اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی بے مثال حمایت کر رہی ہے تو یہ بھی تحریک انصاف کا قصور ہے۔ بغض عمران واقعی لا علاج ہے۔اپنے کٹھ پتلی ہونے کا برملا اعتراف و اعلان ملاحظہ فرمائیے۔ ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد رہی سہی عوامی حمایت سے تو کلی طور پر محروم ہو ہی چکے۔
ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عام انتخابات میں ملک گیر سیاسی لہر چل رہی ہوتی ہے۔ جبکہ ضمنی انتخابات میں لوگوں کو کھینچ کر پولنگ اسٹیشن تک لانا پڑتا ہے۔ نیز اس میں جلسے کرنے کی وہ آزادی بھی نہیں ہوتی جو عام انتخابات کے وقت ہوتی ہے۔ حالیہ بلدیہ الیکشن میں صرف ۱۶ فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد رہی سہی عوامی حمایت سے تو کلی طور پر محروم ہو ہی چکے۔
نوشتۂ دیوار پڑھنے کے لیے کسی عینک کی ضرورت نہیں! تین سال میں بیڑہ غرق کردیا اس نظام سقے نے۔ جگ ہنسائی الگ۔سلام ہے سیلیکٹرز کو!ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عام انتخابات میں ملک گیر سیاسی لہر چل رہی ہوتی ہے۔ جبکہ ضمنی انتخابات میں لوگوں کو کھینچ کر پولنگ اسٹیشن تک لانا پڑتا ہے۔ نیز اس میں جلسے کرنے کی وہ آزادی بھی نہیں ہوتی جو عام انتخابات کے وقت ہوتی ہے۔ حالیہ بلدیہ الیکشن میں صرف ۱۶ فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔
نہیں صاحب سراسر اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے۔ اس مرتبہ نظرِ کرم ہوئی بھی تو ایک نکھٹو پر۔ تین سال کی کارکردگی صفر۔ کیسا شرمندہ کردیا سیلیکٹرز کو مگر مجال جو خود کو شرم آئی ہو۔اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی بے مثال حمایت کر رہی ہے تو یہ بھی تحریک انصاف کا قصور ہے۔ بغض عمران واقعی لا علاج ہے۔
الیکشن میں ہارتے ہیں تو کھسیانی بلی کے مصداق چیف الیکشن کمشنر کے میمز بناکر سوشل میڈیا بھردیتے ہیں۔ جج فائز عیسیٰ کلاس لیتے ہیں تو ان کے اور عدالتی نظام کے میمز پھیلاتے ہیں۔ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ عام انتخابات میں ملک گیر سیاسی لہر چل رہی ہوتی ہے۔ جبکہ ضمنی انتخابات میں لوگوں کو کھینچ کر پولنگ اسٹیشن تک لانا پڑتا ہے۔ نیز اس میں جلسے کرنے کی وہ آزادی بھی نہیں ہوتی جو عام انتخابات کے وقت ہوتی ہے۔ حالیہ بلدیہ الیکشن میں صرف ۱۶ فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔
نوشتۂ دیوار پڑھنے کے لیے کسی عینک کی ضرورت نہیں! تین سال میں بیڑہ غرق کردیا اس نظام سقے نے۔ جگ ہنسائی الگ۔سلام ہے سیلیکٹرز کو!
معیشت کا بیڑا غرق نظام جمہوریہ نے ۳ سال قبل ہی کر دیا تھا۔ نظام سقہ تو ابھی تک اسے واپس ۲۰۱۳ والی پوزیشن پر لانے کیلیے ہی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔نہیں صاحب سراسر اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے۔ اس مرتبہ نظرِ کرم ہوئی بھی تو ایک نکھٹو پر۔ تین سال کی کارکردگی صفر۔ کیسا شرمندہ کردیا سیلیکٹرز کو مگر مجال جو خود کو شرم آئی ہو۔
یہ بھی بتایا گیا سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے سرکاری اعدادوشمار میں جعل سازی (فورجری) کی تھی‘سابق حکومت بینکوں سے قرضے لے کر 5 اعشاریہ 8 فیصد گروتھ دکھاتی رہی‘ اسحاق ڈار سے جب ایک میٹنگ میں میٹروز کے بارے میں یہ پوچھا گیا’’ حکومت یہ قرضے اور خسارے کیسے پورے کرے گی؟ ‘‘تو انھوں نے دائیں بائیں چہرہ ہلا کر کہا ’’سر کچھ فیصلے سیاسی ہوتے ہیں‘‘
تین سال ہوگیے، یہ رونا ختم نہیں ہورہا۔ نالائقی کی انتہا ہےمعیشت کا بیڑا غرق نظام جمہوریہ نے ۳ سال قبل ہی کر دیا تھا۔ نظام سقہ تو ابھی تک اسے واپس ۲۰۱۳ والی پوزیشن پر لانے کیلیے ہی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
جج فائز عیسی نے نواز شریف کا حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس بند کیا تھا۔ اس لئے ان کو چھوڑ کر باقی تمام ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔الیکشن میں ہارتے ہیں تو کھسیانی بلی کے مصداق چیف الیکشن کمشنر کے میمز بناکر سوشل میڈیا بھردیتے ہیں۔ جج فائز عیسیٰ کلاس لیتے ہیں تو ان کے اور عدالتی نظام کے میمز پھیلاتے ہیں۔
جی ہاں۔ ہر پانچ دس سال میں اس کا ایک نیا ورژن آتا ہے۔
فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر فائز عیسیٰ معتوب، دھمکیوں کا بھانڈا پھوڑنے پر شوکت صدیقی فارغ۔ نواز شریف فیصلے کا بھانڈا پھوڑنے پر زاہد ملک بدنام ، فارغ۔ فارن فنڈنگ کا کیس لینے پر الیکشن کمشنر بدنام۔ جو آئے آئے کہ ہم میمز کا کارخانہ رکھتے ہیں۔جج فائز عیسی نے نواز شریف کا حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس بند کیا تھا۔ اس لئے ان کو چھوڑ کر باقی تمام ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔
بڑا الزام،نواز شریف نے ججز کو بغضی قرار دیدیا
میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔۔۔
اوپر شائع کردہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق تباہی ۲۰۱۵ سے ۲۰۱۸ کے درمیان مچی تھی تو اتنا ہی وقت اسے ٹھیک کرنے میں لگنا تھا۔ اب اس حکومت کو تین سال گزر گئے ہیں۔ معیشت کے اعداد و شمار مستحکم ہیں۔ آگے صرف بہتری کا سفر طے کرنا ہے۔تین سال ہوگیے، یہ رونا ختم نہیں ہورہا۔ نالائقی کی انتہا ہے
معیشت کے اعدادو شمار مستحکم ہوئے ہوتے تو اسد عمر اور دوسرے پھنے خان کو نکالا نہ جاتا۔اوپر شائع کردہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق تباہی ۲۰۱۵ سے ۲۰۱۸ کے درمیان مچی تھی تو اتنا ہی وقت اسے ٹھیک کرنے میں لگنا تھا۔ اب اس حکومت کو تین سال گزر گئے ہیں۔ معیشت کے اعداد و شمار مستحکم ہیں۔ آگے صرف بہتری کا سفر طے کرنا ہے۔
اپنے طریقے سے ریونیو بڑھائیں گے، آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق نہیں، وزیر خزانہ - Pakistan - Dawn News
اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح علم ہے کہ پچھلی حکومت کیا کارکردگی چھوڑ کر گئی تھی۔ اس لئے ڈانٹ ڈپٹ جن کو کرنی چاہیے تھی انہیں ملک سے ہی فرار کروا دیا ہے۔جب اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کارکردگی پر ڈانٹ پڑتی ہے تو منہ بناکر " اسمبلیاں توڑ دوں گا" کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اب بھی ایک پیج پر ہیں یا صفحہ پھٹ گیا، ڈانٹ پڑنی شروع۔کیونکہ اصل لاڈلے آج بھی وہی ہیں۔
خلائی مخلوق ضمنی الیکشن میں اپنی توانائی خرچ نہیں کرتی۔ یہ صرف بڑے میچز جیسے عام انتخابات یا سینیٹ انتخابات میں کھل کر کھیلتی ہے۔ضمنی انتخابات میں شکست اسی باعث ہورہی ہے۔ صفحہ پھٹ گیا ہے۔ کہتے ہیں بہت ہوگیا۔