تازہ غزل : کیسے سمے کو چیر کر نکلا ہے رستہ چاند کا از ۔ نویدظفرکیانی

کیسے سمے کو چیر کر نکلا ہے رستہ چاند کا
اب کے تو شب زادوں نے بھی کھیلا ہے مہرہ چاند کا

بے نام تاویلوں کے گرہن میں ہے سر ڈالے ہوئے
نقشہ نویسوں نے کہاں بدلا ہے نقشہ چاند کا

آنکھوں کو کھلنے ہی نہیں دیتی یہ ظالم تیرگی
سب کو خبر ہے رات بھر بہتا ہے چشمہ چاند کا

میدان تو آخر کو رہنا ہے سحر کے ہاتھ میں
کس ذعم میں شب نے سجا رکھا ہے تمغہ چاند کا

تم دیکھنا اِک روز پریوں کی کہانی کی طرح
بچوں کو ہم نے بھی سنانا ہے فسانہ چاند کا

جانے نگاہوں میں سیاہی کس طرح پھیلی رہی
ہم آپ نے کرنوں سے بھر رکھا تھا بستہ چاند کا

ہوگا نوشتہ وقت کا ہر شہر کی دیوار پر
چھپنے کو آیا ہے فضاؤں میں ضمیمہ چاند کا

********
نویدظفرکیانی
********
 

الف عین

لائبریرین
گرہن ہی نہیں، اکثر مصرعوں میں ایک لفظ ٹوٹ رہا ہے کہ بحر ہی دو حصوں میں ہے، اس لحاظ سے دو فقروں پر ہی مشتمل ایک مصرع ہوتا تو اور بہتر ہوتا۔ جیسے
میدان تو آخر کو رہنا ہے سحر کے ہاتھ میں
تم دیکھنا اِک روز پریوں کی کہانی کی طرح
بچوں کو ہم نے بھی سنانا ہے فسانہ چاند کا
جانے نگاہوں میں سیاہی کس طرح پھیلی رہی
چھپنے کو آیا ہے فضاؤں میں ضمیمہ چاند کا
 
Top