تحلیل ہوئی جاتی ہے

رشید حسرت

محفلین
غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے

ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے

اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے

اب مِرا اُس سے تعلُّق بھی نہِیں ہے کوئی
اور احکام کی تعمِیل ہُوئی جاتی ہے

میں نے کھائی تھی قسم کُچھ بھی عیاں ہو گا نہیں پر بیاں ساری ہی تفصِیل ہُوئی جاتی ہے

اور کُچھ روز مِرا ظرف کشا کش میں رہے
اِس بہانے مِری تکمِیل ہُوئی جاتی ہے

سارا دِن دُھوپ میں جلتا ہُوں فقط روٹی کو
زخم سے پِیٹھ مِری نِیل ہُوئی جاتی ہے

ابرہہؔ بن کے نہ کر میرے حرمؔ پر حملہ
بے بسی اب تو ابابِیلؔ ہُوئی جاتی ہے

کِس تکلُّف سے تِرا درد مِرے ساتھ رہا
یاد کی رو ہے کہ تمثِیل ہُوئی جاتی ہے

اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسّر ہے کہاں
زِندگی بُھوک میں تحلِیل ہُوئی جاتی ہے

میں سمجھتا تھا اُسے بُھول گیا ہوں حسرتؔ
پر چُبھن دِل میں مِرے کِیل ہُوئی جاتی ہے

رشِید حسرتؔ
 
Top