محمد شکیل خورشید
محفلین
ذرا سی دیر کو اس درد سے مفر دے دے
جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے
نہ ہاتھ مجھ سے دعا کے لئے اٹھے لیکن
خبیر ہے تو مری آہ میں اثر دے دے
خوشی سے ساتھ ترے صبحِ نو ، سفر پہ چلوں
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے
مری نوا میں نہیں سوزکی وہ گہرائی
جو میرے درد کو اک آہِ معتبر دےدے
میں جانتا ہوں شریکِ سفر نہ تو ہوگا
بس اپنی یاد مجھے زادِ رہگزر دے دے
مجھے یقیں ہے مجھے راستہ ہی منزل ہے
جو میرے ساتھ چلے ایسا ہمسفر دےدے
تڑپ رہے ہیں جبیں میں سجودِ عشق شکیل
جہاں میں سر کو جھکاؤں وہ سنگِ در دے دے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
وہ دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے
نہ ہاتھ مجھ سے دعا کے لئے اٹھے لیکن
خبیر ہے تو مری آہ میں اثر دے دے
خوشی سے ساتھ ترے صبحِ نو ، سفر پہ چلوں
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے
مری نوا میں نہیں سوزکی وہ گہرائی
جو میرے درد کو اک آہِ معتبر دےدے
میں جانتا ہوں شریکِ سفر نہ تو ہوگا
بس اپنی یاد مجھے زادِ رہگزر دے دے
مجھے یقیں ہے مجھے راستہ ہی منزل ہے
جو میرے ساتھ چلے ایسا ہمسفر دےدے
تڑپ رہے ہیں جبیں میں سجودِ عشق شکیل
جہاں میں سر کو جھکاؤں وہ سنگِ در دے دے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
وہ دیگر اساتذہ و احباب کی نذر