فرخ منظور
لائبریرین
تا نزع قاصد اس کی لے کر خبر نہ آیا
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو
جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا
دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزاروں
پر تُو وہ سنگ دل ہے بیرونِ در نہ ایا
غمازیوں نے ڈالے آپس میں تفرقے یہ
برسوں ہوئے کہ واں کا کوئی اِدھر نہ آیا
کس کس اذیتوں سے مارا نوا ؔ کو تو نے
کچھ بھی خدا کا ظالم تجھ کو حذر نہ آیا
(ظہور اللہ خان، نوا)
پیغامِ مرگ آیا پر نامہ بر نہ آیا
گردش نصیب ہوں میں اس چشمِ پُر فسوں کا
دورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس، اِنس سے ہو
جو اُس کے در پر بیٹھا پھر اپنے گھر نہ آیا
خوبانِ جور پیشہ گزرے بہت ولیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں بیداد گر نہ آیا
دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزاروں
پر تُو وہ سنگ دل ہے بیرونِ در نہ ایا
غمازیوں نے ڈالے آپس میں تفرقے یہ
برسوں ہوئے کہ واں کا کوئی اِدھر نہ آیا
کس کس اذیتوں سے مارا نوا ؔ کو تو نے
کچھ بھی خدا کا ظالم تجھ کو حذر نہ آیا
(ظہور اللہ خان، نوا)