تازہ غزل بغرضِ اصلاح و تنقید۔۔۔رہا دربدر پھرا کُو بکُو۔۔۔محمد ذیشان نصر

متلاشی

محفلین
السلام علیکم !​
ایک تازہ غزل آج ہی وارد ہوئی ہے سو ہدیہ قارئین ہے ۔۔۔۔!​
رہا دربدر پھر ا کُو بکُو​
رہی عمر بھر یہی آرزو​
ملے مجھ کو بھی کوئی ہم نفس​
کوئی مہ جبیں کوئی خوبرو​
ملاہم سفر، مجھے جب نصرؔ​
ہوئی ختم پھر مری جستجو​
نہ میں کہہ سکا مرا حالِ دل​
نہ ہی ہو سکی کوئی گفتگو​
نہ ہی چھُپ سکا کبھی ان سے میں​
نہ ہی ہو سکا کبھی رُوبَرُو​
مری تشنگی رہی عمر بھر​
نہ میں ہو سکا کبھی سَرخرو​
ہوئی ختم یوں مری داستاں​
نہ میں وہ رَہا نہ وہ ماہ رُو​
محمد ذیشان نصر​
22 دسمبر 2012​
 
رہا دربدر پھر ا کُو بکُو
رہی عمر بھر یہی آرزو
دونو مصرع الگ الگ لگتے ہیں، در بدر کیوں پھرے، کو بکو اس کی وضاحت؟
کیا دربدر پھرنے کی آرزو تھی؟
اُستاد محترم کا انتظار کر لیجیے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
مجھے اس پوری غزل میں پہلا مصرع بہت خوب صورت لگا ۔۔۔ باقی کا کام اساتذہ کا ۔۔۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اظہر کے بیان کردہ مطلع کے علاوہ یہ اشعار بھی دو لخت لگ رہے ہیں۔
نہ ہی چھُپ سکا کبھی ان سے میں
نہ ہی ہو سکا کبھی رُوبَرُو
مری تشنگی رہی عمر بھر
نہ میں ہو سکا کبھی سَرخرو
ہوئی ختم یوں مری داستاں
نہ میں وہ رَہا نہ وہ ماہ رُو
اس کے علاوہ ‘ نہ ہی ہو سکا‘ بھی صوتی طور سے اچھا نہیں۔​
 

متلاشی

محفلین
اظہر کے بیان کردہ مطلع کے علاوہ یہ اشعار بھی دو لخت لگ رہے ہیں۔
نہ ہی چھُپ سکا کبھی ان سے میں
نہ ہی ہو سکا کبھی رُوبَرُو
مری تشنگی رہی عمر بھر
نہ میں ہو سکا کبھی سَرخرو
ہوئی ختم یوں مری داستاں
نہ میں وہ رَہا نہ وہ ماہ رُو
اس کے علاوہ ‘ نہ ہی ہو سکا‘ بھی صوتی طور سے اچھا نہیں۔​
شکریہ استاذ گرامی کچھ تبدیلیوں کے بعد دوبارہ حاضرہوتا ہوں ۔۔!
 
Top