فارسی شاعری تاریخِ رحلتِ حضرتِ استادی مرزا دبیر صاحب طاب ثراہ - منیر شکوہ آبادی

حسان خان

لائبریرین
آوخ آوخ کآسمان بنشاند علم و فضل را
در عزای آفتابِ کشورِ دانش دبیر
آنکه حاضر در افادت‌گاهِ طبعش روز و شب
بود همچون طفلِ ابجدخوان دبیرِ چرخِ پیر
رفت در خلدِ برین و بی بهارِ طبعِ او
شد گلستانِ معانی زرد مانندِ زریر
الحق او خلّاقِ مضمون بود چون او دیگری
آسمان هرگز نخواهد دید در دوران نظیر
بی‌قدومش بزمِ ماتم، بی‌نگاهش مرثیه
گوییا مصر است بی‌یوسف، فلک بی‌ماه و تیر
گفت تاریخِ وفاتش را منیرِ اشک‌بار
عقل بی‌دل، سدره بی‌جبریل، منبر بی‌دبیر ۱۲۹۲ه

(منیر شکوه‌آبادی)


ترجمہ:
دریغ دریغ! کہ آسمان نے علم و فضل کو کشورِ دانش کے آفتاب 'دبیر' کی عزا میں بٹھا دیا۔
وہ کہ جس کی افادت گاہِ طبع میں دبیرِ چرخِ پیر طفلِ ابجد خواں کی طرح روز و شب حاضر رہتا تھا۔
وہ خلدِ بریں میں چلا گیا اور اُس کی طبع کی بہار کے بغیر گلستانِ معانی زریر کی مانند زرد ہو گیا۔
الحق! وہ خلّاقِ مضمون تھا، اور آسمان زمانے میں اُس جیسی کوئی دیگر نظیر ہرگز نہ دیکھے گا۔
اُس کے قدوم کے بغیر بزمِ ماتم، اور اُس کی نگاہ کے بغیر مرثیہ ایسے ہیں گویا مصر بے یوسف ہو، اور فلک بے ماہ و عُطارِد۔
منیرِ اشک بار نے اُس کی تاریخِ وفات کہی: 'عقل بے دل، سدرہ بے جبریل، منبر بے دبیر'۔


× دبیرِ چرخ = عُطارِد
× زریر = ایک زرد گیاہ کا نام؛ یرقان
× تیر = عُطارِد
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
میں "استادی" کے لفظ سے دھوکا کھا گیا تھا کیونکہ استادی کا مطلب ہے "میرے استاد" اور مرزا دبیر کی وفات کو بھی ڈیڑھ صدی ہونے والی ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ کہ وہ آپ ان کی شاگردی میں کیسے آ سکتے تھے۔
اب لگتا ہے کہ جن صاحب نے یہ تاریخ وفات نکالی ہے ان کے استاد ہوں گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں "استادی" کے لفظ سے دھوکا کھا گیا تھا کیونکہ استادی کا مطلب ہے "میرے استاد" اور مرزا دبیر کی وفات کو بھی ڈیڑھ صدی ہونے والی ہے تو میں سوچ رہا تھا کہ کہ وہ آپ ان کی شاگردی میں کیسے آ سکتے تھے۔
اب لگتا ہے کہ جن صاحب نے یہ تاریخ وفات نکالی ہے ان کے استاد ہوں گے۔
منیر شکوہ آبادی نے دبیر کو اپنا استاد کہا ہے، اور یہ بھی دبیر ہی کے زمانے کے شاعر ہیں۔
 
Top