بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم وائس چانسلر صاحب محترم اساتذہ کرام! برادران و ہمشیر گان!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
جیسا کہ ابھی اعلان کیا گیا آج کی تقریر کا موضوع تاریخ حدیث ہے۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا ذکر ناگزیر ہے، اس لیے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو اسلام کا محور ہیں۔ شاید یہ نامناسب نہ ہوگا اگر میں شروع ہی میں تاریخ کے اس پہلو پر نظر ڈالوں کی حدیث کی اہمیت کیا ہے اور یہ کہ حدیث اور قرآن کا ایک دوسرے کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں اور کچھ نہیں تو دس پندرہ جگہ صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو مثلاً "ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا" (جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے دیں اسے لے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 7:59) اس سے بھی زیادہ زوردار صراحت کے ساتھ ایک اور آیت ہے: "من یطع الرسول فقد اطاع اللہ" (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا خدا کی اطاعت کرتا ہے۔ 80:4) تو یہ آیت نیز اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ قرآنی تصور میں حدیث کوئ کم درجے کی چیز نہیں بلکہ ایک لحاظ سے اس کا درجہ قرآن کے برابر ہی ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک سفیر کسی بادشاہ کی طرف سے دوسرے بادشاہ کے پاس ایک خط لے کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خط میں زیادہ تفصیلیں نہیں ہوں گی لیکن جس مسئلے کے لیے سفیر بھیجا جاتا ہے اس مسئلے پر جب گفتگو ہوگی تو سفیر کا بیان کیا ہوا ہر ہر لفظ بھیجنے والے بادشاہ ہی کا پیغام سمجھا جائے گا۔ اس مثال کے بیان کرنے سے میرا منشاء یہ ہے کہ حقیقت میں حدیث اور قرآن ایک ہی چیز ہیں دونوں کا درجہ بالکل مساوی ہے۔ ایک مثال سے میرا مفہوم آپ پر زیادہ واضح ہوگا۔ فرض کیجئے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور ہم میں سے کوئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر یہ جاہل شخص اگر کہے کہ یہ تو قرآن ہے خدا کا کلام، میں اسے مانتا ہوں مگر یہ آپ کا کلام ہے اور حدیث ہے یہ میرے لیے واجب التعمیل نہیں ہے، تو اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ فوراً ہی اس شخص کو امت سے خارج قرار دے دیا جائے گا اور غالباً اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پر موجود ہوں تو اپنی تلوار کھینج کر کہیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں اس کافر و مرتد کا سر قلم کردوں۔ غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ یہ آپ کی نجی بات ہے اور مجھ پر واجب العمل نہیں ہے گویا ایک ایسا جملہ ہے جو اسلام سے منحرف ہونے کا مترادف سمجھا جائے گا۔ اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ہمیں حکم دیں اس کی حیثیت بالکل وہی ہے جو اللہ کے حکم کی ہے۔ فرق دونوں میں جو کچھ ہے وہ اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین اور قرآن مجید کا تحفظ ایک طرح سے عمل میں آیا ہے اور حدیث کی تدوین اور حدیث کا تحفظ دوسری طرح سے۔ اس لیے تحقیق اور ثبوت کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تو ثبوت کا کوئ سوال نہیں تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی ارشاد ہوا وہ یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا۔ لیکن بعد کے زمانے میں یہ بات نہیں رہتی۔ میں ایک حدیث سن کر آپ سے بیان کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بالکل سچے ہیں لیکن میں جھوٹا ہوسکتا ہوں۔ مجھ میں انسانی کمزوری کی وجہ سے خامیاں ہوں گی۔ ممکن ہے میرا حافظہ مجھے دھوکہ دے رہا ہو۔ ممکن ہے مجھے غلط فہمی ہوئ ہو۔ ممکن ہے میں نے غلط سنا ہو۔ کسی وجہ سے مثلاً دھیان کم ہوجانے کی وجہ سے یا کوئ چیز حرکت میں تھی اس کے شور کی وجہ سے میں نے کوئ لفظ نہیں سنا تو خلط مبحث پیدا ہوگیا۔ غرض مختلف وجوہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حدیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا دوسروں تک ابلاغ اتنا یقینی نہیں رہتا جتنا قرآن کا یقینی ہے۔ قرآن مجید کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں مدون کرایا اور اس کے تحفظ کے لیے وہ تدبیریں اختیار کیں جو اس سے پہلے کسی پیغمبر نے نہیں کی تھیں یا کم از کم تاریخ میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مگر حدیث کے متعلق یہ صورت پیش نہیں آئ اور اس کی وجہ ممکن ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل مبارکہ کا یہ پہلو بھی ہو کہ آپ میں تواضع بہت تھی۔ اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے۔ (انما انا بشر مثلکم) یہ خیال آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ غالب رہتا تھا، بہ نسبت اس خیال کے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ شاید یہ تصور رہا یا کوئ اور، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی تدوین پر وہ توجہ نہ فرمائ جو قرآن مجید کے متعلق رہی۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے جو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں (وما ینطق عن الھوی۔ ان ھوا الاوحی یوحی 4,3:53) کے ذریعے سے یہ واضح کیا گیا کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنی خواہش سے نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ کی وحی کردہ چیز ہوتی ہے۔ اس طرح ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی بیان کرتے ہیں وہ خدا کی وحی پر مبنی ہوتا ہے۔ جب وحی آتی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں غلطی نہیں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہیں لیکن اگر وحی نہ آئے تو انتظار کرتے ہیں۔ کیونکہ وحی پیغمبر کے اختیار میں نہیں۔ جب خدا چاہتا ہے وحی کرتا ہے اور جب نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوائے انتظار کے کوئ چارہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپنی بات کو وحی قرار نہیں دے سکتے۔ ہمیں حدیث میں ایسی کافی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بعض دنیوی معاملات میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشورہ بھی فرماتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ احکام دیے۔ صحابہ نے کہا کہ کیا یہ وحی پر مشتمل ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اگو وحی پر مشتمل ہوتے تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا۔ ایک دوسری حدیث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں دیکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہیں گویا اس عمل کی وجہ سے کھجور پیدا ہوتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں جو حیا تھی اس کی بناء پر آپ کو یہ عمل پسند نہیں آیا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پیدا کرنا درختوں میں مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ تم یہ نہ کرو۔ لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کیا تو کھجور کی پیداوار اس سال بہت خراب گئ۔ سب لوگ آئے اورعرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے اس سال بیج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے کھجور کی پیدا وار نہیں ہوئ اس پر (ترمذی شریف وغیرہ کی حدیثوں کے مطابق) آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب یہ تھا "انتم اعلم بامورر ادنیا کم" (تم اپنے دنیاوی یمعاملات کو میرے مقابلے میں بہتر جانتے ہو) اس مثال سے یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئ چیز وحی کے تحت بیان کریں تو اس کی حیثیت قرآن کے مطابق ہوگی۔ لیکن کوئ بات اپنی طرف سے بیان کریں تو وہ ایک ذہین، ایک فہیم انسان کا بیان ہوگا لیکن خدائ وحی نہیں ہوگی، انسانی چیز ہوگی اور انسانی چیز میں خامیاں ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے کہ کبھی کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے چار رکعت کے تین ہی رکعت کے بعد سلام پھیر لیا، یا یہ کہ بجائے دو کے تین رکعتیں پڑھ لیں، سہو ہوگیا تو یہ انسانی بھول چوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ممکن ہے اور ایسا مصلحت الٰہی کے تحت واقع ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے۔ کوئ رسول اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ انسانی دائرے میں رہے۔ یعنی وہ ایسا ہی کام کرے جسے اور انسان بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر رسول "فوق البشر" بن جائے تو ہمارے لیے اسوہ حسنہ نہیں رہے گا۔ اس لیے ایسی مثالیں پیش آتی ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہیں، بیدار نہیں ہوتے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سورج کی کرنوں کی گرمی اور جلن سے بیدار ہوتے ہیں یا جیسا کہ میں نے بیان کیا، کبھی نماز پڑھنے میں رکعتوں کی تعداد میں سہو فرماتے ہیں، یا اسی طرح کی چیزیں پیش آتی ہیں جن کا حکمت الٰہی کے تحت منشاء اور غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ ہمیں یقین دلایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہی ہیں۔ وہ جو کام کرتے رہے اس کے متعلق کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم بھی چاہیں تو کرسکتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یاد رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ طرز عمل یہ رہا کہ ایسے کام نہ کریں جو امت کی طاقت سے بالاتر اور ان کی استطاعت سے باہر ہوں۔ مثال کے طور پر "وصال" نامی روزے کا میں آپ سے ذکر کروں گا۔ "وصال" کے معنی یہ ہیں کہ چوبیس گھنٹے کی جگہ اڑتالیس گھنٹے کا روزہ رکھا جائے۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شدت سے منع فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ چوبیس گھنٹے کا بھی روزہ نہ رکھو بلکہ سحری کرو، اور اس پر بہت زور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صحابہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں حکم دیتے ہیں یوں کرو مگر خود آپ کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے۔ ہم بھی ویسا ہی کرنا چاہتے ہیں، تو حدیث میں ایک دلچسپ ذکر آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اچھا کوشش کرکے دیکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوبیس گھنٹے روزہ رکھا، افطار نہیں کیا اسے اور بڑھایا اور اڑتالیس گھنٹے گزرے، اب لوگوں کو شدید پریشانی ہوئ۔ حسن اتفاق سے شوال کا چاند 29 تاریخ کو نظر نہ آتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاید 72 گھنٹے کا روزہ رکھتے پھر ان لوگوں کو پتہ چلتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرنے کی جو تم خواہش رکھتے ہو وہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔ امت کے لیے مصلحت یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کریں، یہ نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید میں وہ کام کرنا چاہیں جو ان کے بس کی چیز نہیں۔ ممکن ہے کوئ ایک شخص ایسا کرسکے لیکن عوام الناس ضعیف اور کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ غرض حدیث کی اہمیت قرآن کی اہمیت سے کسی طرح کم نہیں۔ اگر ان دونوں میں فرق ہے تو اس قدر کہ حدیث کا ثبوت ہمیں اس طرح کا نہیں ملتا جس طرح قرآن کے متعلق ملتا ہے کہ متواتر چودہ سو سال سے اس کے ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطے اور ایک ایک شوشے کے متعلق ہمیں کامل یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا جو قرآن تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ حدیث کے متعلق ایسا نہیں ہوا۔