محمد خرم یاسین
محفلین
تیرا خیال آتے ہی نا جانے کیسے
صوفی بن جاتا ہوں
ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ٹکڑا تھامے
دوسری جانب چوڑیوں سے مخمور حنائی ہاتھ کو دیکھتا ہوں
آنکھ بتقاضائے حیا اٹھ نہیں پاتی
اورمذہبِ عشق میں بیعت ہوجاتا ہوں
پنجابی دھن پر ترکی صوفیوں کے ساتھ لمبا چولا پہنے
کتنے ہی بھگتوں، جوگیوں، صوفیوں کے سنگ گھومتا ہوں
خود سے، خودی سے۔۔۔ بہت دور
ایک خمار، ایک وجد کی سی حالت میں جھومتاہوں
جسم روح۔۔۔ اور زمیں بادل بن جاتی ہے
گھومتا، جھومتا، تھک کر ، گر کر
ہوش سے بیگانہ ہوجاتا ہوں
اور جب عشق کے تھیا تھیا سے باہر نکلوں
توپھر سے زندگی اوڑھے
زندگی کی راہ پرچل پڑتا ہوں
مذہبِ عشق سے ۔۔۔لڑ پڑتاہوں!