ناصر علی مرزا
معطل
یاسر پیرزادہ اور پروفیسر محمد سلیم کے درمیان اردو کے نفاذ پر مکالمے کا ایک حصہ
پیارے یاسر
السلام علیکم
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے اور سر شام ہونے والی گفتگو سے آپ بھی اسی طرح محظوظ ہوئے ہوں گے جس طرح میں ہوا ہوں، آپ ایک نامور شخصیت ہیں اور ا یک انتہائی نامور شخصیت کے بیٹے ہیں (اور سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اس طرح منوایا ہے کہ آپ کی شخصیت آپ کے والد کی شخصیت کے سائے سے آزاد نظر آتی ہے) اورمیں میں ایک ذرہ ناچیز ہوں ۔ اس لئے میں نے پوری پوری کوشش کی کہ آپ کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھوں اور آپ کی شخصیت کے رتبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کروں، تاہم جہاں علمی بات ہو اور پھر ہم ایک پوری قوم اور ایک ملک کے مستقبل کے حوالے سے بات کر رہے ہوں تو اس سے اگر ماتھے پر کوئی شکن نمودار ہو جائے تو اس کو کوشش کر کے مٹا دینا چاہئیے۔
وہ بات جو پوری دنیا میں موضوع بحث کبھی ہوئی نہ ہو سکتی ہے، میں محو حیرت ہوں کہ وطن عزیز میں ہم وہ بات نہ صرف زیر بحث لا رہے ہیں بلکہ اس پر ایک متضاد سوچ رکھتے ہیں۔ اب ساری دنیا میں پاکستان سمیت گنتی کے چند ملک ہیں جو ایک غیر ملکی اور اجنبی زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ جب ساری دنیا بھوک، بیماری، غربت اور بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ہم ان سب خرابیوں کو اپنا مقدر کیوں سمجھے بیٹھے ہیں۔
اب میں بات وہاں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے آپ کے ساتھ ایک مکالمے کا آغاز کیا جا سکتا ہے، آپ نے چند (آپ کی دانست میں انگریزی) اصطلاحات کا ذکر کیا اور اردو کے متوالوں کو دعوت دی کہ وہ ان کا اردو میں متبادل بتائیں۔ تو پہلی بات تو یہ کہ یہ اصطلاحات انگریزی ہیں ہی نہیں، یہ یونانی زبان سے آئی ہیں اور انگریزوں نے ان کو جوں کا توں اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔ ان کا ترجمہ کرنے کی کسی قسم کی کوشش ہی نہیں کی۔ شاید انگلینڈ میں کوئی ایسا دانشور نہیں تھا جس نے ان کو یہ بات سمجھائی ہو کہ ارے بھائی ان کا انگریزی میں ترجمہ کرو، دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے بچوں کو ساری تعلیم ہی یونانی زبان میں دو۔ (ایسے دانشور کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیچارے انگریزوں کو ان تمام اصطلاحات کو جوں کو توں قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا)۔
اچھا اگر ایسا ہو جاتا تو پھر انگریز صحیح معنوں میں بھمبھل بھوسے میں پڑ جاتے کیونکہ انہوں نے تو لاطینی زبان میں پائی جانے والی اصطلاحات کو بھی انگریزی میں ترجمہ کئے بغیر ہی قبول کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ عربی ترکی، سپینش، پولش اور کئی دوسری زبانوں جن میں بیچاری اردو بھی شامل ہے کے کئی الفاظ اور اصطلاحات جوں کی توں اپنے نصاب اور زبان میں شامل کر لئے۔
آپ نے مجھے فرمایا کہ انگریزی یونانی، لاطینی وغیرہ آپس میں اس قدر قریبی رشتہ رکھتی ہیں کہ اصطلاحات کسی بھی زبان کی ہوں ان کو لکھتے یا پڑھتے وقت ان کے بچوں کو کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا۔ آپ ایسا کریں کہ یورپی زبانوں کے چند ابتدائی قاعدے لیں، انگریزی، لاطینی، جرمن، روسی، سپینش، ڈچ، فرنچ، یونانی، ان کے حروف تہجی لیں اور پھر ان زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان ابتدائی حروف کا تلفظ اور ادائیگی پوچھیں میرا خیال ہے مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں جب آپ یہ کام کر لیں گے تو آپ کو اپنی بات کا جواب از خود مل جائے گا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں ۔ بازار میں ایک سواری بہت عام ہے جس کو چنگ چی کہا جاتا ہے، لکھا کیا جاتا ہے QING QI ۔ ہو سکتا ہے ایک جگہ پر BY ہی لکھا ہو لیکن جب اس لفظ کو پڑھنے کو کہا جائے تو ہر ایک زبان سے تعلق رکھنےوالا اپنے ہی انداز میں اس کو پڑھ رہا ہو۔ اور اگر یہ لفظ ہو تو پھر تو یقینی طور پر ہر ایک اس کا اپنا ہی مطلب نکال رہا ہوگا۔
ایک پرندہ ہے ROBIN وہی جس کے نام پر ہم اپنے اپنے بچپن سے اپنی ماؤں کے کہنے پر بازار سے نیل لاتے رہے ہیں، رابن نام کا پرندہ امریکہ میں ہو تو اور، برطانیہ میں ہو تو اور اور اسی طرح کسی اور ملک میں ہو تو اور۔ اگر آپ نے حیاتیات کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو ایک جانور کی مثال بھی یاد ہوگی جس کو GOPHER کہا جاتا ہے۔ کیا آپ کو میری بات کی سمجھ آ گئی ہے کہ اگرچہ بظاہر ایک لفظ کے مختلف زبانوں میں حروف تہجی ایک جیسے ہی کیوں نہ ہوں ان کےتلفظ اور استعمال میں فرق پڑ جاتا ہے۔
انگریزوں کی دانشمندی یہ ہے کہ انہوں نے پوری زبان لینے کے بجائے صرف چند اصطلاحات کو لیا اور ان کا ترجمہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی گویا کہ انہوں نے پوری کی پوری زبان اپنانے کے بجائے صرف اپنے مطلب کی بات لی اور اس سے اپنا کام چلالیا۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رائبوسومز، گالجی باڈیز، مائٹوکانڈریا، اور اس طرح کی دیگراصطلاحات جن کا ترجمہ مشکل کام ہے ان کو جوں کا توں لے لیا جائے اور جہاں آسان ترجمہ ہے وہاں اس کا آسان ترجمہ اپنا لیا جائے میں دو مثالیں دیتا ہوں، ایک ہے ACCELERATION جس کا بہت آسان ترجمہ اسراع ہے اور دوسرا ہے EQUILIBRIUM جس کا مطلب توازن ہے اب ان دونوں الفاظ کا اردو متبادل آسان ہے جس کو استعمال میں لایا جانا چاہئیے۔بہر حال پڑھایا ہر سطح پر اردو میں ہی جائے۔
یاسر بھائی ہم بات مفروضوں پر کرتے ہیں اور حقائق یونانی فلاسفروں کی طرح جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
پاکستان میں مترجم موجود نہیں ہیں
دنیا میں ہر روز ہزاروں کتابیں چھپ رہی ہیں ان سب کا ترجمہ کون کرے گا؟
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کاروان ، علمی، سنگ میل، نگارشات، فیروز سنز،ماورا، (یہ سب لاہور کے ناشران ہیں ، کراچی اور دوسرے شہروں کے ناشران ان کے علاوہ ہیں) پھر جنگ، نوائے وقت، خبریں، دن، نئی بات، ایکسپریس، ڈان، دنیا، پاکستان۔ پھر ٹی وی چینلز، اور پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پائے جانے والے انگریزی اور دیگر زبانوں کے ہزاروں شاید لاکھوں اساتذہ، اب آپ کا کہنا ہے کہ اس قابل دس لوگ بھی نہیں ملیں گے جو انگریزی کتابوں کا اردو میں معیاری ترجمہ کر سکیں تو پھر آپ اور میں اس ملک کو جہنم میں ہی کیوں نہ جھونک دیں۔(مطلب یہ کہ جب اساتذہ ہی دستیاب نہیں ہیں تو اس قوم کو انگریزی میں تعلیم دینے کے بجائے جہنم میں ہی جھونک دینا چاہئیے کہ ہر دو صورتوں میں انجام تو ایک سا ہے) ایسی بات نہیں ہے آپ کی حکومت مترجمین کے لئے آسامیاں مشتہر کرے، انہیں معقول معاوضے دے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ سب کام نہیں ہوتا، یہ بھی نہ کریں ( پاکستان کے) ناشران (پبلشرز) کو دعوت دیں کہ ہم انگریزی اور دیگر زبانوں سے کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ آئندہ نصاب اردو میں پڑھایا جائے گا تو میں آپ کو بتاؤں نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا سے ناشران آپ کے پاس یہ کام کرنے آ جائیں گے، آکسفورڈ، پینگوئن، میک ملن، ولے، پیک اور بہت سے دوسرے، بھلا جس کو پتا ہو کہ لاکھوں کی تعداد میں میری کتابیں بکیں گی تو وہ انہیں کیوں نہیں چھاپے گا، سب کاروباری ہمارے حکمرانوں کی طرح گھامڑ تو نہیں ہوتے کہ 20 کڑوڑ کی آبادی کے لئے کچھ لے ہی نہ سکیں، بہر حال یہ بات آپ سے پھر کبھی کروں گا۔
اب آ جاتے ہیں کہ کتنی کتابوں کے ترجمے کی فوری ضرورت ہوگی، میٹرک تک تمام مضامین کی کتابیں اردو میں موجود ہیں، انکو ضروری اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ کام میں لایا جا سکتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی سے وابستہ اداروں میں گریجویشن تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں، ان کو ناشران کے سپرد کر کے تمام ملک کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے،
جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن (یہاں 1948 تک اردو میں تعلیم دی جاتی رہی، 1948 میں اس ریاست پر بھارت کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی یہاں پر ذریعہ تعلیم اردو ختم کر دیا گیا)، ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی دہلی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی/ اسلام آباد میں پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کی تدریس اردو میں کی جاتی ہے۔ بھارت میں موجود دونوں یونیورسٹیاں، معیشت، طب، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں کی تعلیم بھی اردو میں دسیتی رہی ہیں/دے رہی ہیں، پاکستان کی تمام جامعات میں نصاب کو اردو میں تبدیل کرنے کے لئے ان جامعات کے تجربوں اور علمی ذخیرے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
(میرےتخمینے کے مطابق پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کو شامل کریں تو شاید مطلوبہ کتابوں کی تعداد پانچ ہزار بھی نہیں ہوگی)۔
یاسر بھائی
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بات ڈالروں کی نہیں ہے زندگی تو ہر شخص گزار لیتا ہے ہونا یہ چاہئیے کہ آدمی یہ سوچے کہ جو وہ کرنے جا رہا ہے اس کا کبھی حساب بھی دینا ہے، اور پھر جس کام کو آپ اپنی دانست میں صحیح سمجھتے ہیں اس پر بھی غور کر لیں، قائد اعظم (جو اردو کا مخالف ہے وہ پاکستان کا مخالف ہے)کے خیالات کو پڑھیں وہ کوئی معمولی اور عام انسان نہیں تھے وہ صدیوں کے انسان تھے اور پھر علامہ اقبال، اور پھر سب سے پہلے اور سب سے اہم قرآن پاک جو کہتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو جس قوم میں بھیجا وہ اس قوم کی زبان میں اس کو تعلیم دیتے تھے، (سورہ ابراہیم آیت نمبر 4)۔
تعلیم ابلاغ چاہتی ہے تو جس قوم میں بقول آپ کے دس آدمی بھی انگریزی سے اردو میں ترجمے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس قوم کے ایم اے ، ایم ایس سی پاس ایک درخواست اردو یا انگریزی میں ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے وہاں آپ انگریزی نافذ کیوں کرنا چاہتے ہیں، پھر ایک اور بات بھی ہے تعلیم کے لئے سب سے پہلی شرط ابلاغ کی ہوتی ہے، اور انگریزی میں ابلاغ ممکن ہی نہیں ہے، آپ اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں کتنی بار آپ نے رٹا لگایا اور جب اسباق آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ نے ان کو سمجھنے کے بجائے رٹا لگانے، خلاصے سے یاد کرنے ، پھر ٹیوشن رکھنے یا اکیڈمی جانے کا فیصلہ کیا۔ گھر کی زبان اور ہے، اسکول کی زبان اور ہے، انگلینڈ کا بچہ اس لئے پڑھ جاتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے کہ گھر اور اسکول میں اسے ایک ہی زبان سے واسطہ پڑتا ہے، یہ نہیں کہ جوں ہی اسکول پہنچے اسے ایک عجیب و غریب اور جناتی زبان سے واسطہ پڑے گھر میں تو وہ پانی کہتا رہے اور جونہی اسکول پہنچے اسے پتا چلے کہ یہ واٹر ہے، ایک 3 سال کے بچے کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ وہ یہ سب سن کر کس قدر عذاب سے گزرتا ہوگا، (کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں ایک انگریز گورنس تعنیات کر دی جائے تاکہ بچوں کو گھر پر ہی انگریزی ماحول مل سکے ، اگر یہ ممکن نہیں تو ہر پاکستانی مرد پر لازم کر دیں کہ وہ ایک انگریز عورت سے بھی شادی کرے تاکہ اس کے بچوں کو اگر باپ نہیں تو کم سے کم ماں تو انگریز مل جائے۔یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جائے گا کہ انگریز عورت کس ملک کی ہو، کیونکہ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی انگریزی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، دہلی اورلکھنؤ کی اردو میں فرق اس فرق کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا جو ان ملکوں کی انگریزی میں ہے)۔ جب یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تو نتیجہ وہ نکلتا ہے جو آج کل نکل رہا ہے۔( میں نے روزنامہ ایکسپریس کے ایاز خان صاحب کو دعوت دی (وہ بھی انگریزی کے نفاذ کے زبردست حامی ہیں ) کہ لاہور کے چوٹی کے انگریزی میڈیم کے چوٹی کے بچوں کو بلائیں اور ان کو انگریزی میں ایک مضمون لکھنے کو دیں (موقع پر لکھیں نہ کہ گھر سے لکھ کر لائیں، یا نیٹ سے کاپی پیسٹ کر کے لے آئیں)، یا پھر ان میں ایک انگریزی مقابلہ تقریر(فی البدیہہ) کروا لیں پتا چل جائے گا انگریزی میڈیم اداروں میں کس معیار کی تعلیم دی جاتی ہے، بیچارے اس تجویز پر کچھ بھی نہ کہہ پائے بس یہ کہا کہ آپ کو تو علم ہی ہے رہنے دیں)
آپ اردو نافذ کرنے کی حمایت کریں، یہ ملک پہلے ہی بہت برباد ہو چکا ہے 67 سال سے زیادہ عرصہ ہم نے کھو دیاہے، پاکستان آج وہاں بھی نہیں ہے جہاں آج سے 67 سال پہلے تھا۔ کوئی عالمی معیار کا عالم، سائنسدان، دانشور، ماہر معیشت یہاں پیدا ہی نہیں ہو رہا، ہاں عالمی سطح کے دہشت گرد ضرور پیدا ہو رہے ہیں ، ذرا سوچیں ان دہشت گردوں کی پیدائش ان مدرسوں میں نہیں ہو رہی جن کو آپ نے ان کی آماجگاہ سمجھ رکھا ہے ان دہشت گردوں کو ہمارا نظام جنم دے رہا ہے جہاں تعلیم کے نام پر لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا جا رہا، طبقاتی نظام کا سب سے بڑا ہتھیار یہ انگریزی میڈیم ہے اس کا علاج انگریزی نافذ کرنے میں نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذکرنے میں ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایچی سن بند ہونا چاہئیے یا بیکن ہاؤس کو تالے لگوا دیں۔ نہیں ان سب اداروں میں بھی اردو نافذ کر دیں، وہ جوہر قابل جو انگریزی کے ہاتھوں ہر سال ضائع ہوجاتا ہے وہ بھی اس ملک کے کام آ ئے گا، ذرا سوچیں انگریزی وہ پودا نہیں ہے جو ہماری سرزمین میں پھلے پھولے آپ چند سو کتابیں لکھنے کو تیار نہیں ہیں مگر اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدلنا چاہ رہے ہیں، نسل کشی کے تو دنیا میں بہت سے اقدامات ہوئے زبان کشی کا یہ پہلا واقعہ ہوگا۔
یاسربھائی کچھ جاہل یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو صرف ٪5 یا ٪10 پاکستانیوں کی زبا ن ہے۔ پیارے یہ ٪100 پاکستانیوں کی زبان ہے جیسے پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان مسلمان ہیں بھلے وہ شیعہ سنی اہل حدیث جو بھی ہوں، اور کم از کم یہ بات تو میں بلا خوف تردید کہہ ہی سکتا ہوں کہ یہ ٪100 پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان ہے۔
ایک اور بات ، ہر سال میٹرک میں ٪40 بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ٪60 تک بچے فیل ہو جاتے ہیں، ڈگری کی سطح پر ٪75 نوجوان فیل ہو جاتے ہیں گویا میٹرک میں ہر ایک لاکھ میں سے چالیس ہزار (40000) بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے ساٹھ ہزار (60000) بچے فیل ہو جاتے ہیں اور ڈگری کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے پچہتر ہزار (75000) نوجوان فیل ہوجاتے ہیں، میرے تخمینے کے مطابق اگر ایک لاکھ بچے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوں تو ان میں سے صرف 5000 ہی ڈگری کی سطح کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ یہ سب انگریزی کی تباہ کاریاں ہیں بھلا پاکستانی قوم اتنی ہی گئی گزری ہے، اب آپ کہیں گے کہ اگر گئی گزری نہیں تو انگریزی پڑھ لے، نہیں جناب ایسی بات نہیں ہے انگریزی ہماری زبان نہیں ہے، یہ ہماری عام بول چال کا حصہ نہیں ہے، یہ عام فہم زبان نہیں ہے اور پھر یہ کہ چند استثنیات کو چھوڑ کر یہ کسی پاکستانی کی مادری یا پدری زبان نہیں ہے۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کو پڑھانے کے لئے اس معیار کے اساتذہ اور تعلیمی ڈھانچہ ہی نہیں ہے جو اسکے لئے ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھلا دنیا کے کتنے ممالک ہیں جن کے ہاں ایک غیر ملکی زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہو، پھر اس مضمون کو لازمی حیثیت حاصل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس غیر ملکی زبان کو اعلیٰ تعلیم ، مقابلے کے امتحان اور دفتری و سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو، ارے بھائی کسی کی نہ مانو، آئین کی تو مانو جس کی دفعہ 251 پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ مگر کیا کریں کہ جنکو اندیشہ ہے کہ
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
وہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے اعصاب پر سوار ہیں، یاسر بھائی اگر آپ اس ملک کی بہتری کے لئے نہیں سوچ سکتے تو اس کی بربادی میں تو حصہ دار نہ بنیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اس بات پر آپ کے ساتھ ایک بھر پور مکالمے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے نباتیات میں ماسٹر تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور پاکستان کے چند ممتاز ترین اداروں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے پچھلے 27 سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں اور انگریزی کے ہاتھوں پاکستان کے جوہر قابل کے ضائع ہونے کے عمل کا عینی شاہد ہوں۔
یاسر بھائی میری باتوں کا برا نہ مانیں، کسی بھی بات کو سننے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس کو شروع میں ہی مسترد کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کو مثبت انداز میں سوچ کر سمجھ کر سنا جائے اور اگر ماننے والی بات ہو تو مانا جائے، ذرا ماچھو مصلی کے بیٹے کا سوچیں جانو کمہار کے بچوں کا سوچیں اس ملک کے ان بچوں کا سوچیں جن کو انگریزی میں پڑھانے والے استاد کبھی نہیں ملیں گے، اردو میں تو ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ ماں بھی پڑھا دیتی ہے، پاکستانی اور پاکستان کے بیٹے بن کر سوچیں، ایک بیوروکریٹ، یا افسر بن کر سوچیں گے تو کچھ سمجھ نہیں آئے گا، اگر ہاتھ میں ڈالر پکڑ کر یا شہباز شریف کا حکم مان کر سوچیں گے تو پھر بھی سمجھ نہیں آئی گی ۔ ان دلیلوں کے کھوکھلے پن پر غور کریں جو آپ انگریزی کے حق میں دیتے ہیں،یار دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملک ایک طرف اور صرف ایک امریکہ، ایک انگلینڈ، ایک آسٹریلیا اورجنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور پھر آدھا کینیڈا، باقی انگریزی کہاں ہے، پاکستان میں بھارت میں، فلپائن میں کینیا، زمبابوے، نائیجیریا اورر یوگینڈا میں، ہم امریکہ یا انگلینڈ تو نہیں بن پائیں گے۔ نایئیجیریا ،کینیا یا یوگینڈا ضرور بنتے جا رہے ہیں پاکستان بھی نہیں رہ پائے یہ پاکستان پاکستان کب بنے گا، یہ نسخہ آخر آیا کہاں سے ہے کہ اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدل دو، کیا یہ ممکن ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ جب یہ ممکن ہی نہیں ہے تو ہم سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں، ہم آخر کب تک خجل خوار ہوتے رہیں گے، یاسر بھائی اردو نافذ ہو جائے ہم 5 سالوں میں ایک ترقی یافتہ قوم بن جائیں گے مگر جو ایسا ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے وہ اس ملک میں انگریزی کو بزور نافذ رکھنا چاہتے ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ 000000000000001۔0 فی صد پاکستانیوں کی زبان بھی انگریزی نہیں ہے۔
بات طویل ہوگئی، مگر کیا کروں ابھی بھی بہت سی باتیں نہیں کہہ پایا، پاکستان اس انگریزی کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے، اس کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ اس کو مزید برباد کرنے میں حصہ دار بن جائیں، اگر یہ آپ کی نوکری کی مجبوری ہے تو اور بات ہے، مگر اگر آپ آزاد ذہن سے یہ بات کر رہے ہیں تو خدا کے لئے اس سے باز آ جائیں۔
میں آپ سے رابطے کے لئے ہر وقت دستیاب ہوں
https://www.facebook.com/tehreek.urdu
پیارے یاسر
السلام علیکم
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے اور سر شام ہونے والی گفتگو سے آپ بھی اسی طرح محظوظ ہوئے ہوں گے جس طرح میں ہوا ہوں، آپ ایک نامور شخصیت ہیں اور ا یک انتہائی نامور شخصیت کے بیٹے ہیں (اور سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اس طرح منوایا ہے کہ آپ کی شخصیت آپ کے والد کی شخصیت کے سائے سے آزاد نظر آتی ہے) اورمیں میں ایک ذرہ ناچیز ہوں ۔ اس لئے میں نے پوری پوری کوشش کی کہ آپ کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھوں اور آپ کی شخصیت کے رتبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بات کروں، تاہم جہاں علمی بات ہو اور پھر ہم ایک پوری قوم اور ایک ملک کے مستقبل کے حوالے سے بات کر رہے ہوں تو اس سے اگر ماتھے پر کوئی شکن نمودار ہو جائے تو اس کو کوشش کر کے مٹا دینا چاہئیے۔
وہ بات جو پوری دنیا میں موضوع بحث کبھی ہوئی نہ ہو سکتی ہے، میں محو حیرت ہوں کہ وطن عزیز میں ہم وہ بات نہ صرف زیر بحث لا رہے ہیں بلکہ اس پر ایک متضاد سوچ رکھتے ہیں۔ اب ساری دنیا میں پاکستان سمیت گنتی کے چند ملک ہیں جو ایک غیر ملکی اور اجنبی زبان کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا کہ جب ساری دنیا بھوک، بیماری، غربت اور بد عنوانی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے ہم ان سب خرابیوں کو اپنا مقدر کیوں سمجھے بیٹھے ہیں۔
اب میں بات وہاں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے آپ کے ساتھ ایک مکالمے کا آغاز کیا جا سکتا ہے، آپ نے چند (آپ کی دانست میں انگریزی) اصطلاحات کا ذکر کیا اور اردو کے متوالوں کو دعوت دی کہ وہ ان کا اردو میں متبادل بتائیں۔ تو پہلی بات تو یہ کہ یہ اصطلاحات انگریزی ہیں ہی نہیں، یہ یونانی زبان سے آئی ہیں اور انگریزوں نے ان کو جوں کا توں اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔ ان کا ترجمہ کرنے کی کسی قسم کی کوشش ہی نہیں کی۔ شاید انگلینڈ میں کوئی ایسا دانشور نہیں تھا جس نے ان کو یہ بات سمجھائی ہو کہ ارے بھائی ان کا انگریزی میں ترجمہ کرو، دوسری صورت یہ ہے کہ اپنے بچوں کو ساری تعلیم ہی یونانی زبان میں دو۔ (ایسے دانشور کی عدم دستیابی کی وجہ سے بیچارے انگریزوں کو ان تمام اصطلاحات کو جوں کو توں قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا)۔
اچھا اگر ایسا ہو جاتا تو پھر انگریز صحیح معنوں میں بھمبھل بھوسے میں پڑ جاتے کیونکہ انہوں نے تو لاطینی زبان میں پائی جانے والی اصطلاحات کو بھی انگریزی میں ترجمہ کئے بغیر ہی قبول کر لیا تھا۔ حتیٰ کہ عربی ترکی، سپینش، پولش اور کئی دوسری زبانوں جن میں بیچاری اردو بھی شامل ہے کے کئی الفاظ اور اصطلاحات جوں کی توں اپنے نصاب اور زبان میں شامل کر لئے۔
آپ نے مجھے فرمایا کہ انگریزی یونانی، لاطینی وغیرہ آپس میں اس قدر قریبی رشتہ رکھتی ہیں کہ اصطلاحات کسی بھی زبان کی ہوں ان کو لکھتے یا پڑھتے وقت ان کے بچوں کو کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوتا۔ آپ ایسا کریں کہ یورپی زبانوں کے چند ابتدائی قاعدے لیں، انگریزی، لاطینی، جرمن، روسی، سپینش، ڈچ، فرنچ، یونانی، ان کے حروف تہجی لیں اور پھر ان زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان ابتدائی حروف کا تلفظ اور ادائیگی پوچھیں میرا خیال ہے مجھے وضاحت کی ضرورت نہیں جب آپ یہ کام کر لیں گے تو آپ کو اپنی بات کا جواب از خود مل جائے گا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں ۔ بازار میں ایک سواری بہت عام ہے جس کو چنگ چی کہا جاتا ہے، لکھا کیا جاتا ہے QING QI ۔ ہو سکتا ہے ایک جگہ پر BY ہی لکھا ہو لیکن جب اس لفظ کو پڑھنے کو کہا جائے تو ہر ایک زبان سے تعلق رکھنےوالا اپنے ہی انداز میں اس کو پڑھ رہا ہو۔ اور اگر یہ لفظ ہو تو پھر تو یقینی طور پر ہر ایک اس کا اپنا ہی مطلب نکال رہا ہوگا۔
ایک پرندہ ہے ROBIN وہی جس کے نام پر ہم اپنے اپنے بچپن سے اپنی ماؤں کے کہنے پر بازار سے نیل لاتے رہے ہیں، رابن نام کا پرندہ امریکہ میں ہو تو اور، برطانیہ میں ہو تو اور اور اسی طرح کسی اور ملک میں ہو تو اور۔ اگر آپ نے حیاتیات کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو ایک جانور کی مثال بھی یاد ہوگی جس کو GOPHER کہا جاتا ہے۔ کیا آپ کو میری بات کی سمجھ آ گئی ہے کہ اگرچہ بظاہر ایک لفظ کے مختلف زبانوں میں حروف تہجی ایک جیسے ہی کیوں نہ ہوں ان کےتلفظ اور استعمال میں فرق پڑ جاتا ہے۔
انگریزوں کی دانشمندی یہ ہے کہ انہوں نے پوری زبان لینے کے بجائے صرف چند اصطلاحات کو لیا اور ان کا ترجمہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی گویا کہ انہوں نے پوری کی پوری زبان اپنانے کے بجائے صرف اپنے مطلب کی بات لی اور اس سے اپنا کام چلالیا۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ رائبوسومز، گالجی باڈیز، مائٹوکانڈریا، اور اس طرح کی دیگراصطلاحات جن کا ترجمہ مشکل کام ہے ان کو جوں کا توں لے لیا جائے اور جہاں آسان ترجمہ ہے وہاں اس کا آسان ترجمہ اپنا لیا جائے میں دو مثالیں دیتا ہوں، ایک ہے ACCELERATION جس کا بہت آسان ترجمہ اسراع ہے اور دوسرا ہے EQUILIBRIUM جس کا مطلب توازن ہے اب ان دونوں الفاظ کا اردو متبادل آسان ہے جس کو استعمال میں لایا جانا چاہئیے۔بہر حال پڑھایا ہر سطح پر اردو میں ہی جائے۔
یاسر بھائی ہم بات مفروضوں پر کرتے ہیں اور حقائق یونانی فلاسفروں کی طرح جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
پاکستان میں مترجم موجود نہیں ہیں
دنیا میں ہر روز ہزاروں کتابیں چھپ رہی ہیں ان سب کا ترجمہ کون کرے گا؟
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کاروان ، علمی، سنگ میل، نگارشات، فیروز سنز،ماورا، (یہ سب لاہور کے ناشران ہیں ، کراچی اور دوسرے شہروں کے ناشران ان کے علاوہ ہیں) پھر جنگ، نوائے وقت، خبریں، دن، نئی بات، ایکسپریس، ڈان، دنیا، پاکستان۔ پھر ٹی وی چینلز، اور پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پائے جانے والے انگریزی اور دیگر زبانوں کے ہزاروں شاید لاکھوں اساتذہ، اب آپ کا کہنا ہے کہ اس قابل دس لوگ بھی نہیں ملیں گے جو انگریزی کتابوں کا اردو میں معیاری ترجمہ کر سکیں تو پھر آپ اور میں اس ملک کو جہنم میں ہی کیوں نہ جھونک دیں۔(مطلب یہ کہ جب اساتذہ ہی دستیاب نہیں ہیں تو اس قوم کو انگریزی میں تعلیم دینے کے بجائے جہنم میں ہی جھونک دینا چاہئیے کہ ہر دو صورتوں میں انجام تو ایک سا ہے) ایسی بات نہیں ہے آپ کی حکومت مترجمین کے لئے آسامیاں مشتہر کرے، انہیں معقول معاوضے دے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ سب کام نہیں ہوتا، یہ بھی نہ کریں ( پاکستان کے) ناشران (پبلشرز) کو دعوت دیں کہ ہم انگریزی اور دیگر زبانوں سے کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ آئندہ نصاب اردو میں پڑھایا جائے گا تو میں آپ کو بتاؤں نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا سے ناشران آپ کے پاس یہ کام کرنے آ جائیں گے، آکسفورڈ، پینگوئن، میک ملن، ولے، پیک اور بہت سے دوسرے، بھلا جس کو پتا ہو کہ لاکھوں کی تعداد میں میری کتابیں بکیں گی تو وہ انہیں کیوں نہیں چھاپے گا، سب کاروباری ہمارے حکمرانوں کی طرح گھامڑ تو نہیں ہوتے کہ 20 کڑوڑ کی آبادی کے لئے کچھ لے ہی نہ سکیں، بہر حال یہ بات آپ سے پھر کبھی کروں گا۔
اب آ جاتے ہیں کہ کتنی کتابوں کے ترجمے کی فوری ضرورت ہوگی، میٹرک تک تمام مضامین کی کتابیں اردو میں موجود ہیں، انکو ضروری اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ کام میں لایا جا سکتا ہے۔
کراچی یونیورسٹی سے وابستہ اداروں میں گریجویشن تک تمام مضامین اردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں، ان کو ناشران کے سپرد کر کے تمام ملک کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے،
جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن (یہاں 1948 تک اردو میں تعلیم دی جاتی رہی، 1948 میں اس ریاست پر بھارت کا قبضہ ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی یہاں پر ذریعہ تعلیم اردو ختم کر دیا گیا)، ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی دہلی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی/ اسلام آباد میں پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کی تدریس اردو میں کی جاتی ہے۔ بھارت میں موجود دونوں یونیورسٹیاں، معیشت، طب، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں کی تعلیم بھی اردو میں دسیتی رہی ہیں/دے رہی ہیں، پاکستان کی تمام جامعات میں نصاب کو اردو میں تبدیل کرنے کے لئے ان جامعات کے تجربوں اور علمی ذخیرے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
(میرےتخمینے کے مطابق پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک تمام مضامین کو شامل کریں تو شاید مطلوبہ کتابوں کی تعداد پانچ ہزار بھی نہیں ہوگی)۔
یاسر بھائی
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بات ڈالروں کی نہیں ہے زندگی تو ہر شخص گزار لیتا ہے ہونا یہ چاہئیے کہ آدمی یہ سوچے کہ جو وہ کرنے جا رہا ہے اس کا کبھی حساب بھی دینا ہے، اور پھر جس کام کو آپ اپنی دانست میں صحیح سمجھتے ہیں اس پر بھی غور کر لیں، قائد اعظم (جو اردو کا مخالف ہے وہ پاکستان کا مخالف ہے)کے خیالات کو پڑھیں وہ کوئی معمولی اور عام انسان نہیں تھے وہ صدیوں کے انسان تھے اور پھر علامہ اقبال، اور پھر سب سے پہلے اور سب سے اہم قرآن پاک جو کہتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو جس قوم میں بھیجا وہ اس قوم کی زبان میں اس کو تعلیم دیتے تھے، (سورہ ابراہیم آیت نمبر 4)۔
تعلیم ابلاغ چاہتی ہے تو جس قوم میں بقول آپ کے دس آدمی بھی انگریزی سے اردو میں ترجمے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس قوم کے ایم اے ، ایم ایس سی پاس ایک درخواست اردو یا انگریزی میں ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے وہاں آپ انگریزی نافذ کیوں کرنا چاہتے ہیں، پھر ایک اور بات بھی ہے تعلیم کے لئے سب سے پہلی شرط ابلاغ کی ہوتی ہے، اور انگریزی میں ابلاغ ممکن ہی نہیں ہے، آپ اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں کتنی بار آپ نے رٹا لگایا اور جب اسباق آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ نے ان کو سمجھنے کے بجائے رٹا لگانے، خلاصے سے یاد کرنے ، پھر ٹیوشن رکھنے یا اکیڈمی جانے کا فیصلہ کیا۔ گھر کی زبان اور ہے، اسکول کی زبان اور ہے، انگلینڈ کا بچہ اس لئے پڑھ جاتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے کہ گھر اور اسکول میں اسے ایک ہی زبان سے واسطہ پڑتا ہے، یہ نہیں کہ جوں ہی اسکول پہنچے اسے ایک عجیب و غریب اور جناتی زبان سے واسطہ پڑے گھر میں تو وہ پانی کہتا رہے اور جونہی اسکول پہنچے اسے پتا چلے کہ یہ واٹر ہے، ایک 3 سال کے بچے کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ وہ یہ سب سن کر کس قدر عذاب سے گزرتا ہوگا، (کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں ایک انگریز گورنس تعنیات کر دی جائے تاکہ بچوں کو گھر پر ہی انگریزی ماحول مل سکے ، اگر یہ ممکن نہیں تو ہر پاکستانی مرد پر لازم کر دیں کہ وہ ایک انگریز عورت سے بھی شادی کرے تاکہ اس کے بچوں کو اگر باپ نہیں تو کم سے کم ماں تو انگریز مل جائے۔یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جائے گا کہ انگریز عورت کس ملک کی ہو، کیونکہ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کی انگریزی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، دہلی اورلکھنؤ کی اردو میں فرق اس فرق کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا جو ان ملکوں کی انگریزی میں ہے)۔ جب یہ سب کچھ ہو جاتا ہے تو نتیجہ وہ نکلتا ہے جو آج کل نکل رہا ہے۔( میں نے روزنامہ ایکسپریس کے ایاز خان صاحب کو دعوت دی (وہ بھی انگریزی کے نفاذ کے زبردست حامی ہیں ) کہ لاہور کے چوٹی کے انگریزی میڈیم کے چوٹی کے بچوں کو بلائیں اور ان کو انگریزی میں ایک مضمون لکھنے کو دیں (موقع پر لکھیں نہ کہ گھر سے لکھ کر لائیں، یا نیٹ سے کاپی پیسٹ کر کے لے آئیں)، یا پھر ان میں ایک انگریزی مقابلہ تقریر(فی البدیہہ) کروا لیں پتا چل جائے گا انگریزی میڈیم اداروں میں کس معیار کی تعلیم دی جاتی ہے، بیچارے اس تجویز پر کچھ بھی نہ کہہ پائے بس یہ کہا کہ آپ کو تو علم ہی ہے رہنے دیں)
آپ اردو نافذ کرنے کی حمایت کریں، یہ ملک پہلے ہی بہت برباد ہو چکا ہے 67 سال سے زیادہ عرصہ ہم نے کھو دیاہے، پاکستان آج وہاں بھی نہیں ہے جہاں آج سے 67 سال پہلے تھا۔ کوئی عالمی معیار کا عالم، سائنسدان، دانشور، ماہر معیشت یہاں پیدا ہی نہیں ہو رہا، ہاں عالمی سطح کے دہشت گرد ضرور پیدا ہو رہے ہیں ، ذرا سوچیں ان دہشت گردوں کی پیدائش ان مدرسوں میں نہیں ہو رہی جن کو آپ نے ان کی آماجگاہ سمجھ رکھا ہے ان دہشت گردوں کو ہمارا نظام جنم دے رہا ہے جہاں تعلیم کے نام پر لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا جا رہا، طبقاتی نظام کا سب سے بڑا ہتھیار یہ انگریزی میڈیم ہے اس کا علاج انگریزی نافذ کرنے میں نہیں ہے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذکرنے میں ہے۔ میں نہیں کہتا کہ ایچی سن بند ہونا چاہئیے یا بیکن ہاؤس کو تالے لگوا دیں۔ نہیں ان سب اداروں میں بھی اردو نافذ کر دیں، وہ جوہر قابل جو انگریزی کے ہاتھوں ہر سال ضائع ہوجاتا ہے وہ بھی اس ملک کے کام آ ئے گا، ذرا سوچیں انگریزی وہ پودا نہیں ہے جو ہماری سرزمین میں پھلے پھولے آپ چند سو کتابیں لکھنے کو تیار نہیں ہیں مگر اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدلنا چاہ رہے ہیں، نسل کشی کے تو دنیا میں بہت سے اقدامات ہوئے زبان کشی کا یہ پہلا واقعہ ہوگا۔
یاسربھائی کچھ جاہل یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو صرف ٪5 یا ٪10 پاکستانیوں کی زبا ن ہے۔ پیارے یہ ٪100 پاکستانیوں کی زبان ہے جیسے پاکستان میں بسنے والے تمام مسلمان مسلمان ہیں بھلے وہ شیعہ سنی اہل حدیث جو بھی ہوں، اور کم از کم یہ بات تو میں بلا خوف تردید کہہ ہی سکتا ہوں کہ یہ ٪100 پڑھے لکھے پاکستانیوں کی زبان ہے۔
ایک اور بات ، ہر سال میٹرک میں ٪40 بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ٪60 تک بچے فیل ہو جاتے ہیں، ڈگری کی سطح پر ٪75 نوجوان فیل ہو جاتے ہیں گویا میٹرک میں ہر ایک لاکھ میں سے چالیس ہزار (40000) بچے فیل ہو جاتے ہیں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے ساٹھ ہزار (60000) بچے فیل ہو جاتے ہیں اور ڈگری کی سطح پر ہر ایک لاکھ میں سے پچہتر ہزار (75000) نوجوان فیل ہوجاتے ہیں، میرے تخمینے کے مطابق اگر ایک لاکھ بچے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوں تو ان میں سے صرف 5000 ہی ڈگری کی سطح کا امتحان پاس کرتے ہیں۔ یہ سب انگریزی کی تباہ کاریاں ہیں بھلا پاکستانی قوم اتنی ہی گئی گزری ہے، اب آپ کہیں گے کہ اگر گئی گزری نہیں تو انگریزی پڑھ لے، نہیں جناب ایسی بات نہیں ہے انگریزی ہماری زبان نہیں ہے، یہ ہماری عام بول چال کا حصہ نہیں ہے، یہ عام فہم زبان نہیں ہے اور پھر یہ کہ چند استثنیات کو چھوڑ کر یہ کسی پاکستانی کی مادری یا پدری زبان نہیں ہے۔ اس کو سیکھنا پڑتا ہے اور پھر یہ بھی کہ اس کو پڑھانے کے لئے اس معیار کے اساتذہ اور تعلیمی ڈھانچہ ہی نہیں ہے جو اسکے لئے ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھلا دنیا کے کتنے ممالک ہیں جن کے ہاں ایک غیر ملکی زبان کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہو، پھر اس مضمون کو لازمی حیثیت حاصل ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس غیر ملکی زبان کو اعلیٰ تعلیم ، مقابلے کے امتحان اور دفتری و سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو، ارے بھائی کسی کی نہ مانو، آئین کی تو مانو جس کی دفعہ 251 پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ مگر کیا کریں کہ جنکو اندیشہ ہے کہ
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
وہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے اعصاب پر سوار ہیں، یاسر بھائی اگر آپ اس ملک کی بہتری کے لئے نہیں سوچ سکتے تو اس کی بربادی میں تو حصہ دار نہ بنیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں اس بات پر آپ کے ساتھ ایک بھر پور مکالمے کے لئے تیار ہوں۔ میں نے نباتیات میں ماسٹر تک تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور پاکستان کے چند ممتاز ترین اداروں میں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے پچھلے 27 سالوں سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہوں اور انگریزی کے ہاتھوں پاکستان کے جوہر قابل کے ضائع ہونے کے عمل کا عینی شاہد ہوں۔
یاسر بھائی میری باتوں کا برا نہ مانیں، کسی بھی بات کو سننے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ اس کو شروع میں ہی مسترد کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ اس کو مثبت انداز میں سوچ کر سمجھ کر سنا جائے اور اگر ماننے والی بات ہو تو مانا جائے، ذرا ماچھو مصلی کے بیٹے کا سوچیں جانو کمہار کے بچوں کا سوچیں اس ملک کے ان بچوں کا سوچیں جن کو انگریزی میں پڑھانے والے استاد کبھی نہیں ملیں گے، اردو میں تو ایک ناخواندہ یا نیم خواندہ ماں بھی پڑھا دیتی ہے، پاکستانی اور پاکستان کے بیٹے بن کر سوچیں، ایک بیوروکریٹ، یا افسر بن کر سوچیں گے تو کچھ سمجھ نہیں آئے گا، اگر ہاتھ میں ڈالر پکڑ کر یا شہباز شریف کا حکم مان کر سوچیں گے تو پھر بھی سمجھ نہیں آئی گی ۔ ان دلیلوں کے کھوکھلے پن پر غور کریں جو آپ انگریزی کے حق میں دیتے ہیں،یار دنیا کے سارے ترقی یافتہ ملک ایک طرف اور صرف ایک امریکہ، ایک انگلینڈ، ایک آسٹریلیا اورجنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ اور پھر آدھا کینیڈا، باقی انگریزی کہاں ہے، پاکستان میں بھارت میں، فلپائن میں کینیا، زمبابوے، نائیجیریا اورر یوگینڈا میں، ہم امریکہ یا انگلینڈ تو نہیں بن پائیں گے۔ نایئیجیریا ،کینیا یا یوگینڈا ضرور بنتے جا رہے ہیں پاکستان بھی نہیں رہ پائے یہ پاکستان پاکستان کب بنے گا، یہ نسخہ آخر آیا کہاں سے ہے کہ اٹھارہ کڑوڑ لوگوں کی زبان بدل دو، کیا یہ ممکن ہے، کیا یہ ممکن ہے؟ جب یہ ممکن ہی نہیں ہے تو ہم سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں، ہم آخر کب تک خجل خوار ہوتے رہیں گے، یاسر بھائی اردو نافذ ہو جائے ہم 5 سالوں میں ایک ترقی یافتہ قوم بن جائیں گے مگر جو ایسا ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے وہ اس ملک میں انگریزی کو بزور نافذ رکھنا چاہتے ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ 000000000000001۔0 فی صد پاکستانیوں کی زبان بھی انگریزی نہیں ہے۔
بات طویل ہوگئی، مگر کیا کروں ابھی بھی بہت سی باتیں نہیں کہہ پایا، پاکستان اس انگریزی کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے، اس کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں نہ کہ اس کو مزید برباد کرنے میں حصہ دار بن جائیں، اگر یہ آپ کی نوکری کی مجبوری ہے تو اور بات ہے، مگر اگر آپ آزاد ذہن سے یہ بات کر رہے ہیں تو خدا کے لئے اس سے باز آ جائیں۔
میں آپ سے رابطے کے لئے ہر وقت دستیاب ہوں
https://www.facebook.com/tehreek.urdu