نوید صادق
محفلین
ربط کیاجسم وجاں سے اٹھتاہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے
٭
اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیاخاک گھرمیں رکھا ہے
رات دن دھوپ چھاؤں کا عالم
کیا تماشا نظر میں رکھا ہے
٭
اپنی شادابئ غم کامجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
٭
محرومیوں میں خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اسے منزل کہا گیا
٭
گزرا اسی پہ سہل یہ طوفانِ رنگ و بو
جو موسم بہار میں دیوانہ بن گیا
٭
ہم تو ذریعہ جانتے ہیں مقصد کو حصولِ مقصد کا
اہل جنوں کے مسلک میں تو منزل بھی اک رستہ ہے
٭
عشق بھی تابش نہیں وجہ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دل سے اٹھی
٭
یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے
سکوں کی ایک نظر، درد کے بہت پہلو
٭
آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں تیرے طالبِ دیدار کہاں تک
پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابش
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک
٭
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے
٭
اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیاخاک گھرمیں رکھا ہے
رات دن دھوپ چھاؤں کا عالم
کیا تماشا نظر میں رکھا ہے
٭
اپنی شادابئ غم کامجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
٭
محرومیوں میں خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اسے منزل کہا گیا
٭
گزرا اسی پہ سہل یہ طوفانِ رنگ و بو
جو موسم بہار میں دیوانہ بن گیا
٭
ہم تو ذریعہ جانتے ہیں مقصد کو حصولِ مقصد کا
اہل جنوں کے مسلک میں تو منزل بھی اک رستہ ہے
٭
عشق بھی تابش نہیں وجہ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دل سے اٹھی
٭
یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے
سکوں کی ایک نظر، درد کے بہت پہلو
٭
آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں تیرے طالبِ دیدار کہاں تک
پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابش
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک
٭