من
محفلین
در پے اس حسن کہ دربان بٹھا رکھا ہے
تو نے یہ پھول جو زلفوں میں سجا رکھا ہے
کتنی بے باک ہے یہ شوخ حسینہ اس پر
سرمہء عشق بھی انکھوں میں لگا رکھا ہے
کیوں مہکتی ہوی مجھ سے یہ لپٹ جاتی ہے
نام بھی سوچ کہ لوگوں نے صبا رکھا ہے
ناز برداریاں اور دیکھ کر ہر ایک ادا
دانت میں ہم نے بھی انگلی کو دبا رکھا ہے
اٹھ گییں پلکیں تو اک روشنی پھیلی ہر سو
انکی انکھوں میں ہی جیسے کہ دیا رکھا ہے
دیکھ کر انکا وہ معصوم کتابی چہرہ
کیوں لگا مجھکو ہر اک ورق پڑھا رکھا ہے
بھول سے ہی سہی شاید کہ ادھر ہو آنا
ہم نے اس دل کے ہر اک در کو ہی وا رکھا ہے
اتنی شدت سے نہ چاہو کہ پگھل جاؤں میں
عشق کی لو نے مجھے شمع بنا رکھا ہے
من یہ کیا چیز مچلتی ہے ترے سینے میں
دل کا کچھ کیجے جو پہلو میں دبا رکھا ہے
من
تو نے یہ پھول جو زلفوں میں سجا رکھا ہے
کتنی بے باک ہے یہ شوخ حسینہ اس پر
سرمہء عشق بھی انکھوں میں لگا رکھا ہے
کیوں مہکتی ہوی مجھ سے یہ لپٹ جاتی ہے
نام بھی سوچ کہ لوگوں نے صبا رکھا ہے
ناز برداریاں اور دیکھ کر ہر ایک ادا
دانت میں ہم نے بھی انگلی کو دبا رکھا ہے
اٹھ گییں پلکیں تو اک روشنی پھیلی ہر سو
انکی انکھوں میں ہی جیسے کہ دیا رکھا ہے
دیکھ کر انکا وہ معصوم کتابی چہرہ
کیوں لگا مجھکو ہر اک ورق پڑھا رکھا ہے
بھول سے ہی سہی شاید کہ ادھر ہو آنا
ہم نے اس دل کے ہر اک در کو ہی وا رکھا ہے
اتنی شدت سے نہ چاہو کہ پگھل جاؤں میں
عشق کی لو نے مجھے شمع بنا رکھا ہے
من یہ کیا چیز مچلتی ہے ترے سینے میں
دل کا کچھ کیجے جو پہلو میں دبا رکھا ہے
من