میں ہمیشہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوتا رہا اور شاید یہی وجہ تھی کہ میرے گرد دوستوں کا ایک غفیر ہجوم سا رہتا تھا۔ جن کی میں نہ صرف کلاس میں بلکہ کمرہِ امتحان میں بھی مدد کر دیا کرتا تھا۔یوں تو میرے اچھے کئی دوست تھے مگر اعجاز اُن میں سب سے زیادہ منفرد تھا۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک بہت جی دار اور یار باش لڑکا تھا ۔ وہ اسکول کےزمانےسے ہی میرے ساتھ تھا اور اُس نے ہمیشہ استادوں سے میرے لئے مار کھائی تھی کہ شرارت میں کرتا تھا اور وہ اپنے آپ کو مار کے لئے پیش کر دیتا تھا۔
اسکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی میں بھی اُس کا ساتھ رہا اور ایک عجیب سی اُنسیت ہمارے درمیان پیدا ہوگئی تھی اور سچی بات تو یہ تھی کہ وہ یہاں یونیورسٹی میں بھی میری نقل کر کے ہی پہنچا تھا۔ یونیورسٹی میں آکر اس نے اپنی جی داری کے باعث ایک سیاسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا شمار سیاسی تنظیم کے اعلیٰ عہدیداران میں ہونے لگا ۔ پھر گو کہ اُس کو میری اتنی ضرورت نہیں رہی مگر پھر بھی وہ کبھی میرے پاس آکر کچھ وقت ضرور گذارتا۔ میں ہمیشہ اُس سے کہتا کہ ” یار! دیکھ یہ سب سیاسی تنظیمیں کسی کو کچھ نہیں دیتیں ، بس چند سالوں کی عیاشی، پھر کسی بھٹکی گولی کا نشانہ یا پھر عمر بھر کی جیل ” وہ ہمیشہ میری بات ہنس کر اُڑا دیتا اور کہتا ” میں اسٹیج پر کھڑا ہو کر کوئی ڈرامہ کرنے والا ایکٹر نہیں ہوں میرے یار ۔۔ میں پسںِ پردہ رہتا ہوں اور ویسے بھی میرے ساتھ باڈی گارڈز کی فوج ہوتی ہیں ۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہونے والا تُو میری فکر نہ کیا کر ۔۔۔ ”
یہ سچ بھی تھا کہ لوگ اب اُس سے ڈرنے لگے تھے ۔ میں بھی اُس سے کترانے لگا تھا مگر وہ مجھے یونیورسٹی کے علاوہ کہیں اور گھیر لیتا اور میری بڑی خاطر کرتا۔ مجھے کہتا تھا کہ جب تو انجینیئرنگ کر لے گا تو میں تجھے میں شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں پارٹی دوں گا۔
دن گذرتے رہے میں بلآخر یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی ڈگری لینے میں کامیاب ہوگیا مگر وہ مجھے پارٹی نہ دے سکا کہ اُس وقت وہ جیل میں تھا۔ اتفاق سے اُنہی دنوں مجھے مڈل ایسٹ میں ایک بہترین جاب مل گئی اور میں وہاں چلا گیا مگر مجھے جیل سے اُس کا پیغام ملا کہ ”میں نے اپنا وعدہ تو پُورا نہیں کیا مگر جب تو واپس آئے گا تو میں تجھے ایسا سر پرائیز دوں گا کہ مرتے دَم تک مجھے یاد کرے گا”۔ میں نے اُس کا پیغام سنا اور یہ سوچتے ہوئے اپنی مستقبل کے سفر پر روانہ ہوگیا کہ اب وہ مجھے کیا سر پرائیز دے گا۔ جیل کی سلاخیں ہی اب اُس کا مقدر ہے اب کون سا اُسے باہر آنا ہے۔
میں دو سال مسلسل ملک سے باہر رہا اور بہت پیسہ اور عزت کمائی ۔دو سال بعد میں پہلی دفعہ چھٹیوں پر پاکستان آیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ائیر پورٹ پر کسی نے میرے بےتحاشہ سامان کی کوئی تلاشی نہیں لی اور میں امیگریشن کے تمام مراحل سے بھی کسی مشکلات کے بغیرائیر پورٹ سے باہر نکل آیا۔
ائیر پورٹ سے باہر نکل کر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ملا اور میں اُن کے ساتھ لابی سے باہر نکلا ہی تھا کہ مجھے ائیر پورٹ کے ڈرائیو وے میں اعجاز کھڑا نظر آیا ۔ وہ یقیناً اپنی ہی ہنڈا اکارڈ کی چھت پر کہنی ٹکائے مجھے مسکرا کر دیکھ رہا تھا اور اُس کے گرد محافظوں کا ایک ہجوم سا تھا۔ مجھے یقین آگیا کہ ائیر پورٹ پر میرے ساتھ جو مہربانی کی گئی ہے وہ سب اعجاز کی ہی مرہونِ منت ہے۔
میں آگے بڑھا مگر وہ پہلے ہی میری طرف بڑھ چکا تھا ، ہم دونوں بغلگیر ہوئے ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اُس نے مسکرا کر جواب دیا ” رہنے دے یار ۔۔۔۔ یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ۔۔۔ تُو سُنا ۔۔۔ بلکل ہی بھول گیا مجھے ۔۔۔ کیا خیال تھا کہ مجھے وہیں اب جیل میں سڑنا ہے ” میں جھنیپ سا گیا اور کہا ” اب میں آگیا ہوں اپنا وعدہ پورا کر میرا تحفہ ۔۔۔ ؟ ”
وہ ہنس پڑا ۔۔ اور کہا بے فکر رہ ۔۔۔ مجھے اپنا وعدہ یاد ہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تو آرہا ہے تو میں نے اُس کی تیاری بھی کر لی ہے ۔۔۔اب تُو گھر جا ۔۔۔ ایک دو روز میں تجھ سے رابطہ کرتا ہوں۔
ٹھیک دوسرے روز اُس کا فون گھر آگیا ۔ مجھے کہا کہ میں آرہا ہوں تیار رہنا ۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ میں تیار رہوں گا ۔ پاپا نے مجھے فون رکھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ” کس کا فون تھا ۔؟” میں نے کہا اعجاز کا ۔۔۔۔ کہنے لگے بیٹا ! اعجاز اب وہ نہیں رہا جو کبھی تھا اب اُس کا شمار بہت ہی خطرناک لوگوں میں ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ایک سیاسی تنظیم صرف اسی کی وجہ سے چل رہی ہے ۔ اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔ جواب میں صرف میں نےاتنا کہا ۔۔۔ جی بہتر پاپا ۔
مجھے اشتیاق ہو چلا تھا کہ آخر وہ کون سا سر پرائیز ہے جو وہ مجھے دیناچاہتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔ میں گھر سے نکلا تو دیکھا وہ اپنی گاڑی میں تھا اور خلافِ توقع اُس کے ساتھ ایک باڈی گارڈز کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ۔ جو کہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آج تیری برات کہاں ہے ؟ تو کھکھلا کر ہنس پڑا ۔۔۔ کہنے لگا کہ میں خاص اور ذاتی موقع پر اُن کو فارغ کردیتا ہوں۔ میں نے حیرت سے سوال کیا کہ کیوں آج کون سا خاص موقع ہے ۔ تو کہنے لگا کہ تُو دیکھ لے گا ۔ میں کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں خاموش ہوگیا۔ میں نے اتفاقاً گھڑی پر نظر ڈالی تو اُس وقت شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔
دورانِ سفر مجھے احساس ہوا کہ ہمارا سفر نارتھ کراچی سے گلشنِ اقبال کی طرف ہے ۔۔۔ وہ راستے بھر مجھے اپنی کارکردگی کے بارے میں بتاتا رہا اور وقفے وقفے موبائل فون پر کسی سے دبے دبے الفاظ میں بے معنی گفتگو بھی کرتا رہا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا ۔۔۔ایک عجیب پُراسرار سا ماحول گاڑی میں تخلیق ہوچکا تھا جس کی وجہ سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں میں نے اُس کے ساتھ آنے میں کوئی غلطی تو نہیں کی۔
گلشنِ اقبال کے ایک مہنگے سے بلاک میں اُس نے اپنی گاڑی ایک بنگلے کے پاس روک دی اور ہم سب گاڑی میں سے اُتر کر بنگلے میں داخل ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ یہاں پہلے سے ہی اُس کے کچھ باڈی گارڈز موجود تھے جو ہمیں دیکھتے کےساتھ ہی باہر نکل گئے۔ اب میں اعجاز اور اُس کا وہی باڈی گارڈ رہ گیا جو شروع سے ہمارے ساتھ تھا۔ اعجاز نے اب میرا تعارف اُس باڈی گارڈ سے کروایا اور کہا کہ یہ میرا سب سے زیادہ قابلِ اعتماد آدمی ہے اور صیح بات تو یہ ہے کہ اسی نے مجھے تمہارے تحفے کا آئیڈیا دیا۔ میں نے کہا یار ۔۔۔۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر تًم سب اتنی پُراسراریت کیوں دیکھا رہے ہو۔ ؟ سب ٹھیک ہے نا ۔۔۔ ؟ ۔ یہ سن کر وہ مسکرانے لگا اور کہا ” ۔۔۔ یار ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تُو کتنا بے چین ہورہاہے ۔۔۔ سامنے کمرے میں جا اور دیکھ لے کہ ہم تیرے لئے کیا لائے ہیں اور ہمیں یہاں شغل کر لینے دے ۔ تب میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے لیئے مہ نوشی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے ۔ میں کمرے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اعجاز کو تو اُس کی حد سے بڑھی ہوئی بہادری تباہی کی طرف لے گئی مگر مجھے کیا ہوا کہ میں اس کے ساتھ یہاں تک آگیا مگر معاملے کی پُراسراریت نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اس معاملے کی تہہ تک پہنچوں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میں کمرے کے اندرپہنچ گیا۔
کمرے میں جو میں نے دیکھا تو وہ میرے ہوش اُڑانے کے لیے کافی تھا۔ کمرے میں ایک لڑکی تھی ۔ جس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ اُ س کے جسم پر کالج کا یونیفارم تھا ۔۔۔۔ وہ بمشکل چوبیس سال کی رہی ہوگی ۔ چہرہ بے شک بہت خوبصورت ہوگا مگر اس وقت دہشت اور خوف سے بگڑا ہوا تھا۔ میں نے صدمے سے سُن جسم کے ساتھ اُس کی طرف قدم بڑھا تو وہ بُری طرح کسمسائی اور اُس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں خوف کے سائے مذید گہرے ہوگئے۔ مجھے سب قصہ سمجھ آگیا ۔ صدمے کی جگہ غصے نے لے لی ۔۔۔۔ اور میں واپس اُسی قدموں پلٹا اور وہیں پہنچ گیا جہاں وہ دونوں مہہ نوشی میں مشغول تھے ۔ مجھے آتا دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہوگئے ۔ میں نے آگے بڑھ کر جھٹ سے اعجاز کا گربیان پکڑ لیا اور ایک زوردار تھپڑ اُس کے رخسار پر لگایا۔ یہ دیکھ کر اُس کے باڈی گارڈ نے اپنی گن میرے سر پر رکھ دی ۔ مگر میں اسقدر غصے میں تھا کہ میں نے اُس کی کوئی پروا نہیں کی اور کہا ۔۔۔ تُو نے کیا سوچ کر میرے لئے اس تحفے کا انتظام کیا ہے ۔ تُو میرے ساتھ برسوں رہا ۔۔۔ کیا کبھی میرے کسی بات یا رویئے سے تجھے ایسا لگا کہ میں ایسی حرکت کروں گا ۔ تو نے میری دوستی کا مان توڑ دیا ۔۔۔ مجھے تجھ سے اُسی وقت تعلق قطع کر لینا چاہئے تھا۔ جب تو گروہ میں داخل ہوا تھا۔ مگر میں نے سوچا تھا کہ شاید وقت تجھ کو کچھ سکھا دے مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک دن تُو لوگوں کی عزت کے لیئے ایک خطرہ بن جائے گا۔
اُس کے باڈی گارڈ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اُسی وقت میرے سر میں سارا کا سارا میگزین خالی کردے۔ مگر اعجاز کا چہرہ پرسکون تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ ساعت بعد اعجاز نے ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا ” میں معافی چاہتاہوں ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ تُو کبھی بھی ایسی حرکت کا مرتکب نہیں ہوگا ، مگر نہ جانے کیوں مجھ سے یہ غلطی ہوئی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہے ، مجھے ویسے بھی جلدی جانا تھا ۔ اس کو کسی ٹیکسی میں واپس بھیج دو اور میرا کوئی آدمی تم کو تمھارے گھر چھوڑ دے گا ۔ ” ۔۔ میں نے کہا نہیں میری فکر نہ کرو میں خود ہی چلا جاؤں گا ۔مگر اس لڑکی کو اس کے گھر پہنچا دو۔ وہ میری شکل کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر میز پر اپنی کار کی چابی یہ کہہ کر باہر نکل گیا جو تمہاری مرضی کرو ۔ میں اب مذید یہاں نہیں ٹہر سکتا ۔
وہ مجھے حیراں و پریشان وہیں چھوڑ گیا ۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں دوبارہ اس کمرے میں داخل ہوں مگر پھر بھی میں نے اپنے قدم بڑھائے۔اندر پہنچ کر میں نے اُس لڑکی سے کہا ۔۔ دیکھئے ۔۔ میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑنا چاہتا ہوں ۔۔۔ پلیز آپ کوئی شور مت کجیئے گا ۔ یہ کہہ کر میں نے اُس کے چہرے کی جانب دیکھا تو وہ کچھ پُر سکون نظر آئی شاید وہ ہماری گفتگو سُن چکی تھی مگر چہرے پر بدحواسی بدستور موجود تھی ۔ میں نے اُس کے ہونٹوں سے کپڑا ہٹایا اور پھر اُس کے ہاتھ کھولے ۔۔۔۔ اور پھر پیچھے ہٹ گیا کہ وہ اپنے پیروں کی بندیشیں خود کھولے کہ نہ جانے اضطراری حالت میں وہ کیا کر بیٹھے۔ اُس نے اپنی پیروں کی بندیشیں کھو لیں اور رونا شروع کر دیا ۔ مجھے خود سے ہی ایک نفرت سی محسوس ہونے لگی کہ میری وجہ سے یہ اس کی عزت داؤ پر لگ گئی ہے ۔۔۔ میں نے کہا دیکھئے ۔۔۔۔ اس سارے معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں ۔۔ ایک پرانے دوست کی حماقت کی وجہ سے جو ظلم آپ پر ہوا ہے میں اُس کی تلافی تو نہیں کرسکتا مگر آپ کو عزت سے گھر چھوڑ سکتا ہوں ۔ یہ سن کر اُس نے مجھے بڑی ہی کاٹ دار نظروں سے اس طرح دیکھا کہ میں اندر تک سے ہل گیا ، مگر اُس نے کچھ کہا نہیں۔ میں نے صرف اتنا کہہ سکا کہ ” آئیے ”۔۔۔۔ اور اُس کی طرف دیکھے بغیر کمرے سے نکل آیا ۔ گیراج میں جہاں اعجاز کی گاڑی کھڑی تھی میں ہاں ٹہر کر اُس کا انتظار کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد دروازے میں اُس کی صُورت نظر آئی۔ میں خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ بھی پچھلی سیٹ پر ببیٹھ گئی۔
اُس نے مجھے جو ایڈریس بتایا وہ نارتھ ناظم آباد کا تھا ۔ میں نے خاموشی سے گاڑی سڑک پر ڈال دی۔ راستے بھی خاموشی رہی ۔۔۔ ایک دوبار میری نظر اتفاق سے عقبی آئینے پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ خاصی پر سکون ہو چکی تھی۔
میں جیسے ہی اُس کے مطلوبہ بلاک میں داخل ہوا تو اُس نے مجھے وہیں رُکنے کے لئے کہا ۔۔۔ میں نے گاڑی روک دی ۔ اُس نے کہا ” دیکھئے ۔۔۔۔ میں نے پیچھے مُڑ کر اُس کی اُنگلی کی سمت میں دیکھا تو سامنے گلی میں ایک گھر کے سامنے کافی لوگوں کا مجمع نظر آیا۔ ” یہ سب میرے گھر کے سامنے کھڑے ہیں ۔ سب کو معلوم ہے کہ آج دوپہر میرے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ اس وقت رات کو ساڑے بارہ بج رہے ہیں ۔ سب کو میرے اغوا کا تو علم ہو ہی گیا ہے مگر کسی کو یہ نہیں معلوم کہ میں جس طرح آج صبح گھر سے گئی تھی اُسی طرح واپس بھی آئی ہوں۔ کس کو یقین آئے گا ۔۔۔۔اور کون کون یقین کرے گا ۔۔۔ میرے گھر والے ، میرے محلے والے ، میرے عزیزو اقارب ، یا پھر وہ شخص جو مجھ سے شادی کرے گا ۔ آپ کے پاس اُن کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی جواب ہے ۔۔۔۔ ؟ ۔۔۔ آپ کے اُس دوست نے تو آپ کی خوشنودی کے لئے مجھے قربان کردیا ۔۔۔ میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا تو اُس نے اشارے سے مجھے روک دیا اور کہا ۔۔۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔ مگر کیا آپ کا بے قصور نہ ہونا میری کھوئی ہوئی عزت واپس لا سکتا ہے ۔ جواب دیں ۔۔ ؟ مجھ پر کسی نے اگر ترس کھا کر شادی بھی تو کی تو کیا میں اُس کو یقین دلا سکتی ہوں کہ بشریٰ کو کسی نے چھوا تک بھی نہیں اور وہ میری بات سن کر ساری زندگی میری عزت کرے گا۔ نہیں نا ۔۔۔۔ کیونکہ اگر کسی کو معلوم ہے کہ میری عزت محفوظ ہے تو وہ اللہ ہے ، یا میں ہوں یا ۔۔۔۔۔ پھر وہ آپ ہیں ۔یہ کہہ کر جب وہ خاموش ہوگئی تو میں نے کہا” میں مانتا ہوں کہ آپ پر جو قیامت گذری ہے اور جو گذرے گی اُس کا ذمہ دار میں ہوں مگر میں اب کیا کر سکتا ہوں کہ جو بھی ہوا اُس کا مجھے بھی خود علم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے ” یہ کہہ کر میں خاموش ہوگیا تو اُس نے بڑے ہی ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا ” اول تو میں اب شادی نہیں کروں گی کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی مجھ سے شادی کرے تو اُس کو یہ بات معلوم ہو کہ میں ایک عزت دار گھرانے کی ایک عزت دار لڑکی ہوں بس مجھے آپ سے یہی کہنا تھا ۔” یہ کہہ کر وہ گاڑی سے باہر نکل گئی۔
آج میری اور بشریٰ کی شادی کو پورے پانچ سال ہوچکے ہیں اور ہم انتہائی خوش وخرم زندگی بسر کررہے ہیں، اللہ نے ہمارے آنگن میں دو نّنھے مُننے پُھول بھی کھلائے ہیں ۔ احفز اور ردا ۔۔۔ جب کبھی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بشریٰ کو دیکھ کر مُسکراتا ہوں تو ایک حیا کی دبیز لہر اُس کے حسین چہرے پر چھا جاتی ہے اور اچانک ہی میری نگاہوں میں اعجاز کا چہرہ آجاتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اعجاز جیسا بھی تھا مگر اُس نے مجھے تحفہ دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اُس نے پُورا کیا اور جس کے بارے میں اُس نے کہا تھا کہ میں زندگی بھر اُسے یاد رکھوں گا۔
اسکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی میں بھی اُس کا ساتھ رہا اور ایک عجیب سی اُنسیت ہمارے درمیان پیدا ہوگئی تھی اور سچی بات تو یہ تھی کہ وہ یہاں یونیورسٹی میں بھی میری نقل کر کے ہی پہنچا تھا۔ یونیورسٹی میں آکر اس نے اپنی جی داری کے باعث ایک سیاسی تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا شمار سیاسی تنظیم کے اعلیٰ عہدیداران میں ہونے لگا ۔ پھر گو کہ اُس کو میری اتنی ضرورت نہیں رہی مگر پھر بھی وہ کبھی میرے پاس آکر کچھ وقت ضرور گذارتا۔ میں ہمیشہ اُس سے کہتا کہ ” یار! دیکھ یہ سب سیاسی تنظیمیں کسی کو کچھ نہیں دیتیں ، بس چند سالوں کی عیاشی، پھر کسی بھٹکی گولی کا نشانہ یا پھر عمر بھر کی جیل ” وہ ہمیشہ میری بات ہنس کر اُڑا دیتا اور کہتا ” میں اسٹیج پر کھڑا ہو کر کوئی ڈرامہ کرنے والا ایکٹر نہیں ہوں میرے یار ۔۔ میں پسںِ پردہ رہتا ہوں اور ویسے بھی میرے ساتھ باڈی گارڈز کی فوج ہوتی ہیں ۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہونے والا تُو میری فکر نہ کیا کر ۔۔۔ ”
یہ سچ بھی تھا کہ لوگ اب اُس سے ڈرنے لگے تھے ۔ میں بھی اُس سے کترانے لگا تھا مگر وہ مجھے یونیورسٹی کے علاوہ کہیں اور گھیر لیتا اور میری بڑی خاطر کرتا۔ مجھے کہتا تھا کہ جب تو انجینیئرنگ کر لے گا تو میں تجھے میں شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں پارٹی دوں گا۔
دن گذرتے رہے میں بلآخر یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی ڈگری لینے میں کامیاب ہوگیا مگر وہ مجھے پارٹی نہ دے سکا کہ اُس وقت وہ جیل میں تھا۔ اتفاق سے اُنہی دنوں مجھے مڈل ایسٹ میں ایک بہترین جاب مل گئی اور میں وہاں چلا گیا مگر مجھے جیل سے اُس کا پیغام ملا کہ ”میں نے اپنا وعدہ تو پُورا نہیں کیا مگر جب تو واپس آئے گا تو میں تجھے ایسا سر پرائیز دوں گا کہ مرتے دَم تک مجھے یاد کرے گا”۔ میں نے اُس کا پیغام سنا اور یہ سوچتے ہوئے اپنی مستقبل کے سفر پر روانہ ہوگیا کہ اب وہ مجھے کیا سر پرائیز دے گا۔ جیل کی سلاخیں ہی اب اُس کا مقدر ہے اب کون سا اُسے باہر آنا ہے۔
میں دو سال مسلسل ملک سے باہر رہا اور بہت پیسہ اور عزت کمائی ۔دو سال بعد میں پہلی دفعہ چھٹیوں پر پاکستان آیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ائیر پورٹ پر کسی نے میرے بےتحاشہ سامان کی کوئی تلاشی نہیں لی اور میں امیگریشن کے تمام مراحل سے بھی کسی مشکلات کے بغیرائیر پورٹ سے باہر نکل آیا۔
ائیر پورٹ سے باہر نکل کر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ملا اور میں اُن کے ساتھ لابی سے باہر نکلا ہی تھا کہ مجھے ائیر پورٹ کے ڈرائیو وے میں اعجاز کھڑا نظر آیا ۔ وہ یقیناً اپنی ہی ہنڈا اکارڈ کی چھت پر کہنی ٹکائے مجھے مسکرا کر دیکھ رہا تھا اور اُس کے گرد محافظوں کا ایک ہجوم سا تھا۔ مجھے یقین آگیا کہ ائیر پورٹ پر میرے ساتھ جو مہربانی کی گئی ہے وہ سب اعجاز کی ہی مرہونِ منت ہے۔
میں آگے بڑھا مگر وہ پہلے ہی میری طرف بڑھ چکا تھا ، ہم دونوں بغلگیر ہوئے ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اُس نے مسکرا کر جواب دیا ” رہنے دے یار ۔۔۔۔ یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں ۔۔۔ تُو سُنا ۔۔۔ بلکل ہی بھول گیا مجھے ۔۔۔ کیا خیال تھا کہ مجھے وہیں اب جیل میں سڑنا ہے ” میں جھنیپ سا گیا اور کہا ” اب میں آگیا ہوں اپنا وعدہ پورا کر میرا تحفہ ۔۔۔ ؟ ”
وہ ہنس پڑا ۔۔ اور کہا بے فکر رہ ۔۔۔ مجھے اپنا وعدہ یاد ہے ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تو آرہا ہے تو میں نے اُس کی تیاری بھی کر لی ہے ۔۔۔اب تُو گھر جا ۔۔۔ ایک دو روز میں تجھ سے رابطہ کرتا ہوں۔
ٹھیک دوسرے روز اُس کا فون گھر آگیا ۔ مجھے کہا کہ میں آرہا ہوں تیار رہنا ۔۔۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ میں تیار رہوں گا ۔ پاپا نے مجھے فون رکھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا ” کس کا فون تھا ۔؟” میں نے کہا اعجاز کا ۔۔۔۔ کہنے لگے بیٹا ! اعجاز اب وہ نہیں رہا جو کبھی تھا اب اُس کا شمار بہت ہی خطرناک لوگوں میں ہوتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ایک سیاسی تنظیم صرف اسی کی وجہ سے چل رہی ہے ۔ اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔ جواب میں صرف میں نےاتنا کہا ۔۔۔ جی بہتر پاپا ۔
مجھے اشتیاق ہو چلا تھا کہ آخر وہ کون سا سر پرائیز ہے جو وہ مجھے دیناچاہتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔ میں گھر سے نکلا تو دیکھا وہ اپنی گاڑی میں تھا اور خلافِ توقع اُس کے ساتھ ایک باڈی گارڈز کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا ۔ جو کہ آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آج تیری برات کہاں ہے ؟ تو کھکھلا کر ہنس پڑا ۔۔۔ کہنے لگا کہ میں خاص اور ذاتی موقع پر اُن کو فارغ کردیتا ہوں۔ میں نے حیرت سے سوال کیا کہ کیوں آج کون سا خاص موقع ہے ۔ تو کہنے لگا کہ تُو دیکھ لے گا ۔ میں کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں خاموش ہوگیا۔ میں نے اتفاقاً گھڑی پر نظر ڈالی تو اُس وقت شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔
دورانِ سفر مجھے احساس ہوا کہ ہمارا سفر نارتھ کراچی سے گلشنِ اقبال کی طرف ہے ۔۔۔ وہ راستے بھر مجھے اپنی کارکردگی کے بارے میں بتاتا رہا اور وقفے وقفے موبائل فون پر کسی سے دبے دبے الفاظ میں بے معنی گفتگو بھی کرتا رہا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا ۔۔۔ایک عجیب پُراسرار سا ماحول گاڑی میں تخلیق ہوچکا تھا جس کی وجہ سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کہیں میں نے اُس کے ساتھ آنے میں کوئی غلطی تو نہیں کی۔
گلشنِ اقبال کے ایک مہنگے سے بلاک میں اُس نے اپنی گاڑی ایک بنگلے کے پاس روک دی اور ہم سب گاڑی میں سے اُتر کر بنگلے میں داخل ہوگئے۔ میں نے دیکھا کہ یہاں پہلے سے ہی اُس کے کچھ باڈی گارڈز موجود تھے جو ہمیں دیکھتے کےساتھ ہی باہر نکل گئے۔ اب میں اعجاز اور اُس کا وہی باڈی گارڈ رہ گیا جو شروع سے ہمارے ساتھ تھا۔ اعجاز نے اب میرا تعارف اُس باڈی گارڈ سے کروایا اور کہا کہ یہ میرا سب سے زیادہ قابلِ اعتماد آدمی ہے اور صیح بات تو یہ ہے کہ اسی نے مجھے تمہارے تحفے کا آئیڈیا دیا۔ میں نے کہا یار ۔۔۔۔ یہ سب تو ٹھیک ہے مگر تًم سب اتنی پُراسراریت کیوں دیکھا رہے ہو۔ ؟ سب ٹھیک ہے نا ۔۔۔ ؟ ۔ یہ سن کر وہ مسکرانے لگا اور کہا ” ۔۔۔ یار ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تُو کتنا بے چین ہورہاہے ۔۔۔ سامنے کمرے میں جا اور دیکھ لے کہ ہم تیرے لئے کیا لائے ہیں اور ہمیں یہاں شغل کر لینے دے ۔ تب میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے لیئے مہ نوشی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے ۔ میں کمرے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اعجاز کو تو اُس کی حد سے بڑھی ہوئی بہادری تباہی کی طرف لے گئی مگر مجھے کیا ہوا کہ میں اس کے ساتھ یہاں تک آگیا مگر معاملے کی پُراسراریت نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اس معاملے کی تہہ تک پہنچوں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میں کمرے کے اندرپہنچ گیا۔
کمرے میں جو میں نے دیکھا تو وہ میرے ہوش اُڑانے کے لیے کافی تھا۔ کمرے میں ایک لڑکی تھی ۔ جس کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ اُ س کے جسم پر کالج کا یونیفارم تھا ۔۔۔۔ وہ بمشکل چوبیس سال کی رہی ہوگی ۔ چہرہ بے شک بہت خوبصورت ہوگا مگر اس وقت دہشت اور خوف سے بگڑا ہوا تھا۔ میں نے صدمے سے سُن جسم کے ساتھ اُس کی طرف قدم بڑھا تو وہ بُری طرح کسمسائی اور اُس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں خوف کے سائے مذید گہرے ہوگئے۔ مجھے سب قصہ سمجھ آگیا ۔ صدمے کی جگہ غصے نے لے لی ۔۔۔۔ اور میں واپس اُسی قدموں پلٹا اور وہیں پہنچ گیا جہاں وہ دونوں مہہ نوشی میں مشغول تھے ۔ مجھے آتا دیکھ کر وہ دونوں کھڑے ہوگئے ۔ میں نے آگے بڑھ کر جھٹ سے اعجاز کا گربیان پکڑ لیا اور ایک زوردار تھپڑ اُس کے رخسار پر لگایا۔ یہ دیکھ کر اُس کے باڈی گارڈ نے اپنی گن میرے سر پر رکھ دی ۔ مگر میں اسقدر غصے میں تھا کہ میں نے اُس کی کوئی پروا نہیں کی اور کہا ۔۔۔ تُو نے کیا سوچ کر میرے لئے اس تحفے کا انتظام کیا ہے ۔ تُو میرے ساتھ برسوں رہا ۔۔۔ کیا کبھی میرے کسی بات یا رویئے سے تجھے ایسا لگا کہ میں ایسی حرکت کروں گا ۔ تو نے میری دوستی کا مان توڑ دیا ۔۔۔ مجھے تجھ سے اُسی وقت تعلق قطع کر لینا چاہئے تھا۔ جب تو گروہ میں داخل ہوا تھا۔ مگر میں نے سوچا تھا کہ شاید وقت تجھ کو کچھ سکھا دے مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک دن تُو لوگوں کی عزت کے لیئے ایک خطرہ بن جائے گا۔
اُس کے باڈی گارڈ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اُسی وقت میرے سر میں سارا کا سارا میگزین خالی کردے۔ مگر اعجاز کا چہرہ پرسکون تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ ساعت بعد اعجاز نے ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا ” میں معافی چاہتاہوں ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ تُو کبھی بھی ایسی حرکت کا مرتکب نہیں ہوگا ، مگر نہ جانے کیوں مجھ سے یہ غلطی ہوئی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہے ، مجھے ویسے بھی جلدی جانا تھا ۔ اس کو کسی ٹیکسی میں واپس بھیج دو اور میرا کوئی آدمی تم کو تمھارے گھر چھوڑ دے گا ۔ ” ۔۔ میں نے کہا نہیں میری فکر نہ کرو میں خود ہی چلا جاؤں گا ۔مگر اس لڑکی کو اس کے گھر پہنچا دو۔ وہ میری شکل کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر میز پر اپنی کار کی چابی یہ کہہ کر باہر نکل گیا جو تمہاری مرضی کرو ۔ میں اب مذید یہاں نہیں ٹہر سکتا ۔
وہ مجھے حیراں و پریشان وہیں چھوڑ گیا ۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں دوبارہ اس کمرے میں داخل ہوں مگر پھر بھی میں نے اپنے قدم بڑھائے۔اندر پہنچ کر میں نے اُس لڑکی سے کہا ۔۔ دیکھئے ۔۔ میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑنا چاہتا ہوں ۔۔۔ پلیز آپ کوئی شور مت کجیئے گا ۔ یہ کہہ کر میں نے اُس کے چہرے کی جانب دیکھا تو وہ کچھ پُر سکون نظر آئی شاید وہ ہماری گفتگو سُن چکی تھی مگر چہرے پر بدحواسی بدستور موجود تھی ۔ میں نے اُس کے ہونٹوں سے کپڑا ہٹایا اور پھر اُس کے ہاتھ کھولے ۔۔۔۔ اور پھر پیچھے ہٹ گیا کہ وہ اپنے پیروں کی بندیشیں خود کھولے کہ نہ جانے اضطراری حالت میں وہ کیا کر بیٹھے۔ اُس نے اپنی پیروں کی بندیشیں کھو لیں اور رونا شروع کر دیا ۔ مجھے خود سے ہی ایک نفرت سی محسوس ہونے لگی کہ میری وجہ سے یہ اس کی عزت داؤ پر لگ گئی ہے ۔۔۔ میں نے کہا دیکھئے ۔۔۔۔ اس سارے معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں ۔۔ ایک پرانے دوست کی حماقت کی وجہ سے جو ظلم آپ پر ہوا ہے میں اُس کی تلافی تو نہیں کرسکتا مگر آپ کو عزت سے گھر چھوڑ سکتا ہوں ۔ یہ سن کر اُس نے مجھے بڑی ہی کاٹ دار نظروں سے اس طرح دیکھا کہ میں اندر تک سے ہل گیا ، مگر اُس نے کچھ کہا نہیں۔ میں نے صرف اتنا کہہ سکا کہ ” آئیے ”۔۔۔۔ اور اُس کی طرف دیکھے بغیر کمرے سے نکل آیا ۔ گیراج میں جہاں اعجاز کی گاڑی کھڑی تھی میں ہاں ٹہر کر اُس کا انتظار کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد دروازے میں اُس کی صُورت نظر آئی۔ میں خاموشی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ بھی پچھلی سیٹ پر ببیٹھ گئی۔
اُس نے مجھے جو ایڈریس بتایا وہ نارتھ ناظم آباد کا تھا ۔ میں نے خاموشی سے گاڑی سڑک پر ڈال دی۔ راستے بھی خاموشی رہی ۔۔۔ ایک دوبار میری نظر اتفاق سے عقبی آئینے پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ خاصی پر سکون ہو چکی تھی۔
میں جیسے ہی اُس کے مطلوبہ بلاک میں داخل ہوا تو اُس نے مجھے وہیں رُکنے کے لئے کہا ۔۔۔ میں نے گاڑی روک دی ۔ اُس نے کہا ” دیکھئے ۔۔۔۔ میں نے پیچھے مُڑ کر اُس کی اُنگلی کی سمت میں دیکھا تو سامنے گلی میں ایک گھر کے سامنے کافی لوگوں کا مجمع نظر آیا۔ ” یہ سب میرے گھر کے سامنے کھڑے ہیں ۔ سب کو معلوم ہے کہ آج دوپہر میرے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ اس وقت رات کو ساڑے بارہ بج رہے ہیں ۔ سب کو میرے اغوا کا تو علم ہو ہی گیا ہے مگر کسی کو یہ نہیں معلوم کہ میں جس طرح آج صبح گھر سے گئی تھی اُسی طرح واپس بھی آئی ہوں۔ کس کو یقین آئے گا ۔۔۔۔اور کون کون یقین کرے گا ۔۔۔ میرے گھر والے ، میرے محلے والے ، میرے عزیزو اقارب ، یا پھر وہ شخص جو مجھ سے شادی کرے گا ۔ آپ کے پاس اُن کو مطمئن کرنے کے لئے کوئی جواب ہے ۔۔۔۔ ؟ ۔۔۔ آپ کے اُس دوست نے تو آپ کی خوشنودی کے لئے مجھے قربان کردیا ۔۔۔ میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا تو اُس نے اشارے سے مجھے روک دیا اور کہا ۔۔۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔ مگر کیا آپ کا بے قصور نہ ہونا میری کھوئی ہوئی عزت واپس لا سکتا ہے ۔ جواب دیں ۔۔ ؟ مجھ پر کسی نے اگر ترس کھا کر شادی بھی تو کی تو کیا میں اُس کو یقین دلا سکتی ہوں کہ بشریٰ کو کسی نے چھوا تک بھی نہیں اور وہ میری بات سن کر ساری زندگی میری عزت کرے گا۔ نہیں نا ۔۔۔۔ کیونکہ اگر کسی کو معلوم ہے کہ میری عزت محفوظ ہے تو وہ اللہ ہے ، یا میں ہوں یا ۔۔۔۔۔ پھر وہ آپ ہیں ۔یہ کہہ کر جب وہ خاموش ہوگئی تو میں نے کہا” میں مانتا ہوں کہ آپ پر جو قیامت گذری ہے اور جو گذرے گی اُس کا ذمہ دار میں ہوں مگر میں اب کیا کر سکتا ہوں کہ جو بھی ہوا اُس کا مجھے بھی خود علم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے ” یہ کہہ کر میں خاموش ہوگیا تو اُس نے بڑے ہی ٹہرے ہوئے لہجے میں کہا ” اول تو میں اب شادی نہیں کروں گی کہ میں نہیں چاہتی کہ کوئی مجھ پر ترس کھائے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی مجھ سے شادی کرے تو اُس کو یہ بات معلوم ہو کہ میں ایک عزت دار گھرانے کی ایک عزت دار لڑکی ہوں بس مجھے آپ سے یہی کہنا تھا ۔” یہ کہہ کر وہ گاڑی سے باہر نکل گئی۔
آج میری اور بشریٰ کی شادی کو پورے پانچ سال ہوچکے ہیں اور ہم انتہائی خوش وخرم زندگی بسر کررہے ہیں، اللہ نے ہمارے آنگن میں دو نّنھے مُننے پُھول بھی کھلائے ہیں ۔ احفز اور ردا ۔۔۔ جب کبھی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بشریٰ کو دیکھ کر مُسکراتا ہوں تو ایک حیا کی دبیز لہر اُس کے حسین چہرے پر چھا جاتی ہے اور اچانک ہی میری نگاہوں میں اعجاز کا چہرہ آجاتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اعجاز جیسا بھی تھا مگر اُس نے مجھے تحفہ دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اُس نے پُورا کیا اور جس کے بارے میں اُس نے کہا تھا کہ میں زندگی بھر اُسے یاد رکھوں گا۔