ایک مشقت عرصے بعد استاد محترم الف عین کے لیئے
تا عمر سفر در سفر ہی رہا میں
اپنے گھر میں بے گھر ہی رہا میں
زمانے بھر کی رہی خبر مجھ کو
خود سے مگر بےخبر ہی رہا میں
ہر کوئی پیشِ نظر رہا اس کے
ایک بس پسِ نظر ہی رہا میں
منزلیں تو خیر کیا نصیب ہوتیں
پیروں کی گرِد سفر ہی رہا میں
شبِ تاریکی یوں راس آئی ظفر
تمام عمر بےسحر ہی رہا میں
اپنے گھر میں بے گھر ہی رہا میں
زمانے بھر کی رہی خبر مجھ کو
خود سے مگر بےخبر ہی رہا میں
ہر کوئی پیشِ نظر رہا اس کے
ایک بس پسِ نظر ہی رہا میں
منزلیں تو خیر کیا نصیب ہوتیں
پیروں کی گرِد سفر ہی رہا میں
شبِ تاریکی یوں راس آئی ظفر
تمام عمر بےسحر ہی رہا میں