تازہ کاوش: جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے

ذرا سی دیر کو اس درد سے مفر دے دے
جو ہو سکے تو مری رات کو سحر دے دے

نہ ہاتھ مجھ سے دعا کے لئے اٹھے لیکن
خبیر ہے تو مری آہ میں اثر دے دے

خوشی سے ساتھ ترے صبحِ نو ، سفر پہ چلوں
تو اپنا ہاتھ مرے ہاتھ میں اگر دے دے

مری نوا میں نہیں سوزکی وہ گہرائی
جو میرے درد کو اک آہِ معتبر دےدے

میں جانتا ہوں شریکِ سفر نہ تو ہوگا
بس اپنی یاد مجھے زادِ رہگزر دے دے

مجھے یقیں ہے مجھے راستہ ہی منزل ہے
جو میرے ساتھ چلے ایسا ہمسفر دےدے

تڑپ رہے ہیں جبیں میں سجودِ عشق شکیل
جہاں میں سر کو جھکاؤں وہ سنگِ در دے دے

محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
وہ دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے شکیل میاں
مگر مجھے جس کا مفہوم بہت پسند آیا، اس میں ہی بیانیہ کچھ عجیب لگا
پہلے کو تو یوں آسانی سے کیا جا سکتا ہے
میں جانتا ہوں شریکِ سفر نہ تو ہوگا
نہ ہو گا تو
نہ تو سے کچھ مختلف مفہوم نکلنے لگتا ہے
بس اپنی یاد مجھے زادِ رہگزر دے دے
عجز بیان ہو گیا ہے، بطور زاد سفرسے مفہوم واضح ہوتا
 
آخری تدوین:
اچھی غزل ہے شکیل میاں
مگر مجھے جس کا مفہوم بہت پسند آیا، اس میں ہی بیانیہ کچھ عجیب لگا
پہلے کو تو یوں آسانی سے کیا جا سکتا ہے

نہ ہو گا تو
نہ تو سے کچھ مختلف مفہوم نکلنے لگتا ہے

عجز بیان ہو گیا ہے، بطور زاد سے مفہوم واضح ہوتا
رہنمائی کا شکریہ استادِ محترم، کوشش کرتا ہوں بہتری کی
 
Top