خاورچودھری
محفلین
تتلیاں،جگنواورمچھر۔۔۔۔!
بہارکے شب وروزخاموشی سے گزتے جاتے ہیں۔پھولوں کی مہک،غنچوں کی چٹک،کلیوں کی لہک،تتلیوں کی دھنک،جگنووٴں کی چمک،چنداکی بھٹک۔۔۔سب کچھ آن موجود کھڑے ہیں مگرملک کے موسم تپتے ہوئے صحراوٴں کی مثال ہیں،جلتے ہوئے شعلوں سے نڈھال ہیں۔عجیب حبس کاعالم ہے کہ خوداپناآپ سہانہیں جاتا،سانس لیناکارمحالِ ہی نہیں عسیرترہواچاہتاہے۔میں جوابھی ابھی اپنے دفترکے شیشوں سے ٹکراتی ہوئی تتلی دیکھ کربیتاب ہواہوں بچپنے کی گلیوں میں جانکلاہوں۔وہاں جہاں ہرطرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، چین ہی چین تھا۔گھرسے سکول کے لیے نکلتے توکھیتوں کی پگڈنڈیوں پرچلتے ،مچلتے خودروپھولوں پربیٹھی ہوئی تتلیوں کے تعاقب میں نکل جاتے۔تتلیاںآ سانی سے ہاتھ آنے والی کہاں ہوتیں جوہمارے ننھے ہاتھ انہیں قیدکرسکتے۔شاذونادرکوئی سوختہ نصیب گرفتارہوجاتی توہم تفاخرسے اپنے ساتھیوں اورہم جولیوں کودکھاتے۔جب سب ساتھی جی بھرکردیکھ لیتے تو تتلی کواڑانے کوکوشش میں لگ جاتے ،مگرکہاں۔۔۔وہ توہمارے ہاتھ کی گرمی سہنے کی کب عادی ہوتی تھی۔پھرہم ایک دوسرے سے کہتے”کردیانااللہ جی کوناراض“اورساتھ ہی زمین پر سجدے کی حالت میں گرکرناک رگڑتے اوراللہ جی سے معافی مانگتے۔کیااچھے دن تھے گھوراندھیرشاموں میں کھیتوں میں نکل کرجگنووٴں کاپیچھاکرتے کرتے ساتھیوں سے دور نکل جاتے اورجب جگنوہاتھ نہیںآ تاتواماں بی (مرحومہ)کی بات یادآجاتی جوہمیشہ ہمیں شام کوکھیلنے سے منع کرتیں۔اماں بی عموماًکہتیں”اندھیرے میں پریاں تمہیں لے جائیں گی۔“ اور جب ہمیں احساس ہوتاکہ بہت دورنکل آئے ہیں تواُن اَن دیکھی پریوں کے خوف سے ہم بھاگتے بھاگتے ہم جولیوں کے جھرمٹ میں آ گھستے۔نہیں معلوم تتلیوں اورجگنووٴں کے تعاقب میں نکلنے والے وہ دن اتنے تھوڑے کیوں تھے۔پتاہی نہیں چلااورہم ذمہ داریوں کے بوجھ تلے آن پڑے۔بچپن کے سب سنگی ساتھی ان حسین موسموں کویادبناکردنیاکے جھمیلوں میں کہیں گم ہوکررہ گئے۔اب جواماں مرحومہ کی باتیں یادآتی ہیں توآنکھوں میں طغیانی آجاتی ہے۔کتنی میٹھی،حلیم اورٹھنڈی ٹھارشخصیت تھی ان کی۔۔۔اس مٹھاس،حلم اور ٹھنڈک کے لیے ترس ترس گیا ہوں۔کبھی سوچتاہوں اماں بھی ناں بس ایویں ڈراتی تھیں۔بھلاان مسرت کیف راتوں میں پریاں کیوں ہمیں ڈرانے لگیں اورسچی بات تویہ ہے کہ اس زمانہ میں کالے دیوبھی کم تھے جتنے اب ہیں۔عشاء کی اذان کے ساتھ ہی اباجی(اللہ انہیں میری عمربھی لگادے)کی گرجدار آواز گونجتی اورہم سب بھائی ان کے آگے آگے چل کر مسجدمیں داخل ہوتے۔ چھپن،چھپائی اورجگنووہیں کے وہیں رہ جاتے۔احمدفرازکی زبان سے1994ء میں سکائی ویزہوٹل کھاریاں میں سناتھا ع
سنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
تو رات میں اُسے جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اور اب یہ شعر تب یادآیاہے جب مجھے تتلیوں اورجگنووٴں کے وہ لیل ونہاریادآئے ہیں جن میں میرابچپن مدفون ہے۔مجھے اچھی طرح یادہے ہمارے اماں،باواہم سب بہن بھائیوں کو عشاء کے بعداپنے پاس بٹھالیتے اورباالترتیب ہرایک کونماز،سورتیں اورچھ کلمے یادکراتے۔سورئہ یاسین،سورئہ رحمان،سورئہ ق سمیت درجنوں بڑی چھوٹی سورتیں ہم نے اپنے گھر میں انہی دوشفیق ہستیوں سے سیکھیں۔اباجی کاتواب بھی وہی معمول ہے۔اپنے پوتے،پوتیوں اورنواسے ،نواسیوں کوشام کے بعدسے ہی اپنے پاس بٹھالیتے ہیں،عشاء کی نمازپڑھ کر آخری دورہوتاہے اورپھربچے سونے کے لیے چلے جاتے ہیں۔استاذمحترم محمداکرم(اللہ ان پررحم وکرم فرمائے)صاحب خوش سلیقگی اورشیرینی سے پڑھاتے۔کبھی کبھارڈانٹ ڈپٹ کی نوبت بھی آجاتی۔یوں قرآن ان کی نگرانی میں مکمل ہوا۔اسکول کے استاذمرحوم عبدالقیوم (حق ان کی مغفرت کرے)بلاناغہ ایک گھنٹہ کاقرآن خوانی کاپیریڈلیتے۔کس قدرشوق اورذمہ داری سے پڑھانے والے تھے وہ لوگ۔اب اساتذہ کودیکھتاہوں توکلیجہ منہ کوآتاہے۔کیابھلاوقت تھاجب محلہ کے ہربزرگ کااتناہی احترام کیاجاتاجتناکے اپنے اماں،باواکا۔اوراب۔۔۔الاماں،الحفیظ!ذہن کے کینوس پرکئی منظرجاگ رہے ہیں اورکئی شفیق لوگ یادآرہے ہیں،بقول ِخود
صحراصحرایاد
میری آنکھوں میں اتری
اشکوں کی برسات
کہاں سے کہاں نکل گیا ہوں۔میں جواب تک ہزاروں کالم لکھ چکاہوں دفترکے شیشوں سے ٹکراجانے والی تتلی کے سفرسے یہاں تک پہنچ آیاہوں مگراب زیادہ دیر تک اپنی باتوں میں نہیں الجھاوٴں گاآپ کو۔تتلی اب بھی سامنے پھیلے ہوئے سبزہ پرچہلیں بھررہی ہے۔
یہ ایک تتلی ہے اوروہاں تائیوان میں دس لاکھ سے زائد تتلیوں کی نقل مکانی کے لیے راستے محفوظ اورمخصوص کیے جارہے ہیں۔”پرپل ملک ویڈ“نامی یہ تتلیاں سردیاں جزیرے کی جنوب میں گزارتی ہیں اوربہارکی آمدپرشمال کی جانب پیش قدمی کرتی ہیں۔ہرگھنٹے میں قریباًساڑھے گیارہ ہزارتتلیاں سفرشروع کرتی ہیں مگرماہرین کاکہناہے کہ ساری تتلیاں اپنا سفر مکمل نہیں کرتیں۔ہزاروں تتلیاں گاڑیوں کے حادثات میں ہلاک ہوجاتیں۔تاہم اس سال ایسانہیں ہوگا۔تائیوان کے قومی شاہراوں کے سربراہ لی تھے منگ نے کہاہے کہ” انسانوں کو دوسری مخلوقات کے ساتھ جیناسیکھناہوگا،چاہے وہ ننھی تتلیاں ہی کیوں نہ ہوں۔“ان تتلیوں کومحفوظ گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے تائیوان نے اپنی ایک مرکزی شاہراہ کی ایک لین کومخصوص کرلیاہے ،حفاظتی منصوبہ پرتیس ہزارڈالرکی لاگت آئی ہے۔میں سوچتاہوں جس دنیاکے حکمران اپنے جیسے ہزاروں انسانوں پررات دن بم برساتے ہوئے نہیں تھکتے اسی دنیامیں لی تھے منگ جیسے لوگ رہتے ہیں۔جہاں بش،بلےئرجیسے ہلاکواورفرعون سانس لے رہے ہیں وہاں اللہ کی ننھی سی مخلوق سے پیارکرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔اورپھرخالقِ کل نے کسی بھی چیز کو بے مقصداورادنیٰ تونہیں چھوڑا۔اگرچہ ایک زمینی کیڑاہی کیوں نہ ہو،اس کابھی ایک مقام اورطاقت ہے۔اگرچہ ایک مچھرہی کیوں نہ ہو۔۔۔مچھر،یہ وہی مخلوق ہے جس نے وقت کے ایک خناس بھرے سرکوجوتیوں سے پٹوایا۔نقطہ بھرحیثیت رکھنے والامچھرہمیں ڈینگی میں مبتلاکرجاتاہے،ملیریامیں دھکیل دیتاہے۔اورکیابعیدکی کسی اورخناس بھرے سرمیں یہ گھس کرپھر جوتیاں پڑواڈالے۔یہ وقت،سمجھ،تدبراورفکرکامقام ہے مگرلوگ ہیں کہ ایسی باتوں کواہمیت ہی نہیں دیتے۔
تتلیاں،جگنو،پھول،موسم،رات،دن،سورج،چاند،ستارے،ہوا،زمین،سمندراگرحسین ہیں توان کاحسن انسان کی خوشی اورراحت کی وجہ سے معلوم میںآ یاہے۔اگر انسان پرسکون ہوگاتوان چیزوں کاحسن مزیدنکھرکرسامنے آئے گااوردنیاپہلے سے زیادہ حسین معلوم ہوگی مگرجب انسان ہی دووقت کی روٹی کوترستاہو،جیتے جی مرتاہوتوان مناظراور تتلیوں کی کیااہمیت رہ جاتی ہے۔کوئی سوچ سکے تویہ سوچے کہ انسان کوکیسے محفوظ زندگی دی جائے،کوئی سوچ سکے تویہ سوچے آدمی کیسے چین سے زندہ رہے،کوئی سوچ سکے تویہ سوچے اشرف المخلوقات”احسن تقویم“کی منزل کی طرف کیسے لوٹے ۔اپنے اس ہائیکوکے ساتھ کالم تمام کرتاہوں
زخم مہکتے ہیں
رُت بادام کے پھولوں کی
کاش چلی آئے۔
(یہ کالم سال بھر پہلے شائع ہوا تھا۔۔۔اس میں کچھ اپنے بچپنے کاتذکرہ ہے اس لیے پیش کررہا ہوں)
بہارکے شب وروزخاموشی سے گزتے جاتے ہیں۔پھولوں کی مہک،غنچوں کی چٹک،کلیوں کی لہک،تتلیوں کی دھنک،جگنووٴں کی چمک،چنداکی بھٹک۔۔۔سب کچھ آن موجود کھڑے ہیں مگرملک کے موسم تپتے ہوئے صحراوٴں کی مثال ہیں،جلتے ہوئے شعلوں سے نڈھال ہیں۔عجیب حبس کاعالم ہے کہ خوداپناآپ سہانہیں جاتا،سانس لیناکارمحالِ ہی نہیں عسیرترہواچاہتاہے۔میں جوابھی ابھی اپنے دفترکے شیشوں سے ٹکراتی ہوئی تتلی دیکھ کربیتاب ہواہوں بچپنے کی گلیوں میں جانکلاہوں۔وہاں جہاں ہرطرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، چین ہی چین تھا۔گھرسے سکول کے لیے نکلتے توکھیتوں کی پگڈنڈیوں پرچلتے ،مچلتے خودروپھولوں پربیٹھی ہوئی تتلیوں کے تعاقب میں نکل جاتے۔تتلیاںآ سانی سے ہاتھ آنے والی کہاں ہوتیں جوہمارے ننھے ہاتھ انہیں قیدکرسکتے۔شاذونادرکوئی سوختہ نصیب گرفتارہوجاتی توہم تفاخرسے اپنے ساتھیوں اورہم جولیوں کودکھاتے۔جب سب ساتھی جی بھرکردیکھ لیتے تو تتلی کواڑانے کوکوشش میں لگ جاتے ،مگرکہاں۔۔۔وہ توہمارے ہاتھ کی گرمی سہنے کی کب عادی ہوتی تھی۔پھرہم ایک دوسرے سے کہتے”کردیانااللہ جی کوناراض“اورساتھ ہی زمین پر سجدے کی حالت میں گرکرناک رگڑتے اوراللہ جی سے معافی مانگتے۔کیااچھے دن تھے گھوراندھیرشاموں میں کھیتوں میں نکل کرجگنووٴں کاپیچھاکرتے کرتے ساتھیوں سے دور نکل جاتے اورجب جگنوہاتھ نہیںآ تاتواماں بی (مرحومہ)کی بات یادآجاتی جوہمیشہ ہمیں شام کوکھیلنے سے منع کرتیں۔اماں بی عموماًکہتیں”اندھیرے میں پریاں تمہیں لے جائیں گی۔“ اور جب ہمیں احساس ہوتاکہ بہت دورنکل آئے ہیں تواُن اَن دیکھی پریوں کے خوف سے ہم بھاگتے بھاگتے ہم جولیوں کے جھرمٹ میں آ گھستے۔نہیں معلوم تتلیوں اورجگنووٴں کے تعاقب میں نکلنے والے وہ دن اتنے تھوڑے کیوں تھے۔پتاہی نہیں چلااورہم ذمہ داریوں کے بوجھ تلے آن پڑے۔بچپن کے سب سنگی ساتھی ان حسین موسموں کویادبناکردنیاکے جھمیلوں میں کہیں گم ہوکررہ گئے۔اب جواماں مرحومہ کی باتیں یادآتی ہیں توآنکھوں میں طغیانی آجاتی ہے۔کتنی میٹھی،حلیم اورٹھنڈی ٹھارشخصیت تھی ان کی۔۔۔اس مٹھاس،حلم اور ٹھنڈک کے لیے ترس ترس گیا ہوں۔کبھی سوچتاہوں اماں بھی ناں بس ایویں ڈراتی تھیں۔بھلاان مسرت کیف راتوں میں پریاں کیوں ہمیں ڈرانے لگیں اورسچی بات تویہ ہے کہ اس زمانہ میں کالے دیوبھی کم تھے جتنے اب ہیں۔عشاء کی اذان کے ساتھ ہی اباجی(اللہ انہیں میری عمربھی لگادے)کی گرجدار آواز گونجتی اورہم سب بھائی ان کے آگے آگے چل کر مسجدمیں داخل ہوتے۔ چھپن،چھپائی اورجگنووہیں کے وہیں رہ جاتے۔احمدفرازکی زبان سے1994ء میں سکائی ویزہوٹل کھاریاں میں سناتھا ع
سنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
تو رات میں اُسے جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اور اب یہ شعر تب یادآیاہے جب مجھے تتلیوں اورجگنووٴں کے وہ لیل ونہاریادآئے ہیں جن میں میرابچپن مدفون ہے۔مجھے اچھی طرح یادہے ہمارے اماں،باواہم سب بہن بھائیوں کو عشاء کے بعداپنے پاس بٹھالیتے اورباالترتیب ہرایک کونماز،سورتیں اورچھ کلمے یادکراتے۔سورئہ یاسین،سورئہ رحمان،سورئہ ق سمیت درجنوں بڑی چھوٹی سورتیں ہم نے اپنے گھر میں انہی دوشفیق ہستیوں سے سیکھیں۔اباجی کاتواب بھی وہی معمول ہے۔اپنے پوتے،پوتیوں اورنواسے ،نواسیوں کوشام کے بعدسے ہی اپنے پاس بٹھالیتے ہیں،عشاء کی نمازپڑھ کر آخری دورہوتاہے اورپھربچے سونے کے لیے چلے جاتے ہیں۔استاذمحترم محمداکرم(اللہ ان پررحم وکرم فرمائے)صاحب خوش سلیقگی اورشیرینی سے پڑھاتے۔کبھی کبھارڈانٹ ڈپٹ کی نوبت بھی آجاتی۔یوں قرآن ان کی نگرانی میں مکمل ہوا۔اسکول کے استاذمرحوم عبدالقیوم (حق ان کی مغفرت کرے)بلاناغہ ایک گھنٹہ کاقرآن خوانی کاپیریڈلیتے۔کس قدرشوق اورذمہ داری سے پڑھانے والے تھے وہ لوگ۔اب اساتذہ کودیکھتاہوں توکلیجہ منہ کوآتاہے۔کیابھلاوقت تھاجب محلہ کے ہربزرگ کااتناہی احترام کیاجاتاجتناکے اپنے اماں،باواکا۔اوراب۔۔۔الاماں،الحفیظ!ذہن کے کینوس پرکئی منظرجاگ رہے ہیں اورکئی شفیق لوگ یادآرہے ہیں،بقول ِخود
صحراصحرایاد
میری آنکھوں میں اتری
اشکوں کی برسات
کہاں سے کہاں نکل گیا ہوں۔میں جواب تک ہزاروں کالم لکھ چکاہوں دفترکے شیشوں سے ٹکراجانے والی تتلی کے سفرسے یہاں تک پہنچ آیاہوں مگراب زیادہ دیر تک اپنی باتوں میں نہیں الجھاوٴں گاآپ کو۔تتلی اب بھی سامنے پھیلے ہوئے سبزہ پرچہلیں بھررہی ہے۔
یہ ایک تتلی ہے اوروہاں تائیوان میں دس لاکھ سے زائد تتلیوں کی نقل مکانی کے لیے راستے محفوظ اورمخصوص کیے جارہے ہیں۔”پرپل ملک ویڈ“نامی یہ تتلیاں سردیاں جزیرے کی جنوب میں گزارتی ہیں اوربہارکی آمدپرشمال کی جانب پیش قدمی کرتی ہیں۔ہرگھنٹے میں قریباًساڑھے گیارہ ہزارتتلیاں سفرشروع کرتی ہیں مگرماہرین کاکہناہے کہ ساری تتلیاں اپنا سفر مکمل نہیں کرتیں۔ہزاروں تتلیاں گاڑیوں کے حادثات میں ہلاک ہوجاتیں۔تاہم اس سال ایسانہیں ہوگا۔تائیوان کے قومی شاہراوں کے سربراہ لی تھے منگ نے کہاہے کہ” انسانوں کو دوسری مخلوقات کے ساتھ جیناسیکھناہوگا،چاہے وہ ننھی تتلیاں ہی کیوں نہ ہوں۔“ان تتلیوں کومحفوظ گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے تائیوان نے اپنی ایک مرکزی شاہراہ کی ایک لین کومخصوص کرلیاہے ،حفاظتی منصوبہ پرتیس ہزارڈالرکی لاگت آئی ہے۔میں سوچتاہوں جس دنیاکے حکمران اپنے جیسے ہزاروں انسانوں پررات دن بم برساتے ہوئے نہیں تھکتے اسی دنیامیں لی تھے منگ جیسے لوگ رہتے ہیں۔جہاں بش،بلےئرجیسے ہلاکواورفرعون سانس لے رہے ہیں وہاں اللہ کی ننھی سی مخلوق سے پیارکرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔اورپھرخالقِ کل نے کسی بھی چیز کو بے مقصداورادنیٰ تونہیں چھوڑا۔اگرچہ ایک زمینی کیڑاہی کیوں نہ ہو،اس کابھی ایک مقام اورطاقت ہے۔اگرچہ ایک مچھرہی کیوں نہ ہو۔۔۔مچھر،یہ وہی مخلوق ہے جس نے وقت کے ایک خناس بھرے سرکوجوتیوں سے پٹوایا۔نقطہ بھرحیثیت رکھنے والامچھرہمیں ڈینگی میں مبتلاکرجاتاہے،ملیریامیں دھکیل دیتاہے۔اورکیابعیدکی کسی اورخناس بھرے سرمیں یہ گھس کرپھر جوتیاں پڑواڈالے۔یہ وقت،سمجھ،تدبراورفکرکامقام ہے مگرلوگ ہیں کہ ایسی باتوں کواہمیت ہی نہیں دیتے۔
تتلیاں،جگنو،پھول،موسم،رات،دن،سورج،چاند،ستارے،ہوا،زمین،سمندراگرحسین ہیں توان کاحسن انسان کی خوشی اورراحت کی وجہ سے معلوم میںآ یاہے۔اگر انسان پرسکون ہوگاتوان چیزوں کاحسن مزیدنکھرکرسامنے آئے گااوردنیاپہلے سے زیادہ حسین معلوم ہوگی مگرجب انسان ہی دووقت کی روٹی کوترستاہو،جیتے جی مرتاہوتوان مناظراور تتلیوں کی کیااہمیت رہ جاتی ہے۔کوئی سوچ سکے تویہ سوچے کہ انسان کوکیسے محفوظ زندگی دی جائے،کوئی سوچ سکے تویہ سوچے آدمی کیسے چین سے زندہ رہے،کوئی سوچ سکے تویہ سوچے اشرف المخلوقات”احسن تقویم“کی منزل کی طرف کیسے لوٹے ۔اپنے اس ہائیکوکے ساتھ کالم تمام کرتاہوں
زخم مہکتے ہیں
رُت بادام کے پھولوں کی
کاش چلی آئے۔
(یہ کالم سال بھر پہلے شائع ہوا تھا۔۔۔اس میں کچھ اپنے بچپنے کاتذکرہ ہے اس لیے پیش کررہا ہوں)