میں پاکستان میں ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ تبدیلی آرہی ہے۔ مقام بدل رہے ہیں، جگہ بدل رہی ہے۔رویّے بدل رہے ہیں، انسانی رشتے بدل رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ تبدیل ہورہے ہیں۔ ترجیحات پہلے جیسی نہیں رہیں۔پسند نا پسند کچھ کی کچھ ہو گئی ہے اور قدم پہلے جدھر اٹھتے تھے، اٹھنے بند ہوگئے ہیں۔معیشت اور معاشرت کے ڈھب بدل چلے ہیں۔ پھر یہ کہ زندگی کا ایک جیسا روّیہ ، ایک جیسا چلن نہیں رہا۔ کہیں مزاجوں میں شدّت آرہی ہے تو کہیں قدامت کا رنگ گہرا ہوا جاتا ہے۔
اس اکھاڑ پچھاڑ کے بھی دو رُخ ہیں۔ ایک جانب خوش حالی اپنے جلوے دکھا رہی ہے، کبھی دولت کی فراوانی دیکھنے میں آتی ہے، پہلے جہاں اسٹور کھلا کرتے تھے اب وہاں سپر اسٹور کھل رہے ہیں، پہلے جہاں لوگ خریدا ہوا سودا ایک تھیلے میں لے جایا کرتے تھے اب اسی سودے سے پہلے ٹرالی بھرتے ہیں اور پھر کار کی ڈگّی۔ دکانوں میں ولایتی ما ل ابلاپڑتا ہے۔ مال بھی ایسا کہ ضرورت نہ ہو پھر بھی خریدنے کو جی چاہے ۔چین کی مصنوعات سے لوگوں کے گھر بھر گئے ہیں۔ ایک جھونپڑی دیکھی جس کے اوپر ڈش انٹینا لگا تھا۔ ایک اورخستہ حال مکان میں بڑی الماری جیسا ریفریجریٹر دیکھا۔ پوچھا کہ کہاں سے آیا۔ پتہ چلا کہ علاقے کے ایک مالدار شخص کے بچّے اسے پھینک کر نیا ریفریجریٹر لے آئے ہیں۔
ذرا دھیان سے دیکھیں تو یہ خوش حالی ظاہری لگتی ہے۔ اسے دیکھ کر کسی نے کہا کہ اگر ملک میں بددیانتی او رکرپشن ختم ہوجائے تو اس سپر مارکیٹ میں خاک اڑے گی۔ یہ ساری خرید و فروخت ہوا ہوجائے گی اور لوگ ایک بار پھروہی تھیلا بھر شاپنگ کرنے لگیں گے۔
رضا علی عابدی کا مکمل کالم یہاں پڑھیں