تحفہِ ایمان
مجھے دسمبر کی ایک ٹھنڈی شام یاد ہے جب میں بیس پچیس کے لگ بھگ ہوں گا۔ میں اور ایک دوست سمندر کے کنارے بیٹھے سورج کی کرنوں کا پانی سے کھیلنا دیکھ رہے تھے۔ ڈھلتے ہوئے سورج کے سامنے سمندر کے بگلوں کا ایک جھنڈ اتنی نیچی پرواز کررہا تھا کے پروں کی جھلک پانی میں نظر آرہی تھی۔
“ میں شکرگزار ہوں کہ میں اس خوبصورت سماں کو دیکھنے کے لیے زندہ ہوں“۔میں نے اپنی بے انتہا خوشی کا اظہار کیا۔
“ شکرگزار کس کا؟“۔ میرے دوست نے پوچھا۔
اس نے صرف اتنا کہا لیکن میں اس بات کو کبھی نہیں بھولا ۔
میرے خیال میں زندگی کے تحفے کسی قسم کی گنتی یا ناپ سے بالا ہیں۔ چار نا چار وہ شکر کرنے کو بلاتے ہیں لیکن بغیر دینے والے کو جانے تم اُن کے شکرگزار کیسے ہوسکتے ہو ؟
اس شام کے بعد میں نے سینکڑوں لوگوں سے اس کے متعلق گفتگو کی ہے۔ گفتگو کے دوران ہرشخص اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ایمان کا تحفہ سب سے بڑا تحفہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس ایمان ہوتا ہے وہ رحم دل، بے غرض اور خوش و خرم ہوتے ہیں۔