تحریک اردو پاکستان

یاسر پیرزادہ اور پروفیسر محمد سلیم کے درمیان اردو کے نفاذ پر مکالمے کا ایک حصہ

پیارے یاسر
السلام علیکم
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے اور سر شام ہونے والی گفتگو سے آپ بھی اسی طرح محظوظ ہوئے ہوں گے جس طرح میں ہوا ہوں، آپ ایک نامور شخصیت ہیں اور ا یک انتہائی نامور شخصیت کے بیٹے ہیں (اور سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اس طرح منوایا ہے کہ آپ کی شخصیت آپ کے والد کی شخصیت کے سائے سے آزاد نظر آتی ہے) اورمیں میں ایک ذرہ ناچیز ہوں ۔ اس لئے میں نے پوری پوری کوشش کی کہ آپ کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھوں اور آپ کی شخصیت کے رتبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کروں، تاہم جہاں علمی بات ہو اور پھر ہم ایک پوری قوم اور ایک ملک کے مستقبل کے حوالے سے بات کر رہے ہوں تو اس سے اگر ماتھے پر کوئی شکن نمودار ہو جائے تو اس کو کوشش کر کے مٹا دینا چاہئیے۔
وہ بات جو پوری دنیا میں موضوع بحث کبھی ہوئی نہ ہو سکتی ہے، میں محو حیرت ہوں کہ وطن عزیز میں ہم وہ بات نہ صرف زیر بحث لا رہے ہیں بلکہ اس پر ایک متضاد سوچ رکھتے ہیں۔ اب ساری دنیا میں پاکستان سمیت گنتی کے چند ملک ہیں جو ایک غیر ملکی اور اجنبی زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ جب ساری دنیا بھوک، بیماری، غربت اور بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ہم ان سب خرابیوں کو اپنا مقدر کیوں سمجھے بیٹھے ہیں۔
اب میں بات وہاں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے آپ کے ساتھ ایک مکالمے کا آغاز کیا جا سکتا ہے، آپ نے چند (آپ کی دانست میں انگریزی) اصطلاحات کا ذکر کیا اور اردو کے متوالوں کو دعوت دی کہ وہ ان کا اردو میں متبادل بتائیں۔ تو پہلی بات تو یہ کہ یہ اصطلاحات انگریزی ہیں ہی نہیں، یہ یونانی زبان سے آئی ہیں اور انگریزوں نے ان کو جوں کا توں اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔ ان کا ترجمہ کرنے کی کسی قسم کی کوشش ہی نہیں کی۔ شاید انگلینڈ میں کوئی ایسا دانشور نہیں تھا جس نے ان کو یہ بات سمجھائی ہو کہ ارے بھائی ان کا انگریزی میں ترجمہ کرو، دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے بچوں کو ساری تعلیم ہی یونانی زبان میں دو۔ (ایسے دانشور کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیچارے انگریزوں کو ان تمام اصطلاحات کو جوں کو توں قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا)۔
اچھا اگر ایسا ہو جاتا تو پھر انگریز صحیح معنوں میں بھمبھل بھوسے میں پڑ جاتے کیونکہ انہوں نے تو لاطینی زبان میں پائی جانے والی اصطلاحات کو بھی انگریزی میں ترجمہ کئے بغیر ہی قبول کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ عربی ترکی، سپینش، پولش اور کئی دوسری زبانوں جن میں بیچاری اردو بھی شامل ہے کے کئی الفاظ اور اصطلاحات جوں کی توں اپنے نصاب اور زبان میں شامل کر لئے۔
آپ نے مجھے فرمایا کہ انگریزی یونانی، لاطینی وغیرہ آپس میں اس قدر قریبی رشتہ رکھتی ہیں کہ اصطلاحات کسی بھی زبان کی ہوں ان کو لکھتے یا پڑھتے وقت ان کے بچوں کو کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا۔ آپ ایسا کریں کہ یورپی زبانوں کے چند ابتدائی قاعدے لیں، انگریزی، لاطینی، جرمن، روسی، سپینش، ڈچ، فرنچ، یونانی، ان کے حروف تہجی لیں اور پھر ان زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان ابتدائی حروف کا تلفظ اور ادائیگی پوچھیں میرا خیال ہے مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں جب آپ یہ کام کر لیں گے تو آپ کو اپنی بات کا جواب از خود مل جائے گا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں ۔ بازار میں ایک سواری بہت عام ہے جس کو چنگ چی کہا جاتا ہے، لکھا کیا جاتا ہے QING QI ۔ ہو سکتا ہے ایک جگہ پر BY ہی لکھا ہو لیکن جب اس لفظ کو پڑھنے کو کہا جائے تو ہر ایک زبان سے تعلق رکھنےوالا اپنے ہی انداز میں اس کو پڑھ رہا ہو۔ اور اگر یہ لفظ ہو تو پھر تو یقینی طور پر ہر ایک اس کا اپنا ہی مطلب نکال رہا ہوگا۔
ایک پرندہ ہے ROBIN وہی جس کے نام پر ہم اپنے اپنے بچپن سے اپنی ماؤں کے کہنے پر بازار سے نیل لاتے رہے ہیں، رابن نام کا پرندہ امریکہ میں ہو تو اور، برطانیہ میں ہو تو اور اور اسی طرح کسی اور ملک میں ہو تو اور۔ اگر آپ نے حیاتیات کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو ایک جانور کی مثال بھی یاد ہوگی جس کو GOPHER کہا جاتا ہے۔ کیا آپ کو میری بات کی سمجھ آ گئی ہے کہ اگرچہ بظاہر ایک لفظ کے مختلف زبانوں میں حروف تہجی ایک جیسے ہی کیوں نہ ہوں ان کےتلفظ اور استعمال میں فرق پڑ جاتا ہے۔
انگریزوں کی دانشمندی یہ ہے کہ انہوں نے پوری زبان لینے کے بجائے صرف چند اصطلاحات کو لیا اور ان کا ترجمہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی گویا کہ انہوں نے پوری کی پوری زبان اپنانے کے بجائے صرف اپنے مطلب کی بات لی اور اس سے اپنا کام چلالیا۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رائبوسومز، گالجی باڈیز، مائٹوکانڈریا، اور اس طرح کی دیگراصطلاحات جن کا ترجمہ مشکل کام ہے ان کو جوں کا توں لے لیا جائے اور جہاں آسان ترجمہ ہے وہاں اس کا آسان ترجمہ اپنا لیا جائے میں دو مثالیں دیتا ہوں، ایک ہے ACCELERATION جس کا بہت آسان ترجمہ اسراع ہے اور دوسرا ہے EQUILIBRIUM جس کا مطلب توازن ہے اب ان دونوں الفاظ کا اردو متبادل آسان ہے جس کو استعمال میں لایا جانا چاہئیے۔بہر حال پڑھایا ہر سطح پر اردو میں ہی جائے۔
یاسر بھائی ہم بات مفروضوں پر کرتے ہیں اور حقائق یونانی فلاسفروں کی طرح جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
پاکستان میں مترجم موجود نہیں ہیں
دنیا میں ہر روز ہزاروں کتابیں چھپ رہی ہیں ان سب کا ترجمہ کون کرے گا؟
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کاروان ، علمی، سنگ میل، نگارشات، فیروز سنز،ماورا، (یہ سب لاہور کے ناشران ہیں ، کراچی اور دوسرے شہروں کے ناشران ان کے علاوہ ہیں) پھر جنگ، نوائے وقت، خبریں، دن، نئی بات، ایکسپریس، ڈان، دنیا، پاکستان۔ پھر ٹی وی چینلز، اور پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پائے جانے والے انگریزی اور دیگر زبانوں کے ہزاروں شاید لاکھوں اساتذہ، اب آپ کا کہنا ہے کہ اس قابل دس لوگ بھی نہیں ملیں گے جو انگریزی کتابوں کا اردو میں معیاری ترجمہ کر سکیں تو پھر آپ اور میں اس ملک کو جہنم میں ہی کیوں نہ جھونک دیں۔(مطلب یہ کہ جب اساتذہ ہی دستیاب نہیں ہیں تو اس قوم کو انگریزی میں تعلیم دینے کے بجائے جہنم میں ہی جھونک دینا چاہئیے کہ ہر دو صورتوں میں انجام تو ایک سا ہے) ایسی بات نہیں ہے آپ کی حکومت مترجمین کے لئے آسامیاں مشتہر کرے، انہیں معقول معاوضے دے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ سب کام نہیں ہوتا، یہ بھی نہ کریں ( پاکستان کے) ناشران (پبلشرز) کو دعوت دیں کہ ہم انگریزی اور دیگر زبانوں سے کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ آئندہ نصاب اردو میں پڑھایا جائے گا تو میں آپ کو بتاؤں نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا سے ناشران آپ کے پاس یہ کام کرنے آ جائیں گے، آکسفورڈ، پینگوئن، میک ملن، ولے، پیک اور بہت سے دوسرے، بھلا جس کو پتا ہو کہ لاکھوں کی تعداد میں میری کتابیں بکیں گی تو وہ انہیں کیوں نہیں چھاپے گا، سب کاروباری ہمارے حکمرانوں کی طرح گھامڑ تو نہیں ہوتے کہ 20 کڑوڑ کی آبادی کے لئے کچھ لے ہی نہ سکیں، بہر حال یہ بات آپ سے پھر کبھی کروں گا۔
اب آ جاتے ہیں کہ کتنی کتابوں کے ترجمے کی فوری ضرورت ہوگی، میٹرک تک تمام مضامین کی کتابیں اردو میں موجود ہیں، انکو ضروری اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ کام میں لایا جا سکتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی سے وابستہ اداروں میں گریجویشن تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں، ان کو ناشران کے سپرد کر کے تمام ملک کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے،
جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن (یہاں 1948 تک اردو میں تعلیم دی جاتی رہی، 1948 میں اس ریاست پر بھارت کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی یہاں پر ذریعہ تعلیم اردو ختم کر دیا گیا)، ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی دہلی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی/ اسلام آباد میں پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کی تدریس اردو میں کی جاتی ہے۔ بھارت میں موجود دونوں یونیورسٹیاں، معیشت، طب، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں کی تعلیم بھی اردو میں دسیتی رہی ہیں/دے رہی ہیں، پاکستان کی تمام جامعات میں نصاب کو اردو میں تبدیل کرنے کے لئے ان جامعات کے تجربوں اور علمی ذخیرے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
(میرےتخمینے کے مطابق پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کو شامل کریں تو شاید مطلوبہ کتابوں کی تعداد پانچ ہزار بھی نہیں ہوگی)۔
یاسر بھائی
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بات ڈالروں کی نہیں ہے زندگی تو ہر شخص گزار لیتا ہے ہونا یہ چاہئیے کہ آدمی یہ سوچے کہ جو وہ کرنے جا رہا ہے اس کا کبھی حساب بھی دینا ہے، اور پھر جس کام کو آپ اپنی دانست میں صحیح سمجھتے ہیں اس پر بھی غور کر لیں، قائد اعظم (جو اردو کا مخالف ہے وہ پاکستان کا مخالف ہے)کے خیالات کو پڑھیں وہ کوئی معمولی اور عام انسان نہیں تھے وہ صدیوں کے انسان تھے اور پھر علامہ اقبال، اور پھر سب سے پہلے اور سب سے اہم قرآن پاک جو کہتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو جس قوم میں بھیجا وہ اس قوم کی زبان میں اس کو تعلیم دیتے تھے، (سورہ ابراہیم آیت نمبر 4)۔
تعلیم ابلاغ چاہتی ہے تو جس قوم میں بقول آپ کے دس آدمی بھی انگریزی سے اردو میں ترجمے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس قوم کے ایم اے ، ایم ایس سی پاس ایک درخواست اردو یا انگریزی میں ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے وہاں آپ انگریزی نافذ کیوں کرنا چاہتے ہیں، پھر ایک اور بات بھی ہے تعلیم کے لئے سب سے پہلی شرط ابلاغ کی ہوتی ہے، اور انگریزی میں ابلاغ ممکن ہی نہیں ہے، آپ اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں کتنی بار آپ نے رٹا لگایا اور جب اسباق آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ نے ان کو سمجھنے کے بجائے رٹا لگانے، خلاصے سے یاد کرنے ، پھر ٹیوشن رکھنے یا اکیڈمی جانے کا فیصلہ کیا۔ گھر کی زبان اور ہے، اسکول کی زبان اور ہے، انگلینڈ کا بچہ اس لئے پڑھ جاتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے کہ گھر اور اسکول میں اسے ایک ہی زبان سے واسطہ پڑتا ہے، یہ نہیں کہ جوں ہی اسکول پہنچے اسے ایک عجیب و غریب اور جناتی زبان سے واسطہ پڑے گھر میں تو وہ پانی کہتا رہے اور جونہی اسکول پہنچے اسے پتا چلے کہ یہ واٹر ہے، ایک 3 سال کے بچے کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ وہ یہ سب سن کر کس قدر عذاب سے گزرتا ہوگا، (کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں ایک انگریز گورنس تعنیات کر دی جائے تاکہ بچوں کو گھر پر ہی انگریزی ماحول مل سکے ، اگر یہ ممکن نہیں تو ہر پاکستانی مرد پر لازم کر دیں کہ وہ ایک انگریز عورت سے بھی شادی کرے تاکہ اس کے بچوں کو اگر باپ نہیں تو کم سے کم ماں تو انگریز مل جائے۔یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جائے گا کہ انگریز عورت کس ملک کی ہو، کیونکہ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی انگریزی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، دہلی اورلکھنؤ کی اردو میں فرق اس فرق کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا جو ان ملکوں کی انگریزی میں ہے)۔ جب یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تو نتیجہ وہ نکلتا ہے جو آج کل نکل رہا ہے۔( میں نے روزنامہ ایکسپریس کے ایاز خان صاحب کو دعوت دی (وہ بھی انگریزی کے نفاذ کے زبردست حامی ہیں ) کہ لاہور کے چوٹی کے انگریزی میڈیم کے چوٹی کے بچوں کو بلائیں اور ان کو انگریزی میں ایک مضمون لکھنے کو دیں (موقع پر لکھیں نہ کہ گھر سے لکھ کر لائیں، یا نیٹ سے کاپی پیسٹ کر کے لے آئیں)، یا پھر ان میں ایک انگریزی مقابلہ تقریر(فی البدیہہ) کروا لیں پتا چل جائے گا انگریزی میڈیم اداروں میں کس معیار کی تعلیم دی جاتی ہے، بیچارے اس تجویز پر کچھ بھی نہ کہہ پائے بس یہ کہا کہ آپ کو تو علم ہی ہے رہنے دیں)
آپ اردو نافذ کرنے کی حمایت کریں، یہ ملک پہلے ہی بہت برباد ہو چکا ہے 67 سال سے زیادہ عرصہ ہم نے کھو دیاہے، پاکستان آج وہاں بھی نہیں ہے جہاں آج سے 67 سال پہلے تھا۔ کوئی عالمی معیار کا عالم، سائنسدان، دانشور، ماہر معیشت یہاں پیدا ہی نہیں ہو رہا، ہاں عالمی سطح کے دہشت گرد ضرور پیدا ہو رہے ہیں ، ذرا سوچیں ان دہشت گردوں کی پیدائش ان مدرسوں میں نہیں ہو رہی جن کو آپ نے ان کی آماجگاہ سمجھ رکھا ہے ان دہشت گردوں کو ہمارا نظام جنم دے رہا ہے جہاں تعلیم کے نام پر لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا جا رہا، طبقاتی نظام کا سب سے بڑا ہتھیار یہ انگریزی میڈیم ہے اس کا علاج انگریزی نافذ کرنے میں نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذکرنے میں ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایچی سن بند ہونا چاہئیے یا بیکن ہاؤس کو تالے لگوا دیں۔ نہیں ان سب اداروں میں بھی اردو نافذ کر دیں، وہ جوہر قابل جو انگریزی کے ہاتھوں ہر سال ضائع ہوجاتا ہے وہ بھی اس ملک کے کام آ ئے گا، ذرا سوچیں انگریزی وہ پودا نہیں ہے جو ہماری سرزمین میں پھلے پھولے آپ چند سو کتابیں لکھنے کو تیار نہیں ہیں مگر اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدلنا چاہ رہے ہیں، نسل کشی کے تو دنیا میں بہت سے اقدامات ہوئے زبان کشی کا یہ پہلا واقعہ ہوگا۔

یاسربھائی کچھ جاہل یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو صرف ٪5 یا ٪10 پاکستانیوں کی زبا ن ہے۔ پیارے یہ ٪100 پاکستانیوں کی زبان ہے جیسے پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان مسلمان ہیں بھلے وہ شیعہ سنی اہل حدیث جو بھی ہوں، اور کم از کم یہ بات تو میں بلا خوف تردید کہہ ہی سکتا ہوں کہ یہ ٪100 پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان ہے۔
ایک اور بات ، ہر سال میٹرک میں ٪40 بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ٪60 تک بچے فیل ہو جاتے ہیں، ڈگری کی سطح پر ٪75 نوجوان فیل ہو جاتے ہیں گویا میٹرک میں ہر ایک لاکھ میں سے چالیس ہزار (40000) بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے ساٹھ ہزار (60000) بچے فیل ہو جاتے ہیں اور ڈگری کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے پچہتر ہزار (75000) نوجوان فیل ہوجاتے ہیں، میرے تخمینے کے مطابق اگر ایک لاکھ بچے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوں تو ان میں سے صرف 5000 ہی ڈگری کی سطح کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ یہ سب انگریزی کی تباہ کاریاں ہیں بھلا پاکستانی قوم اتنی ہی گئی گزری ہے، اب آپ کہیں گے کہ اگر گئی گزری نہیں تو انگریزی پڑھ لے، نہیں جناب ایسی بات نہیں ہے انگریزی ہماری زبان نہیں ہے، یہ ہماری عام بول چال کا حصہ نہیں ہے، یہ عام فہم زبان نہیں ہے اور پھر یہ کہ چند استثنیات کو چھوڑ کر یہ کسی پاکستانی کی مادری یا پدری زبان نہیں ہے۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کو پڑھانے کے لئے اس معیار کے اساتذہ اور تعلیمی ڈھانچہ ہی نہیں ہے جو اسکے لئے ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھلا دنیا کے کتنے ممالک ہیں جن کے ہاں ایک غیر ملکی زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہو، پھر اس مضمون کو لازمی حیثیت حاصل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس غیر ملکی زبان کو اعلیٰ تعلیم ، مقابلے کے امتحان اور دفتری و سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو، ارے بھائی کسی کی نہ مانو، آئین کی تو مانو جس کی دفعہ 251 پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ مگر کیا کریں کہ جنکو اندیشہ ہے کہ
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
وہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے اعصاب پر سوار ہیں، یاسر بھائی اگر آپ اس ملک کی بہتری کے لئے نہیں سوچ سکتے تو اس کی بربادی میں تو حصہ دار نہ بنیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اس بات پر آپ کے ساتھ ایک بھر پور مکالمے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے نباتیات میں ماسٹر تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور پاکستان کے چند ممتاز ترین اداروں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے پچھلے 27 سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں اور انگریزی کے ہاتھوں پاکستان کے جوہر قابل کے ضائع ہونے کے عمل کا عینی شاہد ہوں۔
یاسر بھائی میری باتوں کا برا نہ مانیں، کسی بھی بات کو سننے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس کو شروع میں ہی مسترد کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کو مثبت انداز میں سوچ کر سمجھ کر سنا جائے اور اگر ماننے والی بات ہو تو مانا جائے، ذرا ماچھو مصلی کے بیٹے کا سوچیں جانو کمہار کے بچوں کا سوچیں اس ملک کے ان بچوں کا سوچیں جن کو انگریزی میں پڑھانے والے استاد کبھی نہیں ملیں گے، اردو میں تو ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ ماں بھی پڑھا دیتی ہے، پاکستانی اور پاکستان کے بیٹے بن کر سوچیں، ایک بیوروکریٹ، یا افسر بن کر سوچیں گے تو کچھ سمجھ نہیں آئے گا، اگر ہاتھ میں ڈالر پکڑ کر یا شہباز شریف کا حکم مان کر سوچیں گے تو پھر بھی سمجھ نہیں آئی گی ۔ ان دلیلوں کے کھوکھلے پن پر غور کریں جو آپ انگریزی کے حق میں دیتے ہیں،یار دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملک ایک طرف اور صرف ایک امریکہ، ایک انگلینڈ، ایک آسٹریلیا اورجنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور پھر آدھا کینیڈا، باقی انگریزی کہاں ہے، پاکستان میں بھارت میں، فلپائن میں کینیا، زمبابوے، نائیجیریا اورر یوگینڈا میں، ہم امریکہ یا انگلینڈ تو نہیں بن پائیں گے۔ نایئیجیریا ،کینیا یا یوگینڈا ضرور بنتے جا رہے ہیں پاکستان بھی نہیں رہ پائے یہ پاکستان پاکستان کب بنے گا، یہ نسخہ آخر آیا کہاں سے ہے کہ اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدل دو، کیا یہ ممکن ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ جب یہ ممکن ہی نہیں ہے تو ہم سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں، ہم آخر کب تک خجل خوار ہوتے رہیں گے، یاسر بھائی اردو نافذ ہو جائے ہم 5 سالوں میں ایک ترقی یافتہ قوم بن جائیں گے مگر جو ایسا ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے وہ اس ملک میں انگریزی کو بزور نافذ رکھنا چاہتے ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ 000000000000001۔0 فی صد پاکستانیوں کی زبان بھی انگریزی نہیں ہے۔
بات طویل ہوگئی، مگر کیا کروں ابھی بھی بہت سی باتیں نہیں کہہ پایا، پاکستان اس انگریزی کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے، اس کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ اس کو مزید برباد کرنے میں حصہ دار بن جائیں، اگر یہ آپ کی نوکری کی مجبوری ہے تو اور بات ہے، مگر اگر آپ آزاد ذہن سے یہ بات کر رہے ہیں تو خدا کے لئے اس سے باز آ جائیں۔
میں آپ سے رابطے کے لئے ہر وقت دستیاب ہوں
https://www.facebook.com/tehreek.urdu
 
"جی ٹھیک ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،کہ اردو زبان اچھے خاصے زمانے دیکھ چکی ہے اور انگریزی اس کے مقابلے میں نئی نویلی ہے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،مگر دنیا پر ٹھاہ کر کے چھا گئی ہے اور آج لوگ منہ بنا بنا کر بہت proud محسوس کرتے ہوئے انگریزی کا راگ الاپتے ہیں اپنی روز مرہ گفتگو میں"۔
جی محترمہ Kausar Bano Seikha صاحبہ،
یہ ہمارا احساس غلامی ہے جو ہم سے اس قسم کی باتیں اگلواتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خود سارے یورپ میں برطانیہ کے علاوہ انگریزی کہیں نہیں بولی جاتی، یونائیٹد کنگڈم جسے یو کے کہا جاتا ہے اس کا یہ حال ہے کہ آئرلینڈ میں آئرش اور سکاٹ لینڈ میں سکاٹش کا راج ہے۔

دراصل ہم اس قدر غلام ہیں کہ سمجھ بیٹھے ہییں کہ ہر جگہ انگریزی کا راج ہے اور اس لئے جیسے کنویں کے مینڈک کو کنواں ہی دنیا نظر آتا ہے ہمیں ہر جگہ انگریزی ہی نظر آتی ہے،

ہمارے ارد گرد چین افغانستان اور ایران مین انگریزی کا کوئی وجود نہیں ہے، اب افغانستان میں شاید ہوگیا ہو کہ ان کو بھی غلامی میں کوئی 13، 14 سال ہو گئے ہیں اور حامد کرزئی اور عبداللہ جیسے لوگ امریکہ کی مرضی کے بغیر پانی بھی نہیں پی سکتے۔ امریکہ میں انگریزی ہے مگر وہ امریکن انگریزی ہے، پورے جنوبی (لاطینی) امریکہ میں انگریزی کہیں بھی نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں جو انگریزی ہے اسے آسٹریلین انگریزی کہا جاتا ہے اردو اور ہندی میں جتنا فرق ہے برطانیہ اور آسٹریلیا کی انگریزی میں اس سے کہیں زیادہ فرق ہے۔ آج پاکستان سے انگریزی نکال دی جائے تو اس خطے میں کوئی انگریزی کا نام لینے والا نہیں ملے گا (بھارت سے انگریزی کو نکالنے کا انتظام پہلے ہی ہو چکا ہے)۔

اور ایک بات اور بھی یاد رکھ لیں یہ زبان نہیں یہ غلامی ہے دنیا میں جتنے ملک انگریزی کے غلام ہیں شاید اتنے ہی فرنچ کے غلام ہیں ذرا مراکش، الجزائر اور لیبیا میں جا کر بات کریں، انگریزی کے غلام ملکوں سے زیادہ غلام ملک پرتگالی اور سپینش کے ہیں لاطینی امریکہ کے ملکوں کے بارے میں پڑھیں آپ کا دماغ ترو تازہ ہو جائے گا۔ ہم انگریزی انگریزی کرتے رہ گئے دنیا نے ترقی کے آسمان کو چھو لیا، ترکی، چین، کوریا، جاپان،

واہ پاکستانیو تمہاری بھی کیا قسمت ہے، یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے باشندے غلامی اور اس کی زبان کے حق مین دلائل دیتے ہیں اور اس پر آزادی کی خواہش رکھنے والوں کو طعنوں کی زد میں لے آتے ہیں، ابھی یہاں کوئی نہ کوئی غلام اپنی غلامی پر فخر کرنے آ جائے گا، کیا کسی نے وہ محاورہ نہیں سنا اپنے گھر کی سوکھی غیروں کی چوپڑی سے بہتر ہوتی ہے۔۔ دراصل انگریزی کو جوڑ دیا گیا ہے اقتدار، اختیار اور اثر و رسوخ سے، اور یہ ان لوگوں نے کیا ہے جو خود نسل در نسل غلام ہیں اور اس قدر غلام ہیں کہ ہماری آزادی کے ہر راستے کو مسدود کر کے رکھ دیا ہے، بھلا سوچیں کہ آزادی کے 26 سال بعد بننے والے آئین میں انگریزی کو مزید 15 سال مسلط رکھنے پر کیوں اتفاق کیا گیا اور اب اس مدت کو ختم ہوئے 26 سال گزر گئے اب ان کو اردو نافذ کرتے ہوئے کیا موت پڑتی ہے، افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب نچلے یا نچلے متوسط طبقے جس سے ہم سب کا تعلق ہے کسی شخص کو انگریزی کی حمایت کرتے دیکھتا ہوں، تف ہے ایسے تمام لوگوں پر۔
https://www.facebook.com/tehreek.urdu
 

arifkarim

معطل
یہاں پھر وہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کُل آبادی کی صرف 8 فیصد افراد کی مادری زبان اردو ہے۔ خالی زبان کو قومی بنا دینے سے کام نہیں چلے گا جب تک اسکا استعمال معاشرے میں ہر جگہ نہ ہو۔ ہمارے ملکی دفاتر، عدالتوں میں آج تک انگریزی کا راج ہے۔ اخبارات گو کہ اردو میں ہیں لیکن انگریزی اخبارات پڑھنے والے بھی کافی ہیں۔ اور بعض کا خیال ہے کہ پاکستان میں انگریزی صحافت اردو سے زیادہ مضبوط اور قابل ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Urdu#Speakers_and_geographic_distribution
http://www.theguardian.com/education/2012/jan/10/pakistan-language-crisis
http://tribune.com.pk/story/488063/a-case-for-english-in-pakistan/

یہاں میں صرف اپنی مثال دینا چاہوں گا جس نے اول جماعت سے لیکر صرف ساتویں جماعت تک اردو کی تعلیم حاصل کی ہے۔ جبکہ باقی تعلیم انگریزی، نارویجن وغیرہ میں۔
 
محترمہ کوثر بانو شیخہ کی خدمت میں
(یہ مضمون کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا تھا)

مجھے کیا تکلیف ہے
لوگ پوچھتے ہیں پاکستان میں انگریزی نافذ ہونے سے تمہیں کیا تکلیف ہے۔ تم نے اپنی زندگی گزار لی تمہارے بچے پڑھ لکھ گئے اور اب جب دوسروں کی زندگی اور ان کے بچوں کی بات آتی ہے تو تمہیں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔
وہ دیکھو پاکستان کا سب سے بڑا خیر خواہ امریکہ اور اس سے کہیں بڑا خیر خواہ برطانیہ اپنے بہترین ماہر تعلیم بھیج رہا ہے، اربوں ڈالراور پونڈ دے رہا ہے، ہمیں بنا بنایا نصاب اور سامان دے رہا ہے کتابیں بھیج رہا ہے اور پاکستان کا خادم اعلی' جسے اب خادم اعظم کا نام دے دینا چاہئیے کس جان فشانی سے پنجاب کے طول و عرض میں انگریزی نافذ کرنے جا رہا ہے، ان سب کے سامنے تمہاری اوقات ہی کیا ہے، تمہاری اور تمہاری سوچ کی وقعت ہی کیا ہے اور تمہارا علم ہی کیا ہے جو تم ان پر تنقید کرتے ہو اور اس کو پاکستان کے لئے نقصان دہ اور زہر قاتل سمجھتے ہو۔
میں بتاتا ہوں مجھے کیا تکلیف ہے۔
ایک شخص ہے جسے بانی پاکستان سمجھا جاتا ہے اور جسے قائداعظم کہہ کر یاد کیاجاتا ہے پکارا جاتا ہے، اور جس کی دور اندیشی کا، وژن کا اور فکر کی گہرائی کا لوہا اپنے غیر سب مانتے ہیں، اس نے کہا تھا پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔
1973 میں ایک آئین بنا تھا، اس کی اس وقت کی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں اور گروہوں نے توثیق کی تھی دستخط کئے تھے اور آج بھی سب اس کو متفقہ آئین مانتے ہیں، اس کی دفعہ 251 میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے اور اس کو 15 سال کے عرصے میں ملک کے طول و عرض میں، سب شعبوں میں نافذ کر دیا جائے۔

یہ پاکستان میرا ملک ہے، یہ میری دھرتی ماں ہے میں اس کی گلیوں اور بازاروں میں کھیل کود کر جوان ہوا، اس سر زمین سے رزق چنتے چنتے بڑھاپے کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا، میں نے اسی مٹی سے جنم لیا اور مرنے کے بعد اسی مٹی میں میرا جسد خاکی پناہ لے گا۔ یہ میرا ملک ہے ان لوگوں کا اس سے کیا واسطہ جو تندرستی میں، بیماری میں، سیر کرنے کے لئے، آرام کرنے کے لئے، شاپنگ کرنے کے لئے، مصیبت میں، بلاؤں میں اس ملک سے بھاگ نکلنے کو اپنے پہلی ترجیح سمجھتے ہوں، جن کے بنک اکاؤنٹز سے لیکر اولادوں تک اور جائیدادوں سے لیکر پناہ گاہوں تک کوئی بھی چیز پاکستان سے وابستہ نہ ہو، یہ ملک میرا اور میرے جیسے 18 کروڑ پاکستانیوں کا ملک ہے اور ہم اس ملک کو انگریزوں کے غلاموں اور ان کے پٹھوؤں سے آزاد کرا کے دم لیں گے۔

پاکستان میں 18 کروڑ لوگ بستے ہیں، ان میں سے ٪ 70 سے زیادہ دیہات میں رہتے ہیں، ان کے لئے انگریزی زبان سمجھنا آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف ہے، ان کے لئے انگریزی زبان کے ماہر اساتذہ تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اور پھر بات یہ کہ کیا وہ سب گونگے ہیں جو ان کے لئے زبان ڈھونڈی جا رہی ہے، جب وہ اپنی زبان میں یا اردو میں اپنا سب کام چلا سکتے ہیں یا علم حاصل کر سکتے ہیں تو انہیں انگریزی کی نہر کھودنے پر کیوں لگا دیا جائے۔

14 سال ہم علم حاصل کرنے کے بجائے انگریزی سیکھنے میں اس میں بات کہنے، کرنے، لکھنے کی کوشش میں صرف کر دیتے ہیں، پھر بھی یہ کسی سنگ دل محبوبہ کی طرح قابو میں نہیں آتی، میں کیا بتاؤں، ایم اے اور ایم ایس سی پاس لڑکے اور لڑکیوں سے جب درخواست لکھنے کو کہا جائے تو وہ کسی پڑھے لکھے کو ڈھونڈتے ہیں جو انہیں درخواست لکھ کر دے، اور اگر کبھی خود سے لکھیں تو اس قدر غلطیاں ہوتی ہیں کہ اس درخواست کی وجہ سے ہی انہیں نوکری نہیں مل سکتی، سب سے برا حال تو ایم اے انگریزی کی ڈگری رکھنے والوں کا ہوتا ہے کہ جب ان کی زبان و بیان میں غلطیاں بتائی جائیں تو وہ غلطی کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے ایسے بزعم خود بزرجمہروں کو غلط انگریزی بولتے لکھتے دیکھا ہے کہ اگر کبھی ان کی انگریزی کی غلطی بتا دی جائے تو شاید بغلیں جھانکنے کے سوا کچھ نہ کر سکیں، اور تو اور ہمارے خادم اعلی' بھی غلط سلط انگریزی بولنے میں ید طولی' رکھتے ہیں ( ن لیگی میری بات کا برا نہ منائیں، آپ کے رہنما ہو سکتا ہے گرائمر کے حساب سے ٹھیک انگلش بولتے ہوں مگر لب و لہجے اور تلفظ کا کیا کیا جائے کہ اس کے لئے انسان کا باپ انگریز ہونا چاہئیے) اور پرویز مشرف کا حال تو ان سے بھی پتلا تھا وہ غلط انگریزی اس قدر دھڑلے اور شان و شوکت سے بولتے تھے کہ انگریزوں کے لئے اپنی ہنسی چھپانا مشکل ہو جاتا تھا اور وہ ان کو چھیڑ چھیڑ کر ان کی انگریزی کا مزہ (چیزا)اٹھاتے تھے۔
پھر یہ بھی ہے کہ جو جوہر قابل یا ذہانت انگریزی نا جاننے کی وجہ سے ملکی دھارے میں شامل نہیں ہو پاتا اس کا نقصان اس سے زیادہ اس ملک اور قوم کو ہوتا ہے
پھر جو علم ہم لوگ انگریزی میں حاصل کرتے ہیں اس کی کیا وقعت ہے اور ہم کتنا علم سیکھ پاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں انگریزی میں دیا جانے والا علم طالب علموں تک پہنچتا ہی نہیں یہ سب ڈاکٹر، انجینئر، سکالر، یہ سب ادھورے علم کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسی لئے ان کے علم کا کوئی فائدہ پاکستان کو نہیں پہمنچ رہا۔ علم صرف اور صرف اس زبان میں آدمی تک پہنچتا ہے جو اس کی اپنی زبان ہوتی ہے، دوسری زبانوں میں علم ہو تو آدمی اس زبان کی گھتیاں سلجھانے میں لگا رہتا ہے، علم تک کب پہنچ پاتا ہے۔
پھر جس رفتار سے ہم بچوں کو پڑھا لکھا کر پاکستان سے برآمد کر دیتے ہیں، اس سے ہمیں کیا مل رہا ہے اور ملک سے کیا کچھ چھینا جا رہا ہے، کیا کسی کو اندازہ ہے۔ میں نے ایک نظم میں اس کا ذکر کیا ہے اور کئی لوگوں سے بات بھی کی ہے، اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، عمران خان، میاں برادران، بھٹو یہ سب بھی پاکستان کو خیرباد کہہ کر کسی دوسرے ملک میں اپنا ٹھکانا بنا لیتے، تو کیا پاکستان کو وہ سب کچھ مل پاتا جو ان سے ملا، کتنے عمران خان، کتنے عبدالقدیر خان، کتنے بھٹو، بے نظیریں، میاں برادران ملک سے باہر ہیں ہو سکتا ہے وہ اربوں ڈالر پاکستان بھیج دیتے ہوں مگر کیا ان کے علم، تحقیق، تجربے، ذات سے پاکستان کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
پاکستان میں پائی جانے والی کرپشن، بے روزگاری، اندھیرے، لوٹ مار، بد انتظامی یہ سب انگریزی کے تحفے ہیں آج اس زبان کو پاکستان سے نکال دیا جائے پاکستان ان سب مصیبتوں، اذیتوں اور بربادیوں سے نجات حاصلکر لے گا۔
کیا ہے کوئی میری بات سمجھنے والا۔
تنہائی میں سوچتا ہوں تو لرز جاتا ہوں ندیم
ہم نے لمحات خریدے ہیں زمانے دے کر۔
 
ARMAGEDDON
(ایک جنگ)
ایک جنگ جو میرے شہر میں...
بنے مورچوں سے میرے خلاف لڑی جا رہی ہے
میرے ہی بیٹے، میرے بھائیوں کے بیٹے
میری بہنوں کے بیٹے
اور ان سب کی بیٹیاں میرے خلاف صف آرا ہیں
ہم ان سب کو خود اپنے ہاتھوں سے
اپنےدشمن کے سپرد کر کے آئے ہیں۔
انہیں تعلیم دو
انہیں تہذیب سکھاؤ
ان کو دنیا کا چلن سکھاؤ
گویا ہمارے پاس کوئی علم ہی نہیں
ہمارے پاس کوئی تہذیب ہی نہیں
اور ہم دنیا میں کبھی رہے ہی نہیں۔
3، 3، 4، 4 سال کے بچے
ماؤں کی چھاتیوں سے لپٹے بچے
باپوں کی انگلی پکڑ کر چلتے بچے
وہ بچے جن کو پوری طرح
بولنا بھی نہیں آیا
بس مشکل سےاپنے ماں باپ کو
بھائی بہنوں کو
چچا خالاؤں کو
دادا دادی کو، نانا نانی کو
پہچانتے ہیں۔
ہم ان کو خود اپنے ہاتھوں دشمن کے مورچے میں چھوڑ آئے ہیں
یہ انہیں تعلیم دیں گے
یہ انہیں تہذیب دیں گے
یہ ان کو دنیا میں جینے کا طریقہ سکھائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو
بے نظیر
نواز شریف
شہباز شریف
عمران خان۔
ہم ان سب کو بھی دشمن کے مورچے میں
چھوڑ آئے تھے۔
جس کو برا لگتا ہے لگے
مگر حقیقت تو یہی ہے
ایک کہتا ہے
داڑھی والے دہشت گرد ہیں
دوسرا کہتا ہے ان کے مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں
ایک کہتا ہے
محمد بن قاسم
غیر ملکی حملہ آور تھا
محمود غزنوی لٹیرا تھا
اورنگ زیب خونی جنونی تھا
اور سلطان ٹیپو
ایک بزدل جنگجو تھا
اور ہماری اور تمہاری تہذیب میں کوئی فرق نہیں ہے
اس لکیر کے آر پار ہم ایک ہی ہیں
یہ ہمارے ہی بچے تو تھے
جنہیں ہم دشمنوں کے مورچے میں
چھوڑ آئے تھے
وہ کہتے ہیں
محمود غزنوی، غوری اور بابر
اورنگ زیب، ٹیپو اور جناح
اور اقبال
ان کا ذکر ہماری نصابی کتابوں میں کیوں ہے۔
اور پھر وہ چن چن کر ان کو نصابی کتابوں سے خارج کر دیتے ہیں
انگریزی تعلیم کا واحد زریعہ ہے
اس کو ملک میں نافذ کر دو
اور پھر وہ اس کو ملک میں نافذ کر دیتے ہیں۔
گویا کہ ہماری مائیں
گونگے بچے پیدا کر رہی ہیں
ہم گونگے تو نہیں تھے
مگر انگریزی نے ہمیں گونگا بنا دیا ہے۔
ہمارے بچے ہم پر ہی حملہ آور ہیں
پاکستان سے اسلام نکال دو
پاکستان سے اردو نکال دو
پاکستان سے پاکستان نکال دو
پھر کیا بچے گا؟
پھر وہ کہتے ہیں
مدرسے دہشت گردی کے اڈے ہیں
مسجدیں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں
تو یہ جو صلیب کے نشان والے ہیں
ان کے چرچ اور سکول کیا امن کی علامت ہیں؟
یہ ہمارے بچوں کو جو ذہنی غسل (برین واشنگ) دے رہے ہیں
کیا اس سے ہم دنیا میں سر بلند ہو جائیں گے
ہم اپنے بچوں کو دشمنوں کے حوالے کر کے
کیا یہ سمجھتے ہیں کہ
وہ ہماری حفاظت کریں گے
کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ
ہم پر فخر کریں گے۔
کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ھلال کو
صلیب پر برتر سمجھیں گے۔
کیا صلیب والے ان کو سکھائیں گے
کہ ھلال صلیب سے برتر ہے۔
کہ تمہاری تہذیب ہماری تہذیب سے اعلی' ہے؟
کہ تم دنیا میں چھا جانے کے لئے آئے ہو۔
کہ تم خیر الامہ ہو
ہم اپنے بچوں کو دشمن کے مورچے میں چھوڑ آئے ہیں
اور سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں کی تعداد
میں چھوڑ آئے ہیں۔
ھم اگر مر جائیں
مٹ جائیں
تباہ و برباد ہو جائیں
جیسا کہ ہو رہا ہے
تو اس پر پھر پشیمانی اور
افسوس کا اظہار کیوں کریں۔
سچ تو یہ ہے کہ
ہمیں یہ سب سوچنا ہوگا
آج ہی سوچنا ہوگا
ورنہ
کل کو جب ہم جہنم کا ایندھن بن رہے ہوں گے
تو کیا یہ سب کچھ
  1. ہم تب سوچیں گے؟
 
ہم نے اپنے بچے بیچ ڈالے

کل مجھے ایک پرانے شاگرد کا فون آیا
سر پہچانا مجھے میں زید بول رہا ہوں
آج سے 25 سال پہلےمیں آپ کا شاگرد تھا۔
میں نے کہا میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں
آپ میرے سب سے ہونہار شاگرد تھے۔
سر آپ کی محنت، کوشش
اور دعاؤں کے صدقے
میں آج ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہوں
میں آج کل سعودی عرب کے شہر ریاض میں
ایک ہسپتال سے منسلک ہوں
کئی لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہوں۔
سر یہ سب آپ کی محنت، کوششوں اور دعاؤں کا نتیجہ ہے
سر ہم آپ کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں
سر ہم آپ کو کبھی نہیں بھول سکتے،
سر ہماری کوئی محفل آپ کے ‍ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی
بہت خوب، ماشاءاللہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے،
اللہ پاک آپ کی زندگی اور رزق میں اور برکت دے۔
اچھا یہ بتاؤ کامران کہاں ہے۔
سر کمال ہے آپ کو یاد ہے؟
وہ آج کل مسقط میں ہے بہت اچھی جاب پر ہے
خاندان کے ساتھ رہ رہا ہے۔
اور کچھ زبیر کی بھی بتاؤ
سر وہ لندن میں ہے
اس کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔
بڑے مزے میں ہے۔
اور سر آپ کو ہارون یاد ہے
ہاں ہاں یاد ہے
سر وہ میرے ساتھ ہی سعودی عرب میں ہے
اس نے اے سی سی اے کر لیا تھا،
کئی لاکھ روپے ماہانہ کما رہا ہے
بہت خوب اور اکمل کی بھی تو سناؤ
سر آپ کی کیا بات ہے
آپ تو کسی کو بھی نہیں بھولے
میں سمجھتا تھا کہ آپ کو
اپنے طالب علم
بس ایک دو سال تک ہی یاد رہتے ہوں گے
اور جب وہ کالج چھوڑ گئے تو
آپ ان کو بھول بھال جاتے ہوں گے۔
اکمل آج کل دبئی میں ہے
اور شہزادوں کی زندگی گزار رہا ہے۔
سر آپ کا کوئی طالب علم بھلا
کیسے ناکام ہو سکتا ہے۔
سر میں سب دوستوں کو آپ کا نمبر دے دوں گا
سب آپ کو کال کریں گے،
سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں
سب کو آپ یاد ہیں
آپ سب سے ہر دلعزیز استاد تھے۔
اللہ آپ کو لمبی عمر دے۔
اچھا بیٹے آپ کے ابو کا کیا حال ہے؟
وہ آج کل کیا کر رہے ہیں؟
ان کا تو پچھلے سال انتقال ہو گیا تھا۔
میں سعودی عرب ہی میں تھا،
ان کے جنازے پر ہہنچ گیا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت دکھ ہوا۔
اور آپ کی امی کیسی ہیں۔
بہت مہربان خاتوں تھیں
جب بھی آپ سے ملنے آتی تھیں
تو سب اساتذہ کے لئے
کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آتی تھیں
امی اب بہت بیمار اور بوڑھی ہو چکی ہیں
بہن کے پاس رہتی ہیں
میں نے ان سے بہت کہا ہے
امی میرے ساتھ چلیں
میں اپ کو بہت آرام سے رکھوں گا
آپ کا خود علاج کروں گا،
ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بٹھا دوں گا
آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں
مگر وہ یہاں آنے پر رضامند نہیں ہوئیں
کہتی ہیں ساری عمر جہاں گزری
اب اس جگہ کو کیسے چھوڑدوں
یہاں باپ دادا کی قبریں ہیں
پھر تمہارے ابو کی قبر بھی تو ہے
میں ان سب کو چھوڑ کر کیسے آ سکتی ہوں۔
تمہارے لئے بھی تو واپس آنا مشکل ہے
تمہاری نوکری ہے، بچے ہیں چلو وہیں رہو۔

میں سوچتا ہوں
میں کس قدر اچھا استاد تھا
میں نے کتنی محنت سے بچوں کو پڑھایا
ان کو زندگی کے میدان میں دوڑنے کے قابل بنایا
مگر پھر میں نے، ہم سب نے
اپنے بچوں کو بیچ دیا
بہت ہی سستے داموں بیچ دیا۔
وہ کہتے ہیں وہ کئی لاکھ کماتے ہیں
دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں
اور ایک قابل رشک زندگی گزارتے ہین
مگر کوئی بتائے تو
ان کے اس سب کچھ سے
اس ملک کو کیا ملا ہے
جو ملک ان کی جنم بھومی تھا
جس ملک نے ان کو تعلیم دی
دنیا میں سر بلندہونے کا کھڑا ہونے کا
ہنر سکھایا۔
میں نے اور ہم سب نے اپنے بچوں کو بیچ دیا
اور جو دام اپنے بچوں کے بدلے کھرے کئے
کیا ہمارے بچوں کی بس یہی قیمت تھی
میں پوچھتا ہوں عمران خان بھی
آج سے 30 سال پہلے اگر بک جاتا
یعنی 1983 میں
تو کیا ورلڈ کپ آ جاتا؟
کیا شوکت خانم ہسپتال بن جاتا؟
کیا تحریک انصاف قائم ہو جاتی؟
کیا سونامی آ جاتا؟
عمران خان کی تب کیا قیمت لگتی
شاید ایک لاکھ شاید دو لاکھ شاید دس لاکھ
شاید سر کا خطاب
کیا ورلڈ کپ اس سے سستا ہے؟
کیا شوکت خانم ہسپتال اس سے سستا ہے؟
کیا تحریک انصاف کا کوئی مول لگایا جا سکتا ہے۔؟
اگر آج سے 40 سال پہلے ڈاکٹرعبدالقدیرخان
یہ سوچتا کہ پاکستان کیا جانا ہے۔
اچھی خاصی قیمت مل رہی ہے
۔ بیوی ہے بچے ہیں
اور یہاں ایک روشن مستقبل ہے
تو کیا پاکستان ایٹمی قوت بن جاتا؟
کیا ایٹم بم کی قیمت روپوں میں دی جا سکتی ہے؟
اچھا اگر آج سے 40 سال پہلے
نواز شریف اور اس کے بھائی
پاکستان کے بجائے کسی دوسرے ملک سے
اپنی قسمت وابستہ کر لیتے تو
جو کچھ پاکستان نے ان سے حاصل کیا
کیا مل جاتا؟
اگر بھٹو یا بے نظیر اپنی زندگیوں کو
کسی دوسرے ملک سے وابستہ کر لیتے
تو جو کچھ انہوں نے اس ملک کے
غریب عوام کو دیا کیا مل جاتا؟
میں تو دیکھتا ہوں کہ
ہم نے اس ملک کے بچوں کو
اس طرح بیچا کہ
یہ تک نہیں سوچا کہ جو قیمت مل رہی ہے
وہ تو ان کے جوتوں کے تسمے کے برابر بھی نہیں۔
اور ہم اپنے بچوں کے عوض
ایک کوٹھی
بس ایک دو گاڑیاں
ایر کنڈیشنر
شروع میں ٹیپ ریکارڈر
اور پھر وی سی آر
اور آج کل سام سنگ گلیکسی
یا پھر ٹیب
بس یہی کچھ
اور کیسی بے بسی کا عالم ہوتا ہئے
بیٹا ڈاکٹر ہے اور ماں کے آگے
ڈاکٹروں کی لائینیں لگ جاتی ہیں
مگر کیا ان کے ہاتھوں میں
بیٹے کے ہاتھوں کا لمس ہوتا ہے؟
وہ نوبیاہتا دلہن جس کا میاں
شادی کے چند روز بعد ہی ہمیشہ کے لئے
اپنی قیمت چکانے چلا جاتا ہے
کیا چیزوں کاایک پہاڑ جیسا ڈھیر بھی
اس کی رفاقت اور ساتھ کا بدل ہو سکتا ہے؟
اور جو بچے اپنے باپوں کے بغیر ہی بڑے ہو جاتے ہیں
وہ کن کن راہوں پر چل نکلتے ہین
کیا کبھی کسی نے سوچا ہے
کہتے ہیں مزدوروں کو بہتر زندگی گذارنے کا موقع مل گیا
مگر کیا یہ مہنگائی، بے روزگاری
بیکاری اور لوڈ شیڈنگ اسی کارن نہیں ہے۔
جب مزدور باہر گئے تو اس کے ساتھ ہنرمند اور انجینئر
اور استاد اور بینکار بھی تو باہر چلے گئے تھے
میں جو بات اجاگر کرنا چاہتا ہوں
اس پر غور کریں
70 کے عشرےمیں بڑی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک گئے
اور اسی دور میں لوڈ شیڈنگ کا عمل شروع ہوا
تعلیمی انحطاط کا عمل شروع ہوا
بد امنی، بیروزگاری عروج پر پہنچی
ایک خرکار 2000 کے عشرے میں بھی حکومت میں بیٹھا
اور اس نے پی ایچ ڈی کروانے کے نام پر
پاکستانی بچوں کو بیرون ملک بیچا
اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کئے
پاکستان سے تعلیم یافتہ بچوں کو باہر بیچا
اور پاکستان کو تعلیمی انحطاط کی اس منزل تک پہنچا دیا
جہاں سے اس کی بحالی کا کوئی امکان ہی نہیں
پاکستان کے بیٹے ملک سے چلے گئے
اور نتیجہ یہ نکلا کہ
اس کے کھیت ویران
اس کی فیکٹریاں سنسان
اس کی درس گاہیں اساتذہ سے خالی
اور اس کے ایوان اہل فکر و نظر سے خالی
مجھے بتاؤ کیا کوئی گھر کبھی بچوں کے بغیر گھر کہلاتا ہے؟
تو کیا یہ ملک اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے بغیر
ملک کہلا سکتا ہے؟
ترقی کر سکتا ہے؟
خوش حال ہو سکتا ہے؟

بس کہنا بھی یہی ہے اور پوچھنا بھی یہی ہے
ہم پاکستانیوں جیسا بد نصیب اور بد قسمت بھی کوئی ہے
ہم جیسا عاقبت نا اندیش بھی کوئی ہے۔
دنیا میں کوئی اور بھی ایسا ہے
جس نے اپنے جوہر قابل کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا ہو۔
کتنے عمران خان
کتنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کتنے نواز شریف
کتنے بھٹو اور کتنی بے نظیریں
ہم نے کیسے کیسے جوہر قابل
کتنے سستے داموں بیچ دئے ہیں؟
ہم پاکستانیوں نے اپنے بچے بیچ دئے ہیں
اور ان کے بدلے بہت ہی کم قیمت وصول کی ہے۔
 
پاکستانی نوجوان انگریزی کیوں چاہتے ہیں؟

(اور ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا)

بات پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی نہیں ہے
بات جماعت اسلامی یا ایم کیو ایم کی بھی نہیں ہے
اور بات تحریک انصاف یا اے این پی کی نہیں ہے
اور بات تو پنجاب ،کے پی کے یا سندھ و بلوچستان کی بھی نہیں ہے۔
بات تو پاکستان اور پاکستانی قوم کی ہے۔
پاکستان جس کی سر زمین بنجر ہو رہی ہے
پاکستان جس کی عمارتیں کھنڈر بن رہی ہیں۔
پاکستان جس کے دریا سوکھ رہے ہیں
اور پاکستان جس کے پہاڑ ہریالی سے محروم ہو رہے ہیں
پاکستان جس کی بستیاں اجاڑ اور گھر ویران ہو رہے ہیں۔
پاکستان جس کو غیروں نے چاہا کہ بنتے ہی برباد ہو جائے
صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹ جائے۔
اور پھر اس پاکستان کو مٹانے کے لئے کیسی کیسی سازشیں ہوئیں۔
پاکستان کے نوجوان کیوں چاہتے ہیں کہ یہاں انگریزی نافذ ہو جائے؟
یہ کوئی اس قدر مشکل سوال نہیں کہ جس کا جواب
کوئی بہت عقل مند، فلاسفر یا دانش ور دے سکے
یا جس کا جواب دینے کے لئے
سقراط، بقراط، ارسطو یا افلاطون کو بلایا جائے
یہ جواب کوئی بھی دے سکتا ہے
کوئی بھی
میرے جیسا عامی اور جاہل بھی
جب سب کچھ انگریزی میں ہوگا
اعلی' تعلیم، سرکاری ملازمت
مقابلے کے امتحان، انٹرویو
اور آگے بڑھنے کے تمام تر مواقع
تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو اردو میں پڑھے گا
میں نے بہت غریب لوگوں کو بھی
اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر
اپنی ضرورتوں کی قربانی دے کر
اپنے بچوں کی فیسیں بھرتے دیکھا ہے
پھرملک سے باہر جانے کا
باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کا
باہر جا کر ملازمت کرنے کا
پیسہ کمانے کا ایسا چلن ہوا ہے
باالخصوص جب سے لوگوں نے
مشرق وسطی' کے ملکوں میں جانا
اور پیسہ کمانا شروع کیا
ایک دوڑ لگ گئی ملک سے باہر بھاگ جانے کی
اب ایک پاکستان نامی ملک بھی ہے
اس میں اس کی ماں ہے
باپ ہے، بہن بھائی ہیں
بیوی بچے ہیں
یہ سب پیچھے رہ گیا
ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی
اور پیسہ کمانے کی اور کمانے کی ہوس آگے آ گئی
اب اس سب کے لئے انگریزی سیکھنا ضروری سمجھا گیا
اب اس میں پاکستان کہاں گیا
اس کی ترقی اور خوشحالی کہاں گئی
چند لوگ تو انگریزی کی اس گنگا میں اشنان کر لیتے ہیں
فیض اٹھا لیتے ہیں
اور جو کروڑوں زندگی کی دوڑ کے میدان سے ہی باہر ہو جاتے ہیں
ان کا کیا ہوگا ان کا کیا بنے گا
اس کی کس کو سوچنے کی فرصت ہے یا پروا ہے؟
میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ جب سے پاکستانی
جہاز اور لانچیں اور کنٹینرز بھر بھر کے
ملک سے بھاگنا شروع ہوئے ہیں
تب سے پاکستان میں بدحالی، بد عنوانی
اور بربادی کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
پتہ نہیں کیوں مجھے وہ دن یاد آتے ہیں
جب پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ چلا تھا
جس میں علی اعجاز نے کام کیا تھا
اور پھر اس ڈرامے کی کہانی پر مبنی فلم
'دبئی چلو' بنائی گئی تھی
بس انہی دنوں میں لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو گئی تھی
کیسا عجیب اتفاق ہے پاکستان میں ڈیم اور سڑکیں بنانے
اور اب صفائی کے لئے دوسرے ملکوں کی طرف دیکھا جاتا ہے
اور پاکستانی انجینئر، ڈاکٹر اور ہنرمند
دوسرے ملکوں میں جا کر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستانی پڑھ لکھ نہیں سکیں گے
اور جو پڑھ لکھ کر کچھ قابل ہوں گے
ان کو ہم باہر بھیج دیں گے۔
اور جو بچ رہیں گے وہ اسی طرح پاکستان کی بربادی میں
اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف رہیں گے
تو اس ملک کا کیا بنے گا۔
پاکستان وہ پاکستان کب اور کیسے بنے گا
جس کا خواب اس ملک کے بانیان نے دیکھا تھا
اور اب ہم دیکھتے ہیں
کیا ہمارے نوجوانوں نے اس حوالے سے خواب دیکھنا چھوڑ دئیے ہیں؟
میں آپ کو بتاؤں اس ملک کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے
اس ملک کے میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے
اور اس ملک میں انجینئرنگ پڑھنے والے
اپنا مستقبل اس ملک میں نہیں دیکھتے
تو انگریزی کے یہ تحائف ہیں۔
پاکستان میں اردو نافذ کر دیں
اعلی' تعلیم اردو میں کر دیں
مقابلے کے امتحان اور
انٹرویو اردو میں کر دیں
سرکاری زبان اردو کر دیں
اور سب سے بڑھ کر اہم
پاکستان میں روزگار کے مواقع بڑھا دیں
آخر یہ کیا ہوا کہ ہم حکومت تو کریں گے
مگر کوئی ہم سے ملازمت نہ مانگے
کوئی ہم سے روزگار نہ مانگے
باہر چلے جاؤ باہر
چاہے جہاز میں جاؤ
چاہے لانچ میں جاؤ
چاہے کنٹینر میں لد کر جاؤ
یا کسی جہاز کے گیئر بکس میں بند ہو کر جاؤ
بھلے وہاں کتوں سے بری زندگی گزارو
چاہے وہاں تم گٹروں اور گندگی کی صفائی کرو
چاہے وقت آ جائے تو جسم اور روح کا سودا کر لو
دین اور ایمان کی قیمت وصول کر لو،
مگر ہم تمہیں ملازمت نہیں دے سکتے
پاکستان اس کے بیٹوں کے بغیر
جو بن رہا ہے جو ہو رہا ہے
چاہے اس سے بھی پستی کے گڑھے میں جا گرے
ذلتوں کا شکار ہو جائے
ہمیں حکومت کرنے دو
ہمیں مشقت میں مت ڈالو
اردو لگائیں گے
لوگ تو سمجھ دار ہو جائیں گے، با شعور ہو جائیں گے
غریب کا بچہ ہمارے برابر آ بیٹھے
ہم سے برابری کی سطح پر بات کرے
یہ کیسے ممکن ہے
یہ کمی کمین ہیں کمین کمین ہی رہیں گے
انگریزی نافذ کر دو ، کچھ پڑھیں گے، زیادہ تر فیل ہو جائیں گے۔
قسمت کا لکھا سمجھ کر چوں چاں کر کے اپنی قسمت پر شاکر ہو جائیں گے
جو پڑھ لکھ گئے وہ پاکستان سے باہر جا کر قسمت آزمائیں گے
دنیا جانتی ہے اس قوم کو گدھا سمجھ کر کام لو گدھے کی طرح کام کرے گی،
کتے کی طرح زبان نکال کر کھڑا ہونے کو کہو ایسا ہی کھڑا رہے گا
صبح سے شام تک کھڑا رہے گا، تمام عمر کھڑا رہے گا
جیسے تمام قوم کھڑی ہے
کم از کم اس پر بھونک ہی لیتے
جس نے انگریزی کی د کان سجائی ہوئی ہے
اس سے پوچھ ہی لیتے
کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں
لوگ سمجھتے ہیں
یہ شریف نظامی کا،
یہ سلیم ہاشمی کا ،
یہ قمر فاطمہ کا
پروفیسر زاہد محمود کا
اور اوریا مقبول جان کا ذاتی مسئلہ ہے
ان کی کوئی پرخاش ہے حکمرانوں سے
وہ نوجوانوں سے دشمنی کر رہے ہیں
ارے ہم تو اس قوم کو بچانے کے مشن پر ہیں
ہم تو اس قوم کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
ہم تمہاری ماؤں کو تمہاری بہنو ں کو اور
تمہاری بیویوں اور بچوں کو
تمہارے ساتھ خوشحالی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اگر کبھی کوئی اعداد و شمار اکھٹا کرے
کتنے گھرانے برباد ہو گئے،
کتنے لوگ بد کاری کے گڑھوں میں گر گئے
کتنی بن بیاہی مائیں بن گئیں
اور کتنے نوجوان باپوں کی عدم موجودگی میں اپنی راہیں گم کر بیٹھے
اپنی جوانیاں برباد کر بیٹھے
نشے کے اندھیرے میں کھو گئے
کتنے لوگ اس اندر باہر کے چکر میں
اپنے گھروں میں پہنچے تو قتل کر دئیے گئے
تو لوگ افغانستان اور عراق کی بربادی بھول جائیں گے
میرے نوجوانو انگریزی اندھیرا ہے، جہالت ہے اور گمراہی ہے۔
یہ بہت اچھی زبان ہے ، بہت محترم زبان ہے
اور بڑی مقدس زبان ہے
ان کے لئے جن کی ہے
(یہ اس لئےکہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے
میں انگریزی سے نفرت کرتا ہوں
اوران کا یہ حکم ہے کہ
کسی زبان سے نفرت نہیں کرنا چاہئیے)
ہمارے لئے یہ وہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے
آؤ اٹھو اور اپنے حکمرانوں کے گریبان پکڑو
ان سے پوچھو کیا یہی وہ تبدیلی تھی
جس کا تم نے ہم سے وعدہ کیا تھا
کیا یہی وہ مستقبل کے خواب تھے جو تم نے ہمیں دکھائے تھے
تم ہمیں تعلیم کیوں نہیں دینا چاہتے
تم ہمیں پڑھانا لکھانا کیوں نہیں چاہتے
تم ہمیں ملازمت کیوں نہیں دے سکتے
تم ہمیں روزگار کیوں نہیں دے سکتے
تم ہمیں گھروں سے بے گھر کیوں کرنا چاہتے ہو،
تم ہمیں برباد کیوں کرنا چاہتے ہو
کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ تم اس ملک میں ہو
تم خود سب کے سب
اس ملک سے کیوں نہیں چلے جاتے
ہمیں نعرے نہیں عمل چاہئیے،
ہمیں دھوکہ نہیں حقیقت چاہئیے
اور ہمیں سراب نہیں منزل چاہئیے
اگر تم واقعی غریبوں کے ہمدرد ہو،
اس ملک کو ترقی دینا چاہتے ہو
اس ملک کے غریبوں کو وہی تعلیم دینا چاہتے ہو
جو امیروں کے بچے حاصل کرتے ہیں تو
اس ملک میں اردو نافذ کرو
ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر
ورنہ جو مرضی کرتے رہو
کم از کم اس قدر کھلے جھوٹ،
منافقت اور فریب کا کاروبار مت کرو۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ سب بہت افسردہ کرنے والا ہے۔ لیکن حقیقت ہے اور حقیقت عموماََ تلخ ہوتی ہے۔
 
Top