ناعمہ عزیز
لائبریرین
ہاں واقع تبدیلی کائنات کا خمیر ہے، بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہم تبدیلی نہیں چاہتے، کچھ لمحے ، کچھ پل ایسے ہوتے ہیں کہ دل کرتا ہے گھڑی کی سوئیاں تھم جائیں، سمے رُک جائے، اور بس ہم اسی لمحے میں زندہ رہیں، ایسے ہی کسی وقت کے لئے شاعر کہتا ہے کہ
لمحوں میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
کچھ لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دل کرتا بس یہ وقت جلدی سے گزر جائے اور زندگی میں دوبارہ ایسا کبھی نا ہو، جی چاہتا ہے کہ ہمارے پاس جادو کی چھڑٰ ی ہو اور ہم اس منظر سے غائب ہو جائیں، زمین پھٹ جائے، آسمان ٹوٹ پڑے ، کچھ بھی پر یہ لمحہ گزر جائے۔
اسی طرح کچھ باتیں ایسی ہوتیں ہیں، کہ وہ انسانی دل و دماغ پر بہت بُری طرح سے ا ثر انداز ہوتیں، کہنے والا یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ اگر اس نے ایک عام بات کہی ہے اور عام سے اندازمیں کہی ہے تو اس کا اگلے بندے کے ذہن پر مثبت اثر کیوں ہوا اور نا ہی یہ جان سکتا ہے کہ اگر اس نے ایک خاص بات کہی ہے کو ئی تنبیہ کی ہے اور سمجھانے والے انداز میں کی تو اس کا اگلے بندے کے ذہن و دل پر منفی اثر کیوں ہوا ہے!!
اسی طرح کچھ کہانیاں ، کچھ تحریریں، کچھ منظر، کچھ واقعات بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتے ہیں ، کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی ایک ہی لمحے میں کسی ایک منظر، کسی ایک واقعے، کسی ایک بات میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی اچھے انسان کو بُرائی کرنے پر مجبور کر دے ، کسی کو اچھائی کی طرف راغب کر دے، اور کسی کو ضد ، اور انا پر مائل کردے!!
لوگ بچھڑ جاتے ہیں، لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں، لوگ حادثات کا شکا ر ہو جاتے ہیں ، مگر ان کے پیاروٕں کے دل میں وقت کے ساتھ ساتھ جانے والوں کی یادیں مدھم ہوتی رہتی ہیں، یہ سب تبدیلی کی بنیاد پر ہوتا ہے، وقتی صدمے اور تکلیفیں انسان کو اذیت ضرور دیتے ہیں مگر وقت ان ساری اذیتوں کو تھپک تھپک کر دل کے کسی کونے میں سُلا دیتا ہے اور ہم پھر سے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت شامل ہوتی ہے، اگر تبدیلی نا ہو تو اذیتوں ، تکلیفوں اور دکھوں کو انبار انسان کو اندر سے کھوکھلا کردے۔ اور کھوکھلے وجود کے ساتھ زندہ رہنا بھی ایک بہت بڑی اذیت ہے۔
ایسے ہی مقام پر شاعر کہتا ہے کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
لمحوں میں سمٹ آیا ہے صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
کچھ لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دل کرتا بس یہ وقت جلدی سے گزر جائے اور زندگی میں دوبارہ ایسا کبھی نا ہو، جی چاہتا ہے کہ ہمارے پاس جادو کی چھڑٰ ی ہو اور ہم اس منظر سے غائب ہو جائیں، زمین پھٹ جائے، آسمان ٹوٹ پڑے ، کچھ بھی پر یہ لمحہ گزر جائے۔
اسی طرح کچھ باتیں ایسی ہوتیں ہیں، کہ وہ انسانی دل و دماغ پر بہت بُری طرح سے ا ثر انداز ہوتیں، کہنے والا یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ اگر اس نے ایک عام بات کہی ہے اور عام سے اندازمیں کہی ہے تو اس کا اگلے بندے کے ذہن پر مثبت اثر کیوں ہوا اور نا ہی یہ جان سکتا ہے کہ اگر اس نے ایک خاص بات کہی ہے کو ئی تنبیہ کی ہے اور سمجھانے والے انداز میں کی تو اس کا اگلے بندے کے ذہن و دل پر منفی اثر کیوں ہوا ہے!!
اسی طرح کچھ کہانیاں ، کچھ تحریریں، کچھ منظر، کچھ واقعات بھی انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتے ہیں ، کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کسی ایک ہی لمحے میں کسی ایک منظر، کسی ایک واقعے، کسی ایک بات میں ایسی طاقت ہے کہ وہ کسی بھی اچھے انسان کو بُرائی کرنے پر مجبور کر دے ، کسی کو اچھائی کی طرف راغب کر دے، اور کسی کو ضد ، اور انا پر مائل کردے!!
لوگ بچھڑ جاتے ہیں، لوگ دنیا چھوڑ جاتے ہیں، لوگ حادثات کا شکا ر ہو جاتے ہیں ، مگر ان کے پیاروٕں کے دل میں وقت کے ساتھ ساتھ جانے والوں کی یادیں مدھم ہوتی رہتی ہیں، یہ سب تبدیلی کی بنیاد پر ہوتا ہے، وقتی صدمے اور تکلیفیں انسان کو اذیت ضرور دیتے ہیں مگر وقت ان ساری اذیتوں کو تھپک تھپک کر دل کے کسی کونے میں سُلا دیتا ہے اور ہم پھر سے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت شامل ہوتی ہے، اگر تبدیلی نا ہو تو اذیتوں ، تکلیفوں اور دکھوں کو انبار انسان کو اندر سے کھوکھلا کردے۔ اور کھوکھلے وجود کے ساتھ زندہ رہنا بھی ایک بہت بڑی اذیت ہے۔
ایسے ہی مقام پر شاعر کہتا ہے کہ
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔