سید انور محمود
محفلین
تاریخ: 28 اپریل، 2015
ایم کیو ایم نے پہلی مرتبہ 1988ء میں انتخابات میں حصہ لیا اور1988ء کے بعد سے 2015ء تک جماعت اسلامی نےکبھی بھی کوئی انتخابی سیٹ نہیں جیتی، 1993 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حصہ نہیں لیا تھا۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار 874ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار عامر شرجیل نے 31 ہزار 875اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 10 ہزار 321ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن انہوں نے 12 بجے کے بعد دھاندلی کے الزامات عائد کر کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے حلقہ این ائے 246 کےضمنی انتخاب میں گذشتہ انتخابی رزلٹ اورنبیل گبول کےدھاندلی سے جیت کے بیان کے بعدسیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے ضمنی انتخاب میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ایم کیو ایم پے درپے الزامات کا شکار بنی ہوئی تھی اور خاص طور پر11مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ، خطرناک جرائم میں ملوث عناصر کی وہاں سے گرفتاریاں اور صولت مرزا کا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف اعترافی وڈیو بیان کی وجہ سے ایم کیو ایم عتاب میں آئی ہوئی تھی۔ لیکن اس حلقے کے انتخاب میں کامیابی کےلیے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور اُنکی جماعت کے لوگوں نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل نے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، شاید وہ اس علاقے سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ضمنی انتخاب کیلئے پی ٹی آئی کے پاس پولنگ ایجنٹ ہی پورے نہیں تھے جس کے نتیجے میں اسے شہر کے دوسرے علاقوں سے پولنگ ایجنٹ لانے پڑے، اسکے باوجود بہت سارئے انتخابی مراکز پر پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹ موجود نہیں تھے، اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس جماعت کے پاس پولنگ ایجنٹ ہی پورے نہ ہوں اس کے انتخاب جیتنے کی توقع کیسے ہوسکتی ہے۔
انتخابی مہم شروع ہوئی تو عمران خان نے 6 اپریل کو حلقہ 246 کا دورہ کیا جس میں اُنکی بیگم ریحام خان اورپارٹی کے امیدوارعمران اسماعیل اور دوسرئے رہنما بھی شامل تھے، عمران خان اور اُنکی بیگم جب اسلام آباد سے روانہ ہورہے تھے تو وہ ایم کیو ایم اور اُسکے قائد الطاف حسین کے خلاف بڑئے ہی جارحانہ انداز میں بیان دئے رہے تھے، اُنکا کہنا تھا کہ لندن میں انہوں نے وکیلوں کی پوری ٹیم جمع کررکھی ہے، اگر اُن کےکسی بھی کارکن کو کچھ ہوا تو الطاف حسین کو چھوڑینگے نہیں۔ جماعت اسلامی نے دو جلسے کیے 12 اپریل کو مردوں کا اور 17 اپریل کو خواتین کا، یہ جلسے کر کے جماعت اسلامی نے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا مگر وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی۔ 18 اپریل کو ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے جلسے سے پہلے چند گھنٹوں کے نوٹس پر تاریخی جلسہ کیا۔ ایم کیو ایم کے جلسے کے بعد اگلے دن 19 اپریل کو تحریک انصاف کے جلسے نے کراچی میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت کا فیصلہ دے دیا، اس جلسے میں ہزاروں کرسیاں تھیں لیکن اُن میں سے ہزاروں خالی بھی تھیں، اس جلسے میں ایک طرف عمران خان مہاجر کے نام پر سیاست کو برا کہہ رہے تھے جبکہ دوسری طرف انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے مہاجر ہیں ۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان جو19 اپریل کے تحریک انصاف کے جلسے سے قبل کامیابی کے لئے بہت پرعزم تھے، اس جلسے کے بعدحسب عادت یوٹرن لیا اور کہنا شروع کردیا کہ ایم کیو ایم کو کم ووٹ پڑیں گے، جس کے بعد ایم کیو ایم بے نقاب ہوجائے گی۔
ضمنی انتخاب سے قبل کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے اور دیگر کئی مقامات پر رینجرز کے آپریشن کے بعد اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا تھا۔ بعض سنجیدہ لوگوں نے ایم کیو ایم کی غیر قانونی کارروائیوں پر اظہار ناراضگی بھی کیا تھا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے بعض لوگ بھی اپنی جماعت کی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دینے لگے تھے لیکن آپریشن کے دوران جس تعصب کا مظاہرہ کیا گیا اس نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ اسی سطح پر پہنچا دیا جہاں وہ پہلےتھی، اس سے پہلےجون 1992ء کے آپریشن میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا ۔ ضمنی انتخاب سے قبل ایم کیو ایم کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم میں میڈیا نے بھی صرف ایم کیو ایم کو ہی نشانہ بنایا اورمطعون قرار دیا جبکہ جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے دوران جعلی شناختی کارڈ اور جعلی ووٹ پکڑنے کے جو واقعات بھی سامنے آئے ان میں ایم کیو ایم نہیں پی ٹی آئی قصوروار پائی گئی، یہاں تک کہ رینجرز نے جعلی ووٹ بھگتانے کے الزام میں جن سرکاری ملازمین کو گرفتار کیا وہ بھی پی ٹی آئی کو ووٹ ڈلوا رہے تھے۔ ان کارروائیوں سے ایک جانب سے رینجرز کا وقار بحال ہوا تو دوسری جانب ایم کیو ایم نے اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا اور اب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کہتے ہیں کہ جعلی ووٹوں اور خوف سے انتخابات جیتنے کے بارے میں ہمارئے خلاف کیا گیا پروپیگنڈہ جھوٹا اور حقیقت کے برعکس تھا۔
عمران خان نے میر پور ، آزاد کشمیر میں ایک جلسہ کے دوران کہا تھا کہ الطاف حسین کی لمبی لمبی تقریروں کو سننے کےلیے اُسکے جلسے میں زندہ لاشیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ساتھ اُنکی پارٹی کے دوسرئے رہنما بھی عمران خان جیسی ہی صفت رکھتے ہیں ، ضمنی انتخاب سے پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا فرمانا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف حلقہ این اے 246 میں ضمنی انتخاب میں ضرور کامیابی حاصل کرے گی اور یہ حلقہ ایم کیو ایم کی سیاسی قبر بننے جا رہا ہے۔ عارف علوی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو اس حلقے میں الیکشن لڑنے کے بعد راہ فرار اختیار کرنا پڑے گی۔ لیکن جس طرح کا فرق ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے جلسوں میں تھا اتنا ہی فرق ضمنی انتخاب کے نتیجے میں سامنے آیا۔ 23اپریل کے ضمنی انتخاب میں جن 131424 ووٹرز نے اپنا ووٹ ڈالا اُن میں سے 95644 ووٹ (72.78 فیصد) ایم کیو ایم نے حاصل کیے ، پی ٹی آئی نے 24821 ووٹ (18.89 فیصد) اور، جماعت اسلامی نے 9056 ووٹ(6.89 فیصد) حاصل کیے ۔ اب عمران خان اور عارف علوی سوچ رہے ہونگے کہ وہ جن کو ہم زندہ لاشیں کہہ رہے تھے انہوں نے توپی ٹی آئی کوسیاسی طور پر کافی گہری قبر میں اتار دیا۔ خان صاحب اور عارف علوی ایم کیو ایم کی قیادت کا شکریہ ادا کریں کہ ضمنی انتخاب کے ختم ہونے کے بعد کریم آباد میں پی ٹی آئی کے انتخابی دفتر میں جو توڑ پھوڑ کی گئی اُس میں پی ٹی آئی کے ورکرز دفتر میں پھنس گے تھے، اگر ایم کیو ایم کی قیادت اپنے ورکرز کو کنٹرول نہ کرتی تو اللہ نہ کرئے شاید خان صاحب کو زندہ نہیں مردہ لاشیں موصول ہوتیں اور اس کے ذمہ دار خود عمران خان ہوتے، وہ بولنے سے پہلے شاید سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، اس سے پہلے وہ سندھ کے عوام کو غلام قرار دئے چکے ہیں۔ کراچی والوں کو مبارک ہو جبکہ نواز شریف، اسفندریار ولی خان اور آصف زرداری ہوشیار ہوجایں کہ اب کراچی میں مہاجر لیڈروں کی تعدادایک سے بڑھکر ڈیڑھ ہوگی ہے۔
تحریک انصا ف کو زندہ لاشوں سے شکست
تحریر: سید انور محمود
کراچی میں قومی اسمبلی حلقہ 246 کےضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں پاکستان تحریک انصا ف اور جماعت اسلامی کی جو شکست فاش ہوئی ہے وہ دونوں جماعتوں کے لیے عبرت کا مقام ہے۔ ایم کیو ایم نے ثابت کیا کہ عزیز آباد کا حلقہ انتخاب جہا ں ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر نائن زیرو بھی واقع ہے، وہ اس کا گڑھ ہے۔ دونوں جماعتیں پاکستان تحریک انصا ف اور جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومتی اتحادی بھی ہیں، یہ صرف اس حد تک اتحادی ہیں کہ آپ انہیں خود غرض یا مطلب پرست اتحادی بھی کہہ سکتے ہیں، کےپی کے حکومت بنانے کے لیے صوبہ کی اسمبلی میں عددی ضرروت کو پورا کرنے کےلیےپی ٹی آئی کو جماعت اسلامی کی ضرورت ہے اور جماعت اسلامی کو حکومت میں رہنے کےلیے پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے 126 دن کے دھرنے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اپنی پوری منافقت کے ساتھ سیاسی جرگہ چلاتے رہے لیکن ایک لمحے کےلیے بھی اپنے اتحادی کے ساتھ کھڑئے نہیں ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ کو سینیٹر بننے کےلیے پی ٹی آئی کے کندھے کی ضرورت تھی جو پی ٹی آئی نے اُسکو مہیا کردیا لیکن جب کراچی کے ضمنی انتخاب کےلیے پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی سے یہ مانگ کری کہ وہ اپنے امیدوار کو دستبردار کرلیں تو جواب ملا کہ جناب ہم تو ہمیشہ سے ہی اس حلقہ سے امیدوار رہے ہیں آپکو چاہیے کہ آپ اپنا نمائندہ دستبردار کرلیں، اس پر بڑا ہی خوبصورت تبصرہ پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل نے کیا تھا کہ ‘آپس میں علاقے بانٹ لیتے ہیں ، انتخاب کی ضرورت کیا ہے’۔ایم کیو ایم نے پہلی مرتبہ 1988ء میں انتخابات میں حصہ لیا اور1988ء کے بعد سے 2015ء تک جماعت اسلامی نےکبھی بھی کوئی انتخابی سیٹ نہیں جیتی، 1993 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حصہ نہیں لیا تھا۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار نبیل گبول نے ایک لاکھ 37 ہزار 874ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار عامر شرجیل نے 31 ہزار 875اور جماعت اسلامی کے راشد نسیم نے 10 ہزار 321ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن انہوں نے 12 بجے کے بعد دھاندلی کے الزامات عائد کر کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے حلقہ این ائے 246 کےضمنی انتخاب میں گذشتہ انتخابی رزلٹ اورنبیل گبول کےدھاندلی سے جیت کے بیان کے بعدسیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے ضمنی انتخاب میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ایم کیو ایم پے درپے الزامات کا شکار بنی ہوئی تھی اور خاص طور پر11مارچ کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ، خطرناک جرائم میں ملوث عناصر کی وہاں سے گرفتاریاں اور صولت مرزا کا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف اعترافی وڈیو بیان کی وجہ سے ایم کیو ایم عتاب میں آئی ہوئی تھی۔ لیکن اس حلقے کے انتخاب میں کامیابی کےلیے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور اُنکی جماعت کے لوگوں نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار عمران اسماعیل نے بھی کوئی ہوم ورک نہیں کیا تھا، شاید وہ اس علاقے سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ضمنی انتخاب کیلئے پی ٹی آئی کے پاس پولنگ ایجنٹ ہی پورے نہیں تھے جس کے نتیجے میں اسے شہر کے دوسرے علاقوں سے پولنگ ایجنٹ لانے پڑے، اسکے باوجود بہت سارئے انتخابی مراکز پر پی ٹی آئی کے پولنگ ایجنٹ موجود نہیں تھے، اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس جماعت کے پاس پولنگ ایجنٹ ہی پورے نہ ہوں اس کے انتخاب جیتنے کی توقع کیسے ہوسکتی ہے۔
انتخابی مہم شروع ہوئی تو عمران خان نے 6 اپریل کو حلقہ 246 کا دورہ کیا جس میں اُنکی بیگم ریحام خان اورپارٹی کے امیدوارعمران اسماعیل اور دوسرئے رہنما بھی شامل تھے، عمران خان اور اُنکی بیگم جب اسلام آباد سے روانہ ہورہے تھے تو وہ ایم کیو ایم اور اُسکے قائد الطاف حسین کے خلاف بڑئے ہی جارحانہ انداز میں بیان دئے رہے تھے، اُنکا کہنا تھا کہ لندن میں انہوں نے وکیلوں کی پوری ٹیم جمع کررکھی ہے، اگر اُن کےکسی بھی کارکن کو کچھ ہوا تو الطاف حسین کو چھوڑینگے نہیں۔ جماعت اسلامی نے دو جلسے کیے 12 اپریل کو مردوں کا اور 17 اپریل کو خواتین کا، یہ جلسے کر کے جماعت اسلامی نے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا مگر وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ نہ کرسکی۔ 18 اپریل کو ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے جلسے سے پہلے چند گھنٹوں کے نوٹس پر تاریخی جلسہ کیا۔ ایم کیو ایم کے جلسے کے بعد اگلے دن 19 اپریل کو تحریک انصاف کے جلسے نے کراچی میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت کا فیصلہ دے دیا، اس جلسے میں ہزاروں کرسیاں تھیں لیکن اُن میں سے ہزاروں خالی بھی تھیں، اس جلسے میں ایک طرف عمران خان مہاجر کے نام پر سیاست کو برا کہہ رہے تھے جبکہ دوسری طرف انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنی والدہ کی طرف سے مہاجر ہیں ۔تحریک انصاف کے قائد عمران خان جو19 اپریل کے تحریک انصاف کے جلسے سے قبل کامیابی کے لئے بہت پرعزم تھے، اس جلسے کے بعدحسب عادت یوٹرن لیا اور کہنا شروع کردیا کہ ایم کیو ایم کو کم ووٹ پڑیں گے، جس کے بعد ایم کیو ایم بے نقاب ہوجائے گی۔
ضمنی انتخاب سے قبل کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے اور دیگر کئی مقامات پر رینجرز کے آپریشن کے بعد اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا تھا۔ بعض سنجیدہ لوگوں نے ایم کیو ایم کی غیر قانونی کارروائیوں پر اظہار ناراضگی بھی کیا تھا۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے بعض لوگ بھی اپنی جماعت کی پالیسیوں سے نالاں دکھائی دینے لگے تھے لیکن آپریشن کے دوران جس تعصب کا مظاہرہ کیا گیا اس نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دوبارہ اسی سطح پر پہنچا دیا جہاں وہ پہلےتھی، اس سے پہلےجون 1992ء کے آپریشن میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا ۔ ضمنی انتخاب سے قبل ایم کیو ایم کے خلاف چلائی جانے والی اس مہم میں میڈیا نے بھی صرف ایم کیو ایم کو ہی نشانہ بنایا اورمطعون قرار دیا جبکہ جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے دوران جعلی شناختی کارڈ اور جعلی ووٹ پکڑنے کے جو واقعات بھی سامنے آئے ان میں ایم کیو ایم نہیں پی ٹی آئی قصوروار پائی گئی، یہاں تک کہ رینجرز نے جعلی ووٹ بھگتانے کے الزام میں جن سرکاری ملازمین کو گرفتار کیا وہ بھی پی ٹی آئی کو ووٹ ڈلوا رہے تھے۔ ان کارروائیوں سے ایک جانب سے رینجرز کا وقار بحال ہوا تو دوسری جانب ایم کیو ایم نے اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا اور اب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کہتے ہیں کہ جعلی ووٹوں اور خوف سے انتخابات جیتنے کے بارے میں ہمارئے خلاف کیا گیا پروپیگنڈہ جھوٹا اور حقیقت کے برعکس تھا۔
عمران خان نے میر پور ، آزاد کشمیر میں ایک جلسہ کے دوران کہا تھا کہ الطاف حسین کی لمبی لمبی تقریروں کو سننے کےلیے اُسکے جلسے میں زندہ لاشیں بیٹھی ہوتی ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ساتھ اُنکی پارٹی کے دوسرئے رہنما بھی عمران خان جیسی ہی صفت رکھتے ہیں ، ضمنی انتخاب سے پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا فرمانا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف حلقہ این اے 246 میں ضمنی انتخاب میں ضرور کامیابی حاصل کرے گی اور یہ حلقہ ایم کیو ایم کی سیاسی قبر بننے جا رہا ہے۔ عارف علوی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو اس حلقے میں الیکشن لڑنے کے بعد راہ فرار اختیار کرنا پڑے گی۔ لیکن جس طرح کا فرق ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے جلسوں میں تھا اتنا ہی فرق ضمنی انتخاب کے نتیجے میں سامنے آیا۔ 23اپریل کے ضمنی انتخاب میں جن 131424 ووٹرز نے اپنا ووٹ ڈالا اُن میں سے 95644 ووٹ (72.78 فیصد) ایم کیو ایم نے حاصل کیے ، پی ٹی آئی نے 24821 ووٹ (18.89 فیصد) اور، جماعت اسلامی نے 9056 ووٹ(6.89 فیصد) حاصل کیے ۔ اب عمران خان اور عارف علوی سوچ رہے ہونگے کہ وہ جن کو ہم زندہ لاشیں کہہ رہے تھے انہوں نے توپی ٹی آئی کوسیاسی طور پر کافی گہری قبر میں اتار دیا۔ خان صاحب اور عارف علوی ایم کیو ایم کی قیادت کا شکریہ ادا کریں کہ ضمنی انتخاب کے ختم ہونے کے بعد کریم آباد میں پی ٹی آئی کے انتخابی دفتر میں جو توڑ پھوڑ کی گئی اُس میں پی ٹی آئی کے ورکرز دفتر میں پھنس گے تھے، اگر ایم کیو ایم کی قیادت اپنے ورکرز کو کنٹرول نہ کرتی تو اللہ نہ کرئے شاید خان صاحب کو زندہ نہیں مردہ لاشیں موصول ہوتیں اور اس کے ذمہ دار خود عمران خان ہوتے، وہ بولنے سے پہلے شاید سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے، اس سے پہلے وہ سندھ کے عوام کو غلام قرار دئے چکے ہیں۔ کراچی والوں کو مبارک ہو جبکہ نواز شریف، اسفندریار ولی خان اور آصف زرداری ہوشیار ہوجایں کہ اب کراچی میں مہاجر لیڈروں کی تعدادایک سے بڑھکر ڈیڑھ ہوگی ہے۔