loneliness4ever
محفلین
تحفہ
از س ن مخمور
’’میرے رب میں خطاکار ہوں گناہ گار ہوں مگر تو رحیم ہے ، کریم ہے یہ تیری ہی عطا کہ میری موت سے پہلے تو نے مجھے معافی مانگنے کی توفیق دی، مالک کرم فرمامیرے حال پر، گناہوں کی لذت سے آلودہ دل کو پاک فرما دے، میں تیرا ہی بندہ ہوں مجھے معاف فرما دے، اے اللہ توقدیر ہے ہر شے پر تیری قدرت قائم ہے، مالک توچاہے تو میری گرفت کر لے اور چاہے تو مجھے معاف کر دے، رب میں تو تیری رحمت ہی پر نگاہیں جمائے تیرے حضور حاضر ہوا ہوں، مجھے خوف ہے تیری گرفت کا، مجھے خوف ہے آخرت میں رسوائی کا، مالک مجھے میرے حال پر مت چھوڑ، خالق تیرا بندہ ہوں مجھے جہنم کی آگ سے بچالے۔۔۔۔‘‘
مسجد کے صحن میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے،آنسوئوں سے لبریز بھیگا ہوا دامن لئے ، اردگرد سے مکمل غافل ہو کر سمیر اپنی گزری زندگی پر خالق کل جہان کے حضور گڑگڑا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوئوں میں اسکی زندگی کا گزرا ایک ایک آلودہ آنسو اسکی روح کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔
صفیہ نے سمیر کے آگے لباس کے اشتہار میں کام کرتی کسی ماڈل کی طرح لہراتے ہوئے سوال کیا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی، مگر دوسرے ہی پل اس کی مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ سمیر کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں تھے۔۔۔۔
’’ یہ کیا سلوا لیا تم نے؟؟ کیا کسی آنٹی کا ناپ تو نہیں دے دیا تھا ٹیلر کو؟؟پورا شامیانہ لگ رہا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب اتنے پیارے سوٹ کو آپ ایسا کہہ رہے ہیں؟؟ اب تنگ مت کریں مجھے۔۔۔۔‘‘
صفیہ نے سمیر کی ناراضگی کوسنجیدہ نہ لیتے ہوئے کہا ، مگر سمیر کو حقیقت میں صفیہ کا سوٹ پسند نہیں آیا تھا۔
’’مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ؟؟؟ دنیا آگےجا رہی ہے اور تم وہی دقیانوسی انداز اپنائے ہوئے ہو، اتنے مہنگے کپڑے کا ناس مار دیا تم نے، کچھ تراش خراش کا، بہترین فٹنگ کا سوٹ سلواتیں ، اس کے بجائے جبہ سلوا کر خوش ہو رہی ہو، دل جلا کے خاک کر دیا۔۔۔‘‘
’’سمیرکیا گیا ہے آپ کو؟؟کپڑے تن چھپانے کےلئے ہوتے ہیں اسکی نمائش کے لئے نہیں، دنیا اگر غلط سمت میں جائے گی تو کیا ضروری ہے اسکے غلط انداز کو بھی اپنایا جائے‘‘
’’میں کب کہہ رہا ہوں تم بدن کی نمائش کرو مگر فٹنگ کا سوٹ تو پہن ہی سکتی ہو ناں؟؟؟ کپڑا پہنو تو ایسا تو پہنو کے اپنا لگے یہ ڈھیلاڈھیلا لباس لگ رہا ہے بڑی آپا کا مانگ کر پہن لیا ہو۔۔۔ اسٹوپڈ۔۔۔۔؟؟‘‘
’’کپڑا ایساپہنا چا ہئیےجس سے نہ جسم جھلکے اور نہ ہی اسکےخال وخد نمایاں ہوں ، مجھے تو یہ ہی تعلیم میری ماں نے دی ہے اور میرے مذہب نے بھی۔۔۔۔‘‘
صفیہ کو بھی اب غصہ آ گیا تھا۔
’’کیا مطلب کیا تم کہنا چاہتی ہو کہ میرا اور تمہارا مذہب مختلف ہے؟؟؟کان کھول کر سن لو تم میری بیوی ہو اور بیوی کا کام شوہر کی رضا میں ہنسی خوشی جینا ہوتا ہے میں تم کو کیسا ہی لباس پہننے کو کہوں تم کو پہننا چاہیئے ، آگے اللہ اور میرا معاملہ ہے ، تم کو تو بس میری اطاعت کرنا چاہیئے۔۔۔‘‘
’’سمیر!اللہ کے غضب سے ڈریں ، پلیز اب مزید کچھ نہ بولیں ، میں یہ سوٹ ہی نہیں پہنوں گی۔۔۔‘‘
صفیہ نے روتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی مگر سمیر کہ تو جو منہ میں آ رہا تھا بولتا چلا گیا۔۔۔۔
سمیر اور صفیہ کی شادی کو تیسرا سال ہونے کو آ رہا تھا،اور اب جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے ۔سمیر اور صفیہ میں تلخی بڑھتی جا رہی تھی۔صفیہ ہوش منداور سلجھی ہوئی عورت ہونے کے ناطےمسلسل لچک کا مظاہرہ کر رہی تھی کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ قائم رشتے کو اس نے اور سمیر ہی نے ٹوٹنے سے بچانا ہےمگر سمیر کی اپنی ہی بات قائم رکھنے کی بری عادت اسکی ہر اچھائی کو گن کی مانند چاٹ رہی تھی۔صفیہ کو بے انتہا چاہنے کے باوجود کوئی ہفتہ ایسا نہ گزرتا تھا جب دونوں کی آپس میں تو تو میں میں نہ ہو۔گھر کے بڑوں نے بھی اب تو سمیر کو اسکی حالت پر چھوڑ دیا تھا کوئی اس سے الجھتا نہیں تھا ظاہر سی بات تھی والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو کئی معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور کچھ معاملات اولاد انکے ہاتھوں میں رہنے نہیں دیتی۔
دور جدید کی انتہائی جدید انداز سے بگڑی ہوئی نسل سے تعلق رکھنے والا سمیر بےحد جذب نظر تھا۔ اپنی خالہ زاد کزن صفیہ سے اس کی شادی والدین کی رضامندی اور باہمی محبت کا نتیجہ تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سمیرکی عادات میں لگا مان مانی اور اپنی جانب سے بے سروپا منطق پیش کرنے کا گن اسکی خوبیوں پر سیاہی مل رہا تھا۔
***
’’اف۔۔۔!! دماغ خراب کر دیا ہے خالہ جان نے، اور جب سے یہ آئی ہیں گھر میں اماں جان نے بھی محاذ کھول لیا ہے ، میری شکل دیکھی اور ہوگئیں دونوں شروع نصیحتوں کا نہ ختم ہونے والا لیکچر دینے۔۔۔‘‘
سمیر آفس سے آیا اپنے کمرے میں بستر پر نیم دراز ناگواری کے عالم میں بڑبڑانے میں مصروف تھا۔
سمیر کی ساس اور خالہ حمیدہ بیگم اپنے بیٹے اور بہو کیساتھ زندگی کے دن گزار رہی تھیںمگر ملازمت کے سلسلے میں اچانک سمیر کے سالے کو کراچی سے گلگت روانہ ہونا پڑا۔کمپنی کی جانب سے گیسٹ ہائوس کی سہولت توتھی مگر فیملی کا ساتھ ہونا لازمی تھا اس لئے نسیم نے اپنی بیگم کو بھی ساتھ لیجانا مناسب سمجھا تاکہ رہائش کے لئے ادھر ادھر بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے۔ چونکہ نسیم کا جانا عارضی نوعیت کا تھا اورحمیدہ بیگم سمجھتی تھیں کہ کراچی اور گلگت کے موسم کا فرق اس عمر میں وہ برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے انہوں نے نسیم کے ساتھ جانا مناسب نہ سمجھا۔ اور چھوٹی بہن کو بڑی بہن یعنی سمیر کی امی سدرہ بیگم نے پورے رمضان اپنے گھر مدعو کر لیا۔ صفیہ کی تو جیسے عید سے پہلے عید ہو گئی تھی اپنی ماں کا پورے ماہ کے لئےگھر پر رکنے آنا اسکو بہت اچھالگ رہا تھا مگر ہفتہ بھر ہی گزرا تھا کہ سمیر اکتا گیا۔ حمیدہ بیگم ایک بزرگ کی حیثیت سے اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ اپنے داماد کو بھی کبھی کبھار ٹوک دیتی تھیںاور بہن کے بولنے پر سمیر کی امی بھی ہمت پکڑ لیتی تھیں ۔ اور یہ ہی سب کچھ سمیر کو برا لگنے لگا تھا۔
صفیہ نے آدھے کھلے کمرے کے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے کہا
’’ میری شہزادی یہ تو بتائو ۔۔ آج افطار میںکیا ہے؟؟‘‘
سمیرنے محبت سے صفیہ کو اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا
شامت کی ماری صفیہ کو سمیرکے اس محبت بھرے انداز نے پھر دھوکہ دے دیا اور کئی دنوںسے دبی خواہش باتوں باتوں میں اسکے لبوں پر آگئی
’’سنیں ۔۔۔ وہ آپ مجھے عبایا دلانے بازار لے چلیں گے؟؟‘‘
’’عبایا!!! ۔۔۔۔ کیا مطلب ؟؟ خیر تو ہے؟؟‘‘
’’وہ مجھے اب یوں بغیر عبایا کے باہر آنا جانا عجیب سا لگتا ہے، ویسے بھی یہ تو اچھی بات ہی ہے۔۔ ہے نا ‘‘
’’صفیہ تمہارا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔ یہ بتائو کیاآج کل تم نے کوئی نئی دوستی کی ہے ؟؟جو عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ہو، پچھلے ہفتے شامیانہ سلوا کر خوش ہو رہی تھیں آج تم عبایا لانا چاہتی ہو؟؟؟ لاٹری بن کر بازاروں میں گھوم پھر کر کیا سمجھتی ہو محفوظ رہوں گی ؟؟ بھوکے بھیڑیوں کی نظروں سے؟؟‘‘
’’سمیر سمجھیں نا۔۔۔ پلیز غصہ مت کریں۔۔۔ بات محفوظ رہنے کی نہیں بلکہ اللہ کے کہے گئے احکام پورا کرنے کی ہے‘‘
’’واہ ۔۔واہ ۔۔ خوب کہی تو پہلے دیگر احکام پورے کرو پھر پردہ کرنا ۔۔۔۔ عبایا پہننا ۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘
’’یہ کیسی بات کہہ رہے ہیں آپ؟؟؟ انسان ضروری تو نہیں ایک دم تمام احکام پر عمل کر ے، ہوتے ہیں ایسے بھی جو ایک ہی مرتبہ میں ہر وہ کام چھوڑ دیتے ہیں جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے، افسوس میں اپنے اندر ابھی اتنا حوصلہ محسوس نہیں کر پا رہی ہوں، مگر اتنا ضرور سمجھتی ہوں کہ میں عبایا استعمال کر کے سکون محسوس کرونگی اور یقیناَ یہ کام مجھے اپنے رب کی جانب مزید قریب لے جائے گا۔پلیز آپ منع مت کریں‘‘
’’ارے ۔۔۔ تو ماضی میں کیوں نہیں کیا یہ کام، کرتیں ناں مجھ سے پردہ، اپنی صورت دکھا کر مجھ پر ڈورے ڈالے اور اب کہتی ہو عبایا پہنو گی، پردہ کروگی۔۔۔‘‘
سمیر ایک بار پھر بے قابو ہو گیا ۔۔۔ صفیہ سر پر ہاتھ رکھے بستر پر دراز ہوگئی اسکی آنکھوں سے دو قطرے نکل کر بستر پر بچھی چادر میں جذب ہوگئے۔
’’ارے صٖفوبیٹا ۔۔۔۔ سمیر کو لے کر نیچے آجائو۔۔۔ افطار ہونے کو ہے ۔۔۔۔ ‘‘
نیچے سے آتی سمیر کے ابو کی آواز نے کمرے میں جاری سمیر کی چلتی زبان پر بریک لگا دیا ۔۔۔اورمیاں بیوی دونوں کچھ کہے بنا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
***
’’اماں جان ۔۔۔ میں کل اعتکاف میں بیٹھ رہا ہوں‘‘
سمیر نے آفس سے واپس آتے ہی گھر میں جیسے اعلان کردیا۔صفیہ کا منہ سمیر کو سلام کے لئے کھلے کا کھلا ہی رہ گیا، سدرہ بیگم کا ہاتھ پکوڑوں کے لئے آلو کاٹتے کاٹتے رک گئے، حمید بیگم بھی مبہوت ہو کر سمیر کو ایسے دیکھنے لگیں کہ جیسے ان کو شک ہو کہ گھر میں آنے والا سمیر نہ ہوا الف لیلی کی داستان کا کوئی کردار ہوا۔۔۔
دلاور صاحب نے اخبار پکڑے پکڑے کھنکارتے ہوئے کہا
’’برخوردار کیا بولے؟؟؟ ۔۔۔۔ اور جو بولے ہو کیا تم ہی بولے ہو؟؟؟؟‘‘
’’جی جی اباجان میں ہی بولا ہوں ، اور میں نے آفس سے چھٹیاں بھی لے لی ہیں ۔۔۔ بس اب کل سے میںاعتکاف میں ہونگا ۔۔۔۔‘‘
تمام گھر ہی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔آخر بات ہی ایسی تھی جمعہ کی جمعہ نماز پڑھنے والا اعتکاف میں بیٹھنےکی بات کر رہا تھا۔سب حیران تھے اور سمیر خوش تھا بہت خوش۔۔۔ آخر دس روز اسکو سکون کے نصیب ہونے والے تھے۔ اماں جان اور خالہ جان کی روک ٹوک سے آزاد دن اور پھر عید کے بعد تو خالہ جان کو چلے ہی جانا تھا اور اماں جان کی روک ٹوک میں واضح کمی آ جانی تھی۔آخر بہن کے آنے ہی سے ان کو شہہ ملی تھی۔ورنہ تو سمیر سے الجھنے سے سب ہی بچتے تھے۔بلا کھٹکے زبان چلانا سمیر کی عادتوں میں شامل ہو چکا تھا۔ سمیر نے رمضان کا آخر ی عشرہ مسجد میں اپنی ساس اور ماں کی روک ٹوک سے آزاد گزار نے کا فیصلہ کیا۔ اور ہوا بھی یہ ہی، اعتکاف کیا تھا یار دوستوں کی دس دن کی محفل تھی۔ جہاں سمیر کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ بس ایک مشقت تھی اور وہ تھی پانچ وقت کی نماز، جمعہ کے نمازی کو پانچ وقت کی نماز بھاری تو لگ رہی تھی مگر پھر بھی وہ یہ کام خوش دلی سے کر تا رہا تھا اورکسی قسم کے بدلے کی نیت کے بنا ، بغیر کسی لالچ وہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتا رہا ۔
اللہ اللہ کر کے رمضان کا آخری عشرہ اختتام پذیر ہونے کو تھا ۔ کل عید تھی اور سمیرکو بے انتہا خوشی ۔۔۔
’’اب جلد ہی عید کے بعد خالہ جان سے جان چھوٹ جائے گی، نسیم کراچی آکر انھیں لے جائے گا اور میں انکی فضول کی نصیحتوں سے بچ جائوں گا‘‘
اپنے آپ میں بڑبڑاتے ہوا سمیر مسجد سے باہر نکل کر کچھ ہی فاصلہ طے کر پایا تھا کہ اسے گبھراہٹ شروع ہوگئی، بے چینی نے اس کو دبوچ لیا،اسکو اپنی ہی آنکھیں چبھنے لگیں،وہ دیوانہ وار اپنے چاروں جانب دیکھنے لگے۔خوف اور دہشت اس کے انگ انگ سے جھلک رہا تھا۔ اسکو اپنےاردگرد جھلسے ہوئے چہرے نظر آ نے لگے،کوئلے کی مانند سیاہ، اور خون سے تر چلتے پھرتے جلے ہوئے گوشت کے لوتڑے۔ چاند رات کی گہماگہمی میں گھر سے باہر نکلی رنگ برنگی تتلیاں، انکے نظارے اس کی آنکھوں کو تکلیف پہنچانے لگے تھے۔وہ بد حواس اور خوفزدہ ہوکر الٹے قدموں مسجد کی جانب پلٹ پڑ، اور مسجد کے صحن میں اردگرد سے ہوکر غافل اپنے رب کی بارگاہ میںمودب حاضر ہوگیا ۔اس کی زبان سے زیادہ اسکی آنکھوں سے رواں آنسو رب سے کلام کر رہے تھے۔۔۔۔وہ رواں رواں کانپ رہا تھا۔اغراض کی فہرست کے بنا پڑھی جانے والی نمازوں کے سبب برسوں سے پڑا پردہ پل بھر کے لئے باری تعالی کی رضا سے اسکی آنکھوں پر سے ہٹا دیا گیا تھااوربے پردہ حسین چہرے اپنے بھیانک اور اذیت ناک انجام کے ساتھ اس پر عیاں کر دئیے گئے تھے۔
’’مالک تو کریم ہےتو رحیم ہے، اور میں تیرہ ظالم بندہ ہوں جس نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے، معافی مانگتا ہوں تجھ سے اور سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری رحمت کا۔۔۔۔۔‘‘
دعا مانگتے مانگتے سمیر کی بند آنکھوں میں پل بھر کے لئے روشنی ہوئی اور اسکے دل کو قرار آگیا۔۔ دعا سے فارغ ہو کر سمیر نے اپنی جیب ٹٹولی اور پھر مسکراتا ہوا مسجد سے باہر آگیا۔
از س ن مخمور
’’میرے رب میں خطاکار ہوں گناہ گار ہوں مگر تو رحیم ہے ، کریم ہے یہ تیری ہی عطا کہ میری موت سے پہلے تو نے مجھے معافی مانگنے کی توفیق دی، مالک کرم فرمامیرے حال پر، گناہوں کی لذت سے آلودہ دل کو پاک فرما دے، میں تیرا ہی بندہ ہوں مجھے معاف فرما دے، اے اللہ توقدیر ہے ہر شے پر تیری قدرت قائم ہے، مالک توچاہے تو میری گرفت کر لے اور چاہے تو مجھے معاف کر دے، رب میں تو تیری رحمت ہی پر نگاہیں جمائے تیرے حضور حاضر ہوا ہوں، مجھے خوف ہے تیری گرفت کا، مجھے خوف ہے آخرت میں رسوائی کا، مالک مجھے میرے حال پر مت چھوڑ، خالق تیرا بندہ ہوں مجھے جہنم کی آگ سے بچالے۔۔۔۔‘‘
مسجد کے صحن میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے،آنسوئوں سے لبریز بھیگا ہوا دامن لئے ، اردگرد سے مکمل غافل ہو کر سمیر اپنی گزری زندگی پر خالق کل جہان کے حضور گڑگڑا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوئوں میں اسکی زندگی کا گزرا ایک ایک آلودہ آنسو اسکی روح کا ساتھ چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔
***
’’سمیر دیکھو میرا نیا سوٹ کیسا لگ رہا ہے ‘‘
صفیہ نے سمیر کے آگے لباس کے اشتہار میں کام کرتی کسی ماڈل کی طرح لہراتے ہوئے سوال کیا اور پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی، مگر دوسرے ہی پل اس کی مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ سمیر کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمایاں تھے۔۔۔۔
’’ یہ کیا سلوا لیا تم نے؟؟ کیا کسی آنٹی کا ناپ تو نہیں دے دیا تھا ٹیلر کو؟؟پورا شامیانہ لگ رہا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب اتنے پیارے سوٹ کو آپ ایسا کہہ رہے ہیں؟؟ اب تنگ مت کریں مجھے۔۔۔۔‘‘
صفیہ نے سمیر کی ناراضگی کوسنجیدہ نہ لیتے ہوئے کہا ، مگر سمیر کو حقیقت میں صفیہ کا سوٹ پسند نہیں آیا تھا۔
’’مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ؟؟؟ دنیا آگےجا رہی ہے اور تم وہی دقیانوسی انداز اپنائے ہوئے ہو، اتنے مہنگے کپڑے کا ناس مار دیا تم نے، کچھ تراش خراش کا، بہترین فٹنگ کا سوٹ سلواتیں ، اس کے بجائے جبہ سلوا کر خوش ہو رہی ہو، دل جلا کے خاک کر دیا۔۔۔‘‘
’’سمیرکیا گیا ہے آپ کو؟؟کپڑے تن چھپانے کےلئے ہوتے ہیں اسکی نمائش کے لئے نہیں، دنیا اگر غلط سمت میں جائے گی تو کیا ضروری ہے اسکے غلط انداز کو بھی اپنایا جائے‘‘
’’میں کب کہہ رہا ہوں تم بدن کی نمائش کرو مگر فٹنگ کا سوٹ تو پہن ہی سکتی ہو ناں؟؟؟ کپڑا پہنو تو ایسا تو پہنو کے اپنا لگے یہ ڈھیلاڈھیلا لباس لگ رہا ہے بڑی آپا کا مانگ کر پہن لیا ہو۔۔۔ اسٹوپڈ۔۔۔۔؟؟‘‘
’’کپڑا ایساپہنا چا ہئیےجس سے نہ جسم جھلکے اور نہ ہی اسکےخال وخد نمایاں ہوں ، مجھے تو یہ ہی تعلیم میری ماں نے دی ہے اور میرے مذہب نے بھی۔۔۔۔‘‘
صفیہ کو بھی اب غصہ آ گیا تھا۔
’’کیا مطلب کیا تم کہنا چاہتی ہو کہ میرا اور تمہارا مذہب مختلف ہے؟؟؟کان کھول کر سن لو تم میری بیوی ہو اور بیوی کا کام شوہر کی رضا میں ہنسی خوشی جینا ہوتا ہے میں تم کو کیسا ہی لباس پہننے کو کہوں تم کو پہننا چاہیئے ، آگے اللہ اور میرا معاملہ ہے ، تم کو تو بس میری اطاعت کرنا چاہیئے۔۔۔‘‘
’’سمیر!اللہ کے غضب سے ڈریں ، پلیز اب مزید کچھ نہ بولیں ، میں یہ سوٹ ہی نہیں پہنوں گی۔۔۔‘‘
صفیہ نے روتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی مگر سمیر کہ تو جو منہ میں آ رہا تھا بولتا چلا گیا۔۔۔۔
سمیر اور صفیہ کی شادی کو تیسرا سال ہونے کو آ رہا تھا،اور اب جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے ۔سمیر اور صفیہ میں تلخی بڑھتی جا رہی تھی۔صفیہ ہوش منداور سلجھی ہوئی عورت ہونے کے ناطےمسلسل لچک کا مظاہرہ کر رہی تھی کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ قائم رشتے کو اس نے اور سمیر ہی نے ٹوٹنے سے بچانا ہےمگر سمیر کی اپنی ہی بات قائم رکھنے کی بری عادت اسکی ہر اچھائی کو گن کی مانند چاٹ رہی تھی۔صفیہ کو بے انتہا چاہنے کے باوجود کوئی ہفتہ ایسا نہ گزرتا تھا جب دونوں کی آپس میں تو تو میں میں نہ ہو۔گھر کے بڑوں نے بھی اب تو سمیر کو اسکی حالت پر چھوڑ دیا تھا کوئی اس سے الجھتا نہیں تھا ظاہر سی بات تھی والدین جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تو کئی معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور کچھ معاملات اولاد انکے ہاتھوں میں رہنے نہیں دیتی۔
دور جدید کی انتہائی جدید انداز سے بگڑی ہوئی نسل سے تعلق رکھنے والا سمیر بےحد جذب نظر تھا۔ اپنی خالہ زاد کزن صفیہ سے اس کی شادی والدین کی رضامندی اور باہمی محبت کا نتیجہ تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سمیرکی عادات میں لگا مان مانی اور اپنی جانب سے بے سروپا منطق پیش کرنے کا گن اسکی خوبیوں پر سیاہی مل رہا تھا۔
***
’’اف۔۔۔!! دماغ خراب کر دیا ہے خالہ جان نے، اور جب سے یہ آئی ہیں گھر میں اماں جان نے بھی محاذ کھول لیا ہے ، میری شکل دیکھی اور ہوگئیں دونوں شروع نصیحتوں کا نہ ختم ہونے والا لیکچر دینے۔۔۔‘‘
سمیر آفس سے آیا اپنے کمرے میں بستر پر نیم دراز ناگواری کے عالم میں بڑبڑانے میں مصروف تھا۔
سمیر کی ساس اور خالہ حمیدہ بیگم اپنے بیٹے اور بہو کیساتھ زندگی کے دن گزار رہی تھیںمگر ملازمت کے سلسلے میں اچانک سمیر کے سالے کو کراچی سے گلگت روانہ ہونا پڑا۔کمپنی کی جانب سے گیسٹ ہائوس کی سہولت توتھی مگر فیملی کا ساتھ ہونا لازمی تھا اس لئے نسیم نے اپنی بیگم کو بھی ساتھ لیجانا مناسب سمجھا تاکہ رہائش کے لئے ادھر ادھر بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے۔ چونکہ نسیم کا جانا عارضی نوعیت کا تھا اورحمیدہ بیگم سمجھتی تھیں کہ کراچی اور گلگت کے موسم کا فرق اس عمر میں وہ برداشت نہیں کر سکتیں اس لئے انہوں نے نسیم کے ساتھ جانا مناسب نہ سمجھا۔ اور چھوٹی بہن کو بڑی بہن یعنی سمیر کی امی سدرہ بیگم نے پورے رمضان اپنے گھر مدعو کر لیا۔ صفیہ کی تو جیسے عید سے پہلے عید ہو گئی تھی اپنی ماں کا پورے ماہ کے لئےگھر پر رکنے آنا اسکو بہت اچھالگ رہا تھا مگر ہفتہ بھر ہی گزرا تھا کہ سمیر اکتا گیا۔ حمیدہ بیگم ایک بزرگ کی حیثیت سے اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ اپنے داماد کو بھی کبھی کبھار ٹوک دیتی تھیںاور بہن کے بولنے پر سمیر کی امی بھی ہمت پکڑ لیتی تھیں ۔ اور یہ ہی سب کچھ سمیر کو برا لگنے لگا تھا۔
***
’’ ارے ۔۔۔ آپ نے ابھی تک کپڑے تبدیل نہیں کئے، افطار میں ویسے ہی وقت کم رہ گیا ہے، جلدی سے نیچے آجائیں ۔۔۔‘‘
صفیہ نے آدھے کھلے کمرے کے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے کہا
’’ میری شہزادی یہ تو بتائو ۔۔ آج افطار میںکیا ہے؟؟‘‘
سمیرنے محبت سے صفیہ کو اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا
شامت کی ماری صفیہ کو سمیرکے اس محبت بھرے انداز نے پھر دھوکہ دے دیا اور کئی دنوںسے دبی خواہش باتوں باتوں میں اسکے لبوں پر آگئی
’’سنیں ۔۔۔ وہ آپ مجھے عبایا دلانے بازار لے چلیں گے؟؟‘‘
’’عبایا!!! ۔۔۔۔ کیا مطلب ؟؟ خیر تو ہے؟؟‘‘
’’وہ مجھے اب یوں بغیر عبایا کے باہر آنا جانا عجیب سا لگتا ہے، ویسے بھی یہ تو اچھی بات ہی ہے۔۔ ہے نا ‘‘
’’صفیہ تمہارا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔۔ یہ بتائو کیاآج کل تم نے کوئی نئی دوستی کی ہے ؟؟جو عجیب بہکی بہکی باتیں کرنے لگی ہو، پچھلے ہفتے شامیانہ سلوا کر خوش ہو رہی تھیں آج تم عبایا لانا چاہتی ہو؟؟؟ لاٹری بن کر بازاروں میں گھوم پھر کر کیا سمجھتی ہو محفوظ رہوں گی ؟؟ بھوکے بھیڑیوں کی نظروں سے؟؟‘‘
’’سمیر سمجھیں نا۔۔۔ پلیز غصہ مت کریں۔۔۔ بات محفوظ رہنے کی نہیں بلکہ اللہ کے کہے گئے احکام پورا کرنے کی ہے‘‘
’’واہ ۔۔واہ ۔۔ خوب کہی تو پہلے دیگر احکام پورے کرو پھر پردہ کرنا ۔۔۔۔ عبایا پہننا ۔۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘
’’یہ کیسی بات کہہ رہے ہیں آپ؟؟؟ انسان ضروری تو نہیں ایک دم تمام احکام پر عمل کر ے، ہوتے ہیں ایسے بھی جو ایک ہی مرتبہ میں ہر وہ کام چھوڑ دیتے ہیں جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے، افسوس میں اپنے اندر ابھی اتنا حوصلہ محسوس نہیں کر پا رہی ہوں، مگر اتنا ضرور سمجھتی ہوں کہ میں عبایا استعمال کر کے سکون محسوس کرونگی اور یقیناَ یہ کام مجھے اپنے رب کی جانب مزید قریب لے جائے گا۔پلیز آپ منع مت کریں‘‘
’’ارے ۔۔۔ تو ماضی میں کیوں نہیں کیا یہ کام، کرتیں ناں مجھ سے پردہ، اپنی صورت دکھا کر مجھ پر ڈورے ڈالے اور اب کہتی ہو عبایا پہنو گی، پردہ کروگی۔۔۔‘‘
سمیر ایک بار پھر بے قابو ہو گیا ۔۔۔ صفیہ سر پر ہاتھ رکھے بستر پر دراز ہوگئی اسکی آنکھوں سے دو قطرے نکل کر بستر پر بچھی چادر میں جذب ہوگئے۔
’’ارے صٖفوبیٹا ۔۔۔۔ سمیر کو لے کر نیچے آجائو۔۔۔ افطار ہونے کو ہے ۔۔۔۔ ‘‘
نیچے سے آتی سمیر کے ابو کی آواز نے کمرے میں جاری سمیر کی چلتی زبان پر بریک لگا دیا ۔۔۔اورمیاں بیوی دونوں کچھ کہے بنا سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
***
’’اماں جان ۔۔۔ میں کل اعتکاف میں بیٹھ رہا ہوں‘‘
سمیر نے آفس سے واپس آتے ہی گھر میں جیسے اعلان کردیا۔صفیہ کا منہ سمیر کو سلام کے لئے کھلے کا کھلا ہی رہ گیا، سدرہ بیگم کا ہاتھ پکوڑوں کے لئے آلو کاٹتے کاٹتے رک گئے، حمید بیگم بھی مبہوت ہو کر سمیر کو ایسے دیکھنے لگیں کہ جیسے ان کو شک ہو کہ گھر میں آنے والا سمیر نہ ہوا الف لیلی کی داستان کا کوئی کردار ہوا۔۔۔
دلاور صاحب نے اخبار پکڑے پکڑے کھنکارتے ہوئے کہا
’’برخوردار کیا بولے؟؟؟ ۔۔۔۔ اور جو بولے ہو کیا تم ہی بولے ہو؟؟؟؟‘‘
’’جی جی اباجان میں ہی بولا ہوں ، اور میں نے آفس سے چھٹیاں بھی لے لی ہیں ۔۔۔ بس اب کل سے میںاعتکاف میں ہونگا ۔۔۔۔‘‘
تمام گھر ہی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔آخر بات ہی ایسی تھی جمعہ کی جمعہ نماز پڑھنے والا اعتکاف میں بیٹھنےکی بات کر رہا تھا۔سب حیران تھے اور سمیر خوش تھا بہت خوش۔۔۔ آخر دس روز اسکو سکون کے نصیب ہونے والے تھے۔ اماں جان اور خالہ جان کی روک ٹوک سے آزاد دن اور پھر عید کے بعد تو خالہ جان کو چلے ہی جانا تھا اور اماں جان کی روک ٹوک میں واضح کمی آ جانی تھی۔آخر بہن کے آنے ہی سے ان کو شہہ ملی تھی۔ورنہ تو سمیر سے الجھنے سے سب ہی بچتے تھے۔بلا کھٹکے زبان چلانا سمیر کی عادتوں میں شامل ہو چکا تھا۔ سمیر نے رمضان کا آخر ی عشرہ مسجد میں اپنی ساس اور ماں کی روک ٹوک سے آزاد گزار نے کا فیصلہ کیا۔ اور ہوا بھی یہ ہی، اعتکاف کیا تھا یار دوستوں کی دس دن کی محفل تھی۔ جہاں سمیر کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ بس ایک مشقت تھی اور وہ تھی پانچ وقت کی نماز، جمعہ کے نمازی کو پانچ وقت کی نماز بھاری تو لگ رہی تھی مگر پھر بھی وہ یہ کام خوش دلی سے کر تا رہا تھا اورکسی قسم کے بدلے کی نیت کے بنا ، بغیر کسی لالچ وہ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتا رہا ۔
اللہ اللہ کر کے رمضان کا آخری عشرہ اختتام پذیر ہونے کو تھا ۔ کل عید تھی اور سمیرکو بے انتہا خوشی ۔۔۔
’’اب جلد ہی عید کے بعد خالہ جان سے جان چھوٹ جائے گی، نسیم کراچی آکر انھیں لے جائے گا اور میں انکی فضول کی نصیحتوں سے بچ جائوں گا‘‘
اپنے آپ میں بڑبڑاتے ہوا سمیر مسجد سے باہر نکل کر کچھ ہی فاصلہ طے کر پایا تھا کہ اسے گبھراہٹ شروع ہوگئی، بے چینی نے اس کو دبوچ لیا،اسکو اپنی ہی آنکھیں چبھنے لگیں،وہ دیوانہ وار اپنے چاروں جانب دیکھنے لگے۔خوف اور دہشت اس کے انگ انگ سے جھلک رہا تھا۔ اسکو اپنےاردگرد جھلسے ہوئے چہرے نظر آ نے لگے،کوئلے کی مانند سیاہ، اور خون سے تر چلتے پھرتے جلے ہوئے گوشت کے لوتڑے۔ چاند رات کی گہماگہمی میں گھر سے باہر نکلی رنگ برنگی تتلیاں، انکے نظارے اس کی آنکھوں کو تکلیف پہنچانے لگے تھے۔وہ بد حواس اور خوفزدہ ہوکر الٹے قدموں مسجد کی جانب پلٹ پڑ، اور مسجد کے صحن میں اردگرد سے ہوکر غافل اپنے رب کی بارگاہ میںمودب حاضر ہوگیا ۔اس کی زبان سے زیادہ اسکی آنکھوں سے رواں آنسو رب سے کلام کر رہے تھے۔۔۔۔وہ رواں رواں کانپ رہا تھا۔اغراض کی فہرست کے بنا پڑھی جانے والی نمازوں کے سبب برسوں سے پڑا پردہ پل بھر کے لئے باری تعالی کی رضا سے اسکی آنکھوں پر سے ہٹا دیا گیا تھااوربے پردہ حسین چہرے اپنے بھیانک اور اذیت ناک انجام کے ساتھ اس پر عیاں کر دئیے گئے تھے۔
’’مالک تو کریم ہےتو رحیم ہے، اور میں تیرہ ظالم بندہ ہوں جس نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے، معافی مانگتا ہوں تجھ سے اور سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری رحمت کا۔۔۔۔۔‘‘
دعا مانگتے مانگتے سمیر کی بند آنکھوں میں پل بھر کے لئے روشنی ہوئی اور اسکے دل کو قرار آگیا۔۔ دعا سے فارغ ہو کر سمیر نے اپنی جیب ٹٹولی اور پھر مسکراتا ہوا مسجد سے باہر آگیا۔
***
اگلے دن کی صبح معمول سے زیادہ روشن تھی۔گھر کے درو دیوار سے روشنی پھوٹ رہی تھی، باپ بیٹا عید کی نماز پڑھنے گئے ہوئے تھےاوردونوں بہنیں باورچی خانے کا نظام سنبھالے ہوئے تھیں اور صفیہ وہ کہاں تھی۔ سچ وہ تو آسمانوں میں اڑ رہی تھی۔۔۔ وہ آج بہت خوش تھی اور خوشی کی تو بات تھی ۔ سمیر نے اسکو چاند رات کا تحفہ’’ عبایا‘‘ کی صورت میں جو دیا تھا۔