تجھ سے مل کر بھی دل اداس رہا ۔ سعید الرحمن سعید

تجھ سے مل کر بھی دل اداس رہا
مجھ کو اپنے ہی غم کا پاس رہا

محرمی کو ترس گیا ہے وہی
جو زمانے سے روشناس رہا

سایہء گل میں بھی رہے لرزاں
دل میں کچھ اس قدر ہراس رہا

دل پریشاں ، نگاہ آوارہ
عمر بھر کوئی بد حواس رہا

چاند کو دیکھتے رہے شب بھر
اور دل میں ترا قیاس رہا

ایک تارہ سا کالی راتوں میں
میری آنکھوں کے آس پاس رہا

ہر زمانے میں عشق کا قصہ
لوح ِ عالم کا اقتباس رہا

اپنے وعدوں کے پاس کی خاطر
خونِ چاکِ جگر لباس رہا

کھلنے پائے نہ میرے عیب سعید
مجھ پہ احسان ِ نا شناس رہا

سعید الرحمن سعید
 
Top