فرخ منظور
لائبریرین
غزل
بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا
نرگس کی طرح خاک سے میری اگیں ہیں چشم
ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا
کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر
اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا
ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا
اے طفلِ اشک ہے فلکِ ہفتمیں پہ عرش
آگے قدم نہ رکھیو تُو زنہار دیکھنا
قطعہ
پوچھے خدا سبب جو مرے اشتیاق کا
میری زباں سے ہو یہی اظہار دیکھنا
ہر نقشِ پا پہ تڑپے ہے یارو ہر ایک دل
ٹُک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا
کرتا تو ہے تو آن کے سودا سے اختلاط
کوئی لہر آگئی تو مرے یار دیکھنا
قطعہ
تجھ بن عجب معاش ہے سودا کا اِن دنوں
تو بھی ٹُک اُس کو جا کے ستم گار دیکھنا
نے حرف و نے حکایت و نے شعر و نے سخن
نے سیرِ باغ و نے گل و گلزار دیکھنا
خاموش اپنے کلبہء احزاں میں روز و شب
تنہا پڑے ہوئے در و دیوار دیکھنا
یا جا کے اُس گلی میں جہاں تھا ترا گزر
لے صبح تا بہ شام کئی بار دیکھنا
تسکینِ دل نہ اِس میں بھی پائی تو بہرِ شغل
پڑھنا یہ شعر گر کبھو اشعار دیکھنا
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روزِ ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
(مرزا رفیع سودا)
بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا
نرگس کی طرح خاک سے میری اگیں ہیں چشم
ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا
کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر
اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا
ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا
اے طفلِ اشک ہے فلکِ ہفتمیں پہ عرش
آگے قدم نہ رکھیو تُو زنہار دیکھنا
قطعہ
پوچھے خدا سبب جو مرے اشتیاق کا
میری زباں سے ہو یہی اظہار دیکھنا
ہر نقشِ پا پہ تڑپے ہے یارو ہر ایک دل
ٹُک واسطے خدا کے یہ رفتار دیکھنا
کرتا تو ہے تو آن کے سودا سے اختلاط
کوئی لہر آگئی تو مرے یار دیکھنا
قطعہ
تجھ بن عجب معاش ہے سودا کا اِن دنوں
تو بھی ٹُک اُس کو جا کے ستم گار دیکھنا
نے حرف و نے حکایت و نے شعر و نے سخن
نے سیرِ باغ و نے گل و گلزار دیکھنا
خاموش اپنے کلبہء احزاں میں روز و شب
تنہا پڑے ہوئے در و دیوار دیکھنا
یا جا کے اُس گلی میں جہاں تھا ترا گزر
لے صبح تا بہ شام کئی بار دیکھنا
تسکینِ دل نہ اِس میں بھی پائی تو بہرِ شغل
پڑھنا یہ شعر گر کبھو اشعار دیکھنا
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روزِ ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
(مرزا رفیع سودا)