دوسری جانب جیساکہ ادب دوست بھائی سے فرمایا ...
چونکہ کُتب ، کسی اور کی قوتِ متخیلہ ، مشاہدہِ فطرت و اشیا، قوتِ بیان اور زور قلم کی تفسیر ہے ، جو کسی طور بے کار نہیں ۔ مگر یہ کہ اگر انسانی خیال ، خیالِ سابقہ کا مرہونِ منت ہو جائے تو ارتقاکا سفر تھم جائے گا۔
جہاں تک تحریر کی بات ہے تو اس کی صورت بھی مختلف نہیں۔
جہاں تک سوال خیال کے ارتقاء کا ہے یہ صرف ارتقاء کا ہی ہے اس کی عمارت پہلے سے موجود ڈھانچے پر ہی کھڑی ہوتی ہے یعنی کہ ارتقاء اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ عدم سے وجود میں نہیں آتا بلکہ سالوں سے جاری ایک عمل کا حصہ ہوتا ہے .....
ادبی ارتقاء یا علمی ارتقاء بھی پہلے سے موجود عمارت کی اگلی منزل سے زیادہ کچھ نہیں .......
لیکن الہام علمی یا الہام دینی ایک نئی دنیا سے متعارف کروا سکتا ہے
کشف سے مراد کسی عقدہ کا کھل جانا ہے سوچ کا کوئی نیا در وا ہونا کسی نئی بات کا سمجھ آنا یا کسی پرانی بات کی کوئی نئی تعبیر کا سوجھ جانا ..........
کشف علمی امور دینیہ میں بھی ہوتا ہے اور امور دنیوی میں بھی یہ مسلمان کو بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم کو بھی ......
علمی مکاشفات کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا کسی بھی مسلے پر تنہائی میں یا کسی عالم کی صحبت میں ، موجودات کی اس تغیر پذیر دنیا میں بےشمار ایسی ایجادات ہیں جب موجد دریافت کچھ اور کرنا چاہتا تھا اور ہو کچھ اور گیا ایک سیب کے گرنے سے نیوٹن کی توجہ لاء آف گراویٹی کی طرف مبذول ہوجانا کشف علمی کی ہی ایک مثال ہے ......
دوسری جانب جہاں تک معاملہ ہے پرواز تخیل کا وہ میری ، آپ کی ، وارث بھائی کی یعنی ہر ہر منفرد کی منفرد ہوگی .........
لیکن کسی ایک ہی عنوان پر دو اشخاص کے تخیل کی پرواز نے انہیں کہاں تک پہنچایا کون پہلے آسمان تک پہنچا کون دوسرے پہ رکا کون تیسرے تک بلند ہوا کس کی قوت متخیلہ چوتھے پر جاکر تھکی کس کے تخیل نے پانچویں پر کمند ڈالی کون چھٹے تک عروج کرتا چلا گیا اور کس خوش نصیب کو مشیت ایزدی نے ساتویں تک راستہ دیا .............
رجال کی یہ تفریق " کتاب " یا " الکتاب " بتلاتی ہے .