کاشفی
محفلین
غزل
(آتش)
تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نوچکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی
شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سورہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
(آتش)
تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نوچکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی
شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سورہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات