آپ کے خیال میں یہ کس سے بغاوت کی ترغیب دی جارہی ہے؟
میری انقلاب کی فکر آج کی نہیں بلکہ 1972/1973 کے زمانہ کی ہے، میری اُس وقت کی پرسنل ڈائری کے اوراق کی نقول میری کتاب
قرآنی فلسفۂ انقلاب میں موجود ہیں۔
25 سال قبل لکھی گئی 1500 صفحات پر مشتمل میری کتاب قرآنی فلسفۂ انقلاب میں بھی میرے
دس نکاتی ایجنڈے کی سوچ موجود ہے۔
میں 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی، میری اُس وقت کی تقریر ریکارڈ پر ہے، ہم اُس وقت فیصلہ کیا کہ ہم تبدیلی کے لیے 2 مرتبہ اِس
نظام میں رہتے ہوئے کوشش کریں گے جس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ
موجودہ نظام انتخاب کبھی ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتا۔
موجودہ نظام ایک سسٹم نہیں بلکہ ایک نیٹ ورک ہے، جو صرف مخصوص مافیا کے لیے ہے۔
ہم نے دو مرتبہ اس
نظام کے تحت حصہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ
موجودہ نظام انتخاب کبھی ملک میں حقیقی تبدیلی نہیں لا سکتا۔ پارلیمنٹ کی رکنیت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ موجودہ ارکان اسمبلی عیاشی کیلئے اقتدار میں آتے ہیں تو استعفی دے دیا۔
ہم نے لانگ مارچ کے دوران معاہدہ کرکے امن کو موقع دیا، مگر اشرافیہ نے دھوکہ دیا۔
پاکستان کی موجودہ انتظامی تقسیم انتہائی غیرمتوازن ہے۔ پنجاب بڑا صوبہ ایک طرف ہو جائے تو باقی صوبوں کا ووٹ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
میرے ویژن کے مطابق اختیارات اور دولت کا ارتکاز نہ ہوگا بلکہ 35 صوبوں کی شکل میں وسائل کو نچلی سطح تک تقسیم کیا جائے۔
میرے ویژن کے مطابق ہر ڈویژن کو صوبہ بنایا جائے گا تاکہ
ارتکاز دولت اور اختیارات کے ارتکاز کا خاتمہ ہو۔
جمہوری ممالک نے مالی، انتظامی اور سیاسی وسائل کو مقامی حکومتوں کے سپرد کرکے ترقی کی ہے، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
جب اختیارات تقسیم ہوتے ہیں تو وسائل کی چوری کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
ترکی کی آبادی تقریبا 7 کروڑ ہے اور اس نے اختیارات کو 81 صوبے بنا کر مقامی حکومتوں کے سپرد کر دیا۔
دنیابھر میں ترقی پذیر یا ترقی یافتہ کوئی بھی ملک ہو، سب کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اختیارات کی تقسیم معاشی اور معاشرتی ترقی کی ضامن ہے۔ جن ممالک کی معاشی ترقی کی رفتار ہم سے کم تھی انہوں نے اختیارات کی تقسیم سے اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔
پاکستان میں اختیارات پر مخصوص خاندانوں کا قبضہ ہے، اس لئے روزانہ پانچ ارب روپے کرپشن ہوتی ہے۔
میں جمہوری نظام کے خلاف نہیں ہوں،
مگر جمہوریت عوام کی اقتدار میں شرکت کا نام ہے اور سیاسی و معاشی استحکام کا نام ہے۔ موجودہ
کرپٹ لیڈروں نے کرپشن کا نام نظام اور جمہوریت رکھا ہوا ہے،
موجودہ نظام آئین پاکستان کے خلاف ہے، اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات مقامی حکومتوں کے سپرد کرے۔
مارشل لاء لگانے والے فوجی آمر ہوتے ہیں اور موجودہ حکمران سیاسی آمر ہیں۔ عوام نے جمہوریت دیکھی ہی نہیں۔ میں جس طرح سیاسی آمریت کے خلاف ہوں اُسی طرح مارشل لاء کے بھی خلاف ہوں۔
ہمارا انقلاب پورے پاکستان کے 20 کروڑ عوام کیلئے ہے،
کسی ایک فرقہ اور مسلک کیلئے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے ہے ۔
(ڈاکٹر طاہر القادری)