تازہ غزل

مری گفتار میں پنہاں سمندر کی روانی ہے
سکوں سمجھے ہو تم جس کو وہ طوفاں کی نشانی ہے
نشانہ تیرِ نگہہ کا، محبت کی نشانی ہے
ترا لال آنکھ کا دیدہ مرا دل خوں فشانی ہے
تجھے پچپن میں بھی چاہوں کا پر یہ دن کہاں ہوں گے
بڑھاپا تو بڑھاپا ہے، جوانی تو جوانی ہے
کہو ہو تم نہ دل دو گے، اگر یہ ہی ارادہ ہے
سنو اِس بار ہم نے بھی الگ ہی دل میں ٹھانی ہے
وہ جلتی ہے جلانے کو، تو ہم چلتے ہیں جلنے کو
اُدھر جو شمع جانی ہے، اِدھر پروانہ جانی ہے
اگرچہ سبحہ ءِ اشعار کے موتی ہیں لعلِ خوں
تخیل فخر کرتا ہے وہ میری خوش بیانی ہے
میں جانوں راہزن تجھ کو، تو مانے راہبر خود کو
حقیقت پھر حقیقت ہے، کہانی پھر کہانی ہے
نظر کا تیر دل کے پار ہے، محفل میں غافل ہو
نشانہ کیا نشانہ ہے، نشانی کی نشانی ہے
ہنوز اُلفت ہے دل کو اُس بتِ کافر ستم گر سے
متاعِ دل تو کب کی جاچکی، اب جاں گنوانی ہے
ہمیں کرکے شکار اب اور کوئی صید کرنا ہے
تمہارے حُسن کی طاقت کہاں تک آزمانی ہے
وفائے رشک پاکر تم کہاں چل دیں مری جاناں
وفا انمول موتی ہے، تمہیں قیمت چُکانی ہے
سید افتخار احمد رشک​
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں سید افتخار احمد رشک صاحب! بہت داد! بزمِ سخن میں خوش آمدید!
نشانہ تیرِ نگہہ کا، محبت کی نشانی ہے
اس کا پہلا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔ اسے دیکھ لیجئے ۔
غزل میں ٹائپو بھی کئی ہوگئے ہیں ۔ انہیں بھی درست کر لیجئے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھے اشعار ہیں سید افتخار احمد رشک صاحب! بہت داد! بزمِ سخن میں خوش آمدید!

اس کا پہلا مصرع وزن میں نہیں ہے ۔ اسے دیکھ لیجئے ۔
غزل میں ٹائپو بھی کئی ہوگئے ہیں ۔ انہیں بھی درست کر لیجئے ۔
اشعار کی زیادتی کا بین ثبوت۔ یہ مجھ سے صرف نظر ہو گیا
 
Top