کتاب کا صفحہ نمبر 145 سے صفحہ نمبر 154 تک
--------------------------------------
صفحہ 145
-------
میرے پیشہ اور مقام سکونت سے کیا کام، اس سے کیا غرض و انجام۔ وہ موذی تقریر بیجا سے باز نہ آئے۔ بلکہ تھوڑی دیر بعد کہنے لگے۔ ہمارے ساتھ چلو تم کو کوتوال نے بلایا ہے۔ میں نے ان کا کلام پوچ و لچر سمجھ کر یہ کہا۔ اگر کوتوال کو تحقیقات منظور ہوئے۔ میرے پاس آ کر حال پوچھ جائے۔ میں اُس کے پاس ہر گز نہ جاؤں گا۔ اپنے عیش میں خلل نہ لاؤں گا۔ میں نے کسی کی چوری نہیں کی اور تھیلی نہیں کاٹی کہ کوتوال نے مجھ پر طلبی بھیجی۔ شام تک اُسی کیفیت میں رہا، رات کو کھانا کھا کر سویا۔ صبح ہی گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ انھیں پیادوں نے آ کر روکا کہ کوتوال کا حکم نہیں تمہارے جانے کا۔ میں نے کچھ نہ سنا۔ اپنا رستہ لیا۔ دو کوس تک پیادے ساتھ آئے۔ بعد اس کے پھر گئے۔ ظاہراً معلوم ہوا کہ کوتوال جھبل پور کا مسافروں کو تہمت دزدی سے گرفتار کرتا تھا اور اُن سے دھمکا کا رشوت لیتا تھا۔ مگر مجھ سے اُس کو کچھ وصول نہ ہوا۔ جھبل پور اگرچہ بہت وسعت نہیں رکھتا ہے مگر آباد اچھا ہے۔ کسی انگریز نے اُس کا چوک بنوایا ہے۔ بہت نادر نقشہ اُس کا ہے۔ چوطرفہ دیوار ہے اندر اس کے دوکانیں اور بازار ہے۔ ہر قسم کی چیز اُس میں رکھی ہے۔ شام کو آدمیوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ جھبل پور سے آگے راستہ ہموار ہے، دو طرفہ درخت آنبہ کے سایہ دار۔ مسافر سایہ میں راہ چلے۔ جہاں چاہے آنب کھائے اور ٹھہرے۔ اُس سال درختوں میں آنبہ لدے تھے۔ مسافر راہ چلتے آنبہ کھاتے جاتے۔ یہاں پہاڑ سیاہ بہت نظر آئے۔
میں جھبل پور سے چلا۔ نو کوس کے بعد سہوڑا میں پہنچا۔ پھر نو کوس چل کر دنیڑی آیا۔ وہاں سے آٹھ کوس چلا، سہا گنج میں گیا۔ وہاں سے دس کوس آگے بڑھا۔ مہیر (1)میں پہنچا۔ مہیر موضع آباداں ہے، ایک راجہ ہندو حاکم ہے وہاں۔ اُس نے ایک چھوٹا سا قلعہ پختہ مضبوط بنوایا ہے ہزاروں طوطوں نے اُس کی دیوار کے رندوں میں آشیانہ بنایا ہے۔ گرد قلعہ کے خندق گہری پانی سے بھری ہے۔ آدمی اُس موضع کے نادان، بدقطع اور احمق ہیں گویا
صفحہ 146
-------
حیوان مطلق ہیں۔ ایک شب بندہ وہاں رہا۔ صبح ہی پانچ کوس بڑھ کر امریٹن میں آیا۔ یہاں بھی عمل ایک راجہ کا۔ انتظام ملک خاک نہ تھا۔ عملداری راجاؤں کی۔ انھیں راہوں میں مسافر اکثر مارے جاتے ہیں۔ راہزن اسباب راہیوں کا لوٹ لے جاتے ہیں۔ کوئی شنوائی نہیں کرتا ہے کہ یہ کیا ظلم و فساد ہوتا ہے۔ امریٹن پہنچ کر ایک درخت کے نیچے سو رہا۔ آدھی رات کو بیدار ہوا۔ ایسی چاندنی کھلی تھی کہ رات دن معلوم ہوا۔ آدمی کو آواز دے کر جگایا۔ میں نے اُس نے دونوں نے جانا کہ تڑکا ہوا۔ وہاں سے اُسی وقت چل کھڑا ہوا۔ جب دو کوس نکل آیا دو آدمی جنگلی لٹیرے ملے۔ ایک ایک لاٹھی لوہا لگی ہوئی، کندھوں پر رکھے۔ آواز دی کہ اے مسافر گھوڑا اور اسباب اپنا ہم کو دے۔ سیدھی طرح گھر کی راہ لے نہیں تو ہم تجھ کو مار ڈالیں گے۔ گھوڑا اور سب اسباب لے لیویں گے۔ میرے پاس چمقماق بھری ہوئی اور سب ہتھیار تھے دل میں ہراس نہ لایا اُن کی اس گفتار سے بلکہ یوں جواب دیا۔ تم اپنی راہ جاؤ، میرے نزدیک مت آؤ۔ ورنہ ایک کو گولی سے ماروں گا۔ دوسرے کا تلوار سے کام تمام کر دوں گا۔ انھوں نے یہ سن کر دو کوس تک پیچھا کیا۔ میں بھی اُن کے مقابلہ سے غافل نہ ہوا۔ جب انھوں نے دیکھا کہ ہ شخص ہوشیار ہے ۔ اسباب اس کا لینا دشوار ہے، آپس میں کچھ صلاح کی اور اپنی راہ لی۔ میں درگاہ الٰہی میں شکر بجا لا کر آگے بڑھا، لیکن ابھی تک صبح صادق کا پتا نہ تھا۔ تب یہ بات ثابت ہوئی کہ چلتے وقت رات بہت باقی تھی۔ تھوڑی دور آگے چلا۔ دیکھا کہ ایک مہاجن راہ میں بیٹھا مع متعلقوں کے رو رہا ہے۔ میں پوچھا حال کیا ہے۔ اُس نے کہا میں ناگپور جاتا تھا۔ جب یہاں آ کر پہنچا دو ڈکیت آئے۔ اسباب میرا لوٹ لے گئے اور لاٹھی لوہے کی لگی ہوئی سے مجھ کو زخمی کیا۔ اب مجھے کچھ نہیں بن پڑتا، اگرچہ خرچ پاس ہوتا تو گھر پھر جاتا یا منزل مقصود تک پہنچتا۔ سخت حیران ہوں۔ الٰہی کیا کروں میں اس کا حال دیکھ بہت کُڑھا مگر کچھ نہ بن آیا۔ لاچار اپن رستہ لیا۔
صفحہ 147
-------
دس کوس چل کر نریمان میں آیا۔ سنا کہ ایک سوار سپاہی پیشہ پچاس سواروں کے ساتھ بڑے ٹھاٹ سے گوالیر(1) سے نوکری چھوڑ کر یہاں آیا ہے۔ ارادہ نوکری راجہ کا رکھتا ہے۔ میں نہایت مشتاق دیکھنے اس کے کا ہوا۔ جا کر اُس کو اور اُس کے ہمراہیوں کو دیکھا۔ فی الواقع جوان وجیہ اور دیدارو تھا۔چنانچہ وہاں کے راجہ نے اُس کو پان سو روپے درماہے کا نوکر رکھا اور ہمراہیوں اس کے کا بھی درماہہ حسب لیاقت مقرر کیا۔ بعد اس کے قلعہ اور شہر کی سیر دیکھنے گیا۔ رستہ بازار کا تنگ تھا۔ مکان راجہ کا نہ نسبت اور مکانوں کے اچھا بنا۔ اگرچہ قابل تعریف نہ تھا۔ گرد قلعہ اور شہر کے خندق کی طرح چاروں طرف دریا ہے۔ پانی اُس میں پتھر اور پہاڑ سے آتا ہے۔ عجب کیفیت دیتا ہے۔ جب یہ سیروتماشا دیکھ چکا۔ سات کوس رہ نوردی کر کے منکونا میں آیا بسبب گرمی اور نہ برسنے مینھ کے کنویں سوکھے تھے۔ حالات تشنگی شہدائے کربلا کے یاد آئے۔ چھ کوس کے بعد مئو (2)میں پہنچا۔ اس ویرانے گاؤں میں بھی پانی کا یہی حال تھا۔ وہاں سے سات کوس چلا، بن منا (3)میں آیا۔ بعد اس کے درمن گنج(4) میں پہنچا۔ چار کوس کا مفاصلہ تھا۔ ذرمنس صاحب نام کسو انگریز کا ہے، اُس نے یہ گنج ڈالا ہے، اس سبب سے نام اُس کا درمن گنج مشہور ہوا۔ یہاں سے عمل انگریزی تھا۔ پہاڑ سے رستہ چلتا ہے۔ ڈیڑھ کوس تک نشیب و فراز رکھتا ہے۔ جو کوئی اسباب اُس راہ سے لے جاتا ہے۔ وہاں کے پرمٹ میں محصول دینا پڑتا ہے۔ سابقاً ہندوستانی لوگ مقرر تھے۔ محصول ہر شے کا لے کر جمع کرتے۔ آخر انھوں نے تغلّب تصرف کیا۔ انگریزوں نے یہ عہدہ اُن سے نکال کر ایک سارجن کو بجائے اُن کے مقرر کیا۔ وہ لیاقت نوشت و خواند کی نہ رکھتا۔ فقط بسبب امانت داری کے معتمد علیہ سرکار کا ہوا۔ ہندوستانی عجب عقل ناقص رکھتے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔ اگر چوری نہ کرتے کیوں اس عہدہ سے موقوف ہوتے۔ وہ پہاڑ رفیع الشان تھا۔ نشیب و فراز بیحد و پایاں رکھتا۔ آدمی بمشکل اس
صفحہ 148
-------
راہ سے جاتا۔ بگھی یا گاڈی کا ہر گز گزر نہ ہو سکتا۔ صاحبان انگریز نے جا بجا سے پہاڑ کاٹ کر رستہ برابر اور ہموار کیا۔ بلکہ اب بھی درست کرتے جاتے ہیں۔ اس سبب سے اب بگھی چھکڑے بھی اُس راہ سے جا سکتے ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا۔ لوگوں نے آگے بڑھنے سے منع کیا کہ یہاں ایک شیر لاگو رہتا ہے۔ ہر روز ایک آدمی مارتا ہے۔ تم یہاں ٹھہرو آگے مت بڑھو۔ جب سو پچاس آدمیوں کا جماؤ ہو آگے جانے کا قصد کرو۔ پہلے میں نے اُن کا کہنا خیال نہ کیا کہ میرے پاس بندوق بھری ہے۔ اگر شیر سامنے آوے گا ماروں گا۔ سوا اس کے میں خوفناک مقاموں پر گیا۔ افضال الٰہی سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ یہاں بھی صدمہ سے بچوں گا۔ مگر پھر قول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا یاد آیا۔
گرچہ کس بے اجل نخواہد مرد
تو مرو در وہاں اژدہا
اس وجہ سے ٹھہر گیا۔ جب بہت لوگ جمع ہوئے، سب مل کر غُل کرتے ہوئے اُس پہاڑ ناہموار سے نیچے آئے۔ میں بھی اُن کے ساتھ آیا۔ چڑھاؤ اُتار سے تھک گیا۔ ایک درخت سایہ دار کے نیچے اُتر رہا۔ آدھی رات کو باران رحمت برسا۔ میں نے کمبل اوڑھ لیا اور وہیں رات بھر بسر کی۔ صبح ہی اٹھ کر قصد چلنے کا کیا۔ اپنے زانو کے نیچے دو بچھوؤں سیاہ کو بیٹھے پایا۔ فضل الٰہی شامل حال تھا کہ انھوں نے ڈنک نہیں مارا۔ میں چمٹے سے اُٹھا کر گھاس میں ڈالا پر جان سے ان کو نہ مارا۔ اگرچہ یہ امر خلاف عقل تھا۔ مگر اُس وقت بمقتضائے وحدانیت یہی بہتر معلوم ہوا۔ وہاں سے چستی چالاکی سے سات کوس طے کر کے لال گنج(1) کی سرا میں پہنچا۔ کئی منزل سے ایک صوبہ دار کسی راجہ کا نوکر مع رفیقوں اپنے کے ہمراہ ہمارے تھا۔ اسی طرح ایک کہار بھی دور سے ہمراہ ہمارے آتا۔ میرزا پور کا رہنے والا تھا۔ بہت دنوں کے بعد روپے اشرفی جمع کر کے اور کپڑے نفیس اپنی جورو کے لیے بنوا کر نوکری
صفحہ 149
-------
پر سے گھر اپنے آتا تھا۔ کم بختی نصیبہ سے یہ سمجھ کر کہ گھر قریب آ پہنچا۔ لال گنج کی منزل میں ہم سے جدا ہو کر شراب نوشی میں مشغول ہوا۔ ہم لوگ سرائے لال گنج ووہیں پہنچے تھے کہ کہار بھی آیا، زخمی روتے پیٹتے۔ میں حال پوچھا۔ کہا کیا کہوں، غضب ہوا۔ میرے سارے روپے اور اشرفیاں دو تین چوروں نے زبردستی چھین لیں اور مجھ کو کر کے ننگا نکال دیا۔ میں نے کہا تو نے ازراہ بے عقلی و احمقی ہمارا ساتھ چھوڑا۔ جو اس مصیبت و تکلیف میں گرفتار ہوا۔ میں بسبب ماندگی راہ کے لاچار ہوا۔ نہیں تو ضرور ان رہزنوں کا پتا لگاتا۔
دل میں خیال آیا کہ عمل انگریزی میں بھی باوجود اس قدر انتظام کے ظلم صریح ہوتا ہے پس اور حاکموں ہندوستان کو بسبب بے انتظامی کے الزام دینا بیجا ہے اگر انگریز مثل اورنگ زیب عالمگیر کے رہزنوں کو جان سے ماریں تو البتہ اُس پیشہ والے رہزنی سے باز آئیں۔ فقط تہدید زبانی سے کام نہیں نکلتا ہے، انتظام قرار واقعی نہیں ہوتا ہے۔
الغرض صبح ہی وہاں سے سات کوس چلا۔ میرزا پور (1) آ کر ایک سرا میں اُترا۔ عجب سرا کہ مکان اُس کے معدن حرارت، بھٹیاریاں ڈائنوں کی صورت میلے کپڑے پہنے۔ سیکڑوں چیلڑ اُس میں بھرے۔ صفائی ستھرائی کی یہ حالت تھی کہ رینٹ ہونٹوں تک لٹکتی۔ کوئی اپنے سر کے بال کھجلاتی، کوئی اپنے چوتڑوں پر ہاتھ دوڑاتی۔ مسافر اپنی شامت اعمال سے اگر وہاں آ نکلا۔ عذاب دوزخ میں گرفتار ہوا۔ یعنی ہر ایک اپنی طرف بلاتی ہے۔ ایک مکان تاریک و تنگ میں اُتارتی ہے ۔ وہاں مچھر ہجوم لاتے ہیں۔ ہڈی چمڑا زخمی کر ڈالتے ہیں۔ میں بھی اس سرا میں اُترا۔ ایک تو گرمی مکان اور تکلیف مچھروں سے حیران تھا، دوسرے لید اور گوبر کی بو دماغ کو پریشان کرتی۔ طرفہ اُس پر یہ کہ ہر ایک بھٹیاری آدھی رات تک آپس میں لڑی۔ ان وجہوں سے نیند آنکھ میں حرام ہوئی۔ یہاں کی تکلیف سے لندن کی سرا یاد آئی کہ وہاں کیا کیا آسائش تھی۔ مسافر جب وہاں پہنچتا ہے، ایک شخص سپید پوش دروازے تک
صفحہ 150
-------
آتا ہے۔ بڑی عزت اور تکلف سے دو منزلے مکان بلند میں لے جاتا ہے۔ شیشہ آلات درودیوار میں لگے۔ کوچ مخملی بچھونوں کی ہر چہار طرف بچھے۔ ہوا کھڑکیوں کی راہ سے جو آتی ہے، مانند نسیم بہشت روح میں قوت دیتی ہے۔ مکھی یا مچھر کا ہر گز اُس میں نام و نشان نہیں۔ نیچے کے مکان میں میزوں پر ہر طرح کے کھانے چنے ہوئے بصد تزئین۔ مسافر کو جس کھانے کی تمنا ہے، میز پر مہیا ہے۔ جب کھانے کی نوبت آئے، ایک پری زاد سامنے بیٹھ کر بین بجائے۔ بعد فراغت کے شراب وین خوشبودار اور میوے ہر قسم کے مزیدار لا کر کھلاتی ہے۔ صبح کے وقت ایک رنڈی نہایت حسین سرہانے آ کر ملائم آواز سے آہست آہست جگاتی ہے اور آواز "امروز روز خوش" کی مسافر کے کان میں سناتی ہے۔ سوا اُس کے اور پریاں پوشاک نفیس پہنے سامنے آتی ہیں۔ تراش خراش میں ایک نرالے انداز دکھاتی ہیں۔ علاوہ اس سے کوچ گاڈی فرش مخملی وغیرہ کی سواری کے لیے ہر جگہ ملتی ہے۔ ایک دن میں سو کوس کی منزل پر بے رنج و تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ مسافر سفر میں ایسی آسائش پاتا ہے کہ گھر بھول جاتا ہے۔ اس سراؤں کو اگر بہشت کہوں تو بجا ہے اور اگر باغ ارم سے تشبیہ دوں روا ہے۔ انگریز لوگ اگر ہندوستان کے مکانوں اور سراؤں کو ناپسند کریں، ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ لندن کے مکانوں یا سراؤں سے یہاں کا کوئی مکان اور سرا نسبت نہیں رکھتا ہے۔ ع:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
اُس نواح میں چار کوس کے بعد ہر چیز ملتی ہے۔ بلکہ جا بجا بستی ہے۔ یہاں اگر مسافر سارا دن چل کر بہ ہزار خرابی سرا میں پہنچے۔ عذاب دوزخ اور سخت بلا میں مبتلا ہوئے۔ بھلا انگریزوں کو یہ سرا کیوں کر بھاوے۔ جب ہم ہی لوگوں کو پسند نہ آوے۔
قصہ مختصر بندہ ایک دن سیر و تماشے کے لیے وہاں رہا۔ بازار اور دریا کی سیر کو گیا۔ ایک جگہ ایک فقیر فربہ لحیم و جسیم ہندو مذہب بیٹھا تھا۔ سر سے پاؤں تک ننگا۔ عورتیں ہندوؤں اور
صفحہ 151
-------
مہاجنوں کی اس کے عضو تناسل کو پوج رہی تھیں۔ اپنے نزدیک گویا عبادت کرتی تھیں۔ کوئی بہت ذوق و شوق سے اُس کو ہاتھ میں لے کر چومتی۔ کوئی چاول اور پھول اُس پر چھڑکتی۔ وہ فقیر ننگا عجب صاحب نصیب تھا کہ اندر کے اکھاڑے میں بے پروائی سے بیٹھا، نطارہ جمال پری زادوں کا کرتا۔ ایک نے اپن پریوں میں سے گاڑھے دودھ میں قند کا چورہ ملایا۔ بہت خوشامد و لجاجت سے اُس بے حیا کو پلایا۔ مجھ کو یہ ماجرا دیکھ کے بے اختیار غصہ آیا۔ یہی جی چاہا کہ اس مردک بے شرم کو ایک لاٹھی ماروں اور رنڈیوں کو اُس کے پاس سے ہٹا دوں۔ پھر جو غور کیا یہ امر مناسب نہ سمجھا، ناچار صبر کیا۔ اس واسطے کہ وہ رنڈیاں بہت حسن اعتقاد سے لنگ پوجتی تھیں۔ صورت تہدید میں اُس نابکار کو رنج ہوتا اور وہ بھی آزردہ ہوتیں۔ مزاحمت کرنا مناسب نہ دیکھا۔ بلکہ دل میں خیال آیا کہ میں بھی سپہ گری اور دوا دوش ملکوں کی چھوڑوں، ننگا ہو کر اپنے تئیں مہا پرش بناؤں اور ان رنڈیوں حسینوں سے اپنا لنگ پجواؤں، زندگی کا مزہ اور لطف پاؤں۔ نوکری میں اذیت ہے پر اس فقیری میں عجب کیفیت ہے۔ پریاں اطاعت میں حاضر رہتی ہیں۔ دودھ اور موہن بھوگ لا کر کھلاتی ہیں۔ بھلا یہ مزہ نوکری میں کہاں۔ اس سے اُس سے تفاوت زمین و آسمان۔ ہندو عجب بے تمیز ہوتے ہیں کہ اپنی جوروؤں کو برہنہ مکار فقیروں پاس بھیج کر لنگ پجواتے ہیں۔ چاہیے تھا اُن کو اس امر بیجا سے روکنا سو برعکس بخوشی اجازت دیتے ہیں۔ ننگے آدمی سے مرد آنکھ بچا جاتے ہیں۔ حیف ہے کہ اس کے پاس رنڈیاں جا کر لنگ پوجیں۔ یہ کیا لچر حرکت ہے اور کیسی رسم ابتر ہے۔(1) خیر بندہ یہ حال دیکھ کر سرا میں آیا۔ لوگوں سے یہ قصہ نقل کیا۔ ایک بھٹیاری نے کہا۔ تم نے ابھی کیا دیکھا۔ یہ تو ذرا سی بات ہے۔ اگر فلانے گھاٹ پر چھپ کر جاؤ دیکھو ان کی کیا کیا حرکات ہے۔ میں نہایت مشتاق ہوا۔ رات کو اس گھاٹ پر جا کر مخفی بیٹھا۔ ڈیڑھ پہر رات گئے دو تین جوگی مسنڈے نوجوان مٹھائی ہاتھ میں لیے آئے اور دو تین حسین رنڈیاں
صفحہ 152
-------
مہاجنوں کی بیویاں ساتھ لائے۔ ایک دونگی پر سوار ہو کر دریا کے پار گئے۔ ایک باغ میں نفیس بچھونا بچھا کر چین سے بیٹھے۔ بندہ بھی چالاکی کر کے ایک چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر پار اُترا۔ کرائے اُس کے کا ایک روپیہ دیا۔ اُن کی آنکھ سے چھپ کر ایک کنارے بیٹھ رہا۔ انھوں نے مجھ کو نہ دیکھا۔ پہلے سبھوں نے مٹھائی مل کر کھائی۔ بعد اس کے اُن میں اور رنڈیوں میں بات چیت کی نوبت آئی۔ یہاں تک ہنگامہ عیش و نشاط گرم ہوا کہ جوگیوں نے اُن سے مساس کیا۔ آخر طرفین سے قوائے شہوانی جوش میں آئے۔ جوگیوں نے ساق بلوریں اُن پریوں کی ہاتھ میں لے کر کمر سے کمریں ملائیں۔ کیفیتیں صحبت کی اُٹھائیں۔ جام وصال اُن کے سے بادہ نوش ہوئے۔ ساری فقیری اور جوگ بھولے۔ جب فراغت کر چکے اس پار آئے۔ رنڈیاں اپنے اپنے گھر گئیں۔ جوگیوں نے ایک درخت کے نیچے آسن مارے اور مونگے کا مالا ہاتھ میں لے کر رام رام جپنے لگے۔ یہ ماجرا دیکھ اول دل میں آیا کہ ضرور ہی ان حرام زادیوں کے حال سے ان کے وارثوں کو خبر کرنا چاہیے۔ پھر یہ سمجھا کہ اگر یہ حال جا کر اُن سے کہوں ۔ وہ بے عقل ہیں۔ شاید برخلاف مذہب باعث خصومت جان کر آمادہ مقابلہ ہوں۔ ناحق بات بڑھے، حاکم تک پہنچے۔ بہرحال اس مقدمہ میں سکوت کرنا بہتر معلوم ہوا۔ سرا میں آیا۔ ہندو عجب عقل ناقص رکھتے ہیں کہ ننگ و ناموس کا کچھ خیال نہیں کرتے ہیں۔ یعنی ازراہ حماقت جوگیوں طویل القامت بدمستوں کو صاحب کمال جانتے ہیں، بے تکلف اپنی جوروؤں کو ان کے پاس بھیج کر خراب کرواتے ہیں۔
قصہ مختصر بندہ سرائے میرزا پور سے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے چلا۔ سولہ کوس منزل طے کر کے بنارس پہنچا۔ یہ شہر میرا دیکھا ہوا تھا۔ پر اس بار بھی خوب پھرا اور سیر دیکھتا رہا۔ رستہ بازار کا مانند شہروں ہند کے تنگ تھا۔ الّا خوب آباد ہے اور اسباب سب قسم کا ملتا۔ قصائی جو بکری کا گوشت بیچتے تھے ایک سڑی دوکان مثل بیت الخلا پر بیٹھے تھے۔ میلے کچیلے کپڑے
صفحہ 153
-------
پہنے۔ گوشت کو ایک کثیف چیتھڑے پر رکھے ہوئے۔ اوپر سے ایک اور میلا کپڑا اوڑھائے، خریداروں کو اُس کے دیکھنے سے نفرت آئی۔ بیچتے وقت ہزاروں مکھیاں گرتیں۔ بہتیری اُس میں حل ہوتیں۔ ہندوستان میں یہ شہر عمدہ مشہور ہے۔ جب اُس کا یہ دستور ہے اور قصبات و دیہات کا کیا مذکور ہے۔ برخلاف انگلستان کے کہ وہاں قصائی پوشاک سپید و نفیس پہنے، دوکان رشک گلستان پر نفاست سے بیٹھے ہیں۔ ٹکڑے گوشت فربہ کے مانند دستوں پھول کے برابر لٹکا کر بیچتے ہیں۔ ایک طرف پارچے اور بھیڑ مسلّم لٹکی۔ دوسری طرف چٹھی قیمت ہر ایک کی لکھی ہے۔ جو خریدار آتا ہے ۔ بے تکلف چٹھی کے موافق قیمت دے کر ٹکڑا گوشت کا لے جائے۔ اسی طرح مچھلی اور مرغی بیچنے والوں کا حال ہے۔ وہاں کے سب دوکانداروں کی یہی چال ہے۔ دوکانوں کو سیسر سے بلند کیا۔ صفائی سے اُن پر جوبن تھا۔ افسوس کہ ہندوستانی اپنے اپنے فنون میں کاہل ہیں۔ صفائی ستھرائی ہر چیز کی سے غافل ہیں۔ بنارس میں کنارے گنگا کے ایک مکان عالیشان بنا ہے۔ سابق وہ بت خانہ تھا عالمگیر نے اپنے عہد میں اس کو کھدوا کر بطور مسجد بنوایا ہے۔(1) اب وہ تماشا گاہ خلائق ہوا۔ بندہ بھی ایک روز اس کو دیکھنے گیا۔ بدویوں کی پوشاک پہنے تھا۔ کئی راجہ ہندو اور مسلمان صاحب آبرو وہاں موجود تھے۔ میری وضع نرالی دیکھ کر حیران ہو کر پوچھنے لگے۔ تم کون ہو کہاں سے آتے ہو۔ میں نے کہا۔ فقیر ہوں پھرتے پھرتے ادھر بھی آ نکلا۔ تمہیں اس تقریر سے غرض کیا۔ انھوں نے نہ مانا زیادہ اصرار کیا۔ میں جواب دیا کہ مرد سیاح جادہ و پیما ہوں۔ ملک فرنگستان سے آتا ہوں۔ وہ بہت متعجب ہوئے کہ اللہ بہت دور سے آئے۔ اب بتاؤ کہ انگلستان بنارس کی سی آبادی رکھتا ہے۔ یہاں کا سا مکان اور محل بلند سنگین وہاں بھی بنتا ہے۔ یہ سن کر میں ہنسا۔ انھوں نے تعجب کیا کہ سچ کہو ہنسنے کا باعث کیا ہے۔ تب تو میں نے کہا۔ وہ ملک روئے زمین میں بہشت خانہ ہے۔ اُس کے سامنے یہ شہر اور عمارت اُس کی پاخانہ ہے۔ اس شہر ناہموار کو
صفحہ 154
-------
اُس سے کیا نسبت۔ اس میں اُس میں بڑا تفاوت۔ وہاں ایسی فضا اور وسعت ہے کہ گویا نمونہ جنت ہے اگر وہاں ایسی تنگی اور عفونت ہوتی، انگریزوں کی زیست اصلاً نہ ہوتی۔ یہاں کی سی بے حیائی اگر وہاں کے لوگ کرتے انگریز ان لوگوں کو جان سے مارتے۔ یہاں کے لوگ عجب بے حیا ہوتے ہیں کہ ایک لنگوٹی غرقی سے ستر ڈھاکتے ہیں، اُس سے مقام بول و براز نظر آتے ہیں۔ پر وہ کسی زن و مرد سے شرم و حیا نہیں رکھتے ہیں۔ انگلستان میں مرد اور عورت تہرے چوہرے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ کیا ممکن کہ سارے بدن میں اکہرا کپڑا بھی پہنیں۔ اس سرزمین میں بہ نسبت ہر اقلیم کے میوے اور نعمتوں کی زیادتی ہے۔ روز بروز ثروت اور حشمت کی ترقی ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر وہاں یہ سب امر میسر ہوتے ہیں انگریز کیوں اُس شہر کو چھوڑ کر تلاش معاش میں اور ملکوں میں پھرتے ہیں۔ تم ہندوستانی ہو کر لندن کی تعریف کرتے ہو۔ شاید وہاں انگریزوں کے ساتھ کھانا کھایا اور اُن کے مذہب میں آئے ہو۔ اس سبب سے اُن کا دم بھرتے ہو۔ میں نے کہا تم غلط کہتے ہو، کوئی کسی کے ساتھ کھانے سے اُس کے مذہب میں نہیں آ جاتا ہے۔ مذہب دل سے تعلق رکھتا ہے۔ ساتھ کاھنے اور زیادتی صحبت غیر مذہب والے سے مذہب میں کچھ خلل نہیں آتا۔ میں نے اگرچہ انگریزوں کے ساتھ کھایا۔ پر اس وجہ سے اُن کے مذہب میں نہیں آیا۔ جب تک دل سے ایمان نہ لاؤں اور ان کے مذہب میں نہ آؤں۔ میں مذہب سلیمانی رکھتا ہوں۔ موافق اور مخالف دونوں سے صلح کرتا ہوں۔ میں نے تم سے جو تعریف لندن کی کی۔ ساری حق اور صحیح تھی۔ اس میں مذہب سے کچھ واسطہ نہیں۔ انگریزوں سے مجھ کو علاقہ نہیں اور یہ جو تم نے کہا کہ اگر انگلستان میں یہ ناز و نعمت ہوتی، انگریز لندن سے کیوں باہر نکلتے۔ صورت اس کی یوں ہے کہ اُس اقلیم کی وسعت پان سو کوس کی ہے۔ ہمیشہ لوگوں کی اولاد بڑھتی ہے۔ اگر سب وہیں رہتے۔ مکان رہنے کے نہ ملتے۔ اس واسطے بعضے اُس شہر کو چھوڑ کر عربستان یا
-----------------------------------------------
(کتاب کے صفحہ نمبر 145 سے صفحہ نمبر 154 تک مکمل)
-----------------------------------------------