زرقا مفتی
محفلین
قومی اسمبلی کے اُمیدوار سے ناراضگی ہے کیاقومی اسمبلی والا ووٹ تو کینسل کرنیکا کا ارادہ ہے تاہم صوبائی اسمبلی کا عمران خان کو ہی ڈالوں گا
قومی اسمبلی کے اُمیدوار سے ناراضگی ہے کیاقومی اسمبلی والا ووٹ تو کینسل کرنیکا کا ارادہ ہے تاہم صوبائی اسمبلی کا عمران خان کو ہی ڈالوں گا
نہیں یہ منشا سندھو صاحب ویسے تو میری برادری ہی سے تعلق رکھتے ہیں یعنی جٹ ہیں لیکن انکی کرتوتوں کی وجہ سے میں انہیں ناپسند کرتا ہوں۔قومی اسمبلی کے اُمیدوار سے ناراضگی ہے کیا
قطعی مختلف نہیں ہے۔ بلکہ روایتی جماعتوں سے بھی بری ہے۔ اسکی قیادت کے پاس مختلف لائحہ عمل ہے مثلا
جاویدہاشمی پہلے ن لیگ میں تھا - یہ ایک مخصوص گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں - بے وفائی ان کی نشانی ہے
محمود قریشی- یہ جاگیر دار ہیں۔ پیری فقیری کرتے ہیں۔ ان کے حلقہ انتخاب ان کے مریدین کی وجہ سے ہیں۔ شوبازی کا شوق ہے۔ ہیلیری سے سر ٹکراتے رہے۔ وزیراعظم بننے کا شوق ہے۔ اسی چکر میں ریمنڈ دیوس کیس میں ایجینسوں کی لائن لے کر اپنی پارٹی پی پی پی سے بے وفائی کی اور منہ کی کھائی۔ اخر میں پی ٹی ائی جوائن کرنی پڑی۔ بے وفائی یہ کرچکے پہلے بھی ن سے۔
احمد رضا قصوری- جاگیر دار اور صعنت کار۔ ان کے خاندان نے پاکستان کے مخصوص حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم کو بھی تجارت بنادیا ہے۔ یہ پاکستان کو امریکہ بیچنے میں مشرف کے ساتھی ہیں۔ مشرف سے بے وفائی کی ۔ اخر پی ٹی ائی جوائن کرنی پڑی
شیریں مزاری- یہ محترمہ ایجنسیوں کے مخصوص ایجنڈے کی پروکار ہیں۔ خود ہی پی ٹی ائی چھوڑی کہ یہ لوگ ان کو اور ان کی بیٹی کو تنگ کرتے ہیں۔ پھر کسی اشارہ پر پھر پی ٹی ائی جوائن کی۔ لائحہ عمل اگرچہ موجود ہے ان کے پاس پر خفیہ ہے
یہ کچھ سیمپل ہے۔ پی ٹی ائی کے لیذر ز کے بارے میں پڑھتے جائیں اور شرماتے جائیںِ ۔ ایک ابرار الحق ہیں۔ شہرت گلوکاری۔ بلو دے گھر ان کا مشہھور گانا ہےا ور نچ پنجابن نچ بھی
عمران خان کی ساکھ سب سے بدتر ہے۔ یہ پلے بوائے ہوا کرتے تھے۔ خود ٹی وی پر اعتراف کرتے ہیں کہ توبہ کی۔ اچھا کیا۔مگر لیذر بنے کے اہل نہیں لگتے۔ کھلاڑی ہیں۔ غصہ پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے
مہران بینک والے کیس کے فیصلے کے بعد نواز شریف 62 ،63 پر کیسے پورے اُتر سکتے ہیں؟؟
ملاحظہ لیجیے جھوٹ کا پلندہ
صرف ایک جائیداد پر تبصرہ ہی کافی ہوگا
اپرمال پر ان کی جائیداد میرے عزیزوں کی ہمسائیگی میں ہے وہاں ایک کنال زمین کی قیمت 3 کروڑ سے زیادہ ہے۔ لاہور میں پانچ مرلے کا گھر ساٹھ لاکھ میں ملتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ مسٹر اور مسز نواز شریف اپنی جائیداد مجھے فروخت کردیں میں پانچ گُنا قیمت دینے کو تیار ہوں
آپ ن لیگ کے سپورٹر ہیں تو بتائیں کہ شاہد اکرم بھنڈر، زاہد حامد، ماروی میمن، امیر مقام، گوہر ایوب خان، طارق عظیم، لیاقت جتوئی، غلام رسول ساہی، عاصم نذیر، شاہد نذیر، صبا صادق، سردار یوسف، زبیدہ جلال یہ لوگ کیسے ہیں اور ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے اور یہ پہلے کس کے ساتھ تھے؟
لاہور میں ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے ۔۔۔ شاید ایک آدھ دو سیٹیں ہار جائیں ۔۔۔ لیکن وہ بھی تبھی ہاریں گے اگر غلط امیدوار چُن لیا ۔۔۔ تحریک انصاف اس الیکشن میں نشستیں تو کم جیتے گی البتہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ بعد از انتخابات کیا حکمت عملی بناتی ہے!
سعود صاحب آپ کی اطلاع ناقص ہے ۔ ہر پانچ سال بعد حکومت جائیدادوں کی ویلیو لگاتی ہے ۔ اس کے مطابق ٹیکس اور کرایہ مقرر ہوتا ہے ۔ ہر علاقے کا ڈی سی ریٹ مقرر ہوتا ہے۔اور یہی اس جائیداد کی کم سے کم ویلیو ہوتی ہے۔ اثاثے ظاہر کرتے وقت ان کی ویلیو ڈیکلئر کرنی ہوتی ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔ اگر ایک شخص کے دادا یا پرداد نے اپر مال یا گلبرگ میں گھر بنایا تھا اور چند ہزار میں جگہ خریدی تھی تو آج اسُ کے اثاثے کی ویلیو چند ہزار نہیں ہوگی۔ آپ نے کافی مضحکہ خیز وضاحت پیش کی ہےایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ، عام لوگ ہی نہیں سیاستدان ، صحافی حضرات بلکہ اینکر حضرات کو بھی اکثر یہ تنقید کرتے ہوے سنتا ہوں کہ ان صاحب نے اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنی اس پراپرٹی کی قیمت اتنی کم ظاہر کی ہے جبکہ اس کی اصل قیمت تو اتنی زیادہ بنتی ہے، اسی طرح سے دوسرے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی قیمت جس میں گولڈ، شئرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات سمجھ لیں کہ ٹیکس اور اکاونٹینگ کے اصولوں کے تحت آپ اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اثاثوں کی وہ قیمت ظاہر کرتے ہیں جس پر وہ اثاثہ یا جائیداد آپ نے خریدی ہو یا حاصل کی ہو ، یعنی جیسے میں نے ایک مکان آج سے دس سال پہلے دس لاکھ کا خریدا تھا اور یہی قیمت ڈیکلیر کر دی تھی اب میں ہر سال یہی قیمت ڈکلیر کروں گا چاہے مارکیٹ میں قیمت بڑھ کر ایک کروڑ کیوں نہ ہو گئی ہو۔ ہاں جب میں اس کو بیچوں گا تو یہ اضافی نوے لاکھ روپے میری اس سال کی آمدنی میں ظاہر ہوں گے۔
لہذا اس طرح کی بات کرتے ہوئے ہمیشہ یہ دیکھ لیں کہ یہ جائیداد کب خریدی گئی ہے۔
سعود صاحب آپ کی اطلاع ناقص ہے ۔ ہر پانچ سال بعد حکومت جائیدادوں کی ویلیو لگاتی ہے ۔ اس کے مطابق ٹیکس اور کرایہ مقرر ہوتا ہے ۔ ہر علاقے کا ڈی سی ریٹ مقرر ہوتا ہے۔اور یہی اس جائیداد کی کم سے کم ویلیو ہوتی ہے۔ اثاثے ظاہر کرتے وقت ان کی ویلیو ڈیکلئر کرنی ہوتی ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔ اگر ایک شخص کے دادا یا پرداد نے اپر مال یا گلبرگ میں گھر بنایا تھا اور چند ہزار میں جگہ خریدی تھی تو آج اسُ کے اثاثے کی ویلیو چند ہزار نہیں ہوگی۔ آپ نے کافی مضحکہ خیز وضاحت پیش کی ہے
سعود صاحب لاہور میں ڈی سی ریٹ کی اصطلاح ہی معروف ہے درج ذیل لنک پر دیکھئے ہر علاقے کے ڈی سی ریٹ
http://eproperty.pk/lahore-dc-rates-2011-2012/
اپر مال پر کمرشل جائیداد کا ریٹ دیکھیئے
یہ ریٹ کون طے کرتا ہے کب سروے ہوتا ہے کہاں سے اس کی معلومات ملتی ہیں کس دفتر میں یہ فہرستیں آویزاں ہوتی ہیں مجھے سب معلوم ہے۔جی کہتے ہونگے ، لیکن اس سے میرے جواب سے عدم اتفاق کا کیا تعلق ؟؟؟
یہ ریٹ صوبائی حکومت طے کرتی ہے پنجاب مٰیں یہ اس ایکٹ کے تحت طے کیا جاتا ہے ، آپ دیکھیں گی کہ یہاں بھی کلیکٹر کا ہی زکر ہے۔
بھائی ہیں آپ ورنہ اس پر جگت بہت اچھی بنتی تھیمیں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار اپنا ووٹ پی پی پی کو دے دوں۔
جوان ، میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ۔بھائی ہیں آپ ورنہ اس پر جگت بہت اچھی بنتی تھی
آپکو ہم سے کوئی دشمنی ہے تو ہم سے نکالو مجبور عوام غریب لاچار پبلک کے کیوں دشمن بن رہے ہیں ؟جوان ، میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں ۔