محمد حسنان شاہ
محفلین
چہرے پہ ہجر پڑ گیا وحشت کیے ہوئے
اک عمر کٹ گئی ہے محبت کیے ہوئے
صحرا جو اپنے مدِ مقابل رہا کبھی
اب تشنگی میں مجھ سے ہے حسرت کیے ہوئے
پھر سے غزل میں اپنی مخاطب کرو ہو کون
وہ شخص جو کہ تم سے ہے غفلت کیے ہوئے
بزمِ جہاں میں ہم ہوئے جلوت نشیں مگر
پنہاں درُونِ خانہ ہیں خلوت کیے ہوئے
ہوتی نہیں ہے ہم سے اب الفت پہ شاعری
ہم ہیں بلا کی دنیا سے نفرت کیے ہوئے
دنیا کی یوں کھلی ہے حقیقت کہ پوچھ مت
لمحہ بھی کٹ رہا نہیں غفلت کیے ہوئے
لفظوں سے میرے کچھ مری عادت کی لے خبر
داخل سے اور کچھ نہیں حرفت کیے ہوئے
اب آئینہ نما سی طبیعت یہ ہو گئی
ہر ایک کو اسی کی ہیں صورت کیے ہوئے
کل حسرتیں تمام جہانوں کی جمع کر
حسنانؔ اپنی پھر بھی ہیں کثرت کیے ہوئے
اک عمر کٹ گئی ہے محبت کیے ہوئے
صحرا جو اپنے مدِ مقابل رہا کبھی
اب تشنگی میں مجھ سے ہے حسرت کیے ہوئے
پھر سے غزل میں اپنی مخاطب کرو ہو کون
وہ شخص جو کہ تم سے ہے غفلت کیے ہوئے
بزمِ جہاں میں ہم ہوئے جلوت نشیں مگر
پنہاں درُونِ خانہ ہیں خلوت کیے ہوئے
ہوتی نہیں ہے ہم سے اب الفت پہ شاعری
ہم ہیں بلا کی دنیا سے نفرت کیے ہوئے
دنیا کی یوں کھلی ہے حقیقت کہ پوچھ مت
لمحہ بھی کٹ رہا نہیں غفلت کیے ہوئے
لفظوں سے میرے کچھ مری عادت کی لے خبر
داخل سے اور کچھ نہیں حرفت کیے ہوئے
اب آئینہ نما سی طبیعت یہ ہو گئی
ہر ایک کو اسی کی ہیں صورت کیے ہوئے
کل حسرتیں تمام جہانوں کی جمع کر
حسنانؔ اپنی پھر بھی ہیں کثرت کیے ہوئے