۔ آپ نے ہی تو ایکسٹو کا نمبر ریکارڈنگ پر لگا دیا ہے ، اسی میں پیغام ملا ہے
اوہ ۔ ۔ اوکے ۔ ۔ ۔ ۔ ریسور رکھ کر اسنے دوبارہ اٹھا کر نمبر ڈائل کئے
جی ایچ کیو ڈسک ،
چیف سے بات کروائیں ، دس از عمران ۔ ۔ ۔
اوہ سر ۔ ۔ وہ آپکے فون کا ویٹ کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔
ہیلو ۔ ۔ ۔ چیف کی آواز آئی
عمران ہیر ، عمران اس چیف کی دل سے عزت کرتا تھا اسلئے اسنے اپنی عمرانیات سے ہٹ کہ بات کی
عمران مجھ سے ملو ، جتنی جلدی ممکن ہو ۔ ۔
اوکے ۔۔ ۔ عمران نے ریسور رکھ دیا ۔ ۔ ۔اور روم سے باہر آ گیا ۔ ۔ ۔
چوہے کے شیرو ، مجھے ابھی جانا ہے پھر بات ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔
شیر ابھی کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران ٹاٹا کہ کہ باہر نکل گیا ۔ ۔ ۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
عمران کو آرمی چیف سے پتہ چلا تھا کہ امریکی حکومت اس دفعہ سیاسی طور پر کمزور حکومت کو سہارا دینے کا لالچ دے کر اپنے قدم جمانا چاہ رہی ہے ، اور اسکا ہدف ملک کی ایٹمی تنصیبات ہیں ، اور صدر صاحب کو پہلے سے ہی رام کیا جا چکا تھا کہ ایکسٹو کی ٹیم کو ختم کیا جائے ، مگر وزیر اعظم اس کے مخالف تھے ، چونکہ صدر کے پاس وزیر اعظم کو ہٹانے کے اختیارات تھے اسلئے وزیر اعظم نے مزید سیاسی طوفان سے بچنے کے لئے چُپ ہی میں عافیت جانی تھی ، ویسے بھی وہ کابینہ کے کرپٹ وزیروں کے دباؤ میں تھے جو ایوان صدر کے ہر وقت طواف کرتے تھے ، آرمی چیف نے ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق بتایا تھا کہ امریکہ اپنے سفارت خانے کی توسیع کر کہ اس میں بہت ہی اعلٰی درجے کی مشینری نصب کر رہا تھا جسکی مدد سے وہ ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھ رہا تھا ، حکومت نے سفارت خانے کی توسیع کے احکامات دے دئیے تھے ، اور مشینری بحری جہازوں پر نئی مغربی بندرگاہ پر پہنچایا جا رہا تھا ، یہ اطلاعات چیف کو چین کے توسط سے بھی کنفرم ہوئیں تھیں ، جہاں پر امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ موجود تھا ، چینی حکومت نے حال ہی میں کتنی ہی سازشیں پکڑی تھیں جن میں سفارت خانے کے ملوث ہونے کے ثبوت تھے ، مگر چین اس وقت اپنی اقتصادی قوت کی وجہ سے ان سازشوں کو اچھال نہیں رہا تھا ۔ ۔ ۔
عمران کو نہ صرف اس مشینری کو دارلحکومت تک پہنچنے سے روکنا تھا بلکہ اسکی تنصیب کے بارے میں بھی ثبوت دینے تھے ، یہ سب مشینری سفارتی پیکچ کے طور پر آ رہی تھی اسلئے نہ تو اسکی کوئی چیکنگ تھی نہ ہی کوئی پوچھ گوچھ ۔ ۔ ۔ پھر ملک کے حالات اور مشرقی اور مغربی سرحدوں کی وجہ سے بھی کافی زیادہ مشکلات تھیں ۔ ۔۔ عمران نے آرمی چیف سے کچھ معلملات طے کئے ۔ ۔ ۔ جنہیں ایکسٹو نے کنفرم کیا تھا ۔ ۔ ۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسرے دن عمران دارلحکومت کے مرکزی چوک پر کھڑا میگا فون سے امریکی حکومت کو گالیاں دے رہا تھا ۔ ۔ ۔
میرے ہموطنوں ، تمہارے اوپر قرضہ ڈال دیا ہے ، اے بھائی اسنے ایک مریل سے مزدور کو پکڑا ، تمہیں پتہ ہے تہمارے اوپر کتنا قرضہ ہے
ہاں جی ، طیفے کے دو سو اور مامے کے پچاس روپے ۔ ۔ ۔
نہیں تمہارے اوپر تیس ہزار روپے کا قرض ہے ۔ ۔
نہ نہ جی ۔ ۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں تیس ہزار روپے نہیں کمائے تو قرض کدھر سے
امریکہ سے
امریکہ تو گیا ہی نیں
تم نہیں سمجھو گے ۔ ۔ تم سب پر تیس ہزار کا قرض ہے ۔ ۔ ۔ سب ہنسنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک نوجوان آگے بڑھا ، تو قرض کون چکائے گا ۔ ۔ ۔
یہ مزدور ۔ ۔
یہ جو خود فاقے کر رہا ہے قرض چکائے گا ۔ ۔ ۔
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ پولیس کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا ۔ ۔ سب لوگ تتر بتر ہو گئے ۔ ۔ عمران اکیلا کھڑا رہا ۔ ۔ ۔
مگر جیسے ہی پولیس کی وین اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی وہ بھاگ کھڑا ہوا ۔ ۔ ۔ اور ایک گلی میں مڑ گیا جہاں پر کرائم رپورٹر انور اپنے اسکوٹر پر ریڈی تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ گلیوں کے اندر سے ہوتے ہوئے رانا ہاؤس جا پہنچے ۔ ۔ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
روشی کو امریکی سفارت خانے میں آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا ، عمران نے اسے سفارت خانے کی نوکری کرنے کو کہا تھا ، سفارت خانے کی طرف سے توسیع کی وجہ سے نئی اسامیوں پر بھرتی ہو رہی تھی ، روشی کو اسکے گورے اور ماڈرن لُک کی وجہ سے فوراَ جاب مل گئی اور ویسے بھی اسکے پیچھے عمران کے ایک امریکی دوست کی سفارش بھی تھی ۔ ۔ روشی کو ثقافتی اتاشی کی سیکریٹری کی جاب ملی تھی ، روشی نے تھوڑے ہی دنوں میں اتاشی کو شیشے میں اتار لیا تھا ، ثقفاتی اتاشی جو ایک پرانی منجھی ہوئی سیکرٹ ایجنٹ تھی ، اسے خصوصی طور پر ہدایات دی گئیں تھیں کہ وہ عوام میں ملے جلے ، اور عوام کی سوچ کو امریکی حکومت تک پہنچاتی رہے ۔ ۔ ۔ روشی نے خود کو عمران کی ہدایات کے مطابق کافی سے زیادہ بولڈ اور مغربی تہذیب کا دلدادہ ظاہر کیا تھا ، اور وہ اپنے اسٹائل سے لگتی بھی تھی ۔ ۔ ۔ روشی ایک اپنی مخصوص گھڑی کی مدد سے عمران تک اسکی ضروری معلومات نہایت صفائی سے پہنچا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ ۔ ۔ گوروں کو پٹا بھی رہی تھی ۔ ۔ ۔ اسے معلوم تھا کہ عورت اور شراب اس قوم کی کمزوری ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اسی دوران ملٹری اتاشی کی سیکریٹری بیمار ہو کر امریکہ چلی گئی اور عمران نے اسکی جگہ جولیا کو بڑی آسانی سے فٹ کروا دیا تھا ۔ ۔ ۔۔
-------------------------------------------------
عمران اور انور ہر جگہ پر ایسے ہی تقریر کر کہ بھاگ جاتے ، اور انور ہی اپنے اخبار اور چینل میں اسے رپورٹ کرتا ، یہ خبر ظاہر ہے سر رحمان تک پہنچی اور انہیں اوپر سے بھی پوچھ پرتیت ہوئی ، فیاض کو اسے گرفتار کرنے کا کہا گیا مگر جب وہ نہ کر سکا تو سر رحمان نے اسے دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا ۔ ۔ ۔ آج بھی کیپٹن فیاض عمران کو گولی مارنے کے اردے سے نکلا تھا ، اسکے مخبر نے اسے بتایا تھا کہ عمران اس وقت بڑی مارکیٹ میں اپنا جلسہ کر رہا ہےا ۔ ۔ وہ آندھی کی طرح مارکیٹ کی طرف اڑا جا رہا تھا ۔ ۔ عمران اپنے میگا فون پر کہ رہا تھا
میرے ہم وطنوں ، ہمارے پاس فوج ہے ، پولیس ہے ، حکومت ہے ، ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پھر ہمیں کسی کی فوجی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ، امریکہ جب چاہتا ہے منہ اٹھا کہ ہمارے ہم وطنوں کو مار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ جب اسکا دل کرتا ہے ہماری فوج کو بدنام کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ہالٹ ، فیاض نے چیختے ہوئے ہوائی فائر کیا ۔ ۔ ۔ سب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ، انور کا اسکوٹر بھی تیار تھا ، مگر اس دفعہ اسکے پیچھے فیاض کی جیپ تھی ۔ ۔ ۔ امریکی سفارت خانے کی طرف چلو ۔ ۔ ۔ عمران نے انور کو کہا ۔ ۔ ۔ مگر وہاں تو بہت زیادہ حفاظتی اقدامات ہیں ۔۔ ۔ تم چلو تو سہی ۔ ۔ ۔ اس سائیڈ پر جہاں نئی عمارتیں بن رہیں ہیں ۔ ۔ ۔ تمہارا کیمرا ریڈی ہے نا ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے دو ۔ ۔ ۔ عمران نے کیمرا لے کر ریکارڈنگ کے لئے تیار کیا ۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے ہمیں کیا کرنا ہے ۔ ۔۔ ہاں ۔ ۔ ۔ سفارت خانے سے آدھے میل کے فاصلے پر ہی چیک پوسٹ تھی ۔ ۔ ۔ انور اسے توڑتا ہوا بجلی کی طرح نکلا تھا ۔ ۔ مشین گن کا برسٹ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر لگا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر دوسرا برسٹ کیپٹن فیاض کی جیپ پر مارا گیا جیپ رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے پیچھے دیکھا ۔۔ کیپٹن فیاض ہاتھ اٹھائے باہر آ رہا تھا ۔ ۔ ۔
یہ ہی جگہ ہے ۔ ۔ ۔ عمران نے نے ایک طرف مڑنے کو کہا ۔ ۔ ۔ اور کیمرا آن کر دیا ۔ ۔ ۔ یہ ایک سرنگ نما رستہ تھا ۔ ۔ ۔ عمران نے کہا آگے کا رستہ تمہیں یاد ہے نا ۔ ۔ ۔ہاں جی ۔ ۔ ۔ انور نے موٹر سائکل کی رفتار تیز کر دی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے ہیلمنٹ پہن لیا تھا ۔ ۔ ۔ اب وہ دونوں پوری طرح سے بلٹ پروف لباس میں تھے ۔ ۔ ۔ کیمرا چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اب ایک بڑے سے ہال میں داخل ہو چکے تھے ہال ایک ڈھلوان کی طرح نیچے کی طرف جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اب وہ ہال کے آخر تک پہنچ چکے تھے جہاں بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئیں تھیں جو کہ زمین کو کھود رہیں تھیں ، یہ سرنگ بنانے والی جدید ترین مشینیں تھیں ۔ ۔ ۔ عمران انکو کیپچر کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایک دم انکے سامنے ایک بکتر بند گاڑی آ گئی ۔ ۔ ۔ اور اسکی مشین گن نے انپر گولیوں کی بارش کر دی ، انور ۔ ۔ ۔ ایگزٹ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اوہ یہ تیزاب کا کنواں ہے ۔ ۔ ۔ ادھر نہیں ۔ ۔ ۔ عمران صاحب کیمرا پھینک دیں اسمیں ۔ ۔ ۔ کیا کہ رہے ہو ۔ ۔ مگر ہماری فوٹیج ۔ ۔ وہ ضائع نہیں ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے میں عمران کو لگا کہ وہ چاروں طرف سے گر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ گولیاں اب اسے ڈائرکٹ بھی لگ رہیں تھیں ۔ ۔ کہ ایک برسٹ اسکے کیمرے پر لگا اور کیمرا تیزاب کے ایک ڈرم میں جا گرا ۔ ۔ ۔ انور نے ایک لمحے کو موٹر سائکل روکی ادھر ادھر دیکھا اور ایک طرف تیزی سے بڑھتا چلا گیا ۔ ۔ عمران صاحب مزائل فائیر کر رہا ہوں ۔ ۔ اوکے ۔ موٹر سائکل کے سامنے کی جانب سے ایک مزائل نکلا اور بکتر بند سے ٹکرایا دھماکہ اور اور بکتر بند الٹ گئی ۔ ۔ انور تیزی سے نکلتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ اب وہ ایک بڑے پائپ میں تھے جو نکاسی کے لئے بنایا گیا تھا ۔ ۔ ۔ عمران کو پتہ تھا کہ یہ ایک بڑے نالے میں جا گرتا ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ اسی نالے میں جا گرے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ تب انہیں پتہ چلا کہ باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور وہ نالے میں تیرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ باہر آئے ۔۔ ۔ ساری محنت غارت ہوئی ۔ ۔ ۔ کیمرا وہیں ختم ہو گیا ۔ ۔ ۔ نہیں عمران صاحب ، اسکی ریکارڈنگ ادھر ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ میرے سینے میں رکھی ہارڈ ڈسک میں ۔ ۔ ۔ وہ تو صرف کیمرا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
بہت خوب ۔ ۔ انور زندہ باد ۔ ۔ ۔ عمران نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ مارا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسرا دن بہت ہی سنسنی خیز خبروں والا تھا ، کیپٹن فیاض شدید زخمی ہو چکا تھا ، اور سر رحمان نے عمران کی حرکتوں کی وجہ سے استعفٰی دے دیا تھا ، اور انور کا چینل اس فوٹیج کو بار بار چلا رہا تھا جس میں سرنگ کھودنے کی مشینیں سفارت خانے کی نئی عمارت میں نظر آ رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ یہ کھدائی ایٹمی پلانٹ کی جانب کی جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی حکومت اس کی تردید کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال دونوں حکومتیں مشکل میں پڑ چکی تھیں ۔ ۔۔ سیکرٹ سروس کے ارکان عمران کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور عمران تھا کہ گدھے کے سر کے سینگ کی طرح غائب تھا ، ایکسٹو ۔ ۔ ۔ کا نمبر بھی اب صرف میسج لینے پر لگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اسی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر اور بھی تھی ، سیکرٹ سروس کے چیف ایکسٹو کے استعیفٰی کے بعد نئے سربراہ نے چارج لے لیا تھا نئے سربراہ کا نام تھا مسٹر آر یعنی رضوان، اور یہ رضوان کوئی اور نہیں عمران کا شاگرد ٹائیگر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے فرداَ فرداَ ایک بار پھر ساری ٹیم کو فون کر کہ رانا ہاؤس میں بلا لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے کوشش کی ہے کہ اس کردار پر کچھ لکھوں ، جو بہت ہی مشکل کام ہے ، اور سچی میں دانتوں کو بلکہ انگلیوں کو پسینہ آ گیا ۔ ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ایک کوشش میں نے کی ہے ، شاید میرا تخیل کسی ایکسٹو کو اپنے ملک میں ڈھونڈھنا چاہتا ہے !!
آپکی آراء کا منتظر رہوں گا
----------------------------------------------------------
عمران کو اس دفعہ نئی ہی سوجھی تھی ، وہ پنجابی فلموں میں کام کے لئے اسٹوڈیو کے چکر لگا رہا تھا ، ان دنوں وہاں فلم “ووٹ گجر دا “ کی شوٹنگ چل رہی تھی جس میں مشہور اداکار “ذیشان“ گنڈاسہ لے کر گھر گھر سے ووٹ مانگنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ، اس کے ساتھ مشہور ہیروین تھی “پروین“ جسے انڈسٹری میں نیک پروین کے نام سے پکارا جاتا تھا ، پتہ نہیں کیوں ، حتہ کہ اس کی ساری فلمیں انتہائی “غیر فیملی“ تھی ۔ ۔ ۔ عمران اس وقت سیٹ پر موجود تھا ، اور ڈئریکٹر کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا ، جو اسے پچھلے دو دن سے سگرٹوں کی ڈبیاں نہیں ڈبے منگوا رہا تھا ، اس وقت بھی وہ ہیرو کو سین سمجھا رہا تھا
دیکھ پتر ، تو پینو کے گھر ووٹ مانگنے کے لئے جاتا ہے ، پینو کا پیو اور بھرا (بھائی) باہر آتے ہیں ، تو انہیں ووٹ کے لئے کہتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ووٹ ماجھے بدمعاش کو دیں گے ، تو انہیں پیسے کا لالچ دیتا ہے ، وہ دونوں آپس میں مشورہ کر کہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے وہ ووٹ تمہیں ہی دیں گے مگر حقیقت میں وہ ماجھے سے اور تم سے صرف دولت سمیٹنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ سمجھا کاکے ۔۔ ۔ یہ ڈائریکٹر کا تکیہ کلام تھا
سانڈ (وہ ساؤنڈ کو سانڈ ہی کہتے تھے ) ، کیمرا ۔ ۔ ۔ ایکشن
اوئے چاچے ، تو ووٹ مینو ای دینا اے
پر اسی ووٹ ماجھے بدمعاش نوں دواں گے ، چاچے کے پتر نے سینہ تان کہ کیمرے کو آنکھیں دیکھائیں
اوئے میرے علاقے اچ رہ کہ ووٹ بدمعاشاں نوں
تو کہیڑا شریف ایں ، سانوں اک ووٹ دے پنج ہزار مل رے نیں ، تے زنانیاں دے اٹھ ہزار ۔ ۔ ۔
اوئے میں تینوں دس دس ہزار دیاں گا ، پر یاد رکھ ، کہ نوٹ گجر دا تے فئیر ووٹ وی گجر دا ۔ ۔ ۔ ہا ۔ ۔
ذیشان نے “ہا“ اتنے زور سے کیا کہ اسے کھانسی آ گئی ۔ ۔ ۔ کٹ کی آواز سے سب ہیرو کی خبر گیری کو دوڑے ۔ ۔ ۔ اور اسے آرام چئیر پر بیٹھایا ، دوسرا سین ریڈی تھا ، پروین کا ، جو دروازے میں کھڑی اپنے گجر کو دیکھ رہی تھی ۔ ۔
سب خاموش ۔ ۔ تھے پن ڈراپ سائیلنس ۔ ۔ ۔ ۔
کیمرا رول شروع ہوا ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ جو ہیروین کی طرف بڑھ رہا تھا اور پروین ماتھے پر ہاتھ رکھ کہ ڈائلاگ بول رہی تھی
وے گجرا ، میرا ووٹ تیرا ای اے ، میرے دل دی آواز سن تینوں آواز آئے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ
اور ہیروین صاحبہ اچھل پڑیں بلکہ سارا یونٹ ہی اچھل پڑا ۔ ۔ ۔ یہ آواز تھی عمران کے موبائیل کی ۔ ۔ ۔ اسنے آجکل یہ ہی رنگ ٹون سیلکٹ کی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اسنے فون ہاتھ میں لے کر کہا ۔ ۔ ۔ ہا ہا ہلیو ۔ ۔ ۔ مگر اسکے ساتھ ہی اسے ۔ ۔ اوے اینوں باہر سٹو ۔ ۔ ۔ ساتھ ہی دو پہلوان عمران کو دھکے دینے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ دوسری طرف بلیک زیرو تھا ۔ ۔ ۔ ۔
تم نے میری ساری شوٹنگ خراب کروا دی ۔ ۔ ۔ اوے آرام سے میں ٹوٹ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ مگر شاید پہلوان اسے سی آف کرنے کے موڈ میں تھے ۔ ۔ ۔ اسٹوڈیو کے گیٹ کے باہر انہوں نے اسے ایسے پھینکا کہ جیسے کوئی شریر بچہ پانی میں پتھر پھینکتا ہے ۔ ۔ ۔
میں کال فئیر آؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ عمران انہیں مکہ دیکھاتے ہوئے بولا ۔ ۔ ۔
عمران صاحب ، جتنی جلدی ممکن ہو رانا پیلس پہنچیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران نے اوکے کہ کہ فون بند کیا اور گاڑی کی طرف چل پڑا جو اسنے کافی دور کھڑی کی تھی کیونکہ وہ یہاں اپنے آپ کو ایک عام شوقین ظاہر کرتا تھا جو فلموں میں کام کے لئے اسٹوڈیو کے چکر لگاتا ہو ۔ ۔ ۔
اسٹوڈیو سے رانا پیلس تک پہنچتے اسے چار گھنٹے لگ گئے تھے کیونکہ اسٹوڈیو دوسرے شہر میں تھا دارلحکومت میں فلم انڈسٹری نہیں تھی ۔ ۔ ۔
رانا پیلیس پہنچ کر وہ سیدھا کنٹرول روم پہنچا جہاں بلیک زیرو نے اسکے اٹھ کر استقبال کیا ۔ ۔ ۔ ۔
کیا ہوا، تم اتنے زیادہ ٹنس کیوں ہو ۔ ۔ ۔
بات ہی ایسی ہے عمران صاحب
کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ بلیک زیرو نے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی کو ریموٹ سے آن کیا اور اس پر ایک نیوز چینل کا پروگرام چلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس میں ایک خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ کا انٹرویو چل رہا تھا ، وہ کہ رہا تھا کہ ہماری سیکرٹ سروس صرف اپنے ملک کے خلاف ہی کام کرتی ہے ، اسکا ایک ایک شخص بکا ہوا ہے ، ہر ایک ممبر کسی نہ کسی پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے اور کیونکہ وہ لوگ سامنے نہیں آتے اسلئے وہ سیاست دانوں کے ساتھ ملکر غیر ملکی سازشوں کا حصہ بنتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایکسٹو اسلئے سامنے نہیں آتا کہ وہ ایک پرانا مجرم ہے اگر وہ سامنے آ جائے تو اسے قانون سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ۔ ۔
عمران کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا ، وہ اس افسر کو اچھی طرح جانتا تھا ، وہ ایک رشوت خور اور بد کردار آدمی تھا ، مگر خوشامدی ہونے کی وجہ سے اور سیاست دانوں سے میل جول کی وجہ سے وہ بہت زیادہ مشہور تھا ۔ ۔ ۔ مگر آج اسکی باتیں سن کر عمران کی کھوپڑی گھوم چکی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسنے فون اٹھایا ، اور سر سلطان کے نمبر ملائے
پی اے ٹو فارن سیکٹری ۔ ۔ ۔ آواز آئی
ایکسٹو ۔ ۔ ۔ ۔ سر سلطان پلیز
جج جج ۔ ۔ ۔ پی اے کی جیسے جان نکل گئی
سلطان ہیر ۔ ۔ ۔
سر سلطان ، ابھی اسی وقت میں صدر اور وزیر اعظم اور فوج اور ایجنسیوں کے سربراہوں کے ساتھ ملنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔
مگر کیوں ۔ ۔ ۔
سر سلطان ۔۔ ۔ کوئی سوال نہیں ، آپ سب کو آگاہ کریں ۔ ۔
مگر صدر صاحب باہر ہیں ۔ ۔ ۔ اور وزیر اعظم شہر میں نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
انہیں ہم ہاٹ لائین سے ۔ ۔ ۔ لنک کر لیں گے ۔ ۔ ۔
آج تو نہیں کل ہو سکے گی یہ میٹنگ ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے ، کل صبح دس بجے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران نے ریسور رکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکا چہرہ غصے سے اکڑ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ بلیک زیرو ایک ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس لے کر آیا ۔ ۔ ۔ عمران نے بوتل ہی لیکر منہ سے لگا لی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
------------------------------------------------------------------
ایوان صدر میں ہلچل مچی ہوئی تھی ، ملک کی سیاسی اور فوج قیادت سب کی سب میٹنگ میں آ رہی تھی ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد پروٹوکول کے ساتھ کوئی نہ کوئی حکمران یا افسر آتا اور اتنی تیزی سے اتر کہ اندر جاتا جیسے کوئی انکے پیچھے لگا ہوا ہو ۔ ۔ ۔ یہ سب لوگ ایک بڑے ہال میں جمع ہو رہے تھے ہر ایک کرسی پر اس شخصیت کا اسٹیکر چسپاں تھا جسے ایک رہبر اس تک رہمنائی اور اسٹیکر کو اپنی جیب میں رکھ کر پر تکلف طریقے سے افسروں اور حکمران شخصیات کو بٹھا رہا تھا ۔ ۔ ۔
سب لوگوں آمد مکمل ہو چکی تھی مگر سب لوگ خاموش تھے حتہ کہ آپس میں بات بھی نہیں کر رہے تھے ، سر سلطان سب سے آخر میں آئے اور وزیر خارجہ کے ساتھ آ کر بیٹھ گئے ۔ ۔
ابھی تک ایک کرسی خالی تھی جس پر ایکسٹو نے آنا تھا ، صدر اور وزیر اعظم کی کرسیاں بڑی تھی اور مرصع بھی تھیں ، ہال کے سارے دروازے بند ہو چکے تھے ، سب کی نظریں صدر اور وزیر اعظم کی کرسیوں کے پیچھے والے دروازے پر تھیں ، صدر اور وزیر اعظم آج ہی اپنے دورے مختصر کر کہ دارلحکومت پینچے تھے ، دروازہ کھلنے کی آواز آئی ، سب کھڑے ہونے کے لئے ریڈی ہوئے ، مگر وہاں سے دو خادم صدر اور وزیر اعظم جیسی مرصع کرسی لے کر برآمد ہوئے ، اور اسے ان دو کرسیوں کے ساتھ رکھ دیا گیا ، سب کی نظروں میں الجھن نظر آنے لگی یہ تیسری کرسی کس کی ہے ؟ دونوں خادم واپس جا چکے تھے ، دروازہ ایک بار پھر کھلا اور ایکسٹؤ اپنی روایتی شان سے چلتا ہوا اپنی کرسی کی طرف بڑھا ، سب نے کھڑے ہو کر اسے تعظیم دی ، اور ایکسٹو اپنی کرسی پر براجمان ہو گیا ، ابھی لوگ صحیح سے بیٹھے نہیں تھے کہ دربان نے دروازہ پھر کھولا اور وزیر اعظم پروقار طریقے سے اپنی کرسی کی طرف بڑھے ، خادم نے کرسی کھسکا کر وزیر اعظم کو بیٹھایا ، سب لوگ کھڑے ہوئے تھے مگر ایکسٹو بیٹھا رہا ، مگر اسنے وزیر اعظم کو سر کے اشارے سے سلام کیا تھا ، وزیر اعظم کے چہرے پر سنجیدگی تھی ، سب لوگ بیٹھ چکے تھے ، اب صدر صاحب کا انتظار تھا ، سب کو حیرانی تھی کہ وزیر اعظم صدر کے ساتھ کیوں نہیں آئے ایسی میٹنگ میں دونوں اکھٹھے ہی آتے تھے ، وزیر اعظم بار بار چور نظروں سے ایکسٹو کو دیکھ رہے تھے ، کہ دروزہ پھر کھلا اور صدر صاحب ایک سفید فام غیر ملکی کے ساتھ نظر آئے سب کھڑے ہو چکے تھے ،ایکسٹو بیٹھا رہا مگر اسکی آنکھوں میں پہلے حیرانی آئی اور پھر آنکھیں شعلے اگلنے لگیں ۔ ۔ ۔ صدر صاحب اپنی کرسی کے آگے کھڑے ہو چکے تھے ، انکے ساتھ آنے والا امریکی سفیر تھا جو صدر اور وزیر اعظم کے درمیان کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو بیٹھنے کو کہا ، ابھی سب بیٹھ ہی رہے تھے ، کہ ایکسٹو کی گوجیلی آواز سنی تھی ، ٹھہریے مسٹر پریزڈنٹ ، یہ میٹنگ میں نے بلائی ہے اور اس میں امریکی سفیر کی موجودگی نہیں چاہیے ، صدر صاحب نے گھور کر ایکسٹو کو دیکھا اور پرغرور لہچے میں کہا ، مسٹر ایکسٹو ، بےشک میٹنگ آپ نے کال کی ہے ، مگر سفیر صاحب نے خصوصی ریکوسٹ کی تھی ، اس میٹنگ میں شرکت کے لئے ۔ ۔ ۔
کیوں ؟ یہ ہماری خودمختاری میں مداخلت ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بات کاٹتے ہوئے کہا
ٹمہارا خوڈ مخٹاری اب ہمارے ہینڈ میں ہے ، مسٹر ایکسٹو ۔ ۔۔ صدر صاحب کے جواب دینے سے پہلے ہی سفیر نے اردو میں بولا
مسٹر ایکسٹو آپ جانتے ہیں کہ ہماری تمام حکمت عملیاں اب امریکہ کی مرہون منت ہیں ۔ ۔ ۔ یہ ہمارے دوست ہیں ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہنا چاہا ۔ ۔ ۔ مگر ایکسٹو نے پھر بات کاٹ دی
جناب وزیر اعظم صاحب میرا ملک آزاد ہے ، ہم انکے نہیں یہ ہمارے مرہون منت ہیں ، اور آجکی میٹنگ میں نے اندرونی خلفشار کے لئے بلائی ہے ، جسکی بڑی وجہ امریکہ ہے ۔ ۔
وہ ہی تو ہم جاننا چاہتے ہیں مسٹر ایکسٹو ، ہم اس انارکی کے کیسے ذمے دار ہیں ۔ ۔ ۔ سفیر نے اس دفعہ انگریزی میں کہا شاید اسے اردو میں مناسب الفاظ نہیں مل پائے ۔ ۔ ۔
آپ جانتے ہیں مسٹر ۔ ۔ ۔ اب میں آپکو برداشت نہیں کروں گا مہربانی فرما کر تشریف لے جائیں ۔۔
یہ میری بے عزتی ہے ۔ ۔ ۔ مسٹر پریزیڈنٹ ۔ ۔ ۔
مسٹر ایکسٹو ، سفیر صاحب میٹنگ میں شریک ہونگے ، یہ میرا حکم ہے ۔ ۔ ۔
مسٹر پریزیڈنٹ ، ریڈ فائیل ۔ ۔ ۔ ۔
ریڈ فائیل کی ایسی کی تیسی ۔ ۔۔ صدر صاحب اس دفعہ غصے میں آ گئے تھے ۔ ۔ ۔
سر سر ۔ ۔ وزیر اعظم نے جلدی سے صدر صاحب کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ، مسٹر ایکسٹو آپ پہلے سفیر صاحب کے ساتھ میٹنگ کر لیں اور پھر ہم کر لیں گے ۔ ۔ ۔ ۔
میں اس میٹنگ کا حصہ نہیں ہونگا ۔ ۔ صدر صاحب نے فوراَ لقمہ دیا ۔ ۔ ۔
ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو جو عمران تھا ۔ ۔ ۔ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر میٹنگ شروع کی جائے ۔ ۔ وزیر اعظم نے التجایہ نظروں سے ایکسٹو کی طرف دیکھا ، عمران سمجھ چکا تھا کہ سفیر نے صدر صاحب کو رام کر لیا ہے جبکہ وزیر اعظم کو مجبور کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
ضرور ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے ہاتھ اٹھا کہ کہا ۔ ۔ ۔
جی مسٹر ایکسٹو ، آپ نے یہ ہائی پروفائیل میٹنگ کیوں کال کی ، صدر صاحب نے ایکسٹو سے پوچھا ۔ ۔
پہلے میٹنگ تو شروع کریں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
میٹنگ شروع ہو چکی ہے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے کہا ۔ ۔
نہیں ۔ ۔ ابھی شروع نہیں ہوئی با قاعدہ شروع کی جائے ۔ ۔ ۔
مم مم میں سمجھ گیا ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہا اور کہا زعفرانی صاحب آپ تلاوت کریں ۔ ۔ ۔ انکا اشارہ وزیر خارجہ کی طرف تھا جو اکثر میٹنگ میں تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔
صدر اور سفیر کے منہ سے صرف اوہ نکل سکا ۔ ۔ ۔
دوسری طرف سر سلطان کے ہونٹوں پر عجیب سہ مسکراہٹ رینگ گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔
تلاوت کے بعد ایکسٹو نے کہنا شروع کیا ۔ ۔ ۔
پچھلے ایک سال سے جب سے نئی حکومت بنی ہے ، اور فوج کا عمل دخل کم ہوا ہے حکومت میں ، کچھ عناصر میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ہماری فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف عوام میں پروپگنڈا کر رہے ہیں ، اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کالی بھیڑوں نے جنہیں ملک دشمن قوتوں نے خریدا ہوا ہے ، یہ کہتے ہوئے ایکسٹو نے نقاب سے سفیر کو آگ برساتی نظروں سے دیکھا ، سفیر صرف کرسی پر کسمسا کر رہ گیا ، ایکسٹو نے بات جاری رکھی ، ہماری خفیہ ایجنسیاں ملک کی حفاظت اور وقار کے لئے اپنی جان پر کھیل رہی ہیں اور ہم ان پر الزام لگا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
صدر صاحب نے ٹوکا ، مسٹر ایکسٹو ، الزام لگانے والے بھی ایجنسیوں کے ہی لوگ ہیں
وہ خریدے ہوئے ہیں ، ایکسٹو نے جواب دیا
جو بک سکتے ہیں وہ ہی خریدے جاتے ہیں مسٹر ایکسٹو اس بار وزیر داخلہ نے جواب دیا
میں انہیں لوگوں کو سزا دینا چاہتا ہوں جو بکتے ہیں اور خریدتے ہیں ۔ ۔ ۔
اسکلئے ہمارے ملک میں قانون موجود ہے ، وزیر داخلہ نے بحث شروع کر دی
منسٹر صاحب ، آپ ایکسٹو کو انکا موقف پیش کرنے دیں ، وزیر اعظم نے ماحول کو دیکھتے ہوئے بات کاٹی
میں جانتا ہوں کہ قانون ان لوگوں کی گرفت کر سکتا ہے ، مگر نہیں کر رہا ، یہ لوگ ہماری ایجنسیوں کو بدنام کر رہے ہیں
وہ صرف ایجنسیوں کو نہیں بلکہ ہم سیاست دانوں کو بھی بدنام کیا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں اگر گرفت کروں گا تو چاہے کوئی بھی ہو اسکی پکڑ ہو گی
ٹھییک ہے آپ کے پاس کیا لاحہ عمل ہے مسٹر ایکسٹو
مجھے ان لوگوں سے پوچھ گوچھ کی اجازت دی جائے ، ایکسٹو نے ایک لسٹ وزیر اعظم کو دی
یہ ۔ ۔ ۔ یہ یہ تو بہت اہم لوگ ہیں ، آپ جانتے ہیں مسٹر ایکسٹو کہ ہم کسی بھی فارن مشن کو ایسے انٹروگیٹ نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔
مجھے پتہ چلا ہے کہ یہ لوگ ملوث ہیں
مگر ثبوت ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے پوچھا
ثبوت موجود ہیں ، مگر عدالت یا حکومت اسے قبول نہیں کرے گی ، آپ کو معلوم ہے تصاویر اور وڈیو کے قانون میں ترمیم کی وجہ سے یہ ثبوت قابل قبول نہیں رہے
اوہ ۔ ۔ تو یہ بات ہے ، یہ ۔ ۔ ۔یہ کیا ۔ ۔ اس میں آپ نے مولانا صاحب کا نام بھی لکھ دیا ہے ، آپکو پتہ ہے کہ اس سے کتنا بڑا پرابلم ہو سکتا ہے ۔۔
پرابلم ہی تو ختم کرنا چاہتے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ دیکھیے مسٹر ایکسٹو ، ہم مفاہمتی حکومت چلا رہے ہیں ہم کسی کے ساتھ اپنے ریلیشن خراب نہیں کریں گے ۔ ۔ دیٹس آل ۔ ۔ صدر صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا
ٹھیک ہے ، آپ کے لئے اگر مشکل ہے تو میرے لئے مشکل نہیں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
مگر آپ کسی فارن مشن کو تنگ نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے تنبیہ کی
فارن مشن کا ایک ہی مشن ہے وہ ہے ہمارے وطن کی تباہی ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں اپنے وطن کا محافظ ہوں
ہم سب محافظ ہیں ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم نے کہا
محافظ غیروں کو اپنا ملک نہیں دیتے ایکسٹو نے امریکی سفیر کی دیکھ کر کہا
ہمیں عالمی برادری میں عزت سے رہنا ہے اور ہمارے دوست ملک ہماری مدد کر رہے ہیں ، صدر صاحب نے کہا
یہ مدد ہے ، ہمارے محافظوں کو خریدا جا رہا ہے ، ملک میں انارکی پھیلائی جا رہی ہے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے کہا
اس کے لئے ہم خود بھی ذمے دارہیں وزیر خارجہ نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔
جی نہیں صرف لیڈران ذمہ دار ہیں ، عوام نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بھی تیز لہجے میں کہا
عوام کو صرف ریلیف چاہیے ، صرف ریلیف کہاں سے ملتا ہے اسے ان سے کوئی مطلب نہیں ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے کہا ۔ ۔
نہیں عوام عزت سے جینا چاہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
مسٹر ایکسٹو ۔ ۔ ۔ یہ بحث کا وقت نہیں ، آپ کو اجازت نہیں دی جاسکتی ، دس میٹنگ از اڈجرن ۔ ۔ ۔ صدر صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا
سب اٹھ کھڑے ہوئے ، مگر ایکسٹو بیٹھا رہا ، مسٹر پریزیڈنٹ میں ریڈ فائل کے سیکنڈ رول کے مطابق اپنے اختیارات استعمال کروں گا
ریڈ فائل ریڈ فائل ریڈ فائل ۔ ۔ ۔ ۔ مسٹر ایکسٹو یہ عوامی حکومت ہے ، سب محب وطن ہیں ، آپ کو من مانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ، اور آپ جس کے بل بوتے پر اچھل رہے ہیں ، کل ہی وہ ریڈ فائل کو ڈسمس کر دیا جائے گا پارلیمنٹ کے تھرو ۔ ۔ ۔
سر ۔ ۔ ۔ سر سلطان نے پہلی بار زبان کھولی ، ریڈ فائل کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا ، آپ کو معلوم ہے ۔ ۔ ۔
مسٹر سلطان ، آئی ڈونٹ کئیر ، میں ملک کا صدر ہوں ۔ ۔ ۔ اور ہماری پارٹی کی حکومت ہے ، ہم جو چاہیں گے کریں گے ۔ ۔ ۔ انڈر سٹینڈ یو ۔ ۔
وزیر خارجہ نے جو صدر صاحب کے قریب آ چکے تھے ، انکے کان میں کچھ کہا ۔ ۔ ۔
اوہ ۔ ۔ مسٹر سلطان ، آپ سے سیکرٹ سروس کا چارج واپس لیا جا رہا ہے ، آپ کو آرڈر مل جائے گا
سر سیکرٹ سروس کو ملٹری انٹیلی جنس میں مدغم کر دیں ، وزیر خارجہ نے چاپلوسی سے کہا ۔ ۔
ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔
ٹھیک نہیں ہے مسٹر پریزیڈنٹ ، چیف آف آرمی اسٹاف نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو معلوم نہیں کہ ہماری سیکرٹ سروس کے کارنامے ساری دنیا میں مشہور ہیں ، یہ ٹیم بہت مختلف ہے ۔ ۔ ۔ میں ایکسٹو کی بات کی حمایت کروں گا ۔ ۔ ۔ سب لوگ ایک بار پھر کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے ۔ ۔ ۔ صدر صاحب کے بیٹھتے ہی
مسٹر چیف ، آپکا سیکرٹ سروس ہمیں بھی بہت دسٹرائے کر چکا ہے ، سفیر نے بولا
آپکی کرتوتوں کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسٹر پریزیڈنٹ ، اگر آپکی سیکرٹ سروس نے ہمارے کسی بھی پلان کو نقصان پہنچایا تو ، ہم آپ پر پابندیاں لگا دیں گے ۔ ۔ ۔ اس بار وہ انگریزی میں بولا تھا
مسٹر سفیر آپ کو ایسی بات کہنا اچھا نہیں لگتا ، سر سلطان نے اس بار سخت لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔
مسٹر سلطان ، یہ ایک سپر پاور کے سفیر ہیں ، آپ کو انکے رتبے کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ۔
اس سپر پاور کو ہماری ضرورت ہے سر ، سر سلطان نے سمجھانے والے انداز میں کہا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ میٹنگ ختم ہو چکی ہے ، جو میں نے کہ دیا وہ ہی ٹھیک ہے ، اور مسٹر سلطان ، آپکو کل سے رئٹائرمنٹ لیو دی جا رہی ہے
ٹھیک ہے ، میں بھی اپنا استعفٰی پیش کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ایکسٹو نے ایک پیپر صدر صاحب کی طرف بڑھایا ۔ ۔ ۔ ۔ اور اٹھ کر تیز قدموں سے باہر نکل گیا ، سر سلطان اور آرمی چیف اسکے پیچھے بھاگے مگر وہ نکل چکا تھا ، سر سلطان دل کے مریض تھے اس لئے ہانپنے لگے ، آرمی چیف نے انہیں سہارا دیا ۔ ۔ ۔
صدر اور سفیر بھی باہر چلے گئے ، وزیر اعظم کو سب نے گھیر لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزیر اعظم کے چہرے پر بے بسی جیسے چپک گئی تھی ۔ ۔ ۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
رانا ہاؤس میں سیکرٹ سروس کے سب ممبر موجود تھے ، سب کی نظریں سامنے کے اسپیکر پر لگی ہوئیں تھیں ، عمران موجود نہیں تھا ۔ ۔
اتنی ایمرجنسی میٹنگ رات کے دو بج رہے ہیں ، تنویر کو غصہ آ رہا تھا کہ انہیں سوتے میں کیوں اٹھایا گیا
کچھ تو ایسا ہے ورنہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ، جولیا نے پریشان کن لہجے میں کہا
مجھے تو کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے ، کیپٹن شکیل نے صفدر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
جواب میں صفدر نے سر ہلا دیا ۔ ۔ ۔
اتنے میں اسپیکر سے سیٹی کی آواز نکلی اور ساتھ ہی سامنے کی دیوار میں ایک دروازہ پیدا ہوا اور ایکسٹو برآمد ہوا ۔ ۔ ۔ اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا
سب ممبر کی آنکھیں حیرت سے پر تھیں ایکسٹو کبھی بھی ایسے میٹنگ نہیں کرتا تھا ، اسکا مطلب تھا کہ کوئی خاص ہی بات ہے صفدر نے سوچا
ایکسٹو نے سب کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ۔ ۔
میں نے سیکرٹ سروس سے استعفٰی دے دیا ہے
استعفٰی ۔!!!!!!
سر سلطان کو جبری رئٹائیر کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔
جج ۔ ۔ جج جی ۔ ۔ ۔ سب کی زبانیں جیسے کنگ ہو گئیں تھیں
سیکرٹ سروس کو محکمہ خارجہ سے ملٹری انٹیلی جنس کے انڈر کیا جا رہا ہے
اوہ ۔ ۔ ۔
آپ ممبران کی سروسز ملٹری سیکرٹ سروس کو دی جا رہی ہیں
کیا ۔ ۔ ۔ سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا ۔ ۔۔ ۔ ۔
آپکے پاس اختیار ہے کہ آپ مستفعی ہو جائیں یا ملٹری سیکرٹ سروس جوائن کر لیں
میں ریزائن کر دونگی ۔ ۔ ۔ جولیا نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا
ہم بھی ۔ ۔ ۔ ۔ سب نے ایک ساتھ کہا
نہیں سوچ سمجھ کہ فیصلہ کرو ۔۔ اوکے ۔ ۔ ۔ گڈ بائے ۔ ۔ ۔ اور گڈ لک ۔ ۔ ۔ میں دو دن تک اپنے نمبر پر موجود ہوں ۔۔ ایکسٹو اٹھا اور اسی خفیہ دروزاے سے واپس چلا گیا
----------------------------------------------------------
سب کے چہرے سُتے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔۔یہ یہ یہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ کیا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
ملک کے حالات خراب ہیں اور ہم لوگ اپنے کام کو چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ نا ممکن ۔ ۔ ۔ میں تو ملٹری سروس کو جوائن نہیں کروں گا ۔ ۔ ۔ صدیقی نے تیز لہجے میں کہا ۔ ۔
مگر ایسا ہوا کیوں ۔ ۔ ۔ صفدر نے سوچتے ہوئے کہا ۔۔ ۔
اس کیوں کا جواب صرف عمران دے سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اوہ عمران میٹنگ میں بھی نہیں آیا ، تنویر نے چونکتے ہوئے کہا ۔ ۔
یہ سرکاری میٹنگ تھی عمران سیکرٹ سروس کا ممبر نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔
چلو اسی کے پاس چلتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پہلے اپنے استعفے تو لکھ دو ۔ ۔
ابھی دو دن ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ چلو ۔ ۔ ۔ صفدر نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔
اور سب جولیا کی فور وہیلر میں لد کر عمران کے فلیٹ پر پہنچے ۔ ۔ ۔ عمران جو رانا ہاؤس کے کنٹرول روم میں یہ سب دیکھ رہا تھا انے روانہ ہونے کے بعد اپنی سپورٹ کار کو جولیا کی گاڑی کے پیچھے لگا دیا ۔ ۔ ۔ ایسے کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوا اور عمران ان سے پہلے فلیٹ کے نیچے کھڑا ہو چکا تھا ۔ ۔
جب سب اسکے فلیٹ کے دروازے پر پہنچے عمران نے پیچھے سے آواز لگائی ۔ ۔ ۔ ارے ارے ۔ ۔ یہ میرے گھر پر حملہ کیوں کر رہے ہو ۔ ۔ ۔۔
عمران ۔ ۔ ۔ تم کدھر تھے ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ میں تو ادھر ہی تھا ۔ ۔ ۔
اچھا تھوڑی دیر میں سب اسکی ڈراینگ روم میں نظر آئے ، سلمان نے چائے کی ٹرالی لا کر سایڈ پر کھڑی کی تھی اور سب کو چائے بنا کہ دے رہا تھا ۔ ۔ ۔
ہوں ۔ ۔ ۔ تو تم نے بھی سیکرٹ سروس چھوڑ دی ۔ ۔ ۔ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا ۔ ۔ اب تم بھی میری طرح سلمان کی مونگ کی دال کھاؤ گے ۔ ۔ ۔
عمران ہم تمہارے پاس وجہ جاننے آئے ہیں ، تمہاری بکواس سننے نہیں ۔ ۔ ۔ تنویر نے بھنائے ہوئے کہا ۔ ۔ ۔
اوہ اچھا ۔ ۔ میں تو سمجھا تھا کہ تم لوگ باراتی ہو ، میں تو ابھی چھوارے منگوانے والا تھا ، صفدر کو خطبہ یاد ہو گیا ہے ، کل ہی میں نے سنا تھا ۔ ۔
عمران وجہ بتاؤ ۔ ۔ اس بار جولیا نے پوچھا
لو جی ، وجہ خود کہ رہی ہے وجہ بتاؤ ۔ ۔ ۔ ۔
بھاڑ میں جاؤ ۔ ۔ ۔ میں خود کُش لوں گی ۔ ۔ ۔ ۔
کیسے کرو گی ۔۔ ۔ عمران نے منہ میں چیونگم ڈالا اور چائے کی پیالی کو منہ سے لگا لیا ۔ ۔ ۔ اور پھر چیونگم کا منہ سے غبارہ بنایا ۔ ۔ جس میں چائے بھی نظر آ رہی تھی ۔ ۔ ۔
یہ کیا بے ہودگی ہے ، جولیا نے منہ پھیر کر کہا ۔ ۔ ۔ تو عمران نے اتنی تیزی سے غبارہ منہ کے اندر لیا اور ایسے لگا کہ جیسے اسنے اسے نگل لیا ہو ۔ ۔
عمران صاحب یہ سنجیدگی کا وقت ہے ، کیپٹن شکیل نے اس دفعہ بے بسی سے کہا
اچھا عمران نے بیٹھ کر کہا ۔ ۔ ۔ اور ایسے منہ بنا لیا کہ سب کو بے اختیار ہنسی آ گئی ۔ ۔ ۔
ہاں اب بتاؤ کیا مسلہ ہے ۔ ۔ ارے اس چوہے نے تم لوگوں کی جان چھوڑ دی اس سے اچھی بات کیا ہے ۔ ۔ ۔
عمران ہم وجہ جاننا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
کیا تم نے آج کے اخبار نہیں پڑھے ۔ ۔ ۔ عمران نے ایک اخبار سائیڈ ٹیبل سے اٹھا کر سامنے رکھ دیا
اخبار میں سر سلطان کی رئٹائرمنٹ کی خبر تھی اور لکھا تھا کہ کل کی میٹنگ میں کچھ خفیہ ایجنسیوں کی کاروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے صدر کی طرف سے ۔ ۔
اس میٹنگ میں سپر پاور کا سفیر بھی موجود تھا ۔ ۔ ۔ جسکا ذکر نہیں ہے ۔ ۔
اوہ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا یہ ملک کے شمال میں جو کچھ ہوا ہے اور آج کل جو فوج کے خلاف ہو رہا ہے وہ وجہ ہے
ہاں ۔ ۔ عمران نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔ ۔ ۔ ابھی وہ کچھ کہنے والا ہی تھا کہ سلمان نے دروازے پر آ کر آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ ۔۔ ۔
عمران فوراَ اٹھا ۔ ۔ ۔ سلمان نے آنکھوں سے اسکے پرائیویٹ روم کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ جسکا چھوٹا سا ریڈ بلب جل رہا تھا
اوہ ۔ ۔ ۔ عمران تیزی سے کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے سامنے پڑے ہوئے سرخ فون کو اٹھا لیا ، ہاں طاہر کیا بات ہے ۔ ۔
عمران صاحب ، چیف آف آرمی اسٹاف آپ سے فوراَ ملنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
مجھ سے یا ایکسٹو سے ۔ ۔ ۔
عمران صاحب آپ سے ۔ ۔ ایکسٹو تو اب نہیں رہا ۔ ۔ ۔ آپ نے ہی تو ایکسٹو کا نمبر ریکارڈنگ پر لگا دیا ہے ، اسی میں پیغام ملا ہے
اوہ ۔ ۔ اوکے ۔ ۔ ۔ ۔ ریسور رکھ کر اسنے دوبارہ اٹھا کر نمبر ڈائل کئے
جی ایچ کیو ڈسک ،
چیف سے بات کروائیں ، دس از عمران ۔ ۔ ۔
اوہ سر ۔ ۔ وہ آپکے فون کا ویٹ کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔
ہیلو ۔ ۔ ۔ چیف کی آواز آئی
عمران ہیر ، عمران اس چیف کی دل سے عزت کرتا تھا اسلئے اسنے اپنی عمرانیات سے ہٹ کہ بات کی
عمران مجھ سے ملو ، جتنی جلدی ممکن ہو ۔ ۔
اوکے ۔۔ ۔ عمران نے ریسور رکھ دیا ۔ ۔ ۔اور روم سے باہر آ گیا ۔ ۔ ۔
چوہے کے شیرو ، مجھے ابھی جانا ہے پھر بات ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔
شیر ابھی کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ عمران ٹاٹا کہ کہ باہر نکل گیا ۔ ۔ ۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
عمران کو آرمی چیف سے پتہ چلا تھا کہ امریکی حکومت اس دفعہ سیاسی طور پر کمزور حکومت کو سہارا دینے کا لالچ دے کر اپنے قدم جمانا چاہ رہی ہے ، اور اسکا ہدف ملک کی ایٹمی تنصیبات ہیں ، اور صدر صاحب کو پہلے سے ہی رام کیا جا چکا تھا کہ ایکسٹو کی ٹیم کو ختم کیا جائے ، مگر وزیر اعظم اس کے مخالف تھے ، چونکہ صدر کے پاس وزیر اعظم کو ہٹانے کے اختیارات تھے اسلئے وزیر اعظم نے مزید سیاسی طوفان سے بچنے کے لئے چُپ ہی میں عافیت جانی تھی ، ویسے بھی وہ کابینہ کے کرپٹ وزیروں کے دباؤ میں تھے جو ایوان صدر کے ہر وقت طواف کرتے تھے ، آرمی چیف نے ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق بتایا تھا کہ امریکہ اپنے سفارت خانے کی توسیع کر کہ اس میں بہت ہی اعلٰی درجے کی مشینری نصب کر رہا تھا جسکی مدد سے وہ ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھ رہا تھا ، حکومت نے سفارت خانے کی توسیع کے احکامات دے دئیے تھے ، اور مشینری بحری جہازوں پر نئی مغربی بندرگاہ پر پہنچایا جا رہا تھا ، یہ اطلاعات چیف کو چین کے توسط سے بھی کنفرم ہوئیں تھیں ، جہاں پر امریکہ کا سب سے بڑا سفارت خانہ موجود تھا ، چینی حکومت نے حال ہی میں کتنی ہی سازشیں پکڑی تھیں جن میں سفارت خانے کے ملوث ہونے کے ثبوت تھے ، مگر چین اس وقت اپنی اقتصادی قوت کی وجہ سے ان سازشوں کو اچھال نہیں رہا تھا ۔ ۔ ۔
عمران کو نہ صرف اس مشینری کو دارلحکومت تک پہنچنے سے روکنا تھا بلکہ اسکی تنصیب کے بارے میں بھی ثبوت دینے تھے ، یہ سب مشینری سفارتی پیکچ کے طور پر آ رہی تھی اسلئے نہ تو اسکی کوئی چیکنگ تھی نہ ہی کوئی پوچھ گوچھ ۔ ۔ ۔ پھر ملک کے حالات اور مشرقی اور مغربی سرحدوں کی وجہ سے بھی کافی زیادہ مشکلات تھیں ۔ ۔۔ عمران نے آرمی چیف سے کچھ معلملات طے کئے ۔ ۔ ۔ جنہیں ایکسٹو نے کنفرم کیا تھا ۔ ۔ ۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسرے دن عمران دارلحکومت کے مرکزی چوک پر کھڑا میگا فون سے امریکی حکومت کو گالیاں دے رہا تھا ۔ ۔ ۔
میرے ہموطنوں ، تمہارے اوپر قرضہ ڈال دیا ہے ، اے بھائی اسنے ایک مریل سے مزدور کو پکڑا ، تمہیں پتہ ہے تہمارے اوپر کتنا قرضہ ہے
ہاں جی ، طیفے کے دو سو اور مامے کے پچاس روپے ۔ ۔ ۔
نہیں تمہارے اوپر تیس ہزار روپے کا قرض ہے ۔ ۔
نہ نہ جی ۔ ۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں تیس ہزار روپے نہیں کمائے تو قرض کدھر سے
امریکہ سے
امریکہ تو گیا ہی نیں
تم نہیں سمجھو گے ۔ ۔ تم سب پر تیس ہزار کا قرض ہے ۔ ۔ ۔ سب ہنسنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک نوجوان آگے بڑھا ، تو قرض کون چکائے گا ۔ ۔ ۔
یہ مزدور ۔ ۔
یہ جو خود فاقے کر رہا ہے قرض چکائے گا ۔ ۔ ۔
ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ پولیس کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا ۔ ۔ سب لوگ تتر بتر ہو گئے ۔ ۔ عمران اکیلا کھڑا رہا ۔ ۔ ۔
مگر جیسے ہی پولیس کی وین اس کے پاس آ کر کھڑی ہوئی وہ بھاگ کھڑا ہوا ۔ ۔ ۔ اور ایک گلی میں مڑ گیا جہاں پر کرائم رپورٹر انور اپنے اسکوٹر پر ریڈی تھا ۔ ۔ ۔ اور وہ گلیوں کے اندر سے ہوتے ہوئے رانا ہاؤس جا پہنچے ۔ ۔ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------
روشی کو امریکی سفارت خانے میں آج ایک ہفتہ ہو چکا تھا ، عمران نے اسے سفارت خانے کی نوکری کرنے کو کہا تھا ، سفارت خانے کی طرف سے توسیع کی وجہ سے نئی اسامیوں پر بھرتی ہو رہی تھی ، روشی کو اسکے گورے اور ماڈرن لُک کی وجہ سے فوراَ جاب مل گئی اور ویسے بھی اسکے پیچھے عمران کے ایک امریکی دوست کی سفارش بھی تھی ۔ ۔ روشی کو ثقافتی اتاشی کی سیکریٹری کی جاب ملی تھی ، روشی نے تھوڑے ہی دنوں میں اتاشی کو شیشے میں اتار لیا تھا ، ثقفاتی اتاشی جو ایک پرانی منجھی ہوئی سیکرٹ ایجنٹ تھی ، اسے خصوصی طور پر ہدایات دی گئیں تھیں کہ وہ عوام میں ملے جلے ، اور عوام کی سوچ کو امریکی حکومت تک پہنچاتی رہے ۔ ۔ ۔ روشی نے خود کو عمران کی ہدایات کے مطابق کافی سے زیادہ بولڈ اور مغربی تہذیب کا دلدادہ ظاہر کیا تھا ، اور وہ اپنے اسٹائل سے لگتی بھی تھی ۔ ۔ ۔ روشی ایک اپنی مخصوص گھڑی کی مدد سے عمران تک اسکی ضروری معلومات نہایت صفائی سے پہنچا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ ۔ ۔ گوروں کو پٹا بھی رہی تھی ۔ ۔ ۔ اسے معلوم تھا کہ عورت اور شراب اس قوم کی کمزوری ہیں ۔ ۔ ۔ اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ اسی دوران ملٹری اتاشی کی سیکریٹری بیمار ہو کر امریکہ چلی گئی اور عمران نے اسکی جگہ جولیا کو بڑی آسانی سے فٹ کروا دیا تھا ۔ ۔ ۔۔
-------------------------------------------------
عمران اور انور ہر جگہ پر ایسے ہی تقریر کر کہ بھاگ جاتے ، اور انور ہی اپنے اخبار اور چینل میں اسے رپورٹ کرتا ، یہ خبر ظاہر ہے سر رحمان تک پہنچی اور انہیں اوپر سے بھی پوچھ پرتیت ہوئی ، فیاض کو اسے گرفتار کرنے کا کہا گیا مگر جب وہ نہ کر سکا تو سر رحمان نے اسے دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا ۔ ۔ ۔ آج بھی کیپٹن فیاض عمران کو گولی مارنے کے اردے سے نکلا تھا ، اسکے مخبر نے اسے بتایا تھا کہ عمران اس وقت بڑی مارکیٹ میں اپنا جلسہ کر رہا ہےا ۔ ۔ وہ آندھی کی طرح مارکیٹ کی طرف اڑا جا رہا تھا ۔ ۔ عمران اپنے میگا فون پر کہ رہا تھا
میرے ہم وطنوں ، ہمارے پاس فوج ہے ، پولیس ہے ، حکومت ہے ، ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پھر ہمیں کسی کی فوجی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ، امریکہ جب چاہتا ہے منہ اٹھا کہ ہمارے ہم وطنوں کو مار دیتا ہے ۔ ۔ ۔ جب اسکا دل کرتا ہے ہماری فوج کو بدنام کرتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ہالٹ ، فیاض نے چیختے ہوئے ہوائی فائر کیا ۔ ۔ ۔ سب لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ، انور کا اسکوٹر بھی تیار تھا ، مگر اس دفعہ اسکے پیچھے فیاض کی جیپ تھی ۔ ۔ ۔ امریکی سفارت خانے کی طرف چلو ۔ ۔ ۔ عمران نے انور کو کہا ۔ ۔ ۔ مگر وہاں تو بہت زیادہ حفاظتی اقدامات ہیں ۔۔ ۔ تم چلو تو سہی ۔ ۔ ۔ اس سائیڈ پر جہاں نئی عمارتیں بن رہیں ہیں ۔ ۔ ۔ تمہارا کیمرا ریڈی ہے نا ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے دو ۔ ۔ ۔ عمران نے کیمرا لے کر ریکارڈنگ کے لئے تیار کیا ۔ ۔ ۔ تمہیں پتہ ہے ہمیں کیا کرنا ہے ۔ ۔۔ ہاں ۔ ۔ ۔ سفارت خانے سے آدھے میل کے فاصلے پر ہی چیک پوسٹ تھی ۔ ۔ ۔ انور اسے توڑتا ہوا بجلی کی طرح نکلا تھا ۔ ۔ مشین گن کا برسٹ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر لگا تھا ۔ ۔ ۔ اور پھر دوسرا برسٹ کیپٹن فیاض کی جیپ پر مارا گیا جیپ رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے پیچھے دیکھا ۔۔ کیپٹن فیاض ہاتھ اٹھائے باہر آ رہا تھا ۔ ۔ ۔
یہ ہی جگہ ہے ۔ ۔ ۔ عمران نے نے ایک طرف مڑنے کو کہا ۔ ۔ ۔ اور کیمرا آن کر دیا ۔ ۔ ۔ یہ ایک سرنگ نما رستہ تھا ۔ ۔ ۔ عمران نے کہا آگے کا رستہ تمہیں یاد ہے نا ۔ ۔ ۔ہاں جی ۔ ۔ ۔ انور نے موٹر سائکل کی رفتار تیز کر دی تھی ۔ ۔ ۔ عمران نے ہیلمنٹ پہن لیا تھا ۔ ۔ ۔ اب وہ دونوں پوری طرح سے بلٹ پروف لباس میں تھے ۔ ۔ ۔ کیمرا چل رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اب ایک بڑے سے ہال میں داخل ہو چکے تھے ہال ایک ڈھلوان کی طرح نیچے کی طرف جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اب وہ ہال کے آخر تک پہنچ چکے تھے جہاں بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئیں تھیں جو کہ زمین کو کھود رہیں تھیں ، یہ سرنگ بنانے والی جدید ترین مشینیں تھیں ۔ ۔ ۔ عمران انکو کیپچر کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ایک دم انکے سامنے ایک بکتر بند گاڑی آ گئی ۔ ۔ ۔ اور اسکی مشین گن نے انپر گولیوں کی بارش کر دی ، انور ۔ ۔ ۔ ایگزٹ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ اوہ یہ تیزاب کا کنواں ہے ۔ ۔ ۔ ادھر نہیں ۔ ۔ ۔ عمران صاحب کیمرا پھینک دیں اسمیں ۔ ۔ ۔ کیا کہ رہے ہو ۔ ۔ مگر ہماری فوٹیج ۔ ۔ وہ ضائع نہیں ہو گی ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے میں عمران کو لگا کہ وہ چاروں طرف سے گر چکے ہیں ۔ ۔ ۔ گولیاں اب اسے ڈائرکٹ بھی لگ رہیں تھیں ۔ ۔ کہ ایک برسٹ اسکے کیمرے پر لگا اور کیمرا تیزاب کے ایک ڈرم میں جا گرا ۔ ۔ ۔ انور نے ایک لمحے کو موٹر سائکل روکی ادھر ادھر دیکھا اور ایک طرف تیزی سے بڑھتا چلا گیا ۔ ۔ عمران صاحب مزائل فائیر کر رہا ہوں ۔ ۔ اوکے ۔ موٹر سائکل کے سامنے کی جانب سے ایک مزائل نکلا اور بکتر بند سے ٹکرایا دھماکہ اور اور بکتر بند الٹ گئی ۔ ۔ انور تیزی سے نکلتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ اب وہ ایک بڑے پائپ میں تھے جو نکاسی کے لئے بنایا گیا تھا ۔ ۔ ۔ عمران کو پتہ تھا کہ یہ ایک بڑے نالے میں جا گرتا ہے ۔ ۔ ۔ اور وہ اسی نالے میں جا گرے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ تب انہیں پتہ چلا کہ باہر موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ اور وہ نالے میں تیرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ باہر آئے ۔۔ ۔ ساری محنت غارت ہوئی ۔ ۔ ۔ کیمرا وہیں ختم ہو گیا ۔ ۔ ۔ نہیں عمران صاحب ، اسکی ریکارڈنگ ادھر ہو رہی تھی ۔ ۔ ۔ میرے سینے میں رکھی ہارڈ ڈسک میں ۔ ۔ ۔ وہ تو صرف کیمرا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
بہت خوب ۔ ۔ انور زندہ باد ۔ ۔ ۔ عمران نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ مارا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسرا دن بہت ہی سنسنی خیز خبروں والا تھا ، کیپٹن فیاض شدید زخمی ہو چکا تھا ، اور سر رحمان نے عمران کی حرکتوں کی وجہ سے استعفٰی دے دیا تھا ، اور انور کا چینل اس فوٹیج کو بار بار چلا رہا تھا جس میں سرنگ کھودنے کی مشینیں سفارت خانے کی نئی عمارت میں نظر آ رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ یہ کھدائی ایٹمی پلانٹ کی جانب کی جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی حکومت اس کی تردید کر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال دونوں حکومتیں مشکل میں پڑ چکی تھیں ۔ ۔۔ سیکرٹ سروس کے ارکان عمران کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور عمران تھا کہ گدھے کے سر کے سینگ کی طرح غائب تھا ، ایکسٹو ۔ ۔ ۔ کا نمبر بھی اب صرف میسج لینے پر لگا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
اسی اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر اور بھی تھی ، سیکرٹ سروس کے چیف ایکسٹو کے استعیفٰی کے بعد نئے سربراہ نے چارج لے لیا تھا نئے سربراہ کا نام تھا مسٹر آر یعنی رضوان، اور یہ رضوان کوئی اور نہیں عمران کا شاگرد ٹائیگر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے فرداَ فرداَ ایک بار پھر ساری ٹیم کو فون کر کہ رانا ہاؤس میں بلا لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔