حسان خان
لائبریرین
کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کی گھر، گھر اور دفتر دفتر انتخابی مہم جاری ہے، لیکن یہ مہم تنظیم کے کارکن یا امیدوار نہیں چلا رہے بلکہ ان دنوں ہر صبح اخبار کے صفحات کے اندر تحریک انصاف کے امیدوار کا پمفلٹ موجود ہوتا ہے تاہم یہ سرگرمی بھی محدود علاقوں میں ہی نظر آ رہی ہے۔
کراچی ہی کیا باقی سندھ میں بھی تحریک انصاف کی کوئی غیر معمولی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔
تحریک انصاف کا کارواں سندھ میں سنہ 2011 کے آخر میں اس وقت داخل ہوا تھا جب نومبر میں گھوٹکی میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس کے اگلے ماہ پچیس دسمبر 2011 کو کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ تیسرا جلسہ فروری 2012 میں عمر کوٹ میں ہوا اور اس کے بعد سے اب تک صوبے میں کوئی مرکزی سطح کا اجتماع نظر نہیں آیا۔
تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذہن میں یہ ہے کہ جو پنجاب جیتے گا اسی کی اہمیت ہوگی اسی لیے انہوں نے پورا زور پنجاب میں لگایا ہے۔
تحریک انصاف نے پورے سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں لیکن ان تمام میں سے قابل ذکر صرف عمرکوٹ کا حلقہ این اے 228 اور کراچی کا حلقہ این اے 250 ہے۔
عمرکوٹ میں شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی بڑی تعداد آباد ہے جبکہ پیر پگارا کی حر جماعت بھی ایک واضح اکثریت رکھتی ہے۔ شاہ محمود یہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ فنکشنل کے مشترکہ امیدوار ہیں لیکن یہاں تحریک انصاف کی بجائے ان کا ذاتی ووٹ ہے جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کو ملتا رہا ہے۔
کراچی میں 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی بیس نشستوں میں سے چودہ نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جنہوں نے مجموعی طور پر 26 ہزار 560 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ شہر میں 30 لاکھ ووٹ کاسٹ کیے گئے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبے پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کم سے کم کراچی میں تحریک انصاف کی کوئی نمایاں مہم نظر نہیں آ رہی اور اس بات کے کافی امکان کم ہیں کہ تحریک انصاف کراچی سے کوئی حصہ لے سکے گی۔
کراچی کے حلقے این اے 250 سے تحریک انصاف نے 2002 کے انتخابات میں 3 ہزار سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی حلقے سے اس بار تنظیم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عارف علوی امیدوار ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں تحریک انصاف ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے اور حالیہ انتخابات میں دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ سرگرم ہے۔
’ ہم جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور ہمارا ووٹ نہیں کٹے گا کیونکہ جو جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں لوگ ان پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ کراچی کے پاس ایک اچھی چوائس ہے، جن جماعتوں نے پچھلے بیس سالوں سے کراچی کو کچھ نہیں دیا اس بار لوگ ان پر مزید بھروسہ نہیں کریں گے۔‘
یہاں عارف علوی کا مقابلہ جماعت اسلامی کے امیدوار اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، مسلم لیگ فنکشنل کے کامران ٹیسوری، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت سے ہے جو 2008 میں بھی یہاں سے رکنِ اسمبلی بنی تھیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت این اے 250 کی حدود میں بھی ردوبدل کی گئی ہے، اس حلقے میں شامل شیریں جناح کالونی کو این اے 239 میں شامل کیا گیا ہے اور وہاں سے اختر کالونی کو این اے 250 میں شامل کردیا گیا۔ شیریں جناح کالونی میں اکثریتی آبادی پشتون ہے جبکہ اختر کالونی میں پنجابی اور ہزارہ برادری آباد ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند کچھ نوجوان اور کچھ خواتین جو عمران خان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں باقی کوئی اتنا بڑا جھکاؤ نظر نہیں آتا۔
بقول ان کے ایم کیو ایم ابھی تک ایک اکثریتی حیثیت رکھتی ہے اور اگر ہمدردانہ ووٹ پڑا بھی تو وہ ایم کیو ایم کے حصے میں ہی آئےگا کیونکہ حالیہ دھماکوں کے بعد جو لوگ طالبانائزیشن کے مخالف ہیں پھر وہ چاہے ایم کیو ایم کو پسند نہ بھی کرتے ہوں انہیں ووٹ دیں گے کیونکہ یہ جماعت طالبائزیشن کے خلاف ہے ۔
کراچی میں پہلے سے سرگرم کوئی بھی جماعت اپنا حصہ چھوڑنے یا کم کرنے کو تیار نہیں اور اس صورتحال میں کسی نئے فریق کو حصہ ملنا مشکل اور دشوار نظر آتا ہے۔
پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ حلقوں کی جو ساخت ہے وہ تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق قومی اسمبلی کے بیس حلقوں میں سے دس میں اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت ہے اور وہاں ایم کیو ایم کی مضبوط گرفت ہے، باقی حلقوں میں بھی ایم کیو ایم کا حصہ موجود ہے۔
اس کے علاوہ تین چار حلقے ایسے ہیں جہاں سے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی نشستیں حاصل کرتی رہی ہے جبکہ ایک دو حلقوں سے عوامی نیشنل پارٹی بھی نشست لے سکتی ہے۔ جماعت اسلامی بھی ایک منظم جماعت ہے وہ بھی بھرپور مہم چلا رہی ہے اس کے حصے میں بھی ایک دو نشستیں آ سکتی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج میں کوئی بڑا اپ سیٹ نظر نہیں آتا کیونکہ تحریک انصاف کی سرگرمیاں ایک یا دو حلقوں تک ہی محدود ہیں اور یہ حلقے ایسے نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔
تاہم تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں عمران خان کراچی سمیت سندھ میں جلسے کریں گے، جس سے ان کی پوزیشن اور مضبوط ہوگی۔
ربط
کراچی ہی کیا باقی سندھ میں بھی تحریک انصاف کی کوئی غیر معمولی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔
تحریک انصاف کا کارواں سندھ میں سنہ 2011 کے آخر میں اس وقت داخل ہوا تھا جب نومبر میں گھوٹکی میں تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اس کے اگلے ماہ پچیس دسمبر 2011 کو کراچی میں پی ٹی آئی کا جلسہ منعقد ہوا جس میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ تیسرا جلسہ فروری 2012 میں عمر کوٹ میں ہوا اور اس کے بعد سے اب تک صوبے میں کوئی مرکزی سطح کا اجتماع نظر نہیں آیا۔
تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ذہن میں یہ ہے کہ جو پنجاب جیتے گا اسی کی اہمیت ہوگی اسی لیے انہوں نے پورا زور پنجاب میں لگایا ہے۔
تحریک انصاف نے پورے سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کیے ہیں لیکن ان تمام میں سے قابل ذکر صرف عمرکوٹ کا حلقہ این اے 228 اور کراچی کا حلقہ این اے 250 ہے۔
عمرکوٹ میں شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی بڑی تعداد آباد ہے جبکہ پیر پگارا کی حر جماعت بھی ایک واضح اکثریت رکھتی ہے۔ شاہ محمود یہاں تحریک انصاف اور مسلم لیگ فنکشنل کے مشترکہ امیدوار ہیں لیکن یہاں تحریک انصاف کی بجائے ان کا ذاتی ووٹ ہے جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی کو ملتا رہا ہے۔
کراچی میں 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی بیس نشستوں میں سے چودہ نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے جنہوں نے مجموعی طور پر 26 ہزار 560 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ شہر میں 30 لاکھ ووٹ کاسٹ کیے گئے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبے پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ کم سے کم کراچی میں تحریک انصاف کی کوئی نمایاں مہم نظر نہیں آ رہی اور اس بات کے کافی امکان کم ہیں کہ تحریک انصاف کراچی سے کوئی حصہ لے سکے گی۔
کراچی کے حلقے این اے 250 سے تحریک انصاف نے 2002 کے انتخابات میں 3 ہزار سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اسی حلقے سے اس بار تنظیم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عارف علوی امیدوار ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں تحریک انصاف ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئی ہے اور حالیہ انتخابات میں دیگر تمام جماعتوں سے زیادہ سرگرم ہے۔
’ ہم جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور ہمارا ووٹ نہیں کٹے گا کیونکہ جو جیتنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں لوگ ان پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ کراچی کے پاس ایک اچھی چوائس ہے، جن جماعتوں نے پچھلے بیس سالوں سے کراچی کو کچھ نہیں دیا اس بار لوگ ان پر مزید بھروسہ نہیں کریں گے۔‘
یہاں عارف علوی کا مقابلہ جماعت اسلامی کے امیدوار اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان، مسلم لیگ فنکشنل کے کامران ٹیسوری، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت سے ہے جو 2008 میں بھی یہاں سے رکنِ اسمبلی بنی تھیں۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت این اے 250 کی حدود میں بھی ردوبدل کی گئی ہے، اس حلقے میں شامل شیریں جناح کالونی کو این اے 239 میں شامل کیا گیا ہے اور وہاں سے اختر کالونی کو این اے 250 میں شامل کردیا گیا۔ شیریں جناح کالونی میں اکثریتی آبادی پشتون ہے جبکہ اختر کالونی میں پنجابی اور ہزارہ برادری آباد ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے خواہشمند کچھ نوجوان اور کچھ خواتین جو عمران خان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہیں باقی کوئی اتنا بڑا جھکاؤ نظر نہیں آتا۔
بقول ان کے ایم کیو ایم ابھی تک ایک اکثریتی حیثیت رکھتی ہے اور اگر ہمدردانہ ووٹ پڑا بھی تو وہ ایم کیو ایم کے حصے میں ہی آئےگا کیونکہ حالیہ دھماکوں کے بعد جو لوگ طالبانائزیشن کے مخالف ہیں پھر وہ چاہے ایم کیو ایم کو پسند نہ بھی کرتے ہوں انہیں ووٹ دیں گے کیونکہ یہ جماعت طالبائزیشن کے خلاف ہے ۔
کراچی میں پہلے سے سرگرم کوئی بھی جماعت اپنا حصہ چھوڑنے یا کم کرنے کو تیار نہیں اور اس صورتحال میں کسی نئے فریق کو حصہ ملنا مشکل اور دشوار نظر آتا ہے۔
پاکستان سٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ حلقوں کی جو ساخت ہے وہ تحریک انصاف کے حق میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق قومی اسمبلی کے بیس حلقوں میں سے دس میں اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت ہے اور وہاں ایم کیو ایم کی مضبوط گرفت ہے، باقی حلقوں میں بھی ایم کیو ایم کا حصہ موجود ہے۔
اس کے علاوہ تین چار حلقے ایسے ہیں جہاں سے ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی نشستیں حاصل کرتی رہی ہے جبکہ ایک دو حلقوں سے عوامی نیشنل پارٹی بھی نشست لے سکتی ہے۔ جماعت اسلامی بھی ایک منظم جماعت ہے وہ بھی بھرپور مہم چلا رہی ہے اس کے حصے میں بھی ایک دو نشستیں آ سکتی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار بابر ایاز کا خیال ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتائج میں کوئی بڑا اپ سیٹ نظر نہیں آتا کیونکہ تحریک انصاف کی سرگرمیاں ایک یا دو حلقوں تک ہی محدود ہیں اور یہ حلقے ایسے نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی۔
تاہم تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں عمران خان کراچی سمیت سندھ میں جلسے کریں گے، جس سے ان کی پوزیشن اور مضبوط ہوگی۔
ربط