تجھ کو ہر طور مرا ساتھ نبھانا ہو گا

سر الف عین
یاسر شاہ
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے


تیری چوکھٹ سے مجھے لوٹ کے جانا ہو گا
آرزوؤں کا ہراک دیپ بجھانا ہو گا

روح تک تیری پہنچنے کا ذریعہ ہے یہی
بن کے خوشبو تری سانسوں میں سمانا ہو گا

جھیلنا گردشِ دوراں کو اسی شرط پہ ہے
تجھ کو ہر طور مرا ساتھ نبھانا ہو گا

بس یہی ہے مری بیتابئِ دل کا درماں
تیرا ہر عکس تخیل سے مٹانا ہو گا

آتشِ ہجر میں جلنے کو ہیں گل ہائے وفا
ان کو جلنے سے تجھے آ کے بچانا ہو گا

دورِ فتنہ سے جہاں بھر کو بچانے کے لئے
صرف پیغامِ خدا سب کو سنانا ہو گا


تیرگی یاس کی آنگن سے مٹانے کے لئے
آس کے دیپ میں خون اپنا جلانا ہو گا

جو مری روح تھا سجاد وہی روٹھ گیا
فرحتِ جاں کے لئے اس کو منانا ہو گا
 

یاسر شاہ

محفلین
سجاد بھائی معذرت کہ خاص لطف نہ پیدا ہو پایا آپ کی غزل سے۔آپ اچھا لکھ سکتے ہیں۔کوشش کریں خود سے آمد ہو تو لکھیں ورنہ خاص زحمت نہ کریں۔یوں غزل میں بھرتی کے اشعار جمع ہو جاتے ہیں جن پر محنت کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔
آپ نے مجھے ذاتی مراسلوں کے ذریعے یہاں دوبارہ فعال کیا ہے اس لیے ذاتی رائے با دل نا خواستہ لکھ دیتا ہوں اور کہیں نہیں لکھتا تو بھی اس ڈر سے کہ آپ کو برا نہ لگے۔
 
آخری تدوین:
سجاد بھائی معذرت کہ خاص لطف نہ پیدا ہو پایا آپ کی غزل سے۔آپ اچھا لکھ سکتے ہیں۔کوشش کریں خود سے آمد ہو تو لکھیں ورنہ خاص زحمت نہ کریں۔یوں غزل میں بھرتی کے اشعار جمع ہو جاتے ہیں جن پر محنت کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔
آپ نے مجھے ذاتی مراسلوں کے ذریعے یہاں دوبارہ فعال کیا ہے اس لیے ذاتی رائے با دل نا خواستہ لکھ دیتا ہوں اور کہیں نہیں لکھتا تو بھی اس ڈر سے کہ آپ کو برا نہ لگے۔
یاسر بھائی آپ اپنی رائے ضرور دیا کریں خوشی ہوتی ہے ہر احباب کی رائے میرے لئے باعثِ مسرت اور اہم ہے برا ماننے کی کوئی وجہ ہی نہیں بلکہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے میں تو ابھی طالب علم ہوں اور علمِ شاعری کی سیڑھی کے پہلے زینے تک بھی نہیں پہنچ پایا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اور اگلا شعر، دونوں ویسے ہی ہیں جنہیں میں زبردستی کا شعر کہتا ہوں، کون مجبورکر رہا ہے میاں!
پانچواں شعر بھی اسی زمرے کا ہے۔
بقیہ اشعار میں کوئی سقم تو نظر نہیں آ رہا
 
مطلع اور اگلا شعر، دونوں ویسے ہی ہیں جنہیں میں زبردستی کا شعر کہتا ہوں، کون مجبورکر رہا ہے میاں!
پانچواں شعر بھی اسی زمرے کا ہے۔
بقیہ اشعار میں کوئی سقم تو نظر نہیں آ رہا

کب یہ سوچا تھا کہ ایسا بھی زمانہ ہوگا
ہاتھ خالی تری دہلیز سے جانا ہو گا

جھیلنا گردشِ دوراں کو اسی شرط پہ ہے
تجھ کو ہر طور مرا ساتھ نبھانا ہو گا

بس یہی ہے مری بیتابئِ دل کا درماں
تیرا ہر عکس تخیل سے مٹانا ہو گا

دورِ فتنہ سے جہاں بھر کو بچانے کے لئے
صرف پیغامِ خدا سب کو سنانا ہو گا


تیرگی یاس کی آنگن سے مٹانے کے لئے
آس کے دیپ میں خون اپنا جلانا ہو گا

جو مری روح تھا سجاد وہی روٹھ گیا
فرحتِ جاں کے لئے اس کو منانا ہو گا

برائے نظر ثانی
 
Top