نور وجدان
لائبریرین
تحریر لکیروں کو مٹاتی ہے
------
سردیوں میں دُھوپ سینکنے کا اپنا مزہ ہے '-
سرد لہجے / چھوٹے دن / بونے لوگ
دھیمے سے لہجے میں لان میں بیٹھتے ہوئے مائرہ ، ماہ نور سے کہہ رہی تھی ۔
''تم بھی حد کرتی ہو۔ ۔"
ہر جگہ فلاسفی جھاڑنے بیٹھ جاتی ہو۔۔
ارسطو / افلاطون/ مائرہ
ماہ نور طنزیہ مسکراہٹ سے گویا ہوئی ۔ اسے مائرہ کی فلاطنی (اسکے مطابق فلاطنی) نہیں بھاتی تھی ۔ روٹھا سا چہرہ دیکھ کر ماہ نور کو اُس پر ترس آیا ۔
'' اچھا یہ بتاؤ ۔"
"کل تم کیا پڑھ رہی تھیں؟"
میں بھی تو سنوں ! ''
تمہیں پتا کل میں ایک افسانہ پڑھ رہی تھی ''خبر ہونے تک'' میں نے اس مصنف کا نام کبھی نہیں سُنا ۔
"میں تو سوچ رہی ہوں اس افسانے کو سب پڑھیں''
''حد ہوگئ مائرہ ۔۔۔تمہارا ٹیسٹ اتنا گر گیا ہے ۔۔۔ جس کو تم جانتی نہیں ہو،اس کو پڑھ رہی ہو۔۔۔
تم واقعی ہی پاگل ہو۔۔
یہ سولہ نمبر کی بس ہے ۔۔۔اس میں تمہیں بٹھا کر پاگل خانے بھیجنا پڑے گا۔۔
کچھ زیادہ ہی ارسطو ہوگئ ہو۔۔۔۔۔۔۔'
ماہ نور! تم /میں / سطحی پن
انسان کا سطحی پن کب ختم ہوگا ؟
بغاوت / سماج / منافقت
تم / میں / آلہ کار
تحریر اپنی پہچان خود کرواتی ہے ۔تم ایک دفعہ پڑھ تو لو اسے ۔ہم اپنی روایات سے بھاگ رہے ہیں ۔گاؤں میں رہ کر شہر کے خواب دیکھتے ہیں اور شہر میں رہ کر امریکہ ،یورپ کے ۔ ہم کتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں ''
ماہ نور کے بولنے تک وہ حرف حرف پڑھ چکی تھی ۔
''وہی باتیں / دکھ / پچھتاوا -
یار ۔۔کوئی نئی بات تو نہیں کی ۔۔۔ البتہ لکھنے کا انداز اچھا ہے ۔۔۔ کیا پاکستان کا کوئی مصنف ہے ؟
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
پڑتا ہے۔۔۔'' مائرہ پڑتا ہے ۔۔۔ ہر مصنف اپنے عہد کے مسائل پیش کرتا ہے ،ان کا حل ساتھ دیتا ہے ، یا اندھوں کو راستہ دکھاتا ہے ۔دیکھوں یہاں اُس نے صرف گاؤں کی بات کب کی ہے۔معاشرے پر طنز کیا ہے ۔ ایسا طنز جو روح میں نشتر چھبو دے ،جو من کو گھائل کردے ۔۔۔
دیکھو ۔۔ اپاہج سے شادی کون کرتا ہے؟
اپاہج کا ساتھ دینے والے یار دوست کب دیتے ہیں ۔
کوڑھی کو کوئی دیکھتا نہیں۔۔۔۔
ہم مدر ڈے/ اپاہج ڈے/ وومن ڈے/ لیبر ڈے مناتے رہتے ہیں ۔۔۔ ہم دن ہی تو مناتے ہیں ۔
ان کا احساس کون کرتا ہے ،ان کے مسائل کا حل کون دیتا ہے ؟
میں / تم/ معاشرہ ؟
تم نے تحریر پڑھی ۔۔۔ کہانی پر تحریر ہے کہ کون ہے مصنف ۔۔!
نہیں یار۔۔ ورڈ فارمٹ میں سب لکھا ہے ۔۔
نام درج نہیں ۔
تم بتاؤ مصنف کون ہے ۔
اس نے پھر مائرہ سے پوچھا
پاکستان کا ہو / بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
ماہ نور نے ہنوز اُسی لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
پڑتا ہے فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
جو مسائل وہ لکھاری سامنے لاتا ہے ،اپنے معاشرے سے لاتا ہے
وہ درد، احساس کی کرچیاں ، کہاں سے آتی ہیں ؟
جہاں لکھاری رہتا ہے ۔۔۔۔
'یار چھوڑو اس بحث کو ۔
تم ایسا کرو
سورج ابھی جاگ رہا ہے , پڑھو ''
ماہنور پڑھنے لگی ۔۔ پڑھنے کے بعد گویا ہوئی -
یار ! یہ کیا ۔۔ ساری سائنسی اصول ادھر ادھر کہانی میں بکھرے ہوئے ہیں ۔
مجھے سمجھ نہیں آیا ادب میں سائنس کہاں سے آگئی ۔۔
جو سائنس کو نہ سمجھ سکے وہ کیا کریں ۔۔
ادب تو عام آدمی کے لیے ہوتا ہے -
کہیں فزکس تو کہیں جیالوجی کے ٹکرے جوڑے ہوئے ۔۔۔
مائرہ نے ایک لمحے میں پل صراط کا فاصلہ طے کرکے اُسے فلسفہ سمجھایا :
زندگی کیا ہے ؟
ہوا / پانی/ آگ/ خاک
سب کے سب روپ بدلتے
زندگی بھی اور موت کا سندیسہ بھی
سونامی بھی ، طوفان بھی ۔۔۔
ان کے روپ بدل جاتے ہیں ۔وہی خاک جو مرہم رکھتی ہے وہ خاک ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے
لکھاری بھی تو یہی کہہ رہا ہے ماں، رات/ آندھی کی ساتھی -
سورج دن میں نظر آتا ہے اور رات کو بھی موجود ہوتا ہے ۔۔۔زمین کی حفاظت چاند اور سورج مل کر کرتے ہیں ۔۔۔کبھی سُنا ہے زمین کو گرہن لگا ۔۔۔چاند گرہن ،سورج گرہن ۔۔۔۔ تم نہیں جان سکتے لکھاری ٹرین کی باتیں کرتا ہے وہ بیچارہ سفر میں ہے اور ہمیں پھر سائنس کا اصول سمجھاتا ہے ۔گھر کے اندر سکون ہوتا ہے ،باہر جتنا بھی طوفان ہو ۔۔۔۔ماہ نور کیا تمہیں ان باتوں سے انکار ہے ۔۔۔
نہیں پہلے تم لکھاری کا نام بتاؤ
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
ماہنور پڑتا ہے ۔۔تم آخر کیوں نہیں سمجھتی ۔۔۔
پاکستان کا ہو / بھارت کا/ ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
مائرہ کے بار بار یہ کہنے پر ماہنور زچ ہوگئ۔۔۔
فرق پڑتا ہے ۔
مجھے اس مصنف کے سارے افسانے پڑھنے ہیں ۔۔۔
میں اس کے افسانے بغیر شناخت کے تلاش کروں گی ۔۔۔
حد ہوگئ ہے یار۔۔
یار ۔۔۔یہ کوئی بھارت کا لکھاری ہے میں ان کو خود بھی نہیں جانتی ،مگر مجھے احساس ہو رہا ہے یہ کتنے بڑے لکھاری ہیں ۔قوس قزح رنگ زندگی کی داستان کو اپنی پوٹلی میں سمیٹے ہوئے شاید کوئی درویش ہے -
یہ دیکھو ۔۔
یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ ۔۔
گوگل پر بیٹھی دونوں سر سے سر ملائے دیکھے جارہے تھی ۔دونوں اس مصنف کی دیگر تصانیف آن لائن دیکھنا چاہ رہی تھیں ۔ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتے ہے ۔
خورشید کو ڈھونڈنے چلی ۔۔۔
یہ کہاں ہے۔۔۔
دن / رات /ماہ و سال کا چکر۔۔۔
وصال / ہجر
ماہ نور سرچ کر رہی تھی اور مائرہ کے دل و دماغ میں ایک جنگ چل رہی تھی ۔۔۔
یہ وہ انسان ہے جس کی کہانی میں کہیں نہ کہیں اس کی ذات موجود ہے۔کہتے ہیں: کہانی کار ،کہانی کو اپنے اندر سے سنچتا ہے۔ خورشید کاکام جہاں کو منور کرنا ہوتا ہے ۔ رات کو وہ چاندنی کے پردے میں چھُپ جاتا ہے۔اندھیارے میں رہ کر صبُح کو تلاش کرتا ہے ۔اندھیارے میں رہنے والا چاندنی کی قدر کرنے لگتا ہے کہ اس کی بدولت ہی تو اس کو آگہی اور خود شناسی کے مراحل طے کرنے میں آسانی ہوئی ۔ اندھیارے میں ہونے والے گُناہ چھُپ جاتے ہیں ۔ لوگ جان نہیں سکتے اندھیارے کی اوٹ میں خورشید چھُپا ان سب کا مشاہدہ کرکے سجدوں میں گڑ گڑا کر روتا ہے ۔ اس سے پوچھتا ہے
اے مولا۔۔۔
یہ بے بس عورتیں۔۔۔
کھلونا چہرے ۔۔۔۔
اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ قلم ،کاغذ اٹھا کر وہ لکھنا شروع کردیتا ہے ۔ سوچتا ہے میں معاشرے کو اپنی تڑپ سنا دوں۔۔۔
سُنی۔۔۔۔؟
سُن لی ۔۔۔۔!
وہ یہ کام کرتا رہتا ہے ۔۔۔ سوچتا ہے کرتا رہے گا ابد تا عمر ۔۔۔۔ عمر کی قید اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی ۔ اخلاق کے قائدے توڑنے والوں کے بے نقاب ہونے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ جگنو تلاش کرنے والے خود اندھیرے خرید لیتے ہیں ۔۔۔۔۔
مائرہ کی سوچ میں ماہنور کی آواز نے خلل ڈالا۔۔۔
یہ دیکھو۔۔۔!
ان کی اخبار میں تصویر لگی ہے ۔
میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ پیسے دئے ہوں گے اور اعزازی تقریب کروا ڈالی ہوگی ۔۔
آج کل۔۔ایسے ہی تو ہوتا ہے۔۔
ناول بھی ایسے مطبوعہ ہوجاتے ہیں۔
پھر ان کے اعزاز میں محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ اور کتاب دلہن کی طرح سجتی سنورتی ہے پھر رسم رو نمائی - کتاب چہرہ پڑھ کر جس کے جی میں جو آتا ہے لفظوں کو تھالی میں سجا کر پروس دیتا ہے
افف۔۔۔!!!
ماہ نور ۔۔میں تمھیں اتنا متعصب نہیں سمجھتی تھی ۔تم نے دو تین لائنیں پڑھیں اور اتنی غلط آرء قائم کرلی ۔تمھیں پتا ہے۔۔
جو تم نے کہا وہ سچ ہے ۔۔ایسا ہو رہا ہے -
مگر اپنی نظر ہر ایک پر ایک طرح کی رکھو۔۔پیتل اور سونے میں بڑا فرق ہوتا۔یہاں تک کہ اگر پیتل پر ملمع کاری کی پرت چڑھ جائے تو اس کا اپنا آپ تو چھپ جاتا ہےاور کچھ عرصے بعد سونے کا پانی اثر کھونے لگتا ہے ۔
دنیا پیتل/ پیتل دنیا / سونا کون ؟
تمھیں اپنی آنکھ سے پڑھنا ہے ۔ اپنی رائے دینی ہے ۔ کیا تم نے ان کا افسانہ ایڈز پڑھا ہے ؟
'' مائرہ ۔۔حد کردی ۔۔۔اتنی بے عزتی ۔۔
ادھار رہی ۔۔۔۔
میں پڑھ چکی ہوں ۔۔ یوں پڑھا اور ختم ۔۔عجب سی روانی ہے،آنکھ ٹھہرتی بھی نہیں اور تشنگی بھی ہے ۔
مجھے لگتا ہے یہ ضرور کوئی شاعر ہیں ۔۔
اتنا مختصر تو شاعر ہی لکھتے ۔۔۔ جس کی تشریح کرنے کے لیے دس صفحات چاہیں اور تب جا کر سمجھ آئے
ماہنور نے یہ کہ کر اپنی بات ختم کی ۔
اچھا لکھاری خیال، پلاٹ اور الفاظ کو سیتا ہے
جس طرح ایک درزی کپڑے سیتا ہے
تمھیں پتا ہے آج کل ہم ''زیرو سائز '' کے کریز میں ہیں۔۔
اس طرح افسانے کی بنت بھی زیرو سائز کی ہو تو کرافٹنگ بہت اچھی ہوتے ہے ۔اس پر جذبات کا لباس بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ خورشید حیات کا خاصا ہے ۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنا سطحی سوچتی ہو۔۔
''ایڈز ۔۔۔
آج کل کی روح اور جسم دونوں کا المیہ ہے۔
سفید جرثوموں کا خاتمہ /لیو کو سٹس کا خاتمہ
سفیدی کا خاتمہ /روحانیت کا خاتمہ
سفیدی/سیاہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرکز سے دوری کی کشش
ان کے اس افسانے میں مرکز سے دوری اور دوری کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا ہے ۔ہمیں سوشل انجیرنگ کی ضرورت ہوگی وگرنہ وہی ہوگا جو خورشید حیات نے لکھا ہے
VERY SORRY ACQUIRED IMMUNE DEFICIENCY SYNDROME IS FATAL
یار ،مائرہ ۔۔تم کتنا ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔ تمہاری مثبت سوچ نے میری رائے بدل دے کہ سونا پیتل نہیں ہوسکتا ۔
میں ان کا افسانہ ''آدم خور " پڑھ رہی ہوں ،، ابھی نیٹ سے ملا ہے ۔مجھے ان سے اعتراض ہے کہ آدمی کو کتا کہا ، کلچر کو کتا کہا ۔کیا تمھیں لگتا ہے یہ سب مناسب باتیں ہیں۔۔دیکھو ''رابعہ کتنی مایوسی کی باتیں کر دہی ہے ، کوما میں جانے کی ، کیا یہ ہے مسائل کا حل؟
دیکھو ! رابعہ کی موت کو امیریکی آدمی خوروں سے منطقی انجام دے دینے کا کیا تک بنتی ہے ۔۔۔تم کچھ بھی کہو! یہ افسانہ ادھورا بے تکا سا ہے ، اس کا آغاز دل موہ لینے والی باتوں سے کرکے انجام کو ادھورا کر دیا۔
ارے ، ارے ، ماہنور سطح پر نہ جاؤ ، ابتدا سے اختتام تک افسانہ مربوط سے، لکھاری نے ایک ہی ڈور میں آغاز اور انجام کر دیا ۔ افسانے کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔
''کہانی تو ہم سب کے اندر لہروں کی طرح ڈوبتی ابھرتی ہے
سمندر میں , میں ہوں
مجھ میں سمندر
بارش کی بوندیں سمندر میں
اور سمندر بارش کی بوندوں میں ۔''
تمھیں لگے گا کہ یہ ''نمرہ احمد'' کی طرح استعارے استعمال کرتے ہیں جن کو عام قاری نہیں سمجھ سکتا ، ان کی زبان عمیرہ احمد کی طرح سادی نہیں ہے ، یہ اشفاق احمد بھی نہیں جو دیہاتی لہجے میں بات کرتے ہیں ۔۔ ان کی اپنی پہچان ہے ،ان کے اپنے استعارے ہیں ،کیونکہ زندگی ان کی اپنی ہے ، میں روتی ہوں۔۔۔تمھیں پتا ہے دل نے ان کی آواز سنی ہے، پتا ہے وہ کیا کہ رہے ۔۔
سنو !
میری آنکھوں سے سیال تب ہی بہتا ہے جب دل میں دکھوں کا سمندر ہوتا ہے اور جب میں ہجومِ دنیا کے درد کے سمندر میں کھو جاتا ہوں ۔۔۔ درد کے ہچکولے مجھے ہلا دیتے ہیں ۔۔۔مجھے انسان کُتا لگتا ہے ، اشرف المخلوقات ہو کر جب وہ کتا بن جائے گا تو میں اس کو کیا کہوں ۔۔۔انسان کہوں ؟
وہ انسان جو عورت کی تکریم نہیں کرتا ، اپنے دکھ عورت کو دے کر اس کی جھولی سے خوشیاں کشید کرکے چین کی نیند سوجاتا ہے ۔۔
کیا میں اُسے انسان کہوں ؟
بتاؤ؟ مائرہ تم بتاؤ ۔۔۔؟
حیوان /انسان / جن
کیا کہوں ۔۔۔۔ میں روتا ہوں جب غریب کا بچا ہاتھ میں کتابوں کے بجائے مزدوری کرتا ہے اور اس کا باپ آرام سے سوتا ہے
انسانیت کہا ہے ؟ پہلے انسانیت دکھلا دو ۔۔۔۔ پھر میں الفاظ واپس لے لوں گا۔۔۔۔۔
سنو ۔۔۔! آدم خور ہمارے اندر ہے ، یہ انسان کو دیمک کی طرح کی کھاتا ہے اور اس پر کوئی الزام نہیں آتا ۔۔۔روح کے چھید کوئی نہ دیکھے ۔۔۔ظاہر سب ظاہر دیکھے ۔۔۔۔ امریکی بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے انصاف کے نئے قانون بنتے رہتے ہیں ۔۔۔ افغانستان میں دیکھو ۔۔۔ جہاں فوجیوں کو ہم جنس پرستی حلال کر دی گئی ۔۔۔۔ امریکی ہے ۔۔۔۔ فرق ہے نا۔۔
نوکر /آقا
ظالم/مظلوم کا
مائرہ کا دل ان باتوں کو سُن رہا تھا۔۔۔
مائرہ ۔۔۔کہاں گم ہوں۔۔
وہ۔۔آدم خور میں ۔۔
مجھے آدم خوروں سے ڈر لگ رہا ہے۔۔! تمھیں لگ رہا ہے ؟
اچھا ہے تم آدم خور کو نہ سمجھو ۔۔۔۔
تم بھی ڈرنے لگو گی ۔۔۔۔ کوئی تو بہادر رہے ۔۔۔۔ !
میرے پاس ایک اور افسانہ بھی ہے
''پانچ انگلیاں۔۔۔۔۔
مائرہ ۔۔۔۔
تم رو کیوں رہی ہو۔۔ رونے والی کیا بات ہے ۔۔۔ ہم " پانچ انگلیاں '' کسی اور دن پڑھ لیں گے ۔۔۔ تم رونا بند کرو۔۔۔مجھے بس ان کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ میں ان کو سننا چاہتی ہوں ۔۔۔ یار کوئی تو اسرار ہے کہ میں ان کے بارے میں جاننا چاہ رہی ہوں ،جتنا جانتی ہوں اتنا تعارف ادھورا لگتا ہے ۔۔۔۔سرحدیں ۔۔۔ سرحدوں کے فاصلے -
اب میں تمھیں ان کے بارے میں تفصیل سے بتاتی ہوں اگر پہلے بتاتی تو تم کہتی یہ سب تو لفاظی ہے ۔۔ تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہوں ۔۔۔
خورشید حیات ہندوستان کے مانے ہوئے لکھاری ہیں ۔۔۔
وہ ان کی ان کی زندگی کی تخلیقی کامیابیوں کے قصے سناتی رہی ۔ یوں تقریبا سارا دن گزر گیا ۔
انہوں نے بچوں ، بالغوں اور ادھیڑ عمر حضرات سب کی ترجمانی کی ۔۔ تیرہ سا؛ کی عمر میں بچوں کے لیے لکھا ۔
اور۔۔''میرا دل کر رہا ہے ان کی ساری کہانیاں پڑھوں
یار ۔۔زبردست۔۔۔
اتنی زیادہ معلومات کا بہت شکریہ ۔۔۔
یار ۔۔تمھیں اور کیا بتاؤں ۔۔ ان کی کئی مٹی بدن نظمیں 2005 سے اردو رسائل میں شایع ہوئی ہیں - ۔ان کے افسانے نصاب میں شامل ہیں ۔۔ یہ کسی فخر سے کم بات نہیں ۔۔ یار۔۔حکومتی سطح پر ان کو کئی انعامات سے نوازا گیا ہے ۔۔
ارے ، ارے ، تم کیا سوچ رہی ہو۔۔۔
کچھ بُرا لگا کیا ؟
نہیں ۔۔مائرہ ۔میں سوچ رہی ہوں ۔۔تم ٹھیک کہ رہی تھی ۔۔۔
لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔
پاکستان کا ہو/بھارت کا/ایران کا /پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
میں سرحدوں میں گھر کر تعصب کا شکار ہو بیٹھی ۔۔۔ آج احساس ہو رہا ہے میں کتنی غلط ہوں ۔۔۔ سرحدیں خورشید کو اُبھرنے سے کہاں روک سکتی ہیں ۔۔۔
اُٹھو چلو۔۔۔ ماہنور ،، مائرہ سے مخاطب ہوئی
'کہاں ۔۔۔
اردو بازار
مگر کیوں۔۔۔
کیا افسانے تک ہی رہنا ہے ؟ کیوں نا ان کےتنقیدی جائزے اور افسانوی مجموعے لینے چلیں ۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں اس " پہاڑ ندی عورت " میں کیا ہے ------------
چیرہ آئینہ کب اور کیسے بنتا ہے -------
مائرہ سوچ رہی تھی ۔۔۔
واقعی لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔۔ اس کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔۔
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے '-
------
سردیوں میں دُھوپ سینکنے کا اپنا مزہ ہے '-
سرد لہجے / چھوٹے دن / بونے لوگ
دھیمے سے لہجے میں لان میں بیٹھتے ہوئے مائرہ ، ماہ نور سے کہہ رہی تھی ۔
''تم بھی حد کرتی ہو۔ ۔"
ہر جگہ فلاسفی جھاڑنے بیٹھ جاتی ہو۔۔
ارسطو / افلاطون/ مائرہ
ماہ نور طنزیہ مسکراہٹ سے گویا ہوئی ۔ اسے مائرہ کی فلاطنی (اسکے مطابق فلاطنی) نہیں بھاتی تھی ۔ روٹھا سا چہرہ دیکھ کر ماہ نور کو اُس پر ترس آیا ۔
'' اچھا یہ بتاؤ ۔"
"کل تم کیا پڑھ رہی تھیں؟"
میں بھی تو سنوں ! ''
تمہیں پتا کل میں ایک افسانہ پڑھ رہی تھی ''خبر ہونے تک'' میں نے اس مصنف کا نام کبھی نہیں سُنا ۔
"میں تو سوچ رہی ہوں اس افسانے کو سب پڑھیں''
''حد ہوگئ مائرہ ۔۔۔تمہارا ٹیسٹ اتنا گر گیا ہے ۔۔۔ جس کو تم جانتی نہیں ہو،اس کو پڑھ رہی ہو۔۔۔
تم واقعی ہی پاگل ہو۔۔
یہ سولہ نمبر کی بس ہے ۔۔۔اس میں تمہیں بٹھا کر پاگل خانے بھیجنا پڑے گا۔۔
کچھ زیادہ ہی ارسطو ہوگئ ہو۔۔۔۔۔۔۔'
ماہ نور! تم /میں / سطحی پن
انسان کا سطحی پن کب ختم ہوگا ؟
بغاوت / سماج / منافقت
تم / میں / آلہ کار
تحریر اپنی پہچان خود کرواتی ہے ۔تم ایک دفعہ پڑھ تو لو اسے ۔ہم اپنی روایات سے بھاگ رہے ہیں ۔گاؤں میں رہ کر شہر کے خواب دیکھتے ہیں اور شہر میں رہ کر امریکہ ،یورپ کے ۔ ہم کتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں ''
ماہ نور کے بولنے تک وہ حرف حرف پڑھ چکی تھی ۔
''وہی باتیں / دکھ / پچھتاوا -
یار ۔۔کوئی نئی بات تو نہیں کی ۔۔۔ البتہ لکھنے کا انداز اچھا ہے ۔۔۔ کیا پاکستان کا کوئی مصنف ہے ؟
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
پڑتا ہے۔۔۔'' مائرہ پڑتا ہے ۔۔۔ ہر مصنف اپنے عہد کے مسائل پیش کرتا ہے ،ان کا حل ساتھ دیتا ہے ، یا اندھوں کو راستہ دکھاتا ہے ۔دیکھوں یہاں اُس نے صرف گاؤں کی بات کب کی ہے۔معاشرے پر طنز کیا ہے ۔ ایسا طنز جو روح میں نشتر چھبو دے ،جو من کو گھائل کردے ۔۔۔
دیکھو ۔۔ اپاہج سے شادی کون کرتا ہے؟
اپاہج کا ساتھ دینے والے یار دوست کب دیتے ہیں ۔
کوڑھی کو کوئی دیکھتا نہیں۔۔۔۔
ہم مدر ڈے/ اپاہج ڈے/ وومن ڈے/ لیبر ڈے مناتے رہتے ہیں ۔۔۔ ہم دن ہی تو مناتے ہیں ۔
ان کا احساس کون کرتا ہے ،ان کے مسائل کا حل کون دیتا ہے ؟
میں / تم/ معاشرہ ؟
تم نے تحریر پڑھی ۔۔۔ کہانی پر تحریر ہے کہ کون ہے مصنف ۔۔!
نہیں یار۔۔ ورڈ فارمٹ میں سب لکھا ہے ۔۔
نام درج نہیں ۔
تم بتاؤ مصنف کون ہے ۔
اس نے پھر مائرہ سے پوچھا
پاکستان کا ہو / بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
ماہ نور نے ہنوز اُسی لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
پڑتا ہے فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
جو مسائل وہ لکھاری سامنے لاتا ہے ،اپنے معاشرے سے لاتا ہے
وہ درد، احساس کی کرچیاں ، کہاں سے آتی ہیں ؟
جہاں لکھاری رہتا ہے ۔۔۔۔
'یار چھوڑو اس بحث کو ۔
تم ایسا کرو
سورج ابھی جاگ رہا ہے , پڑھو ''
ماہنور پڑھنے لگی ۔۔ پڑھنے کے بعد گویا ہوئی -
یار ! یہ کیا ۔۔ ساری سائنسی اصول ادھر ادھر کہانی میں بکھرے ہوئے ہیں ۔
مجھے سمجھ نہیں آیا ادب میں سائنس کہاں سے آگئی ۔۔
جو سائنس کو نہ سمجھ سکے وہ کیا کریں ۔۔
ادب تو عام آدمی کے لیے ہوتا ہے -
کہیں فزکس تو کہیں جیالوجی کے ٹکرے جوڑے ہوئے ۔۔۔
مائرہ نے ایک لمحے میں پل صراط کا فاصلہ طے کرکے اُسے فلسفہ سمجھایا :
زندگی کیا ہے ؟
ہوا / پانی/ آگ/ خاک
سب کے سب روپ بدلتے
زندگی بھی اور موت کا سندیسہ بھی
سونامی بھی ، طوفان بھی ۔۔۔
ان کے روپ بدل جاتے ہیں ۔وہی خاک جو مرہم رکھتی ہے وہ خاک ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے
لکھاری بھی تو یہی کہہ رہا ہے ماں، رات/ آندھی کی ساتھی -
سورج دن میں نظر آتا ہے اور رات کو بھی موجود ہوتا ہے ۔۔۔زمین کی حفاظت چاند اور سورج مل کر کرتے ہیں ۔۔۔کبھی سُنا ہے زمین کو گرہن لگا ۔۔۔چاند گرہن ،سورج گرہن ۔۔۔۔ تم نہیں جان سکتے لکھاری ٹرین کی باتیں کرتا ہے وہ بیچارہ سفر میں ہے اور ہمیں پھر سائنس کا اصول سمجھاتا ہے ۔گھر کے اندر سکون ہوتا ہے ،باہر جتنا بھی طوفان ہو ۔۔۔۔ماہ نور کیا تمہیں ان باتوں سے انکار ہے ۔۔۔
نہیں پہلے تم لکھاری کا نام بتاؤ
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
ماہنور پڑتا ہے ۔۔تم آخر کیوں نہیں سمجھتی ۔۔۔
پاکستان کا ہو / بھارت کا/ ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
مائرہ کے بار بار یہ کہنے پر ماہنور زچ ہوگئ۔۔۔
فرق پڑتا ہے ۔
مجھے اس مصنف کے سارے افسانے پڑھنے ہیں ۔۔۔
میں اس کے افسانے بغیر شناخت کے تلاش کروں گی ۔۔۔
حد ہوگئ ہے یار۔۔
یار ۔۔۔یہ کوئی بھارت کا لکھاری ہے میں ان کو خود بھی نہیں جانتی ،مگر مجھے احساس ہو رہا ہے یہ کتنے بڑے لکھاری ہیں ۔قوس قزح رنگ زندگی کی داستان کو اپنی پوٹلی میں سمیٹے ہوئے شاید کوئی درویش ہے -
یہ دیکھو ۔۔
یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ ۔۔
گوگل پر بیٹھی دونوں سر سے سر ملائے دیکھے جارہے تھی ۔دونوں اس مصنف کی دیگر تصانیف آن لائن دیکھنا چاہ رہی تھیں ۔ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتے ہے ۔
خورشید کو ڈھونڈنے چلی ۔۔۔
یہ کہاں ہے۔۔۔
دن / رات /ماہ و سال کا چکر۔۔۔
وصال / ہجر
ماہ نور سرچ کر رہی تھی اور مائرہ کے دل و دماغ میں ایک جنگ چل رہی تھی ۔۔۔
یہ وہ انسان ہے جس کی کہانی میں کہیں نہ کہیں اس کی ذات موجود ہے۔کہتے ہیں: کہانی کار ،کہانی کو اپنے اندر سے سنچتا ہے۔ خورشید کاکام جہاں کو منور کرنا ہوتا ہے ۔ رات کو وہ چاندنی کے پردے میں چھُپ جاتا ہے۔اندھیارے میں رہ کر صبُح کو تلاش کرتا ہے ۔اندھیارے میں رہنے والا چاندنی کی قدر کرنے لگتا ہے کہ اس کی بدولت ہی تو اس کو آگہی اور خود شناسی کے مراحل طے کرنے میں آسانی ہوئی ۔ اندھیارے میں ہونے والے گُناہ چھُپ جاتے ہیں ۔ لوگ جان نہیں سکتے اندھیارے کی اوٹ میں خورشید چھُپا ان سب کا مشاہدہ کرکے سجدوں میں گڑ گڑا کر روتا ہے ۔ اس سے پوچھتا ہے
اے مولا۔۔۔
یہ بے بس عورتیں۔۔۔
کھلونا چہرے ۔۔۔۔
اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ قلم ،کاغذ اٹھا کر وہ لکھنا شروع کردیتا ہے ۔ سوچتا ہے میں معاشرے کو اپنی تڑپ سنا دوں۔۔۔
سُنی۔۔۔۔؟
سُن لی ۔۔۔۔!
وہ یہ کام کرتا رہتا ہے ۔۔۔ سوچتا ہے کرتا رہے گا ابد تا عمر ۔۔۔۔ عمر کی قید اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی ۔ اخلاق کے قائدے توڑنے والوں کے بے نقاب ہونے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ جگنو تلاش کرنے والے خود اندھیرے خرید لیتے ہیں ۔۔۔۔۔
مائرہ کی سوچ میں ماہنور کی آواز نے خلل ڈالا۔۔۔
یہ دیکھو۔۔۔!
ان کی اخبار میں تصویر لگی ہے ۔
میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ پیسے دئے ہوں گے اور اعزازی تقریب کروا ڈالی ہوگی ۔۔
آج کل۔۔ایسے ہی تو ہوتا ہے۔۔
ناول بھی ایسے مطبوعہ ہوجاتے ہیں۔
پھر ان کے اعزاز میں محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ اور کتاب دلہن کی طرح سجتی سنورتی ہے پھر رسم رو نمائی - کتاب چہرہ پڑھ کر جس کے جی میں جو آتا ہے لفظوں کو تھالی میں سجا کر پروس دیتا ہے
افف۔۔۔!!!
ماہ نور ۔۔میں تمھیں اتنا متعصب نہیں سمجھتی تھی ۔تم نے دو تین لائنیں پڑھیں اور اتنی غلط آرء قائم کرلی ۔تمھیں پتا ہے۔۔
جو تم نے کہا وہ سچ ہے ۔۔ایسا ہو رہا ہے -
مگر اپنی نظر ہر ایک پر ایک طرح کی رکھو۔۔پیتل اور سونے میں بڑا فرق ہوتا۔یہاں تک کہ اگر پیتل پر ملمع کاری کی پرت چڑھ جائے تو اس کا اپنا آپ تو چھپ جاتا ہےاور کچھ عرصے بعد سونے کا پانی اثر کھونے لگتا ہے ۔
دنیا پیتل/ پیتل دنیا / سونا کون ؟
تمھیں اپنی آنکھ سے پڑھنا ہے ۔ اپنی رائے دینی ہے ۔ کیا تم نے ان کا افسانہ ایڈز پڑھا ہے ؟
'' مائرہ ۔۔حد کردی ۔۔۔اتنی بے عزتی ۔۔
ادھار رہی ۔۔۔۔
میں پڑھ چکی ہوں ۔۔ یوں پڑھا اور ختم ۔۔عجب سی روانی ہے،آنکھ ٹھہرتی بھی نہیں اور تشنگی بھی ہے ۔
مجھے لگتا ہے یہ ضرور کوئی شاعر ہیں ۔۔
اتنا مختصر تو شاعر ہی لکھتے ۔۔۔ جس کی تشریح کرنے کے لیے دس صفحات چاہیں اور تب جا کر سمجھ آئے
ماہنور نے یہ کہ کر اپنی بات ختم کی ۔
اچھا لکھاری خیال، پلاٹ اور الفاظ کو سیتا ہے
جس طرح ایک درزی کپڑے سیتا ہے
تمھیں پتا ہے آج کل ہم ''زیرو سائز '' کے کریز میں ہیں۔۔
اس طرح افسانے کی بنت بھی زیرو سائز کی ہو تو کرافٹنگ بہت اچھی ہوتے ہے ۔اس پر جذبات کا لباس بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ خورشید حیات کا خاصا ہے ۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنا سطحی سوچتی ہو۔۔
''ایڈز ۔۔۔
آج کل کی روح اور جسم دونوں کا المیہ ہے۔
سفید جرثوموں کا خاتمہ /لیو کو سٹس کا خاتمہ
سفیدی کا خاتمہ /روحانیت کا خاتمہ
سفیدی/سیاہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرکز سے دوری کی کشش
ان کے اس افسانے میں مرکز سے دوری اور دوری کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا ہے ۔ہمیں سوشل انجیرنگ کی ضرورت ہوگی وگرنہ وہی ہوگا جو خورشید حیات نے لکھا ہے
VERY SORRY ACQUIRED IMMUNE DEFICIENCY SYNDROME IS FATAL
یار ،مائرہ ۔۔تم کتنا ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔ تمہاری مثبت سوچ نے میری رائے بدل دے کہ سونا پیتل نہیں ہوسکتا ۔
میں ان کا افسانہ ''آدم خور " پڑھ رہی ہوں ،، ابھی نیٹ سے ملا ہے ۔مجھے ان سے اعتراض ہے کہ آدمی کو کتا کہا ، کلچر کو کتا کہا ۔کیا تمھیں لگتا ہے یہ سب مناسب باتیں ہیں۔۔دیکھو ''رابعہ کتنی مایوسی کی باتیں کر دہی ہے ، کوما میں جانے کی ، کیا یہ ہے مسائل کا حل؟
دیکھو ! رابعہ کی موت کو امیریکی آدمی خوروں سے منطقی انجام دے دینے کا کیا تک بنتی ہے ۔۔۔تم کچھ بھی کہو! یہ افسانہ ادھورا بے تکا سا ہے ، اس کا آغاز دل موہ لینے والی باتوں سے کرکے انجام کو ادھورا کر دیا۔
ارے ، ارے ، ماہنور سطح پر نہ جاؤ ، ابتدا سے اختتام تک افسانہ مربوط سے، لکھاری نے ایک ہی ڈور میں آغاز اور انجام کر دیا ۔ افسانے کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔
''کہانی تو ہم سب کے اندر لہروں کی طرح ڈوبتی ابھرتی ہے
سمندر میں , میں ہوں
مجھ میں سمندر
بارش کی بوندیں سمندر میں
اور سمندر بارش کی بوندوں میں ۔''
تمھیں لگے گا کہ یہ ''نمرہ احمد'' کی طرح استعارے استعمال کرتے ہیں جن کو عام قاری نہیں سمجھ سکتا ، ان کی زبان عمیرہ احمد کی طرح سادی نہیں ہے ، یہ اشفاق احمد بھی نہیں جو دیہاتی لہجے میں بات کرتے ہیں ۔۔ ان کی اپنی پہچان ہے ،ان کے اپنے استعارے ہیں ،کیونکہ زندگی ان کی اپنی ہے ، میں روتی ہوں۔۔۔تمھیں پتا ہے دل نے ان کی آواز سنی ہے، پتا ہے وہ کیا کہ رہے ۔۔
سنو !
میری آنکھوں سے سیال تب ہی بہتا ہے جب دل میں دکھوں کا سمندر ہوتا ہے اور جب میں ہجومِ دنیا کے درد کے سمندر میں کھو جاتا ہوں ۔۔۔ درد کے ہچکولے مجھے ہلا دیتے ہیں ۔۔۔مجھے انسان کُتا لگتا ہے ، اشرف المخلوقات ہو کر جب وہ کتا بن جائے گا تو میں اس کو کیا کہوں ۔۔۔انسان کہوں ؟
وہ انسان جو عورت کی تکریم نہیں کرتا ، اپنے دکھ عورت کو دے کر اس کی جھولی سے خوشیاں کشید کرکے چین کی نیند سوجاتا ہے ۔۔
کیا میں اُسے انسان کہوں ؟
بتاؤ؟ مائرہ تم بتاؤ ۔۔۔؟
حیوان /انسان / جن
کیا کہوں ۔۔۔۔ میں روتا ہوں جب غریب کا بچا ہاتھ میں کتابوں کے بجائے مزدوری کرتا ہے اور اس کا باپ آرام سے سوتا ہے
انسانیت کہا ہے ؟ پہلے انسانیت دکھلا دو ۔۔۔۔ پھر میں الفاظ واپس لے لوں گا۔۔۔۔۔
سنو ۔۔۔! آدم خور ہمارے اندر ہے ، یہ انسان کو دیمک کی طرح کی کھاتا ہے اور اس پر کوئی الزام نہیں آتا ۔۔۔روح کے چھید کوئی نہ دیکھے ۔۔۔ظاہر سب ظاہر دیکھے ۔۔۔۔ امریکی بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے انصاف کے نئے قانون بنتے رہتے ہیں ۔۔۔ افغانستان میں دیکھو ۔۔۔ جہاں فوجیوں کو ہم جنس پرستی حلال کر دی گئی ۔۔۔۔ امریکی ہے ۔۔۔۔ فرق ہے نا۔۔
نوکر /آقا
ظالم/مظلوم کا
مائرہ کا دل ان باتوں کو سُن رہا تھا۔۔۔
مائرہ ۔۔۔کہاں گم ہوں۔۔
وہ۔۔آدم خور میں ۔۔
مجھے آدم خوروں سے ڈر لگ رہا ہے۔۔! تمھیں لگ رہا ہے ؟
اچھا ہے تم آدم خور کو نہ سمجھو ۔۔۔۔
تم بھی ڈرنے لگو گی ۔۔۔۔ کوئی تو بہادر رہے ۔۔۔۔ !
میرے پاس ایک اور افسانہ بھی ہے
''پانچ انگلیاں۔۔۔۔۔
مائرہ ۔۔۔۔
تم رو کیوں رہی ہو۔۔ رونے والی کیا بات ہے ۔۔۔ ہم " پانچ انگلیاں '' کسی اور دن پڑھ لیں گے ۔۔۔ تم رونا بند کرو۔۔۔مجھے بس ان کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ میں ان کو سننا چاہتی ہوں ۔۔۔ یار کوئی تو اسرار ہے کہ میں ان کے بارے میں جاننا چاہ رہی ہوں ،جتنا جانتی ہوں اتنا تعارف ادھورا لگتا ہے ۔۔۔۔سرحدیں ۔۔۔ سرحدوں کے فاصلے -
اب میں تمھیں ان کے بارے میں تفصیل سے بتاتی ہوں اگر پہلے بتاتی تو تم کہتی یہ سب تو لفاظی ہے ۔۔ تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہوں ۔۔۔
خورشید حیات ہندوستان کے مانے ہوئے لکھاری ہیں ۔۔۔
وہ ان کی ان کی زندگی کی تخلیقی کامیابیوں کے قصے سناتی رہی ۔ یوں تقریبا سارا دن گزر گیا ۔
انہوں نے بچوں ، بالغوں اور ادھیڑ عمر حضرات سب کی ترجمانی کی ۔۔ تیرہ سا؛ کی عمر میں بچوں کے لیے لکھا ۔
اور۔۔''میرا دل کر رہا ہے ان کی ساری کہانیاں پڑھوں
یار ۔۔زبردست۔۔۔
اتنی زیادہ معلومات کا بہت شکریہ ۔۔۔
یار ۔۔تمھیں اور کیا بتاؤں ۔۔ ان کی کئی مٹی بدن نظمیں 2005 سے اردو رسائل میں شایع ہوئی ہیں - ۔ان کے افسانے نصاب میں شامل ہیں ۔۔ یہ کسی فخر سے کم بات نہیں ۔۔ یار۔۔حکومتی سطح پر ان کو کئی انعامات سے نوازا گیا ہے ۔۔
ارے ، ارے ، تم کیا سوچ رہی ہو۔۔۔
کچھ بُرا لگا کیا ؟
نہیں ۔۔مائرہ ۔میں سوچ رہی ہوں ۔۔تم ٹھیک کہ رہی تھی ۔۔۔
لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔
پاکستان کا ہو/بھارت کا/ایران کا /پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
میں سرحدوں میں گھر کر تعصب کا شکار ہو بیٹھی ۔۔۔ آج احساس ہو رہا ہے میں کتنی غلط ہوں ۔۔۔ سرحدیں خورشید کو اُبھرنے سے کہاں روک سکتی ہیں ۔۔۔
اُٹھو چلو۔۔۔ ماہنور ،، مائرہ سے مخاطب ہوئی
'کہاں ۔۔۔
اردو بازار
مگر کیوں۔۔۔
کیا افسانے تک ہی رہنا ہے ؟ کیوں نا ان کےتنقیدی جائزے اور افسانوی مجموعے لینے چلیں ۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں اس " پہاڑ ندی عورت " میں کیا ہے ------------
چیرہ آئینہ کب اور کیسے بنتا ہے -------
مائرہ سوچ رہی تھی ۔۔۔
واقعی لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔۔ اس کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔۔
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے '-