مریم افتخار
محفلین
جزاک اللہ و احسن الجزا
ویسے میرا ارادہ اختلافات کو ہوا دینا نہیں تھا البتہ آئندہ سے مزید خیال کروں گا کیونکہ قرآن سب کا ایک ہے لہذا تفسیر بھی ایسی ہی ہونی چاہیے جس سے کسی کا دل نہ دکھے، باقی الاماشاءاللہ۔آپ سے فقط ایک درخواست ہے کہ یہاں تفسیر کرتے ہوئے فقہی اختلاف کو چھوڑدیں۔ ایسی باتیں کتابوں ہی میں اچھی لگتی ہیں وگرنہ یہاں بحث دربحث کا بے جا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ایک بسم اللہ ہی پر نہ جانے کتنی قسم کی آرا موجود ہیں اور پہلی ہی سورت پر قرات خلف امام کا مشہور و معروف و متنازعہ مسئلہ اور آمین بالجہر وغیرہ وغیرہ۔ کوئی تفسیر کی کتاب اس مسئلے اور اختلاف کے بغیر شروع نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کم ازکم یہاں یہ سلسلہ چھوڑ دیں۔ شانِ نزول بیان کریں، فضیلت بیان کریں، سیاق و سباق بیان کریں، اختلافی مسائل کو رہنے دیں۔
والسلام
بند نہیں ہو سکتے لیکن تبصروں کے لیے ایک علیحدہ تھریڈ بنایا جا سکتا ہے اور تبصرے وہاں منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ بعد میں ہونے والے تبصرے بھی وہیں منتقل ہو جائیں گے۔محمد وارث بھائی کمنٹس کس طرح بند ہو سکتے ہیں؟ اگر یہ آپ کے اختیار میں ہے تو مہربانی فرما کر اس لڑی میں کمنٹس بند فرما دیجئے۔
جزاک اللہ خیرا بھائی جان کہ آپ نے تبصروں کے لیے علیحدہ تھریڈ بنا کر تمام تبصرے وہاں منتقل کر دیئے۔بند نہیں ہو سکتے لیکن تبصروں کے لیے ایک علیحدہ تھریڈ بنایا جا سکتا ہے اور تبصرے وہاں منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ بعد میں ہونے والے تبصرے بھی وہیں منتقل ہو جائیں گے۔
جزاک اللہ خیراماشاءاللہ بہت اچھا سلسلہ
جزاک اللہماشاءاللہ ،
آمیناللہ جزاءخیر دے
Muhammadi Bold Fontنہ جانے کس فانٹ کا متن ہے
ان شاءاللہ کوشش کرتا ہوں کہ تنزیل ڈاٹ انفو سے کاپی کر لوں۔بہتر ہے کہ تنزیل ڈاٹ انفو کی ٹیکسٹ فائل سے کاپی کریں۔
آپ اچھا لکھ رہے اور کسی تاریخی واقعے کو کچھ توضیح کے ساتھ لکھ دیا کریں تاکہ آپ کا دیا پیغام زیادہ روشن ہو جائے ۔ جزاک اللہوَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّ۔هَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ﴿٥٥﴾
اور (تم اسے بھی یاد کرو) تم نے (حضرت) موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے دیکھ نہ لیں گے ہرگز ایمان نہ لائیں گے (جس گستاخی پر سزا میں) تم پر تمہارے (١) دیکھتے ہوئے بجلی گری۔
٥٥۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالٰی کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالٰی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔
ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿٥٦﴾
لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا
اس میں لفظ اللہ تین بار آیا ہے اور اس کی املاءوَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّ۔هِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّ۔هُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّ۔هِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٨٠﴾
یہاں بھی وہی فانٹ کا مسئلہ ہے:بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَ۔ٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴿٨١﴾
یقیناً جس نے برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا اور وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَ۔ٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨٢﴾
اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے (١)۔
اپنی گزارش کے تسلسل میں ایک نمونہ پیش کرتا ہوں:
اس میں لفظ اللہ تین بار آیا ہے اور اس کی املاء
اللَّ۔هِ
عجیب سی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی کوئی تینیکی وجہ ہے؛ شاید یہ متن ان پیج سے نقل کیا گیا ہو؛ وغیرہ۔
لہٰذا لازم ہے کہ کاپی پیسٹ کے بعد بھی متن کا محتاط مطالعہ کر لیا جائے اور ایسی فروگزاشتوں کو دور کر دیا جائے۔ و ما توفیقی الا باللہ۔