تازہ غزل! کافی عرصہ بعد کچھ کہا ہے ، اساتذہء فن سے درخواست ہےکہ ایک نظر طائرانہ فرمادیں۔ندیم مراد

ندیم مراد

محفلین
جی لگانے کو جی چاہتا ہے
غم بھلانے کو جی چاہتا ہے
کچھ کمانے کو جی چاہتا ہے
کچھ گنوانے کو جی چاہتا ہے
نقش کاغز پہ کھینچے بہت سے
اب مٹانے کو جی چاہتا ہے


پھر سے لکھنا ہے خط ایک ان کو
جی جلانے کو جی چاہتا ہے
نا سمجھ تھے رلاڈالا ان کو
اب ہنسانے کو جی چاہتا ہے
نقرئی قہقہوں کی دُھنیں ہوں
ایسے گانے کو جی چاہتا ہے
کیا ہے پہلو میں بیٹھے ہی رہیئے
آنے جانے کو جی چاہتا ہے
زخمِ دل ہم نے برسوں چھپائے
اب سجانے کو جی چاہتا ہے
دکھ نہیں کہ فقط دکھ ہی دکھ ہیں
کھلکھلانے کو جی چاہتا ہے
اب بہار آنا ممکن نہیں ہے
گل لگانے کو جی چاہتا ہے
میں نے دیکھے ہیں جتنے بھی سپنے
وہ دکھانے کو جی چاہتا ہے
جتنی غزلیں بھی میں نے کہی ہیں
سب سنانے کو جی چاہتا ہے
بھر دئے ہم نے لکھ لکھ کے دفتر
اب جلانے کو جی چاہتا ہے
تھک گئے ہیں مسافت سے لمبی
لوٹ آنے کو جی چاہتا ہے
سچ ہوں سب میرے سپنے سہانے
جاگ جانے کو جی چاہتا ہے
اب تو گھبرا کے آلام و غم سے
حشراٹھانےکو جی چاہتا ہے
جس میں سب مل گئےتھے بلآخر
اُس فسانےکو جی چاہتا ہے

ہم غریب الوطن ، کیوں ہمارا
آشیانے کو جی چاہتا ہے
کود کر اب بلندی سے، تقدیر
آزمانے کو جی چاہتا ہے
کھول کر رکھ دیا تھا دل آگے
اب چھپانے کو جی چاہتا ہے
وصل کافی نہیں ہے ندؔیم ،اب
گھر بسانے کو جی چاہتا ہے
ندیؔم مراد عفی عنُہ

 

الف عین

لائبریرین
واہ، یہ لمبی غزل تو مکمل بحر و اوزان میں درست ہے۔ شاید یہ بحر پکڑ میں آ گئی ہے
بس یہ شعر نکال ہی دو
دکھ نہیں کہ فقط دکھ ہی دکھ ہیں
کھلکھلانے کو جی چاہتا ہے
مفہوم کے اعتبار سے معلوم نہیں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور ’کہ‘ بطور ’فع‘ مجھے پسند نہیں
 

ندیم مراد

محفلین
واہ، یہ لمبی غزل تو مکمل بحر و اوزان میں درست ہے۔ شاید یہ بحر پکڑ میں آ گئی ہے
بس یہ شعر نکال ہی دو
دکھ نہیں کہ فقط دکھ ہی دکھ ہیں
کھلکھلانے کو جی چاہتا ہے
مفہوم کے اعتبار سے معلوم نہیں شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔ اور ’کہ‘ بطور ’فع‘ مجھے پسند نہیں
بہت بہت شکریہ
جناب الف عین صاحب آپ نے تو جیسے مہر تصدیق سبت کردی
اتنی خوشی ہوئی کہ کوئی غلطی نہیں
جس شعر کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا اسے نکال دیا گیا ہے،
میں نے اس میں کہنا چاہا تھا
دکھ نہیں ہے کہ مجھے کوئی خوشی حاسل نہیں، لیکن اس کے باوجود کھل کھلا کر ہنسنے کا دل چاہتا ہے،
مگر وہ شعر ہی کیا جس کا مطلب بتا نا پڑے،
ایک مرتبہ پھر شکریہ
امید ہے مستقبل میں بھی ایسی کرم فرمائی کرتے رہا کریں گے۔
 
جی لگانے کو جی چاہتا ہے
غم بھلانے کو جی چاہتا ہے
کچھ کمانے کو جی چاہتا ہے
کچھ گنوانے کو جی چاہتا ہے
نقش کاغز پہ کھینچے بہت سے
اب مٹانے کو جی چاہتا ہے


پھر سے لکھنا ہے خط ایک ان کو
جی جلانے کو جی چاہتا ہے
نا سمجھ تھے رلاڈالا ان کو
اب ہنسانے کو جی چاہتا ہے
نقرئی قہقہوں کی دُھنیں ہوں
ایسے گانے کو جی چاہتا ہے
کیا ہے پہلو میں بیٹھے ہی رہیئے
آنے جانے کو جی چاہتا ہے
زخمِ دل ہم نے برسوں چھپائے
اب سجانے کو جی چاہتا ہے
دکھ نہیں کہ فقط دکھ ہی دکھ ہیں
کھلکھلانے کو جی چاہتا ہے
اب بہار آنا ممکن نہیں ہے
گل لگانے کو جی چاہتا ہے
میں نے دیکھے ہیں جتنے بھی سپنے
وہ دکھانے کو جی چاہتا ہے
جتنی غزلیں بھی میں نے کہی ہیں
سب سنانے کو جی چاہتا ہے
بھر دئے ہم نے لکھ لکھ کے دفتر
اب جلانے کو جی چاہتا ہے
تھک گئے ہیں مسافت سے لمبی
لوٹ آنے کو جی چاہتا ہے
سچ ہوں سب میرے سپنے سہانے
جاگ جانے کو جی چاہتا ہے
اب تو گھبرا کے آلام و غم سے
حشراٹھانےکو جی چاہتا ہے
جس میں سب مل گئےتھے بلآخر
اُس فسانےکو جی چاہتا ہے

ہم غریب الوطن ، کیوں ہمارا
آشیانے کو جی چاہتا ہے
کود کر اب بلندی سے، تقدیر
آزمانے کو جی چاہتا ہے
کھول کر رکھ دیا تھا دل آگے
اب چھپانے کو جی چاہتا ہے
وصل کافی نہیں ہے ندؔیم ،اب
گھر بسانے کو جی چاہتا ہے
ندیؔم مراد عفی عنُہ

:great:
 
Top